خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 20؍اپریل 2007ء

قرآن شریف کے معنی کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ وہ صفات الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ جو معنی کرو اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفت قدوسیّت کے خلاف تو نہیں ہے۔
خد اقدّوس ہے لیکن انسان قدّوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں بے عیب ہے اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے یہ آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ ہی تھی کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسما ن کی بلندی تک پہنچائے گئے
اپنے طرز عمل سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے،پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجدد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں
یاد رکھو خدا قدوس ہے اس کا مقرّب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو
اللہ تعالیٰ کی صفت القدّوس کے مختلف معانی اور اس صفت سے فیضیاب ہونے کے لئے افراد جماعت کی ذمہ داریوں کا تذکرہ
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 20؍اپریل 2007ء (20؍شہادت 1386ہجری شمسی)

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدّوس ہے۔ مختلف لغات میں اس لفظ کے جو معنی لکھے ہیں اور پرانے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند مشہور مفسرین کی مختصر تفسیر اور معانی مَیں پیش کرتا ہوں۔
تاج العروس میں لکھا ہے کہ اَلْقُدُّوْس اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک اسم ہے اور اَلْقُدُّوْس کے معنی ہیں اَلَطَّاہِر تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہستی۔اور اَلْمُبَارک، بابرکت جس میں تمام قسم کی برکات جمع ہیں۔ اور اَلتَّقْدِیْس کا مطلب ہے اَلتَّطْہِیْر، اللہ عزّو جل کو پاک اور بے عیب قرار دینا۔
مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلتَّقْدِیْس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی وہ طہارت ہے، وہ پاکیزگی ہے جس کا ذکر ارشاد ربانی

وَیُطَھِّرُکُمْ تَطْھِیْرًا

میں ہوا ہے اور اس سے مراد ظاہری نجاست کا دُور کرنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ دوسری آیات سے ثابت ہے، نفس انسانی کی تطہیر کرنا ہے۔
پھر اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ قدّوس ایسی ہستی ہے جو پاک اور تمام عیوب و نقائص سے منزّہ و مبرّا ہے۔ بالکل پاک صاف ہے۔ ہر لحاظ سے پاک کی ہوئی ہے۔ پھر اَلْقُدْس کے معنی لکھتے ہیں پاکیزگی اور برکت۔ تقریباً یہی ملتے جلتے معنی لسان العرب میں لکھے ہیں، یہ چند مشہور لغات ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام لغات سے جو معنی اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اَلْقُدُّوْس تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے یعنی صرف عیوب سے ہی مبرّا نہیں ہے، صرف عیوب سے ہی پاک نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی خوبیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ وہ پاک ذات ہے جس میں ہر قسم کی پاکیزگی جمع ہے، ہر قسم کے عیب سے وہ پاک ہے، اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کسی بھی قسم کے عیب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا انسانی عقل احاطہ کر سکے اور اس میں موجود نہ ہوبلکہ وہ تو اُن خوبیوں کا بھی جامع ہے جو اس میں جمع ہیں، جو موجود ہیں اور وہ تمام خوبیاں بھی جن کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی اور یہی اس قدوس ذات کی عظمت ہے۔
اب بعض مفسرین کی تفسیر پیش کرتا ہوں جو انہوں نے اس صفت کے تحت کی ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو کہا نُقَدِّسُ لَکَ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ نُقَدِّسُ لَکَ کا معنی ہے اے اللہ! تمام وہ صفاتِ نقص جو تیرے شایان شان نہیں ہم تجھے ایسی تمام صفات سے پاک قرار دیتے ہیں اور کوئی بھی قبیح بات تیری طرف منسوب نہیں کرتے۔ اس معنی کے اعتبار سے نُقَدِّسُ لَکَ میں لام زائدہ ہے یعنی مضمون کی تاکید کرنے کے لئے ہے۔ اور اگر اس لام کا ترجمہ بھی شامل کیا جائے تو پھر بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اے اللہ! ہم اپنے نفوس کو تیری خاطر یعنی تیری رضا حاصل کرنے کے لئے خطاؤں اور گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں۔
اسی طرح اس بارے میں علامہ فخرالدین رازی لکھتے ہیں

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ

کہ بعض لوگوں نے یہ شبہ اٹھایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو خلق آدم کے وقت

اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا

کہہ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا تھا۔ علامہ فخرالدین رازی اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شبہ دو وجہ سے باطل ہے، غلط ہے۔ نمبرایک،فرشتوں نے فساد اور خون خرابہ کو مخلوق کی طرف منسوب کیا ہے نہ کہ خالق اللہ تعالیٰ کی طرف۔اور دوسرے فرشتوں نے اپنے اس قول کے معاً بعد کہا

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ

اور تسبیح کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مادی اجسام والی ہر صفت سے منزّہ قرار دینا، پاک قرار دینا اور تقدیس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے افعال کو مذمت اور نادانی کی صفت سے منزّہ قرار دینا۔
اسی طرح علامہ رازی صفت القدوس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ القُدُّوس اور القَدُّوس (قاف کی زبر اور پیش دونوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، افعال و احکام اور اسماء کی پاکیزگی اور بے عیبی کو بیان کرنے کے اعتبار سے بڑا بلیغ ہے۔ اس میں بڑی بلاغت ہے، بڑا وسیع لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بے عیب ہے جیسا کہ لغت میں بھی دیکھا ہے۔ اس کی صفات کو اگر پرکھنا ہے تو صفت قدوس ذہن میں رکھنی چاہئے۔ صفت قدوس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی اور وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن کریم کے معنی کرتے ہوئے (اگر صحیح معنے کرنے ہیں تو)اللہ تعالیٰ کی صفات ضرور دیکھو۔ لیکن ایک گُر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت پر حرف نہ آئے۔ کوئی بھی قرآن کریم کی تشریح کرنی ہے، صفت قدوسیت کو ہمیشہ سامنے رکھو۔ یعنی ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے۔ کوئی ایسی تشریح نہ ہو، کوئی ایسی تفسیر نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بے عیب ہونے پر حرف آتا ہو۔ اس کا ہر فعل اور ہر حکم اسی صفت کے تحت بے عیب اور پاک ہے۔
تفسیر روح البیان میں

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ

کے تحت لکھا ہے، ہم قسم ہا قسم کی نعمتوں پر جن میں سے ایک نعمت اس عبادت کی توفیق ملنا بھی ہے، تیری حمد کرتے ہوئے تجھے ہر اس بات سے پاک قرار دیتے ہیں جو تیرے شایان شا ن نہیں۔ اس اعتبار سے تسبیح صفات جلال کے اظہار کے لئے اور حمد صفات انعام کے اظہار کے لئے ہے۔ وَنُقَدِّسُ لَکَ کے معنی لکھتے ہیں یعنی رفعت و عزت کا جو بھی معنی تیرے لائق شان ہے اسے ہم تیرے حق میں بیان کرتے ہیں اور جو تیرے لائق شان نہیں، اس سے تجھے منزّہ قرار دیتے ہیں۔
تفسیر ابن کثیر میں

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ

کے تحت لکھتے ہیں کہ قتادہ کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح سے مراد تو معروف تسبیح ہے جبکہ تقدیس سے مراد صلوٰۃ یعنی نماز ہے۔اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعودؓ اور دیگر کئی صحابہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ نُصَلِّیْ لَکَ یعنی اے خدا ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں۔
پھر مجاہد نے

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ

کا معنی کیا ہے کہ

نُعَظِّمُکَ وَ نُکَبِّرُکَ

یعنی ہم تیری تعظیم کرتے ہیں، تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔
پھر اسی طرح محمد بن اسحاق نے معنی کئے ہیں کہ اے اللہ! ہم نہ تیری نافرمانی کرتے ہیں اور نہ کسی ایسے امر کے مرتکب ہوتے ہیں جو تجھے ناپسند ہو۔ پھر تقدیس سے مراد

اَلتَّعْظِیْم وَالتَّطْہِیْر

ہے یعنی عظمت اور پاکیزگی بیان کرنا۔ عظمت کا اور ہر عیب سے پاک ہونے کا اقرارکرنا۔اسی سے سبوح قدوس ہے۔ سبوح کا معنی ہے اللہ کو ہر عیب سے منزّہ قرار دینا اور قدوس سے مراد یہ اقرار کرنا ہے کہ تمام ترطہارت اور تعظیم اُسی کو زیبا ہے۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ اس تمام بحث کی روشنی میں

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ

کا معنی ہو گا اے اللہ! ہم تجھے ہر اس غلط بات سے پاک اور بری قرار دیتے ہیں جو اہل شرک تیری طرف منسوب کرتے ہیں اور وَنُقَدِّسُ لَک کا معنی ہے (اے اللہ!) ہر میل کچیل اور اہل کفر کی تیرے بارہ میں بیان کردہ غلط باتوں سے پاک ہونے کی جوصفات تجھ میں پائی جاتی ہیں ہم تجھے ان صفات سے منسوب کرتے ہیں۔
مَیں نے ابھی ایک مفسر کی قدوس لفظ کی وضاحت میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا حوالہ دیا تھا۔ پورا حوالہ اس طرح ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ:’’یہ سچی بات ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے۔ہر ایک ذرّہ گواہی دیتا ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی کی ربوبیت اور حیات اور قیّومیت کے باعث ہر چیز کی حیات اور قائمی ہے’‘یعنی ہر ایک کی زندگی ہے اور وہ قائم ہے۔’’اسی کی حفاظت سے محفوظ ہے۔ پھر یہ بھی کہ وہ اَللّٰہُ الْمَلِکُ ہے۔ وہ مالک ہے۔ اگرسزا دیتاہے تو مالکانہ رنگ میں، اگر پکڑتا ہے تو جابرانہ نہیں بلکہ مالکانہ رنگ میں تاکہ ماخوذ شخص کی اصلاح ہو۔‘‘ یعنی جس کو پکڑا گیا ہے وہ اس کی اصلاح کے لئے اُسے پکڑتاہے۔ ’’پھر وہ کیسا ہے؟ اَلْقُدُّوْس ہے۔ اس کی صفات و حمد میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو نقصان کا موجب ہو۔ بلکہ وہ صفات کاملہ سے موصوف اور ہر نقص اور بدی سے منزّہ، القدوس ہے۔ قرآن شریف پر تدبّر نہ کرنے کی وجہ سے کہو یا اسماء الٰہی کی فلاسفی نہ سمجھنے کی وجہ سے۔‘‘ یا تو قرآن کریم پہ غور نہیں کرتے یا اللہ تعالیٰ کے نام کی فلاسفی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے۔ ’’غرض یہ ایک غلطی پیدا ہو گئی ہے کہ بعض وقت اللہ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنی کر لئے جاتے ہیں جو اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس کے لئے مَیں تمہیں ایک گُر بتاتا ہوں کہ قرآن شریف کے معنی کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفات الٰہی کے خلاف ہوں۔ اسماء الٰہی کو مدنظر رکھو اور ایسے معنی کرواور دیکھو کہ قدوسیت کو بٹّہ تو نہیں لگتا‘‘۔ صفات الٰہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت بھی یہ دیکھو کہ قدوسیت کو بٹہ تو نہیں لگتا۔’’لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں۔ اور ایک ناپاک دل انسان کلام الٰہی کے گندے معنی بھی تجویز کر سکتا ہے اور کتاب الٰہی پر اعتراض کر بیٹھتا ہے۔ مگر تم ہمیشہ یہ لحاظ رکھو کہ جو معنی کرو اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفتِ قدوسیت کے خلاف تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سارے کلام حق و حکمت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جس سے اس کی اور اس کے رسول اور عامۃ المومنین کی عزت و بڑائی کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ84-83 مطبوعہ ربوہ)
یہاں مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت کا بھی ذکر کر دیتا ہوں جو اس حوالے سے آپؓ نے جماعت کو کی۔اور بڑی اہم اور پیاری نصیحت ہے جسے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ چاہے پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے، امیر ہے یا غریب ہے، مرد ہے یا عورت ہے اپنے پلّے باندھے کہ اصلاح نفس کے لئے بڑی ضروری ہے اور اس سے عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ: ’’جو اَن پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال و چلن سے خدا کی تنزیہہ کریں۔یعنی اپنے طرزعمل سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے،پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجدّد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں ‘‘۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ373-372مطبوعہ ربوہ)
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیرو ایسے ہوتے ہیں۔ اپنے اندریہ تبدیلی پیدا کریں۔ پس خداتعالیٰ کو ہر عیب سے، ہر خرابی سے پاک سمجھنا اس وقت صحیح ہو گا جب ہم اپنے ہر قول و فعل سے اس کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ آپ فرماتے ہیں اس کے لئے وسیع اور بہت علم کی ضرورت نہیں ہے۔اَن پڑھ سے اَن پڑھ احمدی کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں۔ خطبات میں، تقریروں میں اور درسوں میں سنتا ہے کہ کن باتوں کے کرنے کا حکم ہے اور کن باتوں سے روکا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا نمونے قائم کرکے دکھائے ہیں۔ ایک احمدی سے خداتعالیٰ کی قدوسیت کی صفت پر یقین کا اظہار اسی وقت ہو گا جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اور پاک ہو، توتبھی اس زمانے کے امام کو ماننے کا فائدہ ہے۔
پھر آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو، خدا قدوس ہے اس کا مقرب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے اور قرب پانے کے لئے دعاؤں کی قبولیت کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے آپ کو پاک کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔
اس صفت کے ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’انسان کی نیکی کسبی ہوتی ہے‘‘۔ یعنی نیک عمل کرتا ہے تو اس کو اس کا بدلہ ملتا ہے یا اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے’’اور خداتعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے۔ اسی لئے خدا قدّوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدّوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے‘‘ یعنی خداتعالیٰ اپنی ذات میں بے عیب ہے ’’اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے‘‘۔ اس صفت کو اس وقت حاصل کرو گے جب کوشش کرکے بے عیب ہو گے‘‘۔ خدا تعالیٰ پرکوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل بننے کی کوشش کی۔ لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے۔ دو دن کی نماز اُسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے تین دن کی نماز اُسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے‘‘۔ اس طرح وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے’’لیکن خداتعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہے۔ اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے‘‘۔ (تفسیرکبیر جلد پنجم صفحہ207 مطبوعہ ربوہ)
اس کی قدوسیت اور ہر صفت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت سے صحیح طور پر مومن اسی وقت حصہ لے سکتا ہے جب اس قدوس خدا کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک مومن اپنی عبادتوں اور نیکیوں میں ترقی کرے۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرشتوں کی یہ بات کہ انہوں نے خداتعالیٰ کو کہا کہ

نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ

کہ ہم جو ہیں تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرنے والے اور تجھ میں سب بڑائیوں کے پائے جانے کا اقرار کرنے والے تو پھر آدم کو پید اکرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’تو جب فرشتوں نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘ یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ جس طرح تم کہتے ہو کہ فساد کریں گے۔ فساد تو کریں گے مجھے بھی پتہ ہے لیکن تمہیں ایک بات کا نہیں پتہ کہ اب انسانی افعال شریعت کے تابع ہوں گے اور جو شریعت کے مطابق عمل کرنے والے اور صفت قدوسیت سے حصہ لینے کے لئے نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں گے تو وہ پھر فرشتوں سے بھی بڑھ جائیں گے۔ اس چیز کا فرشتوں کو علم نہیں تھا۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ آدم کو خلیفہ بنانے کے موقعہ پر جو کچھ خداتعالیٰ نے فرمایا وہ بھی درست تھا اور جو فرشتوں نے کہا وہ بھی درست تھا جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے، ’’صرف نقطۂ نگاہ کا فرق تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر ان صلحاء پر تھی جو آدم کی نسل میں ظاہر ہونے والے تھے اور اس نظام کی خوبیوں پر تھی جو آدم اور اس کے اظلال کے ذریعہ دنیا میں قائم ہونے والا تھا لیکن فرشتوں کی نظر ان بدکاروں پر تھی جو انسانی دماغ کی تکمیل کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کا موردِ عتاب بننے والے تھے۔ خداتعالیٰ آدم کی پیدائش میں محمدی جلوہ کو دیکھ رہا تھا اور فرشتے بو جہلی صفات کے ظہور کو دیکھ کر لرزاں و ترساں تھے‘‘۔(پریشان تھے)’’اور گویہ درست ہے کہ جو کچھ فرشتوں نے خلافت کے قیام سے سمجھا تھا وہ بھی درست تھا مگر ان کا یہ خوف کہ ایسا نظام دنیا کے لئے لعنت کا موجب نہ ہو، غلط تھا۔ کیونکہ کسی نظام کی خوبی کا اس کے اچھے ثمرات سے اندازہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس میں کمزوری دکھانے والوں کے ذریعہ سے۔ اگر کسی اچھے کام کو اس کے درمیانی خطرات کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے تو کوئی ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہر بڑا کام اپنے ساتھ خطرات رکھتا ہے‘‘۔ آپؓ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’طالب علم،علم کے سیکھنے میں جانیں ضائع کر دیتے ہیں ‘‘۔ مگر علم سیکھنا ترک نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح ملکوں میں فوجوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو لوگ فوج میں جانے سے رک نہیں جاتے یا جنگیں ختم نہیں ہو جاتیں یا اپنے ملک کی حفاظت ختم نہیں ہو جاتی۔ پس گو خلافت کے قیام سے انسانوں کا ایک حصہ مورد ِسزا بننے والا تھا اور مفسد اور قاتل قرار پانے والا تھا۔ مگر ایک دوسرا حصہ خداتعالیٰ کا محبوب بننے والا تھا اور فرشتوں سے بھی اوپر جانے والا تھا۔ وہ کامیاب ہونے والا حصہ ہی انسانی نظام کا موجب تھا اور اس حصہ پر نظر کرکے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انسانی نظام ناکام رہا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس اعلیٰ حصہ کا ایک ایک فرد اس قابل تھا کہ اُس کی خاطر اس سارے نظام کو تیار کیا جاتا۔ اسی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے کامل بندوں سے فرمایا ہے کہ

لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْدُّنْیَا (ابن عساکر)

کہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم دنیا جہان کے نظام کو ہی پیدا نہ کرتے۔ یہ حدیث قدسی ہے اور رسول کریمﷺ کی نسبت وارد ہوئی ہے۔ بعض اور کامل وجودوں کو بھی اسی قسم کے الہام ہوئے ہیں۔ پس یہ کامل لوگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہی حکمت کے مطابق تھا۔ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 284-283)
ایسے اللہ والے جو فرشتوں کی نسبت بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کرتے ہیں اور پھر اس کو دنیا میں پھیلاتے ہیں یہ یقینا اس سے اونچا مقام رکھنے والے ہیں جن کی تقدیس کرنا صرف اپنے تک ہے۔ انسانوں میں تقدیس کرنے والوں کی کامل ترین مثال جیسا کہ ابھی بیان ہوا آنحضرت ﷺ کی ہے جنہوں نے ایک دنیا کے دماغوں کو بھی پاک کیا اور ان کے اعمال کو بھی پاک کیا۔ اور آج تک ہم اس قدوس خدا کے حقیقی پرتَو کے فیض کو دیکھ رہے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، دنیا دیکھتی رہے گی انشاء اللہ۔
سورۃ جمعہ میں قدوس لفظ کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں کہ:’’دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ اَلْقُدُّوْس ہے، اس کے متعلق فرمایا

یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ آیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ

وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیز ہ ہو۔ اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یُزَکِّیْھِم ان کے اعمال کو پاک کرے‘‘۔
(فضائل القرآن (2) انوارالعلوم جلد 11صفحہ130مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؓ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ القدوس کے مقابل’’رسول کا کام یہ بتایا۔ وَیُزَکِّیْھِمْ کہ دنیا کو پاک کرتا ہے۔ عالِم کی علامت کیا ہوتی ہے۔ یہی کہ وہ دوسروں کو پڑھاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے ذریعہ عالِم ہو جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اُس کی طرف سے آنے والے دنیا کو پاک کرتے ہیں۔ محمد رسول اللہﷺ گندے لوگوں کو لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں آکر وہ پاک ہو جاتے ہیں ‘‘۔
(احمدیت کے اصول۔انوارالعلوم جلد 13صفحہ353 مطبوعہ ربوہ)
پس قدوس خدا کا یہ کامل نبی ہے جس کے ہاتھ میں آکر عام انسان بھی پاک ہو جاتے ہیں۔ پس ہر ایک کو چاہئے کہ اگر پاک ہونا ہے اوراگر سچے مومن بننا ہے تو ان کے ہاتھ میں آنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم کے جو اوامرو نواہی ہیں، جو کرنے کا حکم ہے اور نہ کرنے کی باتیں ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ اگر ہم عمل نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے، محمد رسول اللہﷺ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے اور نتیجۃً صفت قدوسیّت سے فیض پانے والے نہیں بن سکیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جو آپؐ کو قدوس خدا نے عطا فرمائی کے بارے میں عرب کا نقشہ کھینچ کر تحریر فرماتے ہیں کہ اس وقت کی عرب کی حالت کو دیکھو جو برائیوں میں گھرے ہوئے تھے، ہر قسم کی ضلالت و گمراہی ان کی پہچان تھی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ قوم کبھی پاک ہو سکتی ہے یا ان کو کبھی عقل آسکتی ہے۔ یا یہ لوگ عام اخلاق کے اختیار کرنے والے بھی بن سکتے ہیں کجا یہ کہ باخدا بن جائیں۔لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ جو میرے اس پیارے کے ساتھ تعلق جوڑے گا وہ پاک ہو گا بلکہ روح القدس سے حصہ پائے گا اور دنیا نے پھر دیکھا کہ قوم میں انقلاب آیا۔
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’جو شخص اس بات کو غور کی نظر سے دیکھے کہ انہوں نے اپنی پہلی چراگاہوں کو کیونکر چھوڑ دیا’‘یعنی جو ان کے شوق تھے، جو ان کی حرکتیں تھیں، جو باتیں تھیں، جو عمل تھے، جس میں وہ پھرا کرتے تھے، جس کو بہت اچھا سمجھتے تھے اس کوکیونکر چھوڑ دیا۔’’اور کیونکر وہ ہواوہوس کے جنگل کو کاٹ کر اپنے مولا کو جا ملے۔ تو ایسا شخص یقین سے جان لے گا کہ وہ تمام قوت قدسیہ محمدیہ کا اثر تھا‘‘۔ یہ سب تبدیلی جو آئی وہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کے اثر کے تحت تھی’’وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا اور عنایات ازلیہ کے ساتھ اس کی طرف توجہ کی اور آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے‘‘ یعنی بزرگی کا اور پاکی کا مقام ہر لمحہ ہر درجہ بڑھتا ہی گیا۔’’اور آنحضرت ﷺ نے ان کو چارپایوں کی مانند پایا کہ وہ توحید اور
پرہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘‘ یعنی جانوروں کی طرح تھے نہ ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پتہ تھا، نہ پرہیز گاری کا پتہ تھا۔برائیوں میں مبتلا تھے’’اور نیکی و بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے اور تمدن اور بود وباش کی راہوں پر مفصل مطلع کیا‘‘۔
(نجم الہدیٰ۔روحانی خزائن جلد 14صفحہ32-31۔ مطبوعہ لندن)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’تیسرا دروازہ معرفت الٰہی کا جو قرآن شریف میں اللہ جلّشانہٗ نے اپنی عنایت خاص سے کھول رکھا ہے برکات روحانیہ ہیں جس کو اعجاز تاثیری کہنا چاہئے۔ یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہو گی کہ آنحضرت ﷺ کا زادبوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ
بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت ﷺ کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خوری اورقمار بازی وغیرہ فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا‘‘ یہ سب برائیاں ان میں تھیں ’’اور چوری اور قزّاقی اور خونریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانے‘‘ یعنی ڈاکے ڈالنا، قتل کرنا، بیٹیوں کو مارنا، یتیموں کا مال کھا جانا’’اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہر یک طرح کی بری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو، اس سے انکار نہیں کر سکتا‘‘۔ یعنی یہ اتنی مشہور بات ہے کہ کوئی متعصب آدمی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا۔’’اور پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور نا پارسا طبع لوگ‘‘ وحشی تھے،بیہودہ باتیں کرنے والے بیہودہ لوگ، بالکل ناپاک لوگ جن کو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں تھا۔ ’’اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصومﷺ نے بہت ہی تھوڑے عرصے میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جانوں کے آراموں کو اللہ جلّشانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے، قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پُر آب ہو جاتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جو اُن کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی۔ وہ دوہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصومﷺ اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا‘‘ بہت اثر رکھنے والے تھے۔’’ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہو گا۔ دوسری خدائے قادر مطلق حیّ و قیّوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔ بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں ‘‘۔ یہ بڑی غیر معمولی چیزیں ہیں۔’’کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی۔ کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی‘‘۔
(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ28تا 30حاشیہ مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپﷺ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں،۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر،وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔پس جب خدا بھی وہی قدوس ہے توجو اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے وہ اس سے فیض پاتا ہے۔ اس کے رسول کی تاثیرات بھی قائم ہیں، اس کی کتاب کی تاثیریں بھی قائم ہیں، اِس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کی قوت قدسی کے نظارے بھی ہمیں دکھا دئیے اور دکھا رہا ہے۔ یہ سب باتیں ہمیں اس قدوس خدا کی صفت سے فیضیاب بنانے والی ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں