خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 7؍ مئی2004ء

مومن وہ ہے جو درحقیقت دین کو مقدم سمجھے۔دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے۔
دنیا بھی کماؤ لیکن مقصد صرف اور صرف دنیا نہ ہو بلکہ جہاں اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہو تو اس وقت دنیا سے مکمل بے رغبتی ہو۔
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
7؍ مئی2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الْدُّنْیَا وَالْٰبقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَرَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌاَ مَلًا-
(سورۃ الکھف آیت نمبر47:)

اس آیت کا ترجمہ ہے۔مال اور اولادنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں-
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ مال و دولت، جائیدادیں، فیکٹریاں، بڑے بڑے فارمز جو ہزاروں ایکڑ پہ پھیلے ہوئے ہوں، جن پر جاگیردار بڑے فخر سے پھر رہا ہوتا ہے اور دوسرے کو اپنے مقابلے پہ یا عام آدمی کو اپنے مقابلے پہ بہت نیچ اور ہیچ سمجھ رہا ہوتا ہے اور پھر اولاد جو اس کا ساتھ دینے والی ہو، نوکر چاکر ہوں یہ سب باتیں ایک دنیا دار کے دل میں بڑائی پیدا کر رہی ہوتی ہیں- اور اس کے نزدیک اگر یہ سب کچھ مل جائے تو ایک دنیادار کی نظر میں یہی سب کچھ اور یہی اس کا مقصود ہے جو اس نے حاصل کر لیا ہے۔ اور اس وجہ سے ایک دنیادار آدمی اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کی عبادت کرنے کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اپنے زعم میں وہ سمجھ رہا ہوتا ہے یہ سب کچھ میں نے اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احساس دلانے کا کوئی خانہ اس کے دل میں نہیں ہوتا۔ حقوق العباد ادا کرنے کی طرف اس کی ذرا بھی توجہ نہیں ہوتی اور اپنے کام کرنے والوں، اپنے کارندوں، اپنے ملازمین کی خوشی، غمی، بیماری، میں کام آنے کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا۔ تو یہ سب اس لئے ہے کہ اس کے نزدیک اس زندگی کا سب مقصد دنیا ہی دنیا ہے اور ایک دنیادار کو شیطان اس دنیا کی خوبصورتی اور اس کی زینت اور زیادہ ابھار کر دکھاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی رہنے والی چیز نیکی ہے، نیک اعمال ہیں، اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے، اس کی عبادت کرنا ہے۔ اس لئے تم اس کے عبادت گزار بندے بنو اگر اس کی رضا حاصل کرنی ہے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے، کوئی زیادہ سے زیادہ سو سال زندہ رہ لے گا اس کے بعد انسان نے مرکر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اس لئے آخرت کے لئے دولت اکٹھی کرو بجائے اس دنیا میں دولت بنانے کے۔ فرمایا کہ اگر یہ سوچ پیدا کر لو گے تو یہی مال اور دولت اور بیٹے اور وسیع کاروبار تمہارے لئے ایک بہترین اثاثہ بن جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص اپنے مال و دولت کے ساتھ خدمت دین بھی کر رہا ہو اپنے ملک و قوم کی خدمت بھی کر رہا ہو، انسانیت کی خدمت بھی کر رہا ہو تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے رب سے بہترین چیز حاصل کر لی اور ایسی چیزیں حاصل کر لیں جو مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آئیں گی۔ اور اگر یہی وصف اپنی اولادمیں پیدا کردو تو پھر دنیا نہ صرف تمہاری تعریف کر رہی ہو گی بلکہ تمہارے آباء و اجداد کے لئے بھی دعا کر رہی ہو گی، تمہارے لئے بھی دعا کرے گی اور تمہاری اولادوں کے لئے بھی دعا کرے گی۔ اس سے تمہاری نیکیوں میں اور اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور تمہاری آخرت مزید سنورتی چلی جائے گی۔ تو یہ سوچ اور کوشش ہر مومن کی ہونی چاہئے، جس کو نہ صرف اپنی فکر رہے بلکہ اپنی نسلوں کی بھی فکر رہے۔ یہ سوچو کہ دنیا بھی کماؤ لیکن مقصد صرف اور صرف دنیا نہ ہو بلکہ جہاں اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہو تو اس وقت دنیا سے مکمل بے رغبتی ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں تھوڑا سا اقتباس میں پیش کرتا ہوں :۔
’’ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مال اور اولاد بے شک دنیا کی زینت ہیں لیکن اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کیا جائے یعنی دین میں مال خرچ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اولاد لگا دی جائے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو بھی دوام بخش دیتا ہے۔ روپیہ خرچ ہو جاتا ہے لیکن اس کا نیک اثر باقی رہ جاتا ہے۔ اولاد مر جاتی ہے لیکن اس کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا ذکر خیر بھی زندہ رہتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ اور اچھے کام باقیات صالحات کہلاتے ہیں-

خَیْرٌ عِنْدَرَبِّکَ ثَوَابًا وَ خَیْرٌاَمَلًا،

اس کے دو معانی ہیں- ایک یہ کہ نیک کام کا دنیا میں نیک نتیجہ نکلتا ہے اور اس کے متعلق آئندہ بھی اچھی نیتیں ہوتی ہیں گویا ثَوَاباً دنیا کے نتیجہ کے متعلق ہے اور اَمَلًا آخرت کے متعلق ہے۔ ثواباً سے مراد خود اس عمل کرنے والے کی ذات کے متعلق بہتر نتائج کا پیدا ہونا ہے اور اَمَلًاسے مراد آئندہ نسل کے لئے بہترین امیدوں کا ہونا ہے۔ مطلب یہ کہ نیک کاموں کا نتیجہ بھی تم کو نیک ملے گا اور تمہاری اولاد کو بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیک کی اولاد کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ۴۵۷)
لیکن جب انسان نیکیوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ دنیا سے بے رغبتی دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اپنے مال کو دین اور
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان بھی اپنا کام دکھاتا ہے اور اسے نیکی کے کام کرنے سے روکتا رہتا ہے۔ مختلف قسم کے حرص اور لالچ دے کر انسان کو اکساتا رہتا ہے۔ اور اگر مومن اللہ کے حضور نہ جھکے، اس سے اس کا فضل نہ مانگے کیونکہ نیکیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے تو شیطان سے بچنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ شیطان سے بچنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے اس کا فضل مانگواور یہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قدم پر شیطان سے بچاتا رہے کیونکہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ آئے تو پھر تو شیطان اپنے کامیاب حملے کرتا چلا جائے گا، یہی خیال دل میں ڈالے گا کہ تمہارا مال تمہارا ہے، تمہیں کیا پڑی ہوئی ہے کہ دین کے لئے خرچ کرو۔ تمہارا مال تمہارا ہے، تمہیں کیا ضرورت ہے کہ انسانیت کی خدمت کے لئے لگائے رکھو۔ تو اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جب شیطان ایسے حملے کر رہا ہوتو اس کے جال میں نہ پھنس جانا۔ یاد رکھو اگر تم اس کے جال میں پھنس گئے تو پھر دھوکے میں آتے چلے جاؤ گے اور اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر وقت اس سے بچتے رہو جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا

یٰااَیُّھَالنَّاسُ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّفَلَا تَغُرَّنَّکُمْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَایَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْر (سورۃ فاطر آیت6:)۔

کہ اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے پس تمہیں دنیا کی زندگی ہرگز کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ اور اللہ کے بارے میں تمہیں سخت فریبی یعنی شیطان ہرگز فریب نہ دے سکے۔
پھر فرمایا کہ یاد رکھو اللہ کا وعدہ سچا ہے جو شیطان کے قدموں پہ چلنے والوں کو ضرور پکڑے گا۔ اور اس سے بچنے والوں، اپنے حضور جھکنے والوں کو ضرور پناہ دے گا۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اللہ کے حضور جھکتے رہو اور کبھی بھی شیطان کے دھوکے میں نہ آؤ۔ تمہارے مال کی تمہارے عہدے کی، یا تمہارے خاندان کی بڑائی اور اس کی چمک دکھا کر شیطان تمہیں نیک کاموں کے کرنے سے روک سکتا ہے۔ تمہارے دل میں وسوسے پیدا کر سکتا ہے، عہدیداروں کے خلاف، نظام جماعت کے خلاف تمہارے دل میں بغاوت یا تکبر پیدا کر سکتا ہے اس لئے یاد رکھو کہ جتنا بڑا مقام اللہ تعالیٰ تمہیں دے، جتنی زیادہ دولت اللہ تعالیٰ تمہیں دے، اتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور شیطان سے بچنے کے لئے اس کی پناہ مانگو۔ ورنہ شیطان تمہیں اپنے فریب میں گرفتار کر لے گا اور تم اپنی دنیا و آخرت گنوا بیٹھو گے۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پنجے میں آنے والوں اور صرف دنیا پر نظر رکھنے والوں کے لئے سورۃ تکاثر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ

اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ،کَلَّاسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ،ثُمَّ کَلَّاسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ،کَلَّالَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ-(تکاثر۲ تا۶)

کہ تمہیں غافل کر دیا ہے ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی دوڑ نے، یہاں تک کہ تم نے مقبروں کی زیارت کی۔ خبردار تم ضرور جان لوگے، پھر خبردار تم ضرور جان لو گے، خبردار اگر تم یقینی علم کی حدتک جان لو۔اس کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف زاویوں سے بڑی تفصیل سے تفسیر فرمائی ہے۔ اس وقت میں اس میں سے چند نکات رکھوں گا۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ کثرت، تکبر یا غرور صرف حکومتوں کے لئے یا بڑے گروہوں کے لئے ہوتا ہے۔ بلکہ اپنے اپنے دائرے میں جو بھی ایسی حرکتیں کرنے والا ہو گا وہ انہیں نتائج سے دوچار ہو گا۔
حضرت مصلح موعو دؓ فرماتے ہیں کہ:
اول:بنی نوع انسان میں ان کے خلاف رد عمل پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تکاثر کے نتیجہ میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔ اور تکبر کے نتیجہ میں لوٹ مار اور ظلم پیدا ہوتا ہے۔ آخر بنی نوع انسان میں اس کے خلاف جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ حکومت کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں یا اگر اپنے دائرے میں جو بھی ظلم کرے والا ہو گا اس کے خلاف لوگ کھڑے ہوں گے۔
دوم :کبھی بنی نوع انسان میں تو ان کے خلاف رد عمل پیدا نہیں ہوتا لیکن ان کی اپنی اولاد ان کی کمائی کو استعمال کرکے عیاش ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح ان میں اندرونی زوال پیدا ہونے لگتا ہے۔ باپ دادا کی جائیداد چونکہ مفت ہاتھ میں آ جاتی ہے اس لئے عیاشی میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ برباد کر دیتے ہیں- بڑے بڑے بادشاہ ہوتے ہیں مگر عیاشیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ انہوں نے کنچنیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں- شرابیں پیتے رہتے ہیں اور حکومت کے کاموں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برباد ہو جاتے ہیں اور ان کی حکومت امراء میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اپنے اپنے دائرے میں بعض امراء بھی اگرایسی حرکتیں کرنے والے ہوں، دنیا کی نظر میں زیادہ اہمیت ہو اولاد کی صحیح طرح تربیت نہ ہو تو پھر ان کی اولادیں بھی ان کی جائیدادوں کے ساتھ یہی حشر کرتی ہیں-
تیسرے :فرمایا کہ یا پھر اللہ تعالیٰ سے ہی اس قوم کی ٹکر ہو جاتی ہے یعنی کوئی ایسا سبب پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیاوی تباہی کے سامان تو نہیں ہوتے لیکن خداتعالیٰ کا عذاب نازل ہوکر اس قوم کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔ غرض جب کوئی قوم تکاثرکے نتیجہ میں

زُرْتُمُ الْمَقَابِر

کے مقام تک پہنچ جائے تو اس میں ان تین حالتوں میں سے کوئی ایک حالت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ یا تو رعایا میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے حاکموں کو توڑ دیتے ہیں- یا اندرونی طور پر حکام میں ایسا تنزل پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ آپ ہی آپ ٹوٹنے لگتے ہیں، یا ایسے امراء جن کی اولاد وں کی صحیح تربیت نہیں ہوتی وہ اپنی جائیدادیں کھا کے خود بخود ختم کر جاتے ہیں- اور ایسے بھی لوگ دیکھے گئے ہیں جن کے باپ دادے بڑے امیر اور صاحب جائیداد تھے اور اولادیں اب در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں- اور پھر تیسری بات بتائی کہ یا پھر خدائی غضب نازل ہو کر ان کو تباہ کر دیتا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۵۳۵۔۵۳۶)
مال سے بے رغبتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کے بارے میں چند احادیث پیش کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی اس قدر فکر تھی کہ وہ صرف دنیاداری میں مبتلا نہ ہو جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری امت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی۔ اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی۔ تو اس خواہش نفس کی پیروی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گی۔ اور دنیاسازی کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ اے لوگو! یہ دنیا رخت سفر باندھ چکی ہے اور جا رہی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں- پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔
یہ تنبیہ کی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر استطاعت ہے تم دنیا کے بندے بن جاؤ۔ یہ وارننگ ہے کہ تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ دنیاداری کے دھندوں میں خدا کو بھول جاؤ۔ اگر خدا کو بھول گئے تو اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی یہاں نہیں ملے گی تو اگلے جہان میں ملے گی۔ سوچو اور غور کرو کیا تم خداتعالیٰ کی سزا کو سہہ سکتے ہو۔ یقینا ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ جو یہ کہہ سکے کہ ہاں میں سہہ سکتا ہوں- فرمایا کہ اس لئے زندگی کے جو چند دن ہیں ان میں خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچو، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آگے جھکنے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے۔
کعب بن ایازؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا

اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃٌ وَفِتْنَۃُ اُمَّتِیْ اَلْمَالُ

کہ ہر امت کی ایک آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی آزمائش مال کے ذریعے ہو گی‘‘۔ (ترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب ماجاء ان فتنۃ ھذہ الامۃ فی المال)
چنانچہ دیکھ لیں اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں اس کے مطابق مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ شرم آتی ہے یہ دیکھ اور سن کر کہ مال کمانے کی حرص اور ہوس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی بے پرواہ کر دیا ہے۔ تول میں کمی ہے، ماپ میں کمی ہے، کاروبار میں دھوکہ ہے دکھائیں گے کچھ اور دیں گے کچھ۔ ماحول کے اثر کی وجہ سے بعض دفعہ بعض احمدی بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں، متأثر ہو جاتے ہیں- اپنوں اور غیروں سے بھی دھوکہ ہوتا ہے اور پھر غیروں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ چاہے وہ ایک احمدی ہزاروں میں نظر آ رہاہو۔ کیونکہ احمدیت کا ایک تصور قائم ہے تو جب ایسی مثال نظر آتی ہے تو بہت زیادہ واضح ہو کر اور ابھر کے سامنے آجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو جو اس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوں سزا بھی دی جاتی ہے، تعزیر بھی ہوتی ہے لیکن ہر احمدی کو یہ خود سوچنا چاہئے کہ اس کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے اور مسیح محمدؐی کے ساتھ ایک عہد بیعت کیا ہے،بیعت کی تجدید کی ہے کہ ہم تمام برائیوں سے بچتے رہیں گے۔ تو اس کے بعد بھی اگر ایسی حرکتیں ہوں تو پھر کیا ایسا عمل کرنے والا اس قابل ہو گا کہ جماعت میں رہ سکے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایسوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کاٹا جائے گا۔
ایک روایت ہے حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں- ’’ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ مجھے چاہنے لگیں- آپ نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو، لوگوں کی طرف حریص نظروں سے نہ دیکھو، لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے‘‘۔ (ابن ماجہ۔ باب الزھد فی الدنیا)
تو فرمایا کہ اگر یہ عمل کرو گے تو اس سے حرص، لالچ یا دوسرے نقصان پہنچانے کی سوچ سے بھی بچ جاؤ گے۔ نقصان پہنچانا تو ایک طرف رہا یہ سوچ بھی تمہارے اندر نہیں آئے گی۔دنیا سے بے رغبتی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف فرمائی ہے اگر ہر مومن وہ معیار حاصل کرلے اور پھر قناعت کے ساتھ ساتھ زہد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور مومن کی قناعت زہد کے ساتھ مل کر ہی اعلیٰ معیار قائم کرتی ہے۔
آپؐ فرماتے ہیں :
’’ کہ دنیا سے بے رغبتی اور زہد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے اور اپنے مال کو برباد کر دے۔ بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر و ثواب ملنا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعہ ثواب سمجھو‘‘۔(جامع ترمذی۔ عن ابی ذر)
تو دیکھیں بعض لوگ مال ضائع ہونے پر افسوس کرتے ہیں، حالانکہ کاروبار میں اونچ نیچ بھی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ دشمنیاں بھی ہوتی ہیں، شیطان صفت لوگ نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں تو اس پر صرف اِناَّلِلّٰہ پڑھ کے اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے۔ اُس کے آگے جھکنا چاہئے نہ کہ رونا دھونا کیا جائے، واویلا کیا جائے۔ اور یہ یقین ہونا چاہئے کہ جس خدا نے پہلے نعمتوں سے نوازا تھا وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہونا چاہئے، اسی سے تعلق قائم رکھنا چاہئے اور جب اس یقین کے ساتھ تعلق رکھیں گے تو ہمیشہ نوازتا رہے گا۔ احمدیوں نے مختلف اوقات میں جب کبھی پاکستان میں یا کہیں ان کے خلاف فساد اٹھے یہ نظارہ دیکھا اور یہ تجربہ کیا کہ لاکھوں کا کاروبار جلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا کہ صبر کی وجہ سے اور اس اعتماد کی وجہ سے جو ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا کہ جماعت کی وجہ سے اور احمدی ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ دے گا، اللہ نے لاکھوں کو کروڑوں میں بدل دیا۔ اگر ہزاروں کا ہوا تو لاکھوں کا بدلا دے دیا۔ تو اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے یہ سلوک کرتا رہتا ہے اور ہم اپنی زندگیوں میں تجربہ بھی کرتے رہتے ہیں- اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے پر اعتماد اور یقین پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں ’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی ہوتی تو کافر اس میں سے پانی کے ایک گھونٹ کے برابر بھی حصہ نہ پاتا‘‘۔ (ریاض الصالحین۔ باب فضل الزھد فی الدنیا)
تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو دنیا کی حیثیت مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر حیثیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو میری نعمت تھی میں مومنوں کو دیتا پھر کافروں کو کیوں دیتا۔ اور ہم ہیں کہ اس کے لئے قضاء میں، تھانوں میں، کچہریوں میں اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو گھسیٹتے پھر رہے ہوتے ہیں تو دونوں فریقین کو سوچنا چاہئے۔ کہ کیا احمدی بن کر، اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل کرنے کے بعد کیا یہ معیار ہیں جو ہمارے ہونے چاہئیں یا دنیا سے بے رغبتی۔ مال کا ہونا کوئی جرم نہیں لیکن اس کی ہوس اور حرص اور ہر وقت اس میں ڈوبے رہنا، یہ چیز منع ہے۔ اگر ہمارے میں سے ہر ایک غور سے یہ سوچنا شروع کر دے تو احمدیوں کے تو جھگڑے ختم ہو جائیں جائیدادوں اور مالی امور کے۔
پھر ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں اتنی سی حیثیت ہے جتنی کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے پھر اسے نکال کر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی لگا ہوا ہے‘‘۔ (ترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ)
یہ دنیا کی حیثیت ہے۔ اس دنیا میں ہم جو ہر چیز تلاش کرتے پھرتے ہیں اور آخرت کے متعلق سوچتے بھی نہیں اگر مقابلہ کرنا ہو تو دیکھیں آخرت میں جو جزا یا سزا ملنی ہے یہ اتنی وسیع ہے کہ اس کے لئے آدمی کو ہر وقت فکر رہنی چاہئے۔ جبکہ دنیا جس کی حیثیت ہی کوئی نہیں ایک قطرہ پانی کے برابر بھی حیثیت نہیں سمندر کے مقابلے میں، اس کے پیچھے ہم دوڑتے رہتے ہیں-
حضرت عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھیجا یعنی حضرت عمروؓ بن عاص کو یہ کہا کہ اپنے ہتھیار لے کر اور زرہ پہن کر میرے پاس آؤ۔ تو کہتے ہیں جب میں مسلّح ہو کر آپؐ کے پاس حاضر ہوا تو اس وقت آپؐ وضو فرما رہے تھے۔ آپؐ نے مجھے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میں تمہیں ایک جنگی مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں اس مہم سے تمہیں اللہ تعالیٰ بخیریت واپس لائے گا اور مال غنیمت دے گا۔ اور میں تمہیں مال کی ایک مقدار بطور انعام دوں گا۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے اس پر کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے مال حاصل کرنے کے لئے ہجرت نہیں کی تھی۔ میری ہجرت تو صرف خدا اور اس کے رسول کے لئے ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مال نیک آدمی کے لئے بہت اچھی چیز ہے ‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
مطلب یہ ہے کہ جب اچھا مال مل رہا ہو تو اس کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے اس سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں کیا۔ نیک مال ہو اور نیک مقاصد کے لئے خرچ کرنے والا مال ہو تو اس کو حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بلکہ برائی تو یہ ہے کہ صرف مال کی ہوس اور حرص ہو انسان اس کے پیچھے پڑا رہے اور خدا کو بھول جائے۔
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اگر تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی اور قلت کلام کی صفات عطا ہوئی ہوں تو اس کی مجلس کا قصد کرو یعنی اس میں بیٹھا کرو، اس سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ ایسا شخص حکمت کی باتیں کرنے والا ہو گا‘‘۔(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزھد)
اللہ تعالیٰ جماعت میں زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ پیدا فرمائے۔ دنیا کی حرص و ہوس ان میں نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشہور شاعر لبید نے یہ بات کہی۔ اس سے زیادہ اور سچی بات کسی اور شاعر نے نہیں کہی۔ یعنی اس نے یہ بہت سچی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز بے کار اور بے سود ہے۔ ایک وہی سود و زیاں کا مالک ہے‘‘۔(مسلم کتاب الشعر)
ایک روایت میں آتا ہے’’ کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی مختصر اور جامع نصیحت فرمائیں تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنی نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہو۔ اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ نکالو کہ اگر قیامت میں اس کا حساب ہو تو تمہارے پاس کچھ کہنے کے لئے نہ رہ جائے۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ مال و اسباب ہے اس سے تم بالکل بے نیاز ہو جاؤ‘‘۔(مشکوٰۃ)
پہلی بات اس میں یہی ہے کہ نماز اس طرح پڑھو کہ جس طرح ابھی کچھ دیر بعد دنیا کو چھوڑ جانا ہے اور دنیا کو چھوڑنے کا جو خوف ہے۔ مرتے وقت تو بڑے بڑے ایسے لوگ جنہوں نے ظلم کی انتہاکی ہوتی ہے وہ بھی بعض دفعہ بڑی عاجزی دکھا رہے ہوتے ہیں-
’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ازواج مطہرات سے ایک ماہ کے لئے علیحدگی اختیار فرمائی اور بالا خانے میں قیام فرمایا، میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپؐ ایک خالی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، اس پر کوئی چادر یا گدیلا وغیرہ نہیں ہے اور چٹائی کے اثر سے آپؐ کے بدن مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں- آپ ایک تکیے سے سہارا لئے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے تھے۔ کمرے کے باقی ماحول پر نظر کی تو وہاں چمڑے کی تین خشک کھالوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دعا کریں اللہ آپ کی امت کو فراخی عطا کرے۔ ایرانیوں اور رومیوں کو دنیا کی کتنی فراخی عطا ہے حالانکہ وہ خدا کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کربیٹھ گئے اور فرمایا: اے عمر! تم بھی ان خیالوں میں ہو۔ ان لوگوں کو عمدہ چیزیں اسی دنیا میں پہلے عطا کر دی گئی ہیں- مومنوں کو آئندہ ملیں گی‘‘۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ سورہ التحریم باب تبتغی مرضاۃ ازواجک)
تو یہاں ایک تو آپ نے یہ فرمایا کہ مال کی اتنی ہوس نہ کرو اللہ تعالیٰ سے لو لگاؤ، مومن کا یہی سرمایہ ہے۔ لیکن ا س سے یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال سے منع فرما دیا۔ وہ بھی روایت ہے کہ جب ایک کافر نے اس وقت تک بیعت نہیں کی تھی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک و ادی میں آنحضرتؐ کی بکریوں کا ریوڑ دیکھا اسے وہ بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند ہے۔ اس نے کہا ہاں-توآپؐ نے اسے سارا دے دیا۔ اس کا مطلب ہے آپؐ کے پاس اتنی جائیدادیں اور باغ بھی تھے اور بکریوں کے بہت بڑے بڑے ریوڑ بھی تھے لیکن آپ نے صرف ان پر انحصار نہیں کیا کہ اس پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں کہ میری کل جائیداد اور سرمایہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ تھا اور یقین تھا اس کا آپؐ نے ہمیشہ اظہار فرمایا اورہم سے بھی یہی توقع رکھی کہ ہمارے اندر بھی اللہ تعالیٰ کے لئے وہ اعتماد اور وہ ایمان پیدا ہو جائے۔
حضرت عمر بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو بحرین کا عامل بنا کر بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ کی رقم وصول کر لائیں- چنانچہ وہ بحرین کے محاصل لائے۔ (یعنی جو وہاں سے ٹیکس وغیرہ وصول ہوئے تھے) تو انصار کو اس کا علم ہوا وہ سویرے سویرے ہی فجر کی نماز میں پہنچ گئے۔ جب آنحضرتؐ نے نماز پڑھ لی اور آپ مقتدیوں کی طرف مڑے تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو آپؐ نے اپنے سامنے د یکھا۔ آپؐ مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ تم نے ابو عبیدہ کی آمد سے متعلق سن لیا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ آپؐ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو اور اس خوش کن خبر کی امید رکھو۔ خداتعالیٰ کی قسم مجھے تمہارے فقر کا ڈر نہیں- اب فقرو احتیاج کے دن گئے یعنی غربت اور ضرورت پوری نہ ہونے کا خوف نہیں ہے۔ فرمایا کہ مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے خزانے تمہارے لئے کھول دئیے جائیں گے جس طرح پہلے لوگوں پر کھولے گئے تھے۔ تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ گے اور اس کی حرص کرنے لگو گے۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے حرص کی۔ پس تم کو بھی یہ حرص دنیا ہلاک کر دے گی جس طرح کہ اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا‘‘۔(بخاری کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ والموادعۃ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حرص سے بچائے اور ہلاک ہونے سے بچائے۔ اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔
’’ایک روایت ہے خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ عتبہ بن عدوانؓ نے (جوبصرہ کے گورنر تھے) تقریر فرمائی کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا ہے کہ میں ساتواں شخص تھا اور چھ اور آدمی تھے اور کہتے ہیں کہ معاشی تنگی کا یہ حال تھا کہ ببول کے درخت کی پتیوں کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پتیاں کھانے کی وجہ سے ہمارے منہ میں چھالے پڑ گئے تھے اور کپڑے کی قلت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک چادر مجھے ملی تو اس کے میں نے دو ٹکڑے کر دئیے۔ آدھی سعد بن مالک نے پہن لی اور آدھی میں نے۔ لیکن آج ہم ساتوں میں سے ہر شخص کسی نہ کسی علاقے کا گورنر ہے۔ مگر اس بات سے خدا کی پناہ کہ میں اپنے آپ کو اس عُہدے پہ ہونے کی وجہ سے بڑا جانوں اور اللہ کے نزدیک حقیر بنوں ‘‘۔(ترغیب و ترھیب بحوالہ مسلم )
یعنی یہ خوف تھا کہ مجھے اس عہدے کی کوئی بڑائی نہیں اصل تو اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ وہی میرے دل میں قائم رہے۔ ہر شخص کو اپنی پہلی حالت کو بھول نہیں جانا چاہئے۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا چاہئے جن کو نیا نیا پیسہ آئے تو اپنے غریب رشتہ داروں کو بھلا بیٹھتے ہیں، ان کو کوئی سمجھتے ہی نہیں- اپنے گھر کے دروازے ان پر بند کر دیتے ہیں- ان سے نرمی سے بات کرنا بھی جرم سمجھتے ہیں- ہمیشہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اپنے غریب رشتہ داروں کا بھی ہمیشہ خیال رکھا جائے،ان کی بھی عزت کی جائے ان کا احترام کیا جائے اور اگر وہ گھر میں آتے ہیں تو اکرام ضیف کے تمام تقاضے ان کے ساتھ بھی پورے کئے جائیں-
’’حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے کتّان کے دو باریک کپڑے پہن رکھے تھے (اعلی قسم کا کپڑا تھا) ان میں سے ایک کپڑے سے ناک صاف کیا اورفرمایا واہ واہ! ابوہریرہ ! کتّان سے ناک صاف کرتا ہے۔ اور آپ ہی کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا تھا کہ میں بھوک سے بیہوش ہو جاتا تھا اور اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے درمیان گھسیٹا جایا کرتا تھا اور لوگ میری گردن پر پیر بھی رکھ دیا کرتے تھے یہ سمجھ کر کہ عقل میں فتور آ گیا ہے حالانکہ یہ غشی کی حالت ہوتی تھی جو بھوک کی وجہ سے طاری ہو جاتی تھی ‘‘۔(ترغیب و ترھیب بحوالہ بخاری و مسلم )
یہ نہیں کہ آپ نے اس لئے تھوکا کہ آپؓ میں تکبر آ گیا تھا یا مال کی کثرت کی وجہ سے کوئی بڑائی پیدا ہو گئی تھی بلکہ دنیا سے بے رغبتی کا اظہار تھا زہد تھا نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے پر تھی نہ کہ ان دنیاوی چیزوں کی طرف ایک دنیادار کے لئے یہ اعلیٰ کپڑے ہوں گے لیکن ایک اللہ والے کے لئے خدا رسیدہ کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔
’’حضرت وہب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمانؓ اور حضرت ابو درداءؓ کے درمیان بھائی چارہ کروایا، حضرت سلمانؓ، حضرت ابودرداءؓ کو ملنے آئے تو دیکھا کہ ابو درداء کی بیوی نے پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑے پہن رکھے ہیں اپنا حلیہ عجیب بنایا ہوا تھا۔ سلمان نے پوچھا تمہاری یہ حالت کیوں ہے۔ اس عورت نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابودرداء کو تو اس دنیا کی ضرورت ہی نہیں وہ تودنیا سے بے نیاز ہے۔ اسی اثناء میں ابودرداء بھی آ گئے۔ انہوں نے حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں- سلمان نے کہا جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے روزہ کھول لیا (نفلی روزہ رکھا ہو گا)۔ا ور جب رات ہوئی تو ابو درداء نماز کے لئے اٹھنے لگے۔ سلمان نے ان کو کہا ابھی سوئے رہو چنانچہ وہ سو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ نماز کے لئے اٹھنے لگے تو سلمان نے انہیں کہا کہ ابھی سوئے رہیں- پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو سلمان نے کہا کہ اب اٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے کہا اے ابودرداء ! تمہارے پروردگار کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ پس ہر حقدار کو اس کا حق دو، اس کے بعد ابودرداء آنحضرتؐ کے پاس آئے اور آپؐ سے اس واقعہ کا ذکر کیا حضورؐ نے فرمایا سلمان نے ٹھیک کیا ہے‘‘۔(بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علی اخیہ لیفطر فی التطوع)
زہد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حقوق بیوی بچوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں انکو انسان بھول جائے یا کام کاج کرنا چھوڑ دے۔ دنیاوی کام کاج بھی ساتھ ہوں لیکن صرف مقصود یہ نہ ہو۔ بلکہ ہر ایک کے حقوق ہیں وہ ادا کئے جائیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں اس سے یہ مراد ہے کہ دنیاکو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے۔ جو لوگ برخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کر لیں آخر کار ذلیل ہوتے ہیں ‘‘۔(ذکر حبیب صفحہ ۱۳۴)
پھر آپؐ نے فرمایا’’ وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گدوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے)‘‘۔(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳)
پھر فرماتے ہیں ’’جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۸)
فرمایا:’’ ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا، جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں- دنیا سے بالکل کٹ ہی نہیں جانا چاہئے۔ فرمایا کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں- او رنہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ ان کی اندرونی حالت خراب ہوتی ہے اور وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد دوم صفحہ ۶۹۶ مطبوعہ ربوہ)
پس دنیا کی نعمتوں کی موجودگی میں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اور اس کے حضور جھکنا ہر وقت مدنظر رہنا چاہئے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان سست ہو جاویں- اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لئے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو۔ ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو اس وقت بھی مدنظررکھیں تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کرے۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں- ہر معاملے میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں- دنیا مقصود بالذات نہ ہو اصل مقصود دین ہو پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔ صحابہ کرام کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔ وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے، نمازوں کو نہیں چھوڑا۔ دعاؤں سے کام لیا۔ اب یہ بدقسمتی ہے یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پھر اس حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں یا پھر وہ سب کی سب دنیا ہی کے لئے ہوں یاد رکھو جب تک لاالہ الااللہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۱۰ مطبوعہ ربوہ)
فرمایا’’ دنیا کے کام نہ تو کبھی کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیا میں آئے اور کیوں جائیں گے کون سمجھا وے جب کہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو، دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں- مومن وہ ہے جو درحقیقت دین کو مقدم سمجھے اور جس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے لیٹے فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے موت کا ذرہ اعتبار نہیں ‘‘۔(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر ۹ صفحہ ۷۲،۷۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی نعماء سے بھی نوازے اور دنیا کا کیڑا بننے سے بھی بچائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں