خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 22؍جون 2007ء

دنیا میں سلامتی اگر پھیلے گی تواس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے جس میں تقویٰ شرط ہے۔
یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس سلامتی کے پیغام کوہرطرف پھیلاتا چلا جائے۔ ہر دل میں یہ بات راسخ کر دے کہ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ پیار اور محبت کا علمبردار ہے
ہر گند کا جواب گند سے دینا اپنے اوپر گند ڈالنے والی بات ہے۔
جو اسلام پراستہزاء کرنے سے باز نہیں آتے ان سے خداتعالیٰ خود نپٹے گا۔ توڑ پھوڑ کرنے یا یہ کہنے سے کہ خود کش حملے جائز ہیں، اسلامی اخلاق کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش ہوگی۔
رشدی کی بدنام زمانہ کتاب اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس کی بیہودہ گوئی کے جواب میں ارشد احمدی صاحب کی کتاب کا تذکرہ اور پڑھے لکھے سنجیدہ طبقہ تک اس کتاب کو پہنچانے کی ہدایت
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(فرمودہ مورخہ 22؍جون 2007ء (22؍احسان 1386ہجری شمسی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جب دنیا میں ہر جگہ فساد پھیلتا ہے اور سلامتی ہر جگہ سے اٹھتی نظر آتی ہے تو جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی اصلاح کے لئے، اپنے بندوں کو اس فساد سے بچانے کے لئے انبیاء بھیجتا ہے اور جب دنیا سے تقویٰ بالکل اٹھ جاتا ہے اس وقت بھی انبیاء بھیجے جاتے ہیں اور آج سے چودہ سو سال قبل ہم نے دیکھا کہ جب اس زمین پر سے تقویٰ بالکل اٹھ گیا، خشکی اور تری،ہر جگہ پر فساد اپنے عروج پرتھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت آنحضرت ﷺ پر اتار کر دنیا کو اس فساد سے بچانے کے سامان پیدا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم نازل فرما کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اسلوب ہمیں سکھائے۔ جن کو پہلے انبیاء کے ماننے والے یا تو بھول چکے تھے یا ان پہلے انبیاء کو اُن اعلیٰ معیاروں کے احکامات دئیے ہی نہیں گئے تھے۔ اور مشرکین کا جہاں تک سوال ہے وہ تواپنی جہالت میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ تو قرآن کریم نے ہر قسم کے احکامات کے ادا کرنے کے لئے جس اہم ترین نکتہ کی طرف قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں توجہ دلائی وہ ہے تقویٰ۔ پس تقویٰ ایک انتہائی اہم چیز ہے جس کا ایک انسان کو اگر فہم و ادراک حاصل ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کار بند ہو سکتا ہے، اس کا پَرتو بن سکتا ہے اور ان کو پھیلانے والا بن سکتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس اہم نکتہ پر توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے۔ اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حِصن حصین ہے۔ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں۔ (ایام الصلح۔روحانی خزائن جلد 14صفحہ342)
پس یہ تقویٰ ہی ہے جو دین کی بنیاد ہے اور جب تک مسلمانوں میں یہ قائم رہا وہ اللہ تعالیٰ کے سلامتی کے پیغام کو دنیامیں پھیلاتے چلے گئے اور سعید روحیں ان میں شامل ہوتی چلی گئیں اور اسلام عرب سے نکل کر ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیا، مشرق بعید میں بھی پھیل گیا، افریقہ نے بھی اس کی برکتوں سے فیض پایا اور یورپ میں بھی اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ لیکن جب تقویٰ کی کمی ہوتی گئی، جب سلامتی کی جگہ خود غرضیوں نے لے لی،جب محبت پیار کی جگہ حسد، بغض اور کینہ نے لے لی تو ان انعامات اور برکات سے بھی مسلمان محروم ہوتے چلے گئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنا تقویٰ دلوں میں رکھنے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی تھیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے بحرو بر کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے آخری تعلیم آنحضرت ﷺ پر اتاری۔ آج بھی یہی تعلیم ہے جس نے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلناہے۔ آج بھی یہی تعلیم ہے جس نے دنیا کے فسادوں کو اپنی سلامتی کے پیغام سے دور کرنا ہے۔ گو کہ وہ لوگ محروم ہو گئے جن کے دلوں سے تقویٰ نکل گیااور خود غرضیوں اور حسد اور بغض میں بڑھ گئے لیکن خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے آخری شرعی نبی تھے سے کئے گئے اس وعدے کو کہ اسلام نے ہی تمام ادیان پر غالب آنا ہے واپس نہیں لے لیا۔ محروم اگر ہوئے تو تقویٰ سے عاری لوگ ہوئے نہ کہ دین اسلام میں کسی قسم کی کمی ہوئی۔ آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اور اس کی ترقی کے لئے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو کھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کی اس کھوئی ہوئی میراث کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں نے اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے دلوں کو تقویٰ سے پُر کرتے ہوئے واپس لانا ہے۔
پس یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس سلامتی کے پیغام کوہرطرف پھیلاتا چلا جائے۔ ہر دل میں یہ بات راسخ کر دے کہ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ پیار اور محبت کا علمبردار ہے۔ ہر سطح پر اسلام کی تعلیم امن اور سلامتی کو قائم رکھنے کی تعلیم ہے۔ اسلام نے قوموں اور ملکوں کی سطح پر بھی امن اور سلامتی قائم کرنے کے لئے جو خوبصورت تعلیم دی ہے اس کا مقابلہ نہ کوئی انسانی سوچ کر سکتی ہے اور نہ کوئی مذہب کر سکتا ہے۔ اس خوبصورت تعلیم پر عمل سے ہی دنیا کا امن اور سلامتی قائم ہو سکتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے قوموں کی ایک تنظیم اقوام متحدہ کے نام سے ابھری لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بھی حشر وہی ہوا اور ہو رہا ہے جو اس سے پہلے قائم کردہ تنظیم کا تھا۔ اس میں بڑے دماغوں نے مل کر بڑی منصوبہ بندی کی اور بڑی منصوبہ بندی سے یہ تنظیم بنائی۔ اس میں کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ سلامتی کونسل بنائی گئی تاکہ دنیا کا امن اور سکون قائم رکھا جائے، جھگڑوں کو نپٹایا جائے۔ معاشی حالات کے جائزے کے لئے کہ یہ بھی فسادوں کی ایک وجہ بنتی ہے، اس میں ایک کونسل بنائی گئی۔ عدالت انصاف قائم کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس سب ناکامی کی وجہ تقویٰ کی کمی ہے۔ اس میں بعض قوموں نے اپنے آپ کو دولت کا معیار رکھتے ہوئے، یا عقل کا معیار رکھتے ہوئے، یا طاقت کا معیار رکھتے ہوئے، یا علم کا معیار رکھتے ہوئے، تکبر کی وجہ سے یا اپنے آپ کو سب سے زیاہ امن و سلامتی کا علمبردار سمجھتے ہوئے باقی قوموں سے بالا رکھا ہوا ہے۔ مستقل نمائندگی اور غیر مستقل نمائندگی کے معیار قائم کئے ہوئے ہیں جو کبھی انصاف قائم نہیں کر سکتے۔ بغیر روحانی آنکھ کے، اللہ تعالیٰ کی مدد اور تقویٰ کے نہ ہونے کی وجہ سے جب کسی ایک طاقت کو اکثریتی فیصلہ پر قلم پھیرنے کا اختیار ہو گا تو یہ اختیار سلامتی پھیلانے والا نہیں ہو سکتا۔ پس دنیا میں سلامتی اگر پھیلے گی تو اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دی ہے جس میں تقویٰ شرط ہے۔ جس کی چند مثالیں اب میں یہاں پیش کرتا ہوں۔
تمام قوموں کے بحیثیت انسان ہونے کے بارے میں قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا

یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(الحجرات:14)

کہ اے لوگو یقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔
تو یہ ہے اسلامی بھائی چارے کی تعلیم۔ اسلامی بھائی چارے کے قیام اور سلامتی کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم۔ ایک مومن کو جس میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے، اس بھائی چارے کی تعلیم کو اپنے اوپر مکمل طور پر لاگو کرنے اور دنیا میں پھیلانے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے۔ یہی وہ حکم ہے جس سے دنیا میں ایک دوسرے سے پیار محبت اور ایک دوسرے سے برادری کا تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ ورنہ جتنی چاہیں یہ سلامتی کونسلیں بنا لیں وہ قوموں کی بے چینی اس لئے دور نہیں کر سکتیں کہ طاقتوروں نے اپنے اختیارات دوسروں سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں۔ پس دنیا کی سلامتی کی ضمانت اسی و قت دی جا سکتی ہے، دنیا کی بے چینی اسی و قت دور کی جا سکتی ہے جب قومی برتری کے جھوٹے اور ظالمانہ تصور کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ بے چینی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک نسلی اور قومی برتری کے تکبر دل و دماغ سے نہیں نکلتے۔ دنیا میں سلامتی اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک یہ نسل، قوم اور ملک کی برتری کا احساس رکھنے والوں اور حکومتوں کے دماغوں میں یہ بات راسخ نہیں ہو جاتی کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اور ہمارا وجود بھی قانون قدرت کے تحت مرد اور عوت کے ملاپ کا نتیجہ ہے اور ہم بحیثیت انسان خدا کی نظر میں برابر ہیں۔ اللہ کی نظر میں اگر کوئی اعلیٰ ہے تو تقویٰ کی بنا پر اور تقویٰ کا معیار کس کا اعلیٰ ہے یہ صرف خدا کو پتہ ہے۔ کوئی اپنے تقویٰ کے معیار کو خود Judge کرنے والا نہیں ہے۔ خود اس معیار کو دیکھنے والا نہیں ہے،پرکھنے والا نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت، تمہار ادوسرے انسان سے اعلیٰ اور برتر ہونا اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے نہ تمہاری قوم سے،نہ تمہارے رنگ سے ہے،نہ تمہاری دولت سے ہے،نہ تمہارے اپنے معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے۔ نہ کسی قوم کا اعلیٰ ہونا، کمزور لوگوں پراس کے حکومت کرنے سے ہے۔ دنیا کی نظر میں تو ان دنیاوی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہو گا لیکن خداتعالیٰ کی نظر میں نہیں۔ اور جو چیز خداتعالیٰ کی نظر میں قابل قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہوسکتی جس کے لئے وہ استعمال کی جا رہی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام انسان جو ہیں ایک خاندان ہیں اور جب ایک خاندان بن کر رہیں گے تو پھر اس طرح ایک دوسرے کی سلامتی کا بھی خیال رکھیں گے جس طرح ایک خاندان کے افراد، ایسے خاندان کے افراد جن میں آپس میں پیار و محبت ہووہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبیلوں اور قوموں کا صرف یہ تصور دیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ پاکستانی ہے،یہ انگریز ہے،یہ جرمن ہے، یہ افریقن ہے۔ ورنہ بحیثیت انسان تم انسان ہو۔ اور جو امیر کے جذبات ہیں، وہی غریب کے جذبات ہیں۔ جو یورپین کے جذبات ہیں، وہی افریقن کے جذبات ہیں۔ جو مشرق کے رہنے والوں کے جذبات ہیں وہی مغرب کے رہنے والوں کے جذبات ہیں۔ پس ایک دسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ اگر جذبات کا خیال رکھو گے تو سلامتی میں رہو گے۔ پس ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیت رکھی ہیں، ہر قوم کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ دائمی پیار و محبت کو قائم رکھ سکو۔
پس اسلام کے نزدیک پائیدار سلامتی کے لئے یہی معیار ہے ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا جتنی بھی سلامتی کونسلیں بن جائیں، جتنی بھی تنظیمیں بن جائیں وہ کبھی بھی پائیدار امن و سلامتی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ قرآنی تعلیم پہلے صرف تعلیم کی حد تک ہی نہیں رہی بلکہ آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا۔ غریبوں سے لاڈ کیا، غلاموں سے پیار کیا، محروموں کو ان کے حق دلوائے،ان کو معاشرے میں مقام دلوایا۔ حضرت بلالؓ جو ایک افریقن غلام تھے وہ آزاد کروادئیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت کوئی قومی حیثیت ان کی معاشرے میں نہیں تھی۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے سلوک نے ان کو وہ مقام عطا فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے بھی ان کو سیدنا بلال کے نام سے پکارا۔ پس یہ ہیں سلامتی کے معیار قائم کرنے کے طریق۔
پھر حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے کھول کر بیان فرما دیا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اس لئے نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے۔ اسی طرح رنگ نسل بھی تمہاری بڑائی کا ذریعہ نہیں ہیں۔ پس یہ خوبصورت معاشرہ تھا جو آنحضرت ﷺ نے پیدا کیا اور یہی معاشرہ ہے جو آج مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت نے آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت قائم کرنا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بین الاقوامی سلامتی کے لئے حکم دیا ہے جو کہ ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے بھی کافی ہے(ان کے لئے تسلی بخش جواب ہونا چاہئے) جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا اور تشدد کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ اس کے الٹ اللہ تعالیٰ تویہ حکم دیتا ہے کہ جو تمہیں تنگ نہیں کر رہے، جو تم سے جنگ نہیں کر رہے(بعض احکامات کے ماتحت جنگ کی مجبوری بھی تھی۔وہ تفصیل تو یہاں بیان نہیں ہو سکتی) جنہوں نے تمہارے خلاف تلوار نہیں اٹھائی تونہ صرف یہ کہ ان سے کسی قسم کی سختی نہیں کرنی بلکہ ان سے نیکی کرو، ان پر احسان کرو، ان کے معاملات میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرو۔ چاہے وہ عیسائی ہے یا یہودی ہے یا کوئی بھی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’بے شک ان پر احسان کرو، ان سے ہمدردی کرو انصاف کرو کہ خداایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے‘‘۔(نورالقرآن۔روحانی خزائن جلد9 نمبر2 صفحہ435)یہ قرآن کریم کے اس حکم کے تحت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْھِمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:9)

اللہ تمہیں اس سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کر و اور ان کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تو اس میں اس حکم کی طرف ہی اشارہ ہے جو دوسری جگہ ہے کہ اگر فساد کو روکنے کے لئے تمہیں تلوار اٹھانی پڑے تو اٹھا سکتے ہو۔ ایسے لوگ جو فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف تلوار اٹھائی ہے ان کے خلاف ایک قوم اور حکومت کی حیثیت سے اعلان جنگ کر سکتے ہو۔ لیکن اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا۔ جو تمہارے سے ٹکر نہیں لے رہا، جو تمہیں تنگ نہیں کر رہا، جو تمہارے سے جنگ نہیں کر رہا، جو تمہیں ختم کرنے کے درپے نہیں ہے، تو تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان سے نیکی کرو، حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اور یہی بات ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کا محبوب بنائے گی۔ اعلان جنگ ہے یا اعلان بیزاری صرف اُن کے ساتھ ہے جن کا دنیا میں فساد کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ پس ایسے لوگوں سے دوستی رکھنے اور محبت بڑھانے کی اللہ تعالیٰ اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جو امن میں رہ رہے ہیں ان کو بلاوجہ ان کا امن برباد کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں بھی واضح ہونا چاہئے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اعلان جنگ کرنا یا ردّعمل کا اظہار کرنا حکومتوں کا کام ہے۔ ہرشخص جو چھوٹے بڑے گروپ کا ہے اگر اس طرح کرنے لگے تو اپنے ملک میں اپنی حکومتوں کے اندر ایک فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اور بدقسمتی سے یہی چیزہے جو آج کل مختلف ملکوں میں،مسلمانوں میں جو شدت پسند بنے ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اپنے ملکوں میں فساد پیدا کیا ہوا ہے جس سے اسلام اور مسلمان بدنام ہو رہے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے جو بین الاقوامی سلامتی اور بین المذاہب تعلقات کے لئے بڑا اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (انعام:109)

اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر قوم کو ان کے کام خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں۔ پھر اُن کے ربّ کی طرف اُن کو لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریقِ ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ

لَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (سور ۃ الانعام جزو نمبر7)

یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں۔ اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بد گوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ‘‘۔
(پیغام صلح۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ461-460)
تو یہ ہے معاشرے میں، دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لئے اسلام کا حکم۔ ہر گند کا جواب گند سے دینا اپنے اوپر گند ڈالنے والی بات ہے۔ مخالف اگر کوئی بات کہتا ہے اور تم جواب میں اُن کو اُن کے بتوں کے حوالے سے جواب دیتے ہو تو وہ جواب میں خداتعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ انتہائی مثال دے کر مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ جب بھی بات کروتمہارے کلام میں حکمت کا پہلو ہونا چاہئے۔ یہ بھی نہیں کہ بزدلی دکھاؤ اور مداہنت کا اظہار کرو۔ لیکن مَوْعِظَۃُ الْحَسَنَہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھو۔ اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھو۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ایک انتہائی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ تمہارے غلط ردّ عمل سے غیر مسلم خدا تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور ایک مسلمان کو خدا کی غیرت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ پھر تمہیں تکلیف ہو گی اور اپنے غلط الفاظ کے استعمال کی وجہ سے خدا کو گالیاں نکلوانے کے پھر تم ذمہ دار ہو گے۔ اسی طرح دوسروں کے بزرگوں کو، بڑوں کو، لیڈروں کو جب تم برا بھلا کہو گے تو وہ بھی اس طرح بڑھ سکتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے باپوں کو گالیاں مت دو۔ تو کسی نے سوال کیا کہ ماں باپ کو کون گالیاں نکالتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا جب تم کسی کے باپ کو برا بھلا کہو گے تو وہ تمہارے باپ کو گالی نکالے گا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح تم نے خود اپنے باپ کو گالی نکالی۔ تو یہ سلامتی پھیلانے کے لئے اسلامی تعلیم ہے کہ شرک جو خداتعالیٰ کو انتہائی ناپسندیدہ ہے جس کی سزابھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں معاف نہیں کروں گا ان شرک کرنے والوں کے متعلق بھی فرمایا کہ ان سے اخلاق کے دائرہ میں رہ کربات کرو۔ تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ تمہارے اخلاق ایسے ہونے چاہئیں جو ایک مسلمان کی صحیح تصویر پیش کرتے ہیں۔
پس آج مسلمان کا کام ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کا پرچار کرے۔ باقی رہا یہ کہ جو اسلام پر استہزاء کرنے سے باز نہیں آتے ان سے کس طرح نپٹا جائے۔ اس بارہ میں خداتعالیٰ نے بتا دیا کہ ایسے لوگوں کی بدقسمتی نے ان کے فعل ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھی باتیں کررہے ہیں اور ان لوگوں نے آخر پھر اس زندگی کے بعد خداتعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے اور جب وہ خداتعالیٰ کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو خداتعالیٰ انہیں آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ پھر ان سے وہ سلوک کرے گا جس کے وہ حقدار ہیں۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍعَنِیْدٍ۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِ۔ الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰہُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ (سورۃ ق:26-25)

یعنی اے نگرانو! اور اے گروہو!! تم دونوں سخت ناشکری کرنے والے اور حق کے سخت معاند کوجہنم میں جھونک دو۔ہر اچھی بات سے روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے اور شک میں مبتلا کرنے والے کو۔ وہ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا کوئی معبود بنا رکھا تھا۔ پس تم دونوں اسے سخت عذاب میں جھونک دو۔
تو یہ اللہ تعالیٰ ان داروغوں کو فرمائے گا۔ اگلے جہان میں ان سے یہ سلوک فرمائے گا۔ جس کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہواہے اس بارے میں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
آج کل رشدی کے بارے میں بڑا شور ہے۔ اس قسم کے جولامذہب ہوتے ہیں ان کا بھی کوئی نہ کوئی معبود ہوتا ہے۔یا دنیا کی تنظیمیں یا دنیا کے کوئی بڑے آدمی،یا دنیا کی حکومتوں کو انہوں نے اپنا معبود بنایا ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے انتظام کیا ہوا ہے۔ ہمارے توڑ پھوڑ کرنے یا یہ کہنے سے کہ خود کش حملے جائز ہیں اور یہ ردّ عمل ہونا چاہئے۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے اسلامی اخلاق کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش ہو گی اور اس غلط تصویر پیش کرنے کے علاوہ ہم کچھ نہیں حاصل کر رہے ہوتے۔ یا تو ڑ پھوڑسے اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ جو بکواس اس نے اسلام کے خلاف یا آنحضرت ﷺ کے خلاف کی ہے بلکہ فرشتوں اور خدا کے خلاف بھی تھی۔ تو وہ سالوں پہلے کی ہے۔ اس کی فطرت ہے کرتا چلا جا رہاہے۔ اب اگر اس کی حرکتوں پر یا جس وجہ سے بھی کوئی حکومت مسلمانوں کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اُسے کوئی بھی ایوارڈ دیتی ہے یا خطاب دیتی ہے تو ان سب کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں خود ان سے نپٹوں گا۔ دوسرے یہ کہ یہ نہیں ہے کہ یورپ میں بالکل ہی شرافت نہیں رہی اور یہاں یورپ میں مغرب میں شرفاء نہیں رہے۔ بے شمار لوگوں نے یہاں بھی، انگلستان میں بھی اس پر اعتراض کیاہے۔ ممبرز آف پارلیمنٹ نے بھی اعتراض کیا ہے کہ اس حرکت کا (جو یہ نائٹ ھڈ کا خطاب دیا گیا ہے) اس کا سوائے دنیا کے سلامتی و امن برباد کرنے کے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کوئی مقصد اس سے حاصل نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب اس نے آج سے دس بارہ سال پہلے یہ کتاب لکھی تھی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس سے یہ کتاب لکھوائی گئی تھی کیونکہ اب تو ثابت ہو رہا ہے کہ یہ لکھوائی گئی تھی۔ تو اس پر بھی یہاں کے بعض تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ اب ثابت شدہ ہے کہ اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے۔ یہ اکیلا نہیں ہے۔ اور اسلام کے خلاف ایک بڑی زبردست سازش ہے کہ اسلام کے خلاف مزید ردّ عمل ظاہرکرنے کے لئے اس طرح بھڑکاؤ اور پھر اس موقع سے مزید فائدہ اٹھاؤ۔ اور اس کا موقع مسلمان دے رہے ہیں۔ دو چار جلوس نکالنے سے اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ جتنی بڑی سازش ہے یہ جھنڈے جلانے، تصویریں جلانے، پتلے جلانے یا جلوس نکالنے سے یہ سازش ختم نہیں ہو جائے گی۔ ان چیزوں سے تو جو مقصد یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل کریں گے۔ ان کے موقف کی مزید تائید ہو گی کہ اسلام ایسا ہی مذہب ہے۔ تو بہرحال ایسی حرکتوں کا حقیقی ردّ عمل مسلمانوں میں پیدا ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کو پہلے سے بڑھ کر اپنے اوپر لاگو کریں تاکہ دنیا کے منہ خود بخود بند ہوجائیں۔ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجیں جس سے آپؐ کی اُمّت روحانیت میں بھی ترقی کرنے والی ہو۔ آپؐ کے اسوہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ لیکن یہ کام آج اگر کوئی کر سکتا ہے تو احمدی کر سکتا ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو مانا ہے۔ آج اگرمعترضین کے جواب دے سکتے ہیں تو احمدی دے سکتے ہیں۔ آج اگر اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو دکھا سکتے ہیں تو احمدی دکھا سکتے ہیں۔ پس آج احمدی کا فرض ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اس بارے میں کوشش کرے، پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درودبھیجے۔جب رشدی نے بدنام زمانہ کتاب لکھی تھی اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارشد احمدی صاحب سے اس کے جواب میں ایک کتاب لکھوائی تھی۔ جس کا نام تھا Rushdi-Haunted by his unholy ghost۔ اب سٹاک میں نہیں تھی یا تھی تو بہت تھوڑی۔ مزید کچھ تبدیلیاں بھی ہونی تھیں ایک باب کا جو مزید اضافہ ہے جس کے بارے میں کچھ ہدایات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے دی تھیں ان کو سمجھا گئے تھے تو مَیں نے انہیں کہاتھا کہ اس کو دوبارہ شائع کریں۔کچھ عرصہ ہوا ایک پبلشنگ کمپنی نے نام تو مجھے یاد نہیں رہا بہرحال اس نے اس کو شائع کیا تھا جو خود ہی اس کی مارکیٹنگ بھی کر رہے ہیں اور جماعت بھی اب اس کو شائع کر رہی ہے۔ اب جلد انشاء اللہ آجائے گی۔ اس کا اُردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔ یہ پڑھے لکھے طبقے اور سنجیدہ طبقے کو دینی چاہئے تاکہ دنیا کے سامنے حقیقت بھی آئے۔ تو یہ ہے خدمت جس سے اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا بھی پتہ چلے گا اور دنیا کے فساد دور کرنے کے حقیقی راستوں کا بھی علم ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ دنیا کی سلامتی کا دارومدار انصاف پر ہے اور انصاف کا معیار تمہارا کتنا بلند ہو،اس بار ہ میں فرماتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءبِالْقِسْط۔ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن (سورۃ المائدۃ آیت 9)

کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔……مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے‘‘۔ یہ تو آسان ہے کہ دشمن سے آدمی بیٹھ کرآرام سے بات کر لے لیکن یہ کہ دشمن کو بالکل بھول جانا اور پھر اس سے انصاف کرنا یہ بڑا مشکل کام ہے۔ بہت دل گردے کا کام ہے……۔
فرماتے ہیں کہ ’’پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا۔ کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے‘‘۔
(نورالقرآن۔روحانی خزائن جلد نمبر 9 نمبر 2 صفحہ410-109)
فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ محبت کرو بلکہ فرمایا کہ تمہارا محبت کایہ معیار ہونا چاہئے کہ دشمن سے جو اپنی دشمنی کی انتہا ء کو پہنچا ہوا ہے۔ اس انتہاء کو،اس مثال کو سامنے رکھیں جو مکّہ والوں نے مسلمانوں سے کی، آنحضرت ﷺ سے کی، قتل کئے، ظلم کئے، لیکن اس کے باوجود فرمایا کہ ایسے لوگوں سے بھی انصاف کرنا۔ اس سے پھر محبت بڑھتی ہے اور یہ ہے وہ سلامتی کا پیغام جو دنیا کو حقیقت میں سلامتی پہنچانے والا بن سکتا ہے۔
تو یہی ہے اسلام کی سچی تعلیم اور اس کے معیار۔جب سچی محبت ہو گی، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو سلامتی کا پیغام بھی پہنچے گا۔ آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ بھی یہی تھا جس نے فتح مکّہ کے موقع پر کفّار کے بڑے بڑے سرداروں کو اسلام کی آغوش میں لا ڈالا۔ آپؐ کا یہ اُسوہ دشمنوں کے لئے سلامتی کی پناہ گاہ بن گیا۔

لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم

کا جواعلان تھا وہ اس موقع پر اور ہمیشہ سلامتی کی خوشبو بکھیرتا چلا گیا۔ تو یہ ہے وہ معراج جس سے دنیا کی سلامتی وابستہ ہے۔ ورنہ دنیاکی جتنی بھی بڑی سے بڑی انصاف پسندحکومتیں ہیں وہ سازشیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتی رہیں گی۔ وہ ایسی تنظیموں کے حکموں پرچلتی رہیں گی جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت کی چابی ہے۔ جو ظاہراً تو دنیا کی سلامتی کی دعویدار ہیں لیکن عملاً بحروبرمیں،خشکی و تری میں فساد بپا کئے ہوئے ہیں۔
تو اس ضمن میں قرآن کریم کے یہ چند احکامات تھے جو مَیں نے بیان کئے جن سے اس خوبصورت تعلیم کی عکاسی ہوتی ہے۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئیں جب دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والی حکومتیں بھی قائم ہوں۔ ایسے مسلمان حکمران آئیں جو آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق اور امام الزمان کی ڈھال کے پیچھے آکر اسلام کی سلامتی کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے میں مددگار ہوں۔ تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اس بات کے حصول کے لئے آج احمدی کا کام ہے کہ دعاؤں میں لگ جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اس دنیا کو پیار،محبت اور سلامتی کا گہوار ہ بنا دے اور اللہ کرے ہر ایک کا ایک ہی معبود ہو۔ جو خدائے واحد ویگانہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں