خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 20؍جولائی 2007ء

مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایاہے۔
آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مہمان نوازی کے اُسوہ حسنہ کے حوالہ سے جلسہ سالانہ پرتشریف لانے والے مہمانوں کی خدمت کرنے والے کارکنان کو اہم نصائح
ہر کارکن کو اس سوچ کے ساتھ مہمان کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی مہمان نوازی کا حق ادا ہو۔ اس کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہر ہ کیا جائے اور اپنی تکلیفوں کی کچھ پرواہ نہ کی جائے۔
مہمانوں کی طرف سے بعض دفعہ غلط فہمی کی وجہ سے زیادتی بھی ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی کارکن کا یہی کام ہے کہ صبر اور حوصلے سے اسے برداشت کریں۔
دعا کے بغیر تو ہمارا کو ئی کام نہیں ہو سکتا۔ کارکنان دعاؤں کے ساتھ ساتھ جو سارا دن اپنے کام کے دوران کرتے رہیں نمازوں کی پابند ی کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے آسانیاں پیدا کرے اور کسی قسم کی روک نہ ہو اور مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے دعا کی خصوصی تحریک
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(فرمودہ مورخہ 20 ؍جولائی 2007ء(20؍ وفا 1386ہجری شمسی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے جمعہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ قریباً 24سال سے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہاں ہجرت ہوئی، یہ جلسہ سالانہ، یو کے کا جلسہ سالانہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی جلسہ کی صورت اختیار کر گیاہے۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جب تک خلافت کا یہاں قیام ہے اس جلسے کی بین الاقوامی حیثیت رہے گی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کے یہاں آنے کے بعد جو پہلا جلسہ ہوا تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر بلکہ بعد کے کئی سال بھی مختلف اوقات میں آپؒ نے یہاں کے ملکی جماعتی نظام کی ٹریننگ کے لئے،ان کو صحیح جماعتی روایات سے متعارف کرانے کے لئے، جلسے کے مختلف شعبہ جات اور مختلف امور کی باحسن سرانجام دہی کے لئے جہاں خود بڑی محنت سے ذاتی دلچسپی لے کر جلسے کے نظام کواپنی رہنمائی سے نوازا، وہاں مرکز سے، ربوہ سے بھی تجربہ کار، پرانے کام کرنے والے افسران،جن کا سالہاسال جلسہ کے انتظام چلانے کا تجربہ تھا اور جماعتی روایات سے بھی واقف تھے، کو بھی یہاں کے نظام کے ساتھ مشوروں میں شامل رکھا۔
بہرحال چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے کی جماعت اس معاملے میں اتنی تربیت یافتہ ہو گئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب لاکھوں کی تعداد میں بھی مہمان آجائیں تو یہ بغیر کسی گھبراہٹ اور انتظامی نقص کے یادِقّت کے جلسے کے انتظام کو اللہ کے فضل سے احسن طریق پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ جب میں سوچتا ہوں تو یہ فکر ہوتی ہے کہ پاکستان میں بھی جب انشاء اللہ تعالیٰ حالات بہتر ہوں گے، جلسہ سالانہ ہو گا تو لمبے عرصے کے تعطل کی وجہ سے بہت سے کارکنان جو اس وقت جب آخری جلسہ 1983ء کا ہوا تو active تھے، اور اب بڑی عمر ہو جانے کی وجہ سے اتنے active نہیں رہے ہوں گے، بعض ان میں سے دنیا میں بھی نہیں رہے تو نئی نسل ڈیوٹیاں دینے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جلسے کے انتظام کو کس طرح سنبھالے گی؟ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے سلوک ہے اسے دیکھ کر اور احمدیوں کی فدائیت اور ایمان کے جذبے کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ خود ہی ان فکروں کو دور کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا۔ بہرحال آپ سب سے اور خاص طور پر پاکستان کے رہنے والے احمدیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی جلسے کے انعقاد کے سامان پیدا فرمائے اور ان کی یہ محرومیاں بھی دور ہوں اور ہماری فکریں جو بشری تقاضا ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔ بہرحال یہ تو ضمنا ً دعا کی تحریک کی طرف توجہ پیدا ہوئی تھی جو میں نے کی۔
آج کا یہ خطبہ یعنی جلسہ سالانہ سے ایک ہفتہ پہلے کا جو خطبہ ہوتا ہے۔ یہ عموماً مَیں کارکنان کو ان کی ذمّہ داریوں کی طر ف توجہ دلانے کے لئے دیتا ہوں، جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یو کے جماعت کے کارکنان جلسہ سالانہ جن میں بچے بھی ہیں عورتیں بھی ہیں، بوڑھے مرد بھی ہیں اور جوان مرد بھی ہیں، یہ سب اپنے کام کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بڑی عمدگی سے ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ لیکن کیونکہ یاددہانی کا بھی حکم ہے تاکہ پرانے کارکن بھی اور نئے شامل ہونے والے کارکنان بھی اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیں اور اپنے سے ہر قسم کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں اور پھر میز بانی سے متعلق آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے اور آپؐ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے آقا کی اتباع میں جو نمونے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ان سے بھی ہماری رہنمائی ہوتی رہتی ہے اس لئے یہ یاددہانی کرواتا ہوں۔
مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ

وَلَقَدْ جَآ ءتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَاُلْوا سَلٰمًا۔ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآء بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ (ھود:70)

اور یقینا ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا، اس نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ پس مہمان نوازی یہی ہے کہ اپنے عمل سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہ ہو کہ مہمان آگیا تو مصیبت پڑ گئی۔ بلکہ مہمان کو پتہ بھی نہ چلے اور اس کی خاطر مدارات کا سامان تیار ہو جائے۔ جو بہترین کھانا میّسر ہو، جو بہترین انتظام سامنے ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے۔رہائش کاجو بہترین انتظام مہیا ہو سکتا ہے، مہمان کے لئے مہیا کیا جائے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ضروراتنی خاطر داری ہو کہ ایک دو مہمان آئے ہیں تو بے تحاشا کھانا تیار کیا جائے، بچھڑے کی مہمان نوازی کے بغیر اس کا حق ادانہیں ہو سکتا یا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔ اُس زمانے میں وہ لوگ بھیڑ بکریاں پالنے والے تھے، بازار تو تھے نہیں کہ بازار گئے اور چیز لے آئے، بھیڑیں موجود تھیں اور وہی فوری طور پر میسر آسکتی تھیں تو اصل چیز اس میں یہ ہے کہ مہمان سے بغیر پوچھے کہ کھانا کھاؤ گے یا نہیں اس کی مہمان نوازی کے سامان تیار کر لئے جائیں۔
آنحضرت ﷺ نے مہمانوں کو دودھ بھی پیش کیا۔ آپؐ کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے۔ کھجوریں میسر ہوئیں تو وہ بھی پیش کیں۔ اگر گوشت یاکوئی اور اچھا کھانا ہے تو وہ مہمانوں کو کھلا دیا۔ تو اصل اسلامی خلق جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے۔ مہمان کو یہ احساس نہ ہو کہ میرا آنا میزبان کے لئے بوجھ بن گیا ہے۔ بلکہ حضرت ابراہیمعلیہ السلام کے مہمانوں نے تو یہ محسوس کیا کہ کھانے کی طرف ہمارا ہاتھ نہ بڑھنا حضرت ابراہیمعلیہ السلامکے دل میں تنگی پیدا کر رہا ہے۔ جس کی پھر انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ہم لوطؑ کی طرف جا رہے ہیں۔ تو یہ اسلامی خلق ایسا ہے کہ ہر مسلمان کو اس کو اپنانا ضروری ہے۔ مختلف رنگ میں دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ ایسی تعلیم ہے جس کا ایک احمدی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان بن کر آرہے ہوں ان کا کس قدر خیال ہونا چاہئے۔ ہر احمدی جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہے وہ خود اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ جس سے پیار ہو اس کی طرف منسوب ہونے والے تو ہر چیز سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پیارے کے مہمان آرہے ہیں جو ہمیں بہت پیارے ہیں اور اس نیت سے ان کی خدمت کرنی ہے۔ اس جذبے کے ساتھ ہر کارکن اگر مہمانوں کی خدمت کرے گا تو اس خدمت کا لطف ہی اور ہو گا۔ پس چاہے آپ کے عزیزوں میں سے جلسے کے لئے ذاتی مہمان آرہے ہوں یا جماعتی انتظام کے تحت جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا ہے اور اس مہمان نوازی کی جو ڈیوٹیاں مختلف لوگوں کے سپردکی گئی ہیں، ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی حتی الوسع خدمت کی توفیق پانی چاہئے۔ بعض(مہمان) مجھے ملے ہیں، پہلی دفعہ پاکستان سے باہر نکلے ہیں۔ یہاں ان کا کوئی عزیزبھی نہیں ہے۔ یہ خالصتاً اس لئے آئے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہو جائیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ زبان کا بھی ان کو مسئلہ ہے، کئی بہت سادہ مزاج ہیں، جو دیہاتی ماحول کے ہیں لیکن پُر خلوص دل رکھنے والے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہئے۔جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہی انبیاء کی سنت ہے، یہی اسلامی خُلق ہے اور یہی آنحضرتﷺ کا اسوہ ہے۔اور الٰہی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے اپنے خُلق کے یہی نمونے دکھاتے ہیں اور ہم احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کے بعدسب سے بڑھ کر آنحضرت اکے اسوہ پر عمل کرنے والے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ تو ہماری طرف سے تو اول طورپر اس خُلق کا اظہار ہونا چاہئے۔ آنحضرت انے تو ایک جگہ ایمان کی نشانی مہمان کا احترام بتائی ہے جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے تین باتیں آپ نے بیان فرمائیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لا تا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(صحیح مسلم۔ کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار…) اور مہمان کی یہ عزت صرف اپنے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اپنے عزیزوں تک ہی محدود نہیں ہے، اپنے قریبیوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر مہمان قطع نظر اس کے کہ اس کا دین اور مذہب کیا ہے، عزیز داری ہے کہ نہیں، اس کی مہمان نوازی کا آپ نے حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جومسافروں کا حق بتایا ہے اس میں بھی مہمان نوازی آتی ہے۔ تو آنحضرت ﷺ کی سنت کیا تھی؟
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا۔ حضرت رسول اللہﷺ کے ہاں مہمان بنا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کرلانے کے لئے فرمایا جو اس کافر نے پی لیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کے لئے ارشاد فرمایا، دودھ لایا گیا اس نے پی لیا۔ پھر آپ نے دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایاتو وہ دوسرے دن پورا دودھ ختم نہ کر سکا۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند باقی المکثرین من الصحابۃ)۔کھانے کے طور پر تو ہم یہ مثال دیتے ہیں لیکن یہی مہمان نوازی ہے، اس میں مہمان نواز ی کا جو خلق نظر آتا ہے یہ ہے کہ جتنا بھی مہمان کھائے خوشی سے اس کو مہیا کیا جائے۔بغیر کسی قسم کا اظہارکئے کہ کیا مشکل ڈال دی کہ ایک بکری سے پیٹ نہیں بھرا،دو سے نہیں بھرا، تین سے نہیں بھرا۔ تو جب تک اس کا پیٹ نہیں بھر گیا، اس کی تسلی نہیں ہو گئی، آپؐ اس کی مہمان نوازی کا حق ادا فرماتے رہے اور کسی بھی قسم کا ایسااظہار نہیں ہونے دیاجس سے مہمان شرمندہ ہو یا کسی اظہار سے اس کی ناراضگی ہو۔ پھر عارضی مہمان نوازی نہیں مستقل مہمان نوازی بھی آپؐ فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی اس مہمان نوازی کی شفقت سے فیض اٹھانے والے کئی کئی دن بلکہ مہینوں آپ کی مہمان نوازی سے فیض اٹھاتے تھے لیکن کوئی تکلف نہیں ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروا دیا کہ

وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن َ(ص:87)

اور مَیں تکلّف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ جو کچھ بے تکلفی سے میسر ہوتا تھا آپ مہمانوں کو پیش فرما دیتے تھے۔جو بہتر طور پر کر سکتے تھے ان کی ضروریات پوری فرمایا کرتے تھے۔
حضرت مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں اور میرے دو ساتھی جن کی محنت اور مشقت کی وجہ سے قوت سماعت اور بصارت متأثر ہوئی تھی۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے پاس آئے مگر ان میں سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ پھر ہم نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ہمیں اپنے گھر والوں کے پاس لے گئے۔ وہاں پر تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا ان کا دودھ دوہاکرو۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا حصہ پی لیتا اور رسول کریمﷺ کی طرف آپ کا حصہ لے جاتے۔ آنحضرت ﷺ رات کے وقت تشریف لاتے اور سلام کرتے۔ آواز اتنی اونچی نہ ہوتی کہ سویا ہوابیدار ہو جائے۔ جو جاگ رہا ہوتا وہ سن لیتا۔ پھر آپ نوافل کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، نوافل ادا کرتے۔ اور پھر نماز فجر ادا کرتے۔پھراس کے بعد،وہیں آپؐ کے پاس پینے کے لئے دودھ لایا جاتا جو آپ پی لیتے۔ (ترمذی کتاب الاستیذان والادب۔باب کیف السلام)
تو بے تکلف مہمان نوازی یہی ہے کہ ان ضرورتمندوں کو کہہ دیا کہ ٹھیک ہے تم اب لمبا عرصہ میرے مہمان ہویہ بکریاں ہیں ان کا دودھ دو ہو، خود بھی پیو اور میرے لئے بھی رکھو۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کی مہمان نوازی میں تکلف کوئی نہیں ہوتا تھا جو میسر ہوتا تھا مہمان کے سامنے پیش فرما دیتے تھے۔
حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور کی میزبانی سے مَیں نے اس طرح لطف اٹھایا کہ آپ نے بکرے کی ران بھنوائی پھر مجھے اس میں سے کاٹ کاٹ کر آپ عنایت فرماتے تھے۔ حضور ابھی کھانا تناول فرما رہے ہوتے تھے۔ اگر کوئی ملاقاتی آجاتا تو اسے بھی کھانے میں بغیر تکلف کے ساتھ شامل کر لیتے تھے۔پھر جب فتح مکہ ہوئی اور بڑے بڑے وفود آپؐ کے پاس آنے لگے تو خود ان کا استقبال بھی فرماتے تھے، انہیں عزت و احترام دیتے تھے، ان کے لئے رہائش اور کھانے وغیرہ کا بندوبست فرماتے تھے، مختلف صحابہ میں مہمان نوازی کے لئے ان کو بانٹ دیتے تھے اور پھر مہمانوں سے دریافت فرماتے کہ تمہارے بھائیوں نے تمہاری مہمان نوازی کا حق ادا کیا کہ نہیں ؟ تو یہ تھے آپﷺ کے مہمانوں سے حسن سلوک کے طریقے۔ پھر یہ ہے کہ اگر کوئی مہمان آتا تو پہلے آپؐ اپنے گھر سے جائزہ لیتے تھے کہ کوئی کھانے کی چیز میسر ہے کہ نہیں، اس مہمان کی اچھی طرح مہمان نوازی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اگر کچھ میسر نہ ہوتا تو پھر دوسرے صحابہ سے پوچھتے کہ اس مہمان کو کون اپنے ساتھ لے جائے گا۔
اس طرح کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مہمان آیا، آپ نے اپنے گھر سے پتہ کروایا، کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ مَیں اس کو اپنے گھر لے جاتا ہوں اور اس واقعہ میں مہمان کے لئے احترام اور قربانی کی ایک عجیب جھلک نظر آتی ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا۔ آپؐ نے اپنی ازواج کی طرف پیغام بھجوایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں۔ اس پر حضورﷺ نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کی کہ حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔چنانچہ وہ اس کے ساتھ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارات کا انتظام کرو۔ بیوی نے جواباً کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا کہ کھانا تیار کرو پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا۔بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور چراغ بجھا دیا۔ پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے اور چٹخارے لیتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا اور وہ خود بھوکے سو رہے۔ صبح جب یہ انصاری حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے رات والے عمل سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنس دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ (بخاری کتاب المناقب)
دیکھیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں مہمان نوازی کی کتنی اہمیت ہے کہ اس انصاری کی منفرد قسم کی مہمان نوازی سے خدا عرش پر خوش ہو رہا تھا اور اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بھی دی کہ اے محمدﷺ دیکھ تجھے کس قسم کے ایثار اور قربانی کرنے والے لوگ مَیں نے دیئے ہیں جو دوسروں کی خاطر کس طرح قربانی کرتے ہیں۔
آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے۔ پس مہمانوں کے حق کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور جو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلانے پر روحانی مائدہ حاصل کرنے کے لئے آرہے ہوں جو اس لئے دور دراز سے خرچ کرکے آرہے ہوں کہ پاکستان میں جلسوں پر پابندی ہے۔ ہمیں جس فیض سے محروم کرکے دنیاوی حکومتوں نے روکیں کھڑی کر رکھی ہیں اس سے فیضیاب ہونے کے لئے ہم سے جو بھی بن پڑتا ہے کرنا ہے اور کرنا چاہئے۔ اگر اپنے اوپر بوجھ ڈال کر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے فیضیاب ہوا جا سکتا ہے جو آپؑ نے جلسے والوں کے لئے کیں تو ہونا چاہئے۔ کئی مخلصین یہاں آتے ہیں،مَیں نے پہلے بھی کہا کہ نہ انہوں نے یہاں سے کوئی دنیوی مفاد حاصل کرناہے، نہ ان کا کوئی عزیز یہاں ہے جس سے ملنا ہے۔ کوئی ذاتی مفاد نہیں، خالصتاً صرف جلسے کے لئے چنددن کے لئے آئے ہیں اور جلسے کے بعد چلے جائیں گے۔ بعض بڑی عمر کے عورتیں بھی اور مرد بھی مجھے ملے ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے ہم ویزے کے حصول کی کوشش کر رہے تھے لیکن ویزا نہیں ملتا تھا۔ تو اس دفعہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرما دیا اور ویزا مل گیا۔جب یہ لوگ ملتے ہیں تو انتہائی جذباتی کیفیت ہوتی ہے۔ بعضوں کی تو روتے ہوئے ہچکی بندھ جاتی ہے۔ انتہائی اخلاص اور وفا کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ تو یہ مہمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آنے والے مہمان ہیں۔ ان کی مہمان نوازی پر یقینا اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو گا۔ پس کارکنان جلسہ کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثواب کا موقع عطافرمایا اور یہ ان کے لئے بہترین موقع ہے جس سے ان کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ کسی مہمان کی عزت اس کے ظاہری رکھ رکھاؤ کی وجہ سے نہیں کرنی، کسی کی سادگی کو نہ دیکھیں بلکہ اس اخلاص کو دیکھیں جس کے ساتھ وہ یہاں جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آقاﷺ کی اتباع میں کیا نمونے قائم فرمائے۔ایک دفعہ سید حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا (آپ ملنے آئے تھے) کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور مَیں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر مَیں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آگیا ہوں۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ163جدید ایڈیشن) تو اپنی صحت کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی، آنحضرت ﷺ کی اس بات کو یاد رکھا کہ مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور اس حق کی ادائیگی کے لئے آپ باہر تشریف لائے۔
ایک مشہورواقعہ ہے، کئی دفعہ ہم نے سنا کہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے مہمان خانہ کے کارکنان کو کہا کہ ہمارے بستر یکّہ سے اتارو اور سامان لایا جائے، چارپائیاں بچھائی جائیں۔ تو لنگر خانہ کے ان ملازمین نے کہا کہ سامان اپنا خود اتاریں، چارپائیاں آپ کو مہیا ہو جائیں گی۔ اس بات پر دونوں مہمان بڑے ناراض ہوئے، رنجیدہ ہوئے اور فوراً اسی یکّہ میں بیٹھ کر، اسی ٹانگے میں بیٹھ کر واپسی کے لئے روانہ ہو گئے۔ تو منشی ظفر احمدصاحبؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ بات جب مولوی عبدالکریم صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو جانے دو، ایسے جلد باز لوگوں کو روکنے کی کیاضرورت ہے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپؑ بڑی جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل تھا تیزی سے یعنی تیز قدم چلتے ہوئے ان کے پیچھے گئے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔ کہتے ہیں مَیں بھی ساتھ تھا تو نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکّہ مل گیا اور حضور کو جب انہوں نے آتے دیکھا تو اس کو کھڑا کیا اور اس سے اتر گئے۔ حضور نے انہیں واپس چلنے کا فرمایا اور ساتھ بڑی معذرت کی کہ آپ کو بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے تو حضور نے انہیں یکّہ پر سوار ہونے کے لئے فرمایا کہ مَیں ساتھ ساتھ پیدل چلتا ہوں آپ ٹانگے میں بیٹھ کر چلے جائیں۔لیکن وہ شرمندہ ہوئے اور سوار نہ ہوئے۔ اس کے بعد جب مہمان خانے پہنچے تو حضور نے خود ان کے بستر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر جب یہ حالت دیکھی تو خدام نے فوری طور پر ان کا سامان اتارا، انتظام کیا۔ حضورؑ نے ان کے لئے دو نواڑی پلنگ منگوائے، ان کے بستر کروائے، ان سے کھانے وغیرہ کا پوچھا۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ چاول کھانے والے تھے۔جب تک کھانے کا انتظام نہیں ہو گیا وہیں تشریف رکھی۔ پھر(حضورؑ کا یہ معمول تھا کہ جتنے دن وہ وہاں ٹھہرے،روزانہ ایک گھنٹے کے قریب ان کے پاس آکربیٹھتے تھے۔ ایک تقریب ہوتی تھی، تقریر وغیرہ فرماتے تھے) جس دن انہوں نے واپس جانا تھا صبح کا وقت تھا اس دن بھی حضور نے دو گلاس دودھ منگوا کر انہیں پلایا اور پھر نہر تک انہیں چھوڑنے بھی گئے۔(سیرت المہدی حصہ چہارم غیر مطبوعہ روایت نمبر1071صفحہ477 تا 479)
تو صرف یہ نہیں کہ ان کو ایک دفعہ واپس لے آئے اور بس مہمان نوازی ختم ہو گئی۔ بلکہ باقاعدہ جتنے دن وہ رہے انہیں پوچھتے رہے روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب جاکے ان کے پاس بیٹھتے رہے اور ان کی دلداری بھی کرتے اور ان کے سوالوں کے جواب بھی عطا فرماتے تھے۔ انہیں اپنی مجلس سے فیضیاب فرماتے رہے تو یہ تھے آپؑ کی مہمان نوازی کے طریقے۔
پھر حضرت مفتی محمدصادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں 1901ء میں ہجرت کرکے قادیان آیا تو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تھا، تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے رہنے کے لئے جو کمرہ دیا وہ حضور کے اوپروالے مکان میں تھا، اس میں صرف دو چھوٹی چھوٹی چارپائیاں بچھ سکتی تھیں۔ کہتے ہیں چند ماہ ہم وہاں رہے۔ ایک دن کا واقعہ وہ سناتے ہیں کہ یہ کمرہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر اور صحن سے اتنا قریب تھا کہ باتوں کی آواز آیا کرتی تھی۔ تو کہتے ہیں کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ بے انتہامہمان آگئے پورا گھر بھی بھرا ہوا تھا، جو رہائش کی جگہیں تھیں وہ بھی بھری ہوئی تھیں۔ تو اُس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکرام ضیف پر مہمان نوازی پرحضرت بی بی صاحبہ (حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کو پرندوں کا ایک واقعہ سنایا تو کہتے ہیں کیونکہ مَیں بالکل ساتھ تھا اس لئے صاف آواز میں سن رہا تھا۔ فرمایا کہ دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی، رات اندھیر تھی، قریب کوئی بستی نہیں دکھائی دی وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ گیا اور اس درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا، گھونسلہ تھا، پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ (یہ ساری ایک حکایت ہے) کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانے کے نیچے آبیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ تو مادہ نے بھی اس سے اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کیا کہ ٹھنڈی رات ہے ہم اس کو گرمی کس طرح پہنچا سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اپنا تنکوں کا گھونسلہ (آشیانہ) توڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں اس کو آگ لگا کر یہ آگ سینکے گا؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب مسافر نے اس کو اٹھا کرکے آگ لگائی تو وہ آگ سینکنے لگا سردی کا موسم تھا۔ پھر ان پرندوں نے سوچا کہ اب اور مزید مہمان نوازی کیا کی جا سکتی ہے؟ اب ہمیں چاہئے کہ ان کے لئے کچھ کھانے کا انتظام کریں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ ہے نہیں، تو یہی ایک قربانی ہم دے سکتے ہیں کہ خود اس آگ میں جا کر گر جائیں۔ چنانچہ وہ دونوں پرندے اس آگ میں گر گئے اور مہمان نے ان کو بھون کے کھالیا۔ تو یہ حکایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو سنائی کہ مہمان نوازی کے لئے قربانی کے یہ معیار ہونے چاہئیں۔ مطلب یہ ہے کہ قربانی کرنی چاہئے، یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو آگ میں ڈال لے۔
پس ہر کارکن کو اس سوچ کے ساتھ ہر مہمان کا خیال رکھنا چاہئے کہ اُس کی مہمان نوازی کا حق ادا ہو، اُس کی ضرورت کا خیال رکھا جائے، اس کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے، اپنی تکلیفوں کی کچھ پرواہ نہ کی جائے، کیونکہ حق ادا کرنے کے لئے تکلیفیں تو بہرحال برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ لنگر کے انچارج کو بلا کر کہا تھاکہ’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو، بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو‘‘، سب مہمان تمہاری نظر میں ایک ہونے چاہئیں۔ہر ایک کی اس طرح خدمت کرو، مہمان نوازی کرو، ’’سردی کا موسم ہے تو چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو‘‘۔ فرمایا کہ’’تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو‘‘، جماعت اتنی پھیل گئی ہے کہ جو عہدیداران اور کارکنان ہیں ان پر ہی حسن ظن ہے کہ وہ نیک نیتی سے اپنے سارے کام بجا لانے والے ہوں۔’’ان سب کی خوب خدمت کرو، اور اگر کسی کے گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلے کا انتظام کر دو‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ492۔ جدید ایڈیشن)
جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا کہ یہ دیکھے بغیر کہ کون امیر ہے اور کون غریب ہے، کس کے کپڑے اچھے ہیں کس کے بُرے ہیں، جو مہمان ہے اس کی مہمان نوازی کرنا ہم پر فرض ہے۔ پس یہ واقعات جوآنحضرت ﷺ کے اسوہ کے اور جو چند نمونے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دکھائے یہ صرف اس لئے ہیں کہ ہم ان نمونوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
جیسا کہ مَیں نے کہااللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک دفعہ پھر ہمیں موقع دیاہے کہ مہمان نوازی اور خدمت کرکے ہم جلسے کی برکات سے فیض اٹھانے والے ہوں گے ان برکتوں کے وارث بننے والے ہوں گے ثواب حاصل کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان مہمانوں کی خدمت کے لئے مقدر کی ہیں۔ اس لئے تمام کارکنان شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ پورے خلوص سے ہر وقت ان مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ رہیں۔مختلف شعبہ جات کے کارکنان ہیں، ان شعبہ جات میں رہائش بھی ہے،ٹرانسپورٹ ہے، خوراک، صفائی، آب رسانی، طبی امداد، جلسہ گاہ وغیرہ اور ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض اور ڈیوٹیاں ہیں اور ہر ایک کا مہمان سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے، ان کی باتیں سنیں اور ان کا خیال رکھیں۔ مہمانوں کی طرف سے بعض دفعہ غلط فہمی کی وجہ سے زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی کارکن کا کام یہی ہے کہ صبر اور حوصلے سے اسے برداشت کرے۔ بعض لوگ ایسے ملکوں سے آئے ہیں جہاں بعض سہولتیں نہیں ہیں یا مختلف قسم کے ان کے طریق رائج ہیں۔ بعض چیزوں کا وہ خیال نہیں رکھتے، ارادۃً نہیں بلکہ پتہ نہیں ہوتا کہ کس طرح کس چیز کو استعمال کرنا ہے یا کس لحاظ سے کس حد تک صفائی کا خیال رکھنا ہے۔ مثلاً ٹائیلٹ وغیرہ کی صفائی ہے تو جو کارکنان صفائی پر مقرر ہیں خود کر دیا کریں۔ بجائے یہ بولنے کے کہ مہمان آئے اور گند کرکے چلے گئے۔
آنحضرت ﷺ نے تو یہ اسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ ایک جو غیر مسلم آیا تھا اور بستر گند ہ کرکے چلا گیا تو آپ نے صرف اس لئے اس بستر کو خود صاف کیا کہ وہ میر امہمان ہے۔ تو یہ نمونے ہمارے سامنے اس لئے ہیں کہ ہم ان پر عمل کرنے والے بنیں۔ صبر اور حوصلے سے اور اعلیٰ اخلاق سے ہر ایک سے سلوک کریں اور ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ بغیرماتھے پر بَل لائے اپنے فرائض انجام دیں۔ بہرحال ہر کارکن کے لئے بنیادی چیز جیسا کہ مَیں کئی دفعہ دوہرا چکا ہوں کہ صبر، حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق ہیں۔ اس کا خیال رکھنا چاہئے اور پھر اس کے ساتھ سب سے اہم چیز دعا ہے اس کی طرف بھی توجہ رہے۔دعا کے بغیر تو ہمارا کوئی کام نہیں ہو سکتا اور کارکنان دعاؤں کے ساتھ ساتھ جو سارا دن اپنے کام کے دوران کرتے ہیں، نمازوں کی پابندی کی طرف بھی توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ خوش اسلوبی سے تمام کارکنان کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی بھی قسم کی بدمزگی نہ ہو۔ مہمان بھی آپ سے خوش ہوں اور آپ مہمانوں سے خوش ہوں۔ بارشوں کی وجہ سے بڑی فکر ہے، بعض انتظامات میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور بارشیں ہمارے کسی کام میں روک نہ بنیں۔ آج بھی یہاں آتے ہوئے جو 25-20 منٹ میں لیٹ ہوا ہوں، حالانکہ بارش کی وجہ سے اپنے وقت سے 6-5منٹ پہلے روانہ ہوا تھا، اس کے باوجود سڑکیں بلاک تھیں، سڑکیں بند تھیں، ٹریفک جام تھا، کہیں پانی کھڑا تھاتو ہم لیٹ ہو گئے۔ حدیقۃ المہدی میں اس طرح کی روکیں ہیں کیونکہ زمین نرم ہے اس لئے وہاں مختلف شعبہ جات کو بعض کاموں میں دِقّت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے آسانیاں پیدا کرے اور کسی قسم کی روک نہ بنے اور مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دوسری ایک دعا کی تحریک مَیں کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ آجکل ہر ایک کو پتہ ہے کہ پاکستان کے حالات دن بدن بگڑتے چلے جا رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں قتل ہو چکے ہیں۔ مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے حالانکہ حدیث میں ہے کہ جو مسلمان مسلمان کو قتل کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کرنے والوں کے لئے قرآن کریم میں بھی لعنت اور عذاب اور جہنم کا بہت سخت انذار فرمایا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ان لوگوں کو عقل دے اور ملک کو بھی بچائے، کیونکہ جب اس طرح اندر سے دشمنیاں اٹھتی ہیں، اندر سے کمزوری پیدا ہوتی ہے پھر باہر کے دشمن بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ملک کو محفوظ رکھے، اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے جوحقیقت کو سمجھتے نہیں اور اپنی تباہی کا خود سامان پیدا کر رہے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں