خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍اگست 2008ء

قرآن کریم کی تعلیم مستقل اور ہر زمانہ کے لئے ہے اور ہر زمانہ کے حالات کے مطابق اس پر غور کرنے والوں پر اس تعلیم کے عجائبات اور راز کھلتے ہیں۔ اور پھر صرف جماعتی سطح اور قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص جو اس کتاب کو ماننے والا ہے اور جو اس پر غور کرنے والا ہے اس سے فائدہ اٹھائے گا یا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو اس کو فائدہ پہنچے گا۔
خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے۔ مَیں چاہتاہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ قرآن شریف کو کثرت سے پڑھومگر نر اقصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔
(جامعہ احمدیہ قادیان کے دو طالبعلموں وسیم احمد اور حافظ اطہر احمد کی حادثاتی موت کا تذکرہ اور نماز جنازہ غائب)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 08؍اگست 2008ء بمطابق08؍ظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

خداتعالیٰ کی ایک صفت مُہَیْمَن ہے، اس لفظ کے اہل لغت نے مختلف معنے کئے ہیں، وہ مَیں پہلے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
لسان العرب، ایک لغت کی کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں کہ

اَلْمُہَیْمِنُ اور اَلْمُہَیْمَنُ

اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو پرانی کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ

مُہَیْمِنًا عَلَیْہ

یعنی بعض لوگوں نے مُہَیْمِن کا مطلب گواہ کیا ہے جس کا معنی ہے کہ وہ اس پر گواہ ہے۔ تو اس رُو سے وہ لکھتے ہیں کہ مُہَیْمِن کے معنی ہوں گے گواہ اور وہ ذات جو دوسروں کو خوف سے امن میں رکھے۔
اَلْا َزْہَرِی، مشہور لغوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ مُہَیْمِن کامطلب ہے، امین یعنی امانت دار۔ بعض نے مُہَیْمِن کو مُؤْتَمن کے معنوں میں بھی بیان کیا ہے یعنی وہ ذات جس کو امین سمجھا جائے۔

مُہَیْمِنًا عَلَیْہ

کے معنی ہیں وہ ذات جو مخلوقات کے معاملات پر نگران اور محافظ ہو۔ مُہَیْمِن کے معنی بعض نے رقیب کے کئے ہیں یعنی وہ ذات جو نگران ہو۔
پھر ایک جگہ لغت میں کہتے ہیں، قرآن کریم کے مُہَیْمِنًا عَلَیْہ ہونے کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ یہ کتب سابقہ پر نگران اور محافظ ہے۔
وہیب سے مروی ہے کہ جب بندہ وجودِ باری تعالیٰ میں فنا ہو جاتا ہے اور صدیقوں کی مُہَیْمَنِیَّت میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر کوئی مادی چیز ایسی نہیں رہتی جو اس کے دل کو بھائے۔

مُہَیْمَنِیَّت

کا لفظ مُہَیْمِن کی نسبت سے ہے اور اس سے مراد ہے صدیقین والا اطمینان قلب۔ یعنی جب بندہ اُس درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو نہ کوئی چیز بھاتی ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی چیز اسے پسند آتی ہے۔
پھر اَلْقَامُوْس میں ہے کہ

اَلْمُہَیْمِن

یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور مومن کے معنوں میں آیا ہے یعنی وہ ذات جو دوسروں کو خوف سے امن میں رکھنے والی ہو۔
لغت کی ایک کتاب اَقْرَبُ الْمَوَارِد ہے اس میں لکھا ہے کہمُہَیْمِن، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے، اس کا مطلب ہے کہ اَلْا َمِیْن۔ امن دینے والا یا نگران۔ اَلْمُؤتَمَنہ ذات جس کے پاس امانت رکھی جائے اور جس کو امین سمجھا جائے۔ اَلشَّاہِد گواہ۔

اَلْقَائِمُ عَلٰی خَلْقِہٖ بِاَعْمَالِھِمْ واَرْزَاقِھِمْ وَاٰجَالِھِمْ۔

وہ ذات جو اپنی مخلوقات کے اعمال اور ان کے رزق اور ان کی عمروں کی حدوں پر نگران اور محافظ ہو۔
قرآن کریم میں اس صفت کا استعمال دو جگہ آتا ہے۔ ایک سورۃ المائدہ کی آیت 49اور سورۃ الحشر کی آیت 24میں۔ پرانے مفسرین نے بھی ان آیات کے حوالے سے اس کے بعض معنی بیان کئے ہیں۔ پہلے مَیں مفسرین نے جو لکھاہے وہ بیان کردیتاہوں۔
شیخ اسماعیل حقی تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کو جو

مُہَیْمِنًاعَلَیْہ

کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام محافظ کتابوں کے تغیر و تبدل ہونے پر نگران ہے اور اب یہ قرآن اُن کی سچائی اور صحت اور پختگی اور شریعت کے بنیادی اور فروعی اصول کی گواہی دے گا اور پرانی شریعتوں کے جو احکام منسوخ ہو گئے اور جو باقی رہ گئے ان سب کی تعیین اب یہ کرے گا۔
پس اب یہ قرآن کریم ہے جو آخری شرعی کتاب ہے اور آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ جس کا ہر ہر لفظ سچ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پرانی کتب کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اب اگر سچائی ہے تو قرآن کریم میں ہے اور پرانی کتب اور صحیفوں کی بھی وہی باتیں صحیح ہیں جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ

مُہَیْمِنًا عَلَیْہ

اسے تمام کتب پر نگران بنایا گیا ہے جیسا کہ مفسرین نے بھی لکھا ہے۔
سورۃالمائدہ کی آیت 49 کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاَنزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِناً عَلَیْہِ (المائدہ:49)

تو یہ تصدیق کے ساتھ

مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ

کہہ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی بھی یقین دہانی کرادی کہ پہلے صحیفوں کی ہمیشہ صحت سے رہنے کی تو کوئی ضمانت نہیں تھی۔ لیکن یہ قرآن کریم کیونکہ ان پر اب نگران اور محافظ ہے اس لئے نگران اور محافظ ہونے کی حیثیت سے خود بھی محفوظ ہے۔ اور اس بارے میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’خداوند نے کہا تھا کہ مَیں اپنے کلام کی آپ حفاظت کروں گا۔ اب دیکھو کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ وہ تعلیم جو آنحضرت ﷺ نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ اس کی کلام کے پہنچائی تھی وہ برابر اس کی کلام میں محفوظ چلی آتی ہے‘‘۔
پس یہ حفاظت کا وعدہ جو قرآن کریم کے بارے میں خداتعالیٰ نے فرمایا ہے یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ پہلی کتب کی جو باتیں قرآن کریم تصدیق کرتاہے وہی سچی باتیں ہیں۔ غیر مسلم قرآن کریم کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کا ایک بہت بڑا طبقہ جو مذہب سے دلچسپی رکھتا ہے یہ مانتا ہے کہ ان کی کتب 100فیصد اصلی حالت میں نہیں ہیں۔ دوسرے 100 فیصد اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں ہوتی۔
قرآن کریم کے بارہ میں بھی لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ابتداء سے آج تک اپنی اصلی حالت میں ہے۔ گو کہ بعض شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے ایک خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ امریکہ میں گزشتہ دنوں کوشش کی گئی ہے اور اب اس کی تحقیق کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے۔ تو قرآن کریم کے بارہ میں بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صحیح حالت میں ہے اور یہی چیز قرآن کریم کو باقی صحیفوں پر فوقیت دلواتی ہے۔ پس یہاں قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ یہ باقی کتب پر نگران ہے اس کے باقی کتب پر نگران ہونے اور پہلے انبیاء کے جو واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں ان کے سچے ہونے کی دلیل ہے اور پرانی کتب میں بیان کردہ واقعات وہی سچے ہیں جن کو قرآن کریم نے ردّ نہیں کیا یا جن کی تصدیق کی ہے۔
اس طرح اس سے یہ بھی مراد ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم مستقل اور ہر زمانہ کے لئے ہے اور ہر زمانہ کے حالات کے مطابق اس پر غور کرنے والوں پر اس تعلیم کے عجائبات اور راز کھلتے ہیں۔ اور پھر صرف جماعتی سطح اور قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص جو اس کتاب کو ماننے والا ہے اور جو اس پر غور کرنے والا ہے اس سے فائدہ اٹھائے گا یا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو اس کو فائدہ پہنچے گا۔ یعنی روحانی طور پر بھی اور مادی طور پر بھی ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پس اگر حقیقی فائدہ اٹھانا ہے تو اس تعلیم کا جُوآ جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے اپنی گردن پر ڈالنا ہو گا اور پھر اسی وجہ سے ہر شخص ایمان میں بھی مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔ خداتعالیٰ کی صفت مُہَیْمِن سے پھر فیض اٹھائے گا۔ پس ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فیض اٹھانے کے لئے اس تعلیم پر عمل کرنا، اس میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنا اور ان نیکیوں میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں بیان فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایک د وسری جگہ فرماتا ہے

وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ (سورۃ البقرہ149:)

اور ہر ایک شخص کا ایک مطمح نظرہوتاہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط کر لیتا ہے سو تمہارا مطمح نظریہ ہو کہ تم نیکیوں کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ پس اس تعلیم پر عمل کرنے والا بننے کے لئے یہ نیکیاں مسلّط کرنی ہوں گی۔ یا مسلط کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ نیکیوں کو ہر دوسری بات پر فوقیت دینی ہو گی۔
سورۃ المائدہ کی آیت کے شروع میں سابقہ کتب کا ذکر کرکے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ لوگ اُس تعلیم کو بھول گئے جو انہیں دی گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی کتب میں تحریف شروع ہو گئی اور ان انعامات سے بھی وہ لوگ محروم ہو گئے۔ اگر نہ بھولتے اس میں تحریف نہ کرتے تو انعا م سے بھی محروم نہ ہوتے۔ یہود و عیسائی پھر اس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے ہوتے۔ لیکن قرآن کریم کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس میں تحریف نہیں ہو سکتی۔ کوئی ردّوبدل نہیں ہو سکتا۔ اس کی حفاظت خداتعالیٰ خود فرمائے گا۔ ایک تو یہ تحریری صورت میں محفوظ ہے، گزشتہ 1500 سال سے محفوظ چلی آرہی ہے، دوسرے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اور پھر مجددین کے ذریعہ سے اس کی تعلیم پر عمل بھی ہمیشہ محفوظ رہا ہے۔ چاہے تھوڑے پیمانے پر رہا ہو اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے بعد اس کی تعلیم کے مزید روشن پہلو نکھار کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر فرمائے۔ اس لئے تعلیم کے بگڑنے کا تو سوال نہیں لیکن افراد کے بگڑنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہر فرد کو بھی یہ تنبیہ کر دی گئی کہ اس تعلیم پر عمل کرو اور ان اعمال صالحہ اور نیکیوں کی طرف توجہ دو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہو گے۔ قرآن کریم میں یہ تنبیہ فرما دی کہ یہ قرآن کیونکہ نگران ہے اس لئے ہر فیصلہ اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ نیکیوں کے معیار اب اس کے مطابق مقرر ہونے چاہئیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔
ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ ہُم مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُونَ (المومنون:58)

یعنی وہ لوگ اپنے ربّ کے رعب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر فرمایا

وَالَّذِیْنَ ہُم بِآیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُونَ (المومنون:59)

وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر فرمایا ہے

وَالَّذِیْنَ ہُم بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُونَ (المومنون:60)

اور وہ لوگ جو اپنے ربّ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔ پھر فرماتا ہے

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ (المومنون:61)

اور وہ لوگ کہ جو بھی وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ یقینا اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔
یہ خصوصیات بیان کرنے کے بعد خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

اُوْلٰٓئِکَ یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَہُمْ لَہَا سَابِقُوْنَ (المومنون:62)

کہ یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ ان پر سبقت لے جانے والے ہیں۔
پس ان آیات میں نیکیوں میں بڑھنے والوں کی کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ دنیا داری ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پہلے فرمایا تھا کہ تمہارا مطمح نظر بھلائی میں بڑھنا ہے بلکہ سب سے اہم چیز جن کی انہیں تلاش ہے وہ خداتعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق صرف ظاہری الفاظ کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خشیئت ان کے دلوں پر قائم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رعب ان پر ہوتا ہے اور اس رعب اور ڈر کی وجہ سے اور اس تعلق کی وجہ سے جو خداتعالیٰ سے ہے وہ اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو ہر وقت ہر کام سے پہلے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہوتی ہے۔ ہر وقت ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ایک ذات ہے جو ہر وقت مجھے دیکھ رہی ہے۔ وہ اپنے ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تمام آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تمام پیشگوئیوں پر انہیں یقین ہوتا ہے۔ قرآن کریم ایک قائم رہنے والی کتاب ہے جس نے گزشتہ صحیفوں کو بھی درست کیا ہے یا تصدیق کی ہے اور آئندہ کے لئے بھی اسلام کے زندہ ہونے کے کچھ نشان ظاہر فرمائے اور اس زمانے میں مسیح موعود و مہدی موعود کا ظہور بھی ان نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں کا انکار ہے۔ آج مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت باوجود یہ دعا پڑھنے کے،

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ:7)

کہنے کے، یہ دعا مانگنے کے خداتعالیٰ کے فرستادہ کا انکار کرکے

مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ اورضَآلِّیْن

کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر کہ دوسروں کے معاملات کے فیصلے بھی اب اس کتاب کے مطابق ہونے ہیں مسلمانوں کو توجہ دلا دی تھی کہ تم میں بھی اس کتاب پر ایمان کو کامل کرنے کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے۔ صرف منہ سے نہیں، صرف قرآن کریم کو زبانی عزت دے کر نہیں بلکہ جو پیشگوئیاں ہیں ان پر غور کرتے ہوئے۔ جب بھی کوئی پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہو تو ایمان لا کر۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آج یہ ایمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر پورا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصے کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتاجب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ

اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا ھُوَ بِالْھَزْلِ (الطارق:15-14)

’‘یعنی یقینا وہ ایک فیصلہ کن کلام ہے اور ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں ‘‘۔
فرماتے ہیں کہ’’وہ میزان مُہَیْمن، نور اور شفا اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں ؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے، اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض مَیں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور مَیں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 113۔ جدید ایڈیشن)
پھر اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ نیکیوں میں بڑھنے والے گروہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ کسی کو بھی اللہ کے مقابلے میں شریک نہیں ٹھہراتے۔ لیکن مسیح موعود کے زمانہ کے حالات بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ الجمعۃ میں فرماتا ہے کہ مخفی شرک اس زمانے کے مسلمانوں میں اس حد تک نظر آئے گا کہ باوجود مسلمان کہلانے کے عبادت کی طرف توجہ نہیں ہو گی۔ تجارتیں اوردل بہلاوے کی چیزیں انہیں نماز وں کی نسبت زیادہ پرکشش نظر آرہی ہوں گی۔ بجائے نیکیوں میں بڑھنے کے وہ یہودو نصارٰی کی طرح اسلام اور قرآن کی تعلیم کو بھلا رہے ہوں گے۔ عبادت کی طرف توجہ بھی کم ہو گی اور اعمال صالحہ کی بجاآوری کی طرف بھی توجہ کم ہو گی۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت اسی پرچلتی نظر آتی ہے۔ لیکن ہمیں بھی یہ بات دعوت فکر دیتی ہے کہ ہم بھی اپنے جائزے لیتے ر ہیں کہ کہیں اپنے آپ کو اپنے نفس کے دھوکے میں تو نہیں ڈال رہے؟
پھر ایک نشانی یہ بتائی کہ نیکیوں میں بڑھنے والے اپنی دولت دونوں ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ خوف رہتا ہے کہ پتہ نہیں اس معیار پر پورے اتر بھی رہے ہیں یا نہیں جو خداتعالیٰ چاہتا ہے۔ کہیں اُس معیار سے نیچے رہ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے تو نہیں بن رہے؟ پس یہ باتیں ایسی ہیں جو پھرآگے باریک در باریک نیکیوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے حصول کے لئے نہ صرف ایک مومن کوشش کرتا ہے بلکہ ان میں بڑھنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور جب یہ عمل ہوں گے تو تب ایک انسان اس خدا کی پناہ میں رہے گا جو ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، جو قُدُّوْس ہے، جوسَلَام ہے، جو امن دینے والا ہے، جو مُہَیْمِنْ ہے، جو عَزِیْز ہے، جو ٹوٹے کام بنانے والا ہے، اور جو کبریائی والا ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم حاصل کرنا ہر مومن کا فرض ہے اور جب اس فہم کے حصول کی کوشش ہو گی تو تب ہی ایمان میں بھی مزید ترقی ہو گی۔
ایک روایت میں آتا ہے، علامہ طبرسی نے سورۃ الحشر کی آیت کے ضمن میں یہ حدیث بیان کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نے اپنے حبیب رسول اللہ ﷺ سے اللہ کے اسم اعظم کی بابت پوچھا جس پر آپ نے فرمایا سورۃالحشر کی آخری آیات کثرت سے پڑھنے کا التزام کرو۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ جس کسی نے بھی سورۃ الحشر کی آخری آیات رات یا دن کو تلاوت کیں اور اسی دن یا رات کو فوت ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہو گی۔
وہ آخری آیات یہ ہیں۔

ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّاھُوَ۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ۔ ھُوَا لرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ (الحشر:23)

اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے، وہی بے انتہا کرم کرنے والا خدا ہے اور وہی بار بار رحم کرنے والا خدا ہے۔ پھر اگلی آیت میں ہے۔ ۔

ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّاھُوَ۔ اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ۔ سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْن (الحشر:24)

وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے، پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔
پھر فرمایا

ھُوَاللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْا َسْمَآءالْحُسْنٰی۔ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَھُوَا لْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (الحشر:25)

اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا موجد ہے اور ہر چیز کو اس کی مناسب سی صورت دینے والا ہے، اس کی بہت سی اچھی صفات ہیں، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کی تسبیح کر رہا ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ صرف تلاوت ہی نجات کے سامان پیدا نہیں کرے گی۔ یقینا تلاوت بھی ایک اچھا کام ہے۔ اس کا حکم بھی ہے کہ قرآن کریم کی اچھے لحن میں تلاوت کی جائے۔ لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو عبادت انسان کا مقصد پیدائش بتایا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ان کی نمازیں ان پر لعنت ڈالیں گی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ دکھاوے کی عبادتیں ہیں یا دل سے ادا نہیں کی جارہیں۔ تو صرف تلاوت ہی نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی۔ صرف یہ آیات پڑھ لینا ہی نجات کا ذریعہ نہیں بنیں گی اگر ان پر غور نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھتے ہوئے، اس سے فیض پانے کی دعا نہ ہو، اس کے لئے کوشش نہ ہو، اپنی عبادتوں کے معیار بلند نہ ہوں، خالصتاً اس کے لئے ہو کر عبادت نہ کی جائے، اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ نیکیاں جو قرآن کریم میں درج کی گئی ہے، ان پر غور کرتے ہوئے ان کو بجا لانے کی طرف توجہ نہ کی جائے تب تک صرف آیتوں کا پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تو پھر خالص ہو کر اس کی تسبیح کی جائے، پھر یہ نیکی کے معیار بلند کرتی ہے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جو مَیں نے اقتباس پڑھا توجہ دلائی ہے۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی۔ پس اس غائب اور حاضر کو جاننے والے خدا جو عالم الغیب والشہادہ ہے کے سامنے جب مومن جاتا ہے تو یہ سمجھ کر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ ہر فعل جو ایک مومن کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے کرتا ہے، تو پھر ہی ان برکات سے مستفید ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں رکھی ہیں۔ جن کے بارے میں حدیث مَیں نے پڑھی کہ یہ آیات پڑھو تو اللہ تعالیٰ بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ پس صرف منہ سے الفاظ ادا کرنا کافی نہیں اگر یہ بغیر غور و فکر اور عمل کے ہوں۔ پس اس غور اور اس فکر اور اس مقام کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور اس کوشش کے ساتھ انسان یہ آیات پڑھے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے اور اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ ناپاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے۔ ایسا ایمان اسے حضرت مسیحؑ کی طرح صلیب پر بھی چڑھنے سے نہیں روکتا۔ وہ خداتعالیٰ کے لئے اور صرف خداتعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیمؑ کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے سے راضی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی رضا کو رضاء الٰہی کے ماتحت کردیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدور ہے اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور اسے صلیب پر سے بھی زندہ اتار لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح سلامت نکال لاتا ہے۔ مگر ان عجائبات کو وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایمان میں کامل کرے اور اسے بڑھاتا رہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے ہمیشہ نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہوئے اس کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے چلے جائیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا:
دو افسوسناک خبریں ہیں۔ ہمارے قادیان کے دو نوجوان گزشتہ دنوں وفات پا گئے تھے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک جامعہ احمدیہ قادیان کے طالب علم وسیم احمد تھے۔ ان کی عمر 21سال تھی جو قادیان کے قریب ایک نہر ہرچوال میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے۔ یہ بڑا تیرنے والا لڑکا تھا اور سمندر میں نہانے کی مہارت رکھتے تھے بلکہ لوگوں کو تیراکی سکھایا کرتے تھے۔ لگتا ہے نہر میں نہاتے ہوئے کہیں چھلانگ لگائی ہے تو سر کسی چیز سے ٹکرایا ہے جس کی وجہ سے بیہوشی ہوئی ہے اور پھر پتہ نہیں لگا۔ دو تین دن کے بعد لاش ملی۔ اس وقت کوئی دیکھ نہیں رہا تھا۔ فوری طور پر نکالا جاتا تو شاید۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی۔ عزیز موصی تھے اور بڑی دُور، لکش دیپ کے رہنے والے تھے۔ ان کو کھلے سمندر میں نہانے کی بڑی مہارت تھی۔
دوسرے طالب علم عزیز حافظ اطہر احمد جو مکرم حافظ مظہر احمد طاہر صاحب نائب افسر جلسہ سالانہ قادیان کے بیٹے تھے۔ 3؍ اگست کو بعد نماز عشاء حافظ صاحب اپنے بیٹوں کے ساتھ اپنے کسی عزیز کو لینے کے لئے بٹالہ گئے، جب واپس آرہے تھے تو قادیان سے کوئی 3-2 کلو میٹر پہلے سڑک پر ایک بڑا درخت تھا جو اچانک سڑک پر گر گیا اور گاڑی اس سے ٹکرائی، جس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ میں یہ وفات پا گئے۔ باقی بھی شدید زخمی ہو ئے لیکن یہ طالب علم جس کی 19سال عمر تھی وہاں فوری طور پر ان کی وفات ہو گئی اور یہ بھی حافظ قرآن تھے جیسا کہ مَیں نے کہا اور جامعہ احمدیہ میں اس سال داخل ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ دونوں نوجوانوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب مَیں ادا کروں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں