خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍مارچ2007ء

سورۃ فاتحہ میں مذکور صفات الٰہیہ کے ذکر پر مشتمل خطبات کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ کی صفت مَالِک کے مختلف پہلوؤں کا قرآن مجید اور لغت اور مفسرین کی تفاسیر کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پرمعارف تشریحات کے حوالہ سے تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کا فضل حاصل کرنے کے لئے ان صفات پرغورکرنا اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا انتہائی ضروری ہے۔
گزشتہ خطبہ میں جس شہید کا ذکر کیا تھاان کا نام محمد اشرف ہے اور وہ تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین سے تھے۔ پرانے خادم سلسلہ، مربی اور اُستاد جامعہ احمدیہ ربوہ مکرم چوہدری منیر احمد صاحب عارف کی وفات اور ان کی خدمات کا تذکرہ۔

خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 9؍مارچ2007ء بمطابق 9؍امان1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت مالک ہے جس کا سورۃ فاتحہ میں ذکر ہے اور کیونکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا ذکر چل رہا ہے اور سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی ناموں کی جو ترتیب رکھی ہوئی ہے، اسی حساب سے مَیں نے ذکر شروع کیا تھا، اس لئے آج اس ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کا بیان ہو گا۔ ترتیب کے لحاظ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں چوتھا احسان خداتعالیٰ کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخصّ سے موسوم کر سکتے ہیں، مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے۔ اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے۔ (ایام الصلح۔روحانی خزائن جلد 14صفحہ250مبطوعہ لندن)
یعنی رحیمیت سے دعا اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، انسان دعا اور عبادت کرتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور مالکیت سے اس کا پھل ملتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ ترتیب انتہائی پُر حکمت اور ہر ایک کو اپنی قدرت کے جلوے دکھاتی ہے، ہر اس شخص کو دکھاتی ہے جو اس پر کامل ایمان لانے والا ہے اور خالص ہو کر اس کا عبد بننے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی مزیدوضاحت بھی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے پہلے جیسا کہ مَیں نے عموماً طریق رکھا ہوا ہے لغت کے لحاظ سے اور دوسرے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں وہ بیان کرتا ہوں۔
مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلْمَالِک اسے کہتے ہیں جو عوام الناس میں اپنے احکام ازقسم اوامرو نواہی اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہو۔ یہ پہلو صرف انسانوں کی سیاست یعنی ان کے معاملات کی تدبیر کرنے اور ان پر حکومت کرنے سے مختص ہے۔ اس بنا پر

مَلِکُ النَّاس

تو کہا جاتا ہے مگر

مَلِکُ الْا َشْیَاء

نہیں کہا جاتا۔ پھر کہتے ہیں کہ قولِ خداوندی

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کا معنی ہے کہ وہ جزا سزا کے دن میں ملک ہو گا۔ اس کی علماء کے نزدیک دو قرأتیں ہیں۔

مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

بھی پڑھتے ہیں اور

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

بھی۔ لیکن زیادہ تر

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ معنی مندرجہ ذیل آیت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ

لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ

کہ آج کے دن بادشاہت کس کی ہے؟ اللہ ہی کی ہے جوواحد، صاحب جبروت ہے۔
پھر لسان العرب میں لکھا ہے۔

اَلْمَلِکُ،

اللہ بادشاہ ہے۔

مَلِکُ الْمُلُوْک

بادشاہوں کا بادشاہ، پھر

لَہُ الْمُلْکُ،

بادشاہت اسی کی ہے اور

ھُوَ مَالِکُ یَوْمِ الدِّیْنِ

وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے

وَھُوَ مَلِیْکُ الْخَلْقِ،

اس کے معنے لکھے ہیں

رَبُّھُمْ وَمَالِکُھُمْ،

وہ مخلوق کا ربّ اور مالک ہے۔
لسان العرب کے معنی سامنے رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کے معنی یوں بیان فرمائے ہیں لیکن آپؓ نے اس میں مالک کے ساتھ یوم اور دین کے بھی علیحدہ علیحدہ، معنی حل کرکے پھر

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کے مفصل معنی لکھے ہیں۔ آپ ؓ لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ بنیں گے کہ جزا سزا کے وقت کا مالک، شریعت کے وقت کا مالک، اور فیصلہ کرنے کے وقت کا مالک، مذہب کے وقت کا مالک۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار فرماتا ہے۔ اور کمزوری کے بعد اپنے پیارے کی جماعت کو صفت مالکیت کے تحت غلبہ عطا فرماتا ہے۔ پھر نیکی کے زمانے کا مالک اور گناہ کے زمانے کا مالک، یعنی جب بدی اور گناہ بہت پھیل جاتا ہے تو زمانے کا مالک مصلح اور نبی مبعوث فرما کر دنیا کی اصلاح اپنی مالکیت کی صفت کے تحت کرتا ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک، اطاعت کے وقت کا مالک یعنی اطاعت کرنے والوں کے لئے خاص قانون قدرت ظاہر فرماتا ہے۔ معجزات بھی رونما ہوتے ہیں۔خاص اور اہم حالتوں کا مالک یعنی اس کے حکم کے مطابق اعمال بجا لانے والوں کے اجر اُن کو دیتا ہے جو آخر وقت تک وفا کے ساتھ اپنی حالتوں کو اس کے مطابق رکھیں، اس کے احکام کے مطابق رکھیں، وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب بعض مفسرین جو پہلے گزرے ہیں ان کے حوالے پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مالک کی جو تفسیر فرمائی ہے اور اس کو بھی آپؑ نے لسان العرب اور تاج العروس کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہّ ہو، مکمل قبضہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور بلااشتراک غیر یعنی بغیر کسی دوسرے کے اشتراک کے اس پر حق رکھتا ہو۔ اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خداتعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پا سکتا۔ کیونکہ قبضہ تامّہ پورا مکمل قبضۂ تام، تصرف تام اور حقوق تامہ بجز خداتعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلّم نہیں اسی کو ہر چیز کا مکمل طور پر تصرف ہے۔ مالک ہونے کی حیثیت سے، ربّ ہونے کی حیثیت سے، اس کا حق ہے۔
علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا مطلب ہے، دوبارہ اٹھائے جانے اور جزا سزا دئیے جانے کے دن کا مالک۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نیکی بجا لانے والے اور گناہگار، فرمانبردار اور نافرمان، موافق اورمخالف کے درمیان فرق ہونا ضروری ہے اور یہ فرق صرف جزا سزا کے دن ہی ظاہر ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءوا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی (النجم:32)

تاکہ وہ ان لوگوں کو جو بُرائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے عمل کی جزا دے اور وہ ان کو بہترین جزا دیتا ہے جو بہترین عمل کرتے ہیں۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْا َرْضِ۔ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ(ص:29)

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ویسا ہی قرار دے دیں گے جیسا کہ زمین میں فساد کرنے والوں کو، یا کیا ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو بدکرداروں جیسا سمجھ لیں گے۔
پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی (طہ:16)

ساعت ضرور آنے والی ہے بعید نہیں کہ میں اسے چھپائے رکھوں تاکہ ہر نفس کو اس کی جزا دی جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔
پھر امام رازیؒ کہتے ہیں کہ نیز واضح ہو کہ جس نے ایک ظالم کو مظلوم پر زور بخشا ہے، اگر وہ ظالم سے انتقام نہ لے تو یہ یا تو اس کے عاجز ہونے کی بنا پر ہوتا ہے کہ کوئی انتقام نہیں لیتا۔ کمزوری ہے تو اس لئے انتقام نہیں لیتا، یا لاعلم اور جاہل ہونے کی وجہ سے یا پھر اس بنا پر کہ وہ خود بھی ظالم کے ظلم سے راضی ہے۔ تو کہتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں اللہ تعالیٰ کے متعلق قرار دینا محال ہے۔ سو لازمی ہوا کہ وہ مظلوموں کی خاطر ظالموں سے انتقام لے۔ لیکن جبکہ اس دنیاوی گھر یعنی دنیا میں ظالم سے انتقام لیا جانا بکمالہٖ نہیں ہوتااس لئے لازمی ٹھہرا کہ اس دنیاوی گھر کے بعد ایک اُخروی گھر ہو۔ یہی مضمون ہے جو

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اور فََمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(الزلزال:9-8)

میں بیان ہوا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ بعض علماء کے نزدیک

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کی دوسری قرأت۔

مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

بھی ہے۔ لیکن علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کی قرأت کو ترجیح دیتا ہوں، اس کے لئے وہ لکھتے ہیں کہ لفظ مَلِک کی نسبت مَالِک بندے کو اپنے ربّ کے فضلوں پر کہیں زیادہ امید دلانے والا ہے کیونکہ مَلِک یعنی بادشاہ سے زیادہ سے زیادہ جو امید رکھی جا سکتی ہے وہ عدل و انصاف ہے اور یہ کہ انسان اس سے کلیتاً بچ جائے۔ جبکہ مَالِک وہ ہے جس سے بندہ اپنا لباس، کھانا، رحمت اور تربیت و پرورش ہر چیزکا طالب ہوتا ہے۔ پس

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

میں مالک کا لفظ رکھ کر گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ اے میرے بندو! مَیں تمہارا مالک ہوں، تمہارا کھانا پینا، لباس، جزا، ثواب اور جنت سب میرے ذمہ ہے۔
پھر دوسری بات وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ایک مَلِک، بادشاہ ایک مالک کی نسبت زیادہ مال و دولت رکھنے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ مالک مختلف نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ تھوڑی چیز کا بھی جو مالک ہے وہ اس کا مالک کہلائے گا اور بادشاہ کے اختیارات زیادہ ہیں تو اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ پھر بھی مَلِک کی امید تجھ سے ہوتی ہے کہ وہ تجھ سے کچھ حاصل کرے جبکہ مَالِکْ وہ ہے کہ توُ اس سے امید رکھتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سے نیکیاں اور اطاعتیں بجا لانے کا طلبگار نہ ہو گا بلکہ یہ چاہے گا کہ ہم اس سے طلبگار ہوں کہ وہ محض اپنے فضل سے ہم سے عفو اور درگزر اور مغفرت کا سلوک کرے اور ہمیں اپنی جنت عطا فرمائے۔ اس لئے امام کسائی کہتے ہیں کہ مَیں

مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کی بجائے

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

ہی پڑھتا ہوں کیونکہ یہ قراء ت اللہ تعالیٰ کے کثیر فضل اور وسیع رحمت پر دلالت کرتی ہے۔
تیسرا فرق ان کے نزدیک مَلِک اور مَالِک میں یہ ہے کہ جب بادشاہ کے سامنے سپاہی پیش کئے جاتے ہیں تو وہ ان میں بیماروں، کمزوروں کو ردّ کر دیتا ہے اور صرف قوی بدن اور تندرست افراد کو ہی قبول کرتا ہے اور کمزوروں، بیماروں کو کچھ بھی نہیں دیتا جبکہ مَالِک وہ ہے کہ اگر اس کا غلام بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج معالجہ کراتا ہے، اگر غلام کمزور ہو تو مَالِک خود اس کی مدد کرتا ہے، اگر غلام کسی مصیبت میں پڑ جائے تو مَالِک اسے خلاصی دلاتا ہے، پس مَلِک کی بجائے مَالِک کی قرأت گناہگاروں اور بے سہاروں کے لئے زیادہ مناسب حال ہے۔
چوتھا فرق مَلِک اور مَالِک میں یہ ہے کہمَلِک بادشاہ میں ہیبت اور ملکی انتظام و انصرام کرنے کی وجہ سے رعب و دبدبہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ مَالِک میں رحمت و رأفت پائی جاتی ہے اور ہم بندوں کو ہیبت اور دبدبہ کی بجائے رحمت اور رأفت کی زیادہ احتیاج ہے۔
ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ سوال ہو کہ

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو کیسے اس چیز کا مالک کہہ دیا جس کا ابھی وجود بھی نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ مَالِک سے مراد قدرت رکھنے والا ہے یعنی

یَوْمُ الدِّیْن

میں وہی قادر ہو گا یا

یَوْمُ الدِّیْن

پر،جزاء سزا کے دن پر، اور اسے برباد کرنے پر کلیتاً قدرت اسی کو ہو گی کیونکہ جو کسی چیز کا مالک ہو وہ اس چیز میں تصرف کرنے کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلامنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو مکمل تصرف ہے اور اپنی مخلوق کی چیز پر قادر بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کامالک ہے اور جس طرح چاہے اپنے ارادے کو نافذ کرنے والا ہے۔ کوئی کام اس کے لئے محال اور ناممکن نہیں۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ اللہ تعالیٰ

یَوْمُ الدِّیْن

سمیت ہر چیز کا مالک ہے تو پھر یہاں صرف

یَوْمُ الدِّیْن

ہی کا بطور خاص کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو لوگ فرعون اور نمرود قسم کے بادشاہ کی مخالفت کر لیتے ہیں، بڑے بڑے بادشاہ طاقتور ہیں، زور آور ہیں ان کے خلاف بھی بول لیتے ہیں۔ آج بھی دیکھیں طاقتوروں کے خلاف کئی غریب لوگ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس کی بادشاہت کے بارے میں جھگڑ لیتے ہیں، لیکن اس روز یعنی جزا سزا کے دن اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص اس کی بادشاہت سے متعلق جھگڑ نہ سکے گا۔ جیسا کہ فرمایا

لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم

یعنی آج کے دن بادشاہت کس کی ہے؟ تو تمام مخلوقات جواب دیں گی

لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّار،

اسی بنا پر

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

فرمایا۔ یعنی اس دن کے سوا کوئی مالک ہو گا نہ فیصلہ کرنے والا ہو گا اور نہ کوئی جزا سزا دینے کا مجاز ہو گا۔ پاک ہے اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت

اَلْمَلِکُ

بھی آتی ہے اور

اَلْمَالِکُ

بھی،

اَلْمَلِکُ

اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفت ہے اور

اَلْمَالِکُ

اس کے فعل کی صفت ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس پر تفصیلی بحث فرمائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مختلف لغات سے جو نتیجہ اخذ فرمایا اس سے وضاحت فرمائی کہ

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

کے کیا معنی بنتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن

سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ آخرت کا مالک ہے دنیا کا مالک نہیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے قانون قدرت اوراپنی دوسری صفات کے تحت انسان کے لئے بعض باتیں مقدر کی ہوئی ہیں۔ ڈھیل دی ہوئی ہے یا چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے اس دنیا میں فوری جزا سزا نہیں ہے لیکن اس دن جو جزا سزا کا دن ہے اس دن کوئی مفر نہیں ہو گا۔ بلکہ تمام جزا سزا کا اللہ تعالیٰ خود فیصلہ فرمائے گا،کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔ کوئی معافی اور توبہ اس وقت کام نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَمَا اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ۔ثُمَّ مَا اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ۔ یَوْمَ لَاتَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا۔ وَالْا َمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ (الانفطار:20-18)

تجھے کیا پتہ کہ

یَوْمُ الدِّیْن

کیا ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ تجھے کیا پتہ جزا سزا کا دن کیا ہے؟

یَوْمُ الدِّیْن

وہ ہے کہ جس دن کوئی شخص کسی دوسرے کے کام نہ آسکے گا۔ اور صرف خداتعالیٰ کا حکم جاری ہو گا۔ یہ خوف کا مقام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے، مومنوں کے لئے،جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں، اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں، یہ خوشخبری بھی اس میں ہے کہ اگر خالص ہو کر اس کے احکامات پر عمل کرر ہے ہوتو مالکیت یوم الدین تمہیں ان جنتوں کا وارث بنائے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یوں فرمایا ہے کہ

اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ۔ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ۔ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ فِی جَنّٰتِ النَّعِیْمِ (الحج:57)

کہ سلطنت اس دن اللہ ہی کی ہو گی۔ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے، نعمتوں والی جنتوں میں ہوں گے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مَالِک کے معنی میں فرمایا تھا کہ قبضہ تام والا، اور تصرف تام والا، اس کو ہر چیز پر مکمل قبضہ اور مکمل تصرف ہو۔ اس آیت میں یہ و ضاحت فرما دی کہ جزا سزا کا دن کیسا ہو گا۔

اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ

کہ سلطنت اس دن اللہ تعالیٰ کی ہو گی یعنی وہ صرف مالک ہی نہیں، وہ بادشاہ بھی ہو گا۔ کسی کو خیال آسکتا ہے کہ مَالِک ہے اور جیسا کہ پہلے بھی اس کے مختلف معنی میں بیان ہو چکا ہے کہ ہر مَالِک صاحب اختیار نہیں ہوتا لیکن یہ مَالِک وہ ہے جس کی بادشاہت بھی ہے۔ پس اس کی وضاحت فرما دی کہ ہر چیز مکمل طور پر اس کے تصرف میں ہے۔
دنیاوی بادشاہ کسی نہ کسی رنگ میں دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے لوگ کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا بادشاہ ہے جو کسی کا محتاج نہیں، نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں۔ اس لئے اس کی عام دنیاوی بادشاہوں کی طرح کی بادشاہت نہیں ہے بلکہ مَالِک ہونے کی وجہ سے مکمل تصرف والی بادشاہت ہے جو زمین پر بھی قائم ہے اور آسمان پر بھی قائم ہے۔ اس زندگی میں اُس نے اپنی مالکیت کے تحت چھوٹ دی ہوئی ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ اچھے اور برے عمل بتا دئیے کہ یہ عمل اچھے عمل ہیں۔ یہ کروتو میری طرف سے بہترین جزا پاؤ گے۔ یہ عمل برے عمل ہیں۔ اگر یہ کرو گے تو پھر میں سزا کا بھی حق رکھتا ہوں، سزا دے سکتا ہوں، سزا دوں گا۔ اور جزاسزا کا فیصلہ مکمل طور پر میرے ہاتھ میں ہے۔ اس بارے میں کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا، کوئی سفارش کام نہیں آئے گی۔ اس وقت کی کوئی معافی کام نہیں آئے گی۔
اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کرنے والاہے۔ پس ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنّاتِ نعیم یعنی نعمتوں والی جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ جبکہ کافروں کو اللہ تعالیٰ اس حوالے سے ڈراتا ہے جیسا کہ مختلف جگہوں پر برے اعمال کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں ان کو ان کے عملوں کی سزا دوں گا۔
ایک جگہ فرمایا ہے

اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِلَفِی سِجِّیْنٍ (المطففین:8)

یعنی بدکاروں کی جزا کا حکم یقینا ایک دائمی کتاب میں ہے۔ یہ کافر اور فاجر سمجھتے تھے کہ جزا سزا کا دن نہیں آنا، وہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹ کو، رعایت کو، اس کی مالکیت کا نہ ہونا سمجھتے تھے۔جزا سزا کے دن کو اس دنیا میں جھٹلاتے رہے، اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑتے رہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے حد سے بڑھے ہوئے ہونے کی وجہ سے اور جزا سزا کے دن کے انکار کی وجہ سے

وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ(المطففین:9)

اس دن جھٹلانے والوں کے لئے عذاب ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ مَلِکْ بھی ہے اورمَالِکْ بھی ہے اور اسے تصرف میں پوری آزادی حاصل ہے۔ نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دیتا اوربرے اعمال کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔ اور مَالِکْ ہونے کی حیثیت سے اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ اگرچاہے تو معاف فرما دے۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

اَلَمْ تَعْلَم اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ۔ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءوَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءقَدِیْرٌ(المائدہ:41)

کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر جیسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ بغیر کسی اصول کے بلا وجہ اللہ تعالیٰ پکڑ کر سزا دے دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جزا سزا کے دن، جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، کوئی اپیل نہیں ہو گی، اس وقت کوئی واویلا کام نہیں آئے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اعمال کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ نیک عمل ہو تو میری رضا حاصل کرنے والے ہو گے۔ جب تمہیں پتہ ہے کہ کوئی چیخ و پکار، کوئی اپیل اُس وقت کام نہیں آنی تو اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کرو،اپنے اعمال کی اصلاح کرو۔ سزا دینے میں تو اللہ تعالیٰ انتہائی نرمی کا سلوک فرماتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس کا رحم اس کے غصّہ پر غالب آجاتا ہے۔ پس کس قدر بد بختی ہو گی کہ انسان اس کے باوجود ایسے ارحم الراحمین خدا کے غضب کا مورد بنے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’مَالکِیّتِ یَوْمِ الدِّیْن اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے‘‘۔ اگر اس سے فیض اٹھانا ہے تو انتہائی عاجزی سے، دعاؤں سے اس کے آگے جھکنا ضروری ہے ’’اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح‘‘( فقیروں کی طرح)’’حضرت احدیّت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامنِ افلاس پھیلاتے ہیں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل کرنے والے انتہائی عاجز اور غریب آدمی کی طرح اپنا دامن پھیلاتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہوتے ہیں ’’اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خداتعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں ‘‘۔ ان کو حقیقت میں اس بات کا علم ہوتا ہے اس کا پورا فہم و ادراک رکھتے ہیں۔ اور اس عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں کہ ہم بالکل خالی ہاتھ ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور اس کی مالکیت پر مکمل ایمان ہے۔ پھر فرمایا’’یہ چار الٰہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دعا کی تحریک کرتی ہے۔ اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کرکے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ مالک جزا ہے۔ کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے‘‘۔
(ایام الصلح۔روحانی خزائن جلد 14صفحہ243)
پس مَالکِیّتِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت سے فیض پانے کے لئے نیک اعمال بجا لانا،اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنا، اس کی عبادت کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری چیزیں ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں اور یوں مغفرت اور نجات حاصل کرنے والے ہوں۔
اس کا ایک اور پہلوبھی ہے۔ اس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔ یہ ترتیب بغیر حکمت کے نہیں ہے اس ترتیب میں بھی بڑی حکمت ہے۔ آپ نے بڑی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے، خلاصتہً میں اس کو بیان کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ربوبیت جو اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے کی صفت ہے، اس کے تحت نشوونما کے لئے ماحول تیار فرماتا ہے۔ کسی چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو بڑھانے کے لئے اس کا ماحول مہیا کرتا ہے۔ وہ سامان پیدا فرماتا ہے جس میں نشوونما ہو سکتی ہے۔پھر یہ سامان رحمانیت کے تحت بندے کو دیتا ہے۔ اس کے استعمال میں بھی آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ اس کے لئے بھی روحانی ترقی ہو۔ آپ نے یہ روحانیت کے لئے زیادہ بیان فرمایا ہے لیکن دنیاوی لحاظ سے بھی یہی ہے۔ پھر جب بندہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ نتائج پیدا فرماتا ہے اور یہ رحیمیت ہے، دعاؤں کو بھی پھل دیتا ہے اور چیزوں کو بھی پھل لگاتا ہے اور پھر مسلسل ان نتائج یا انعامات کے بعد مالکیت کی صفت کے تحت دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ نے الٰہی جماعتوں کی تقدیر لکھی ہوئی ہے کہ وہ غلبہ عطا فرماتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ترتیب اس طرح سے ہے، پہلے ربّ، پھر رحمان، پھر رحیم اور پھر مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن۔
اس کا موازنہ حضرت مصلح موعود نے کیا کہ بندے کے لئے کیا ترتیب ہو گی۔ اس میں بھی یہی ترتیب ہونی چاہئے یا کوئی مختلف ترتیب ہو گی۔ تو اس کے لئے فرمایا کہ بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے فائدہ اٹھانے کے لئے یا ان کا اظہار کرنے کے لئے ترتیب بدل جاتی ہے۔ کیونکہ بندے نے اللہ تعالیٰ کی طرف ترقی کرنی ہے اوپر جانا ہے۔ وہ پہلے مالِک کی صفت کا مظہر بننے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں۔ اس سے انصاف اور عدل دنیا میں قائم کرے، اپنے ماحول میں قائم کرے اور شر سے بچنے کے لئے اور ماحول کو شر سے بچانے کے لئے کوشش کرے۔ پہلے مالکیت آئے گی۔ اس کے لئے اس مالکیت کے وقت میں، بعض معاملات سے صَرفِ نظر بھی کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ رحم کی نیّت سے ہو یا درگزر کی وجہ سے ہو۔ پھر رحیمیت کا اظہار بندے کی طرف سے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے ہوتاہے۔ اپنے ماحول کے لئے اس کے دل میں قدردانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو بھلائی پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر انسان اس رحیمیت کے دور سے ترقی کرتا ہے تو رحمانیت کی صفت اختیار کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والاایک مومن رحمانیت کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے پرائے سب بغیر کسی تفریق کے اُس کے نیک سلوک سے حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں وہ نیکیاں پھیلا رہا ہوتا ہے۔ اور یہ چیز

اِیْتَآءذِی الْقُرْبٰی

کا نقشہ پیش کر رہی ہے، احسان سے بڑھ کر آگے چل رہی ہے۔ پھر جب اس سے ترقی کرتا ہے تو رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے سوسائٹی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں یہ ساری چیزیں پنپ سکیں۔ یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس ترتیب سے جو بیان ہوئی ہے جو ان صفات کو اختیارکرتا ہے تو یہ سالکوں کے لئے اللہ کی طرف بڑھنے والوں کے لئے ایک رحمت ہوتی ہے۔
عام طور پہ بھی دیکھیں تو انسان کی صفات، اس کی خوبیاں اُس وقت ہی کھل کر سامنے آتی ہیں جب اُس کے پاس کوئی طاقت ہو، اختیار ہو، کوئی ملکیت ہو۔ اعلیٰ اخلاق کا اُسی وقت پتہ چلتا ہے جب طاقت ہو، جب ایک مقام ہو۔ کمزور اور بے بس نے کسی سے رحیمیت کا کیا سلوک کرنا ہے اور کیا رحمانیت کا سلوک کرنا ہے اور پھر اِسی طرح کسی سے ربوبیت کا کیا اظہار ہونا ہے۔ اپنے اپنے ماحول میں جو بھی ہے جتنا بھی ملکیت رکھتا ہے اس کو وہاں ان صفات کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ یہ کسی کی ملکیت کا زعم ہی ہے جو انسان کے دل میں تکبر اور نفرت بھی پیدا کرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا فضل حاصل کرنے کے لئے ان صفات پر غور کرنا اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے ہمیشہ حصہ دیتا رہے اور جزا سزا کے دن بھی رحم حاصل کرنے والے ہوں۔
گزشتہ جمعہ میں مَیں نے جس شہید کا ذکر کیا تھا اُن کا نام بتانا بھول گیا تھا یہ محمد اشرف صاحب ہیں تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین کے جن کو شہید کیا گیا تھا۔ جو نومبائع تھے۔
دوسرا آج ایک اور افسوسناک خبر بھی ہے کہ ہمارے ایک پرانے خادم سلسلہ، مربی اور استاد جامعہ احمدیہ، چوہدری منیر احمد عارف صاحب گزشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔

اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی عمر 78سال تھی اور 1946ء میں انہوں نے زندگی وقف کی تھی۔ جامعہ 1956ء میں پاس کیا اور تقریباً 50سال تک جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ برما میں مبلغ رہے، نائیجیریا میں مبلغ رہے۔ پھر جامعہ میں بطور استاد خدمات انجام دیتے رہے۔ تقریباً 27سال انہوں نے جامعہ میں پڑھایا۔ ہوسٹل میں لمبا عرصہ سپرنٹنڈنٹ رہے، جو ہوسٹل میں رہنے والے ہیں وہ جانتے ہوں گے۔ بڑی نرم طبیعت کے ہنس مکھ انسان تھے اور 21سال سے دارالقضاء میں بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ وفات سے ایک دن پہلے بھی ایک کیس کے سلسلہ میں گاڑی منگوا کر آئے۔ ان سے چلا نہیں جا رہا تھا اور دو چھڑیوں کے سہارے چلتے ہوئے دفتر میں آئے۔ دل کی تکلیف بھی تھی اور کمزوری بھی تھی اور اپنا قضاء کا پورا کیس سنا اور اسے نبٹایا اور ایک دن بعد کی تاریخ بھی مقرر کی۔ ان کو وہاں کے ناظم قضا ء نے کہا کہ اتنی طبیعت خراب ہے تو آنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا دل نہیں مانتا کہ جو جماعت کے کام میرے سپرد ہوئے ہیں ان میں کسی بھی طرح انکار کروں۔ اس لئے میرے سپرد جو کیس ہیں وہ تو مَیں نبٹاؤں گا۔ بہرحال اسی رات یا اگلے دن صبح ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ ان کی اہلیہ، بیوہ، رضیہ منیر صاحبہ ان کا نام ہے اور ان کے علاوہ ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔ ابھی نمازوں کے بعد مَیں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں