خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ستمبر 2008ء

یہ جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے دَور سے بعض جگہ جماعت گزر رہی ہے اس کے پیچھے بھی
فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا

کی آوازیں آرہی ہیں۔ خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دے گا۔ ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں۔ ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے، پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی۔

ہر شہید جب جاتا ہے تو یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ مَیں مرا نہیں بلکہ زندہ ہوں۔ اب تم بھی یاد رکھو کہ جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اور خداتعالیٰ کے ساتھ وفا کا یہی تعلق تمہیں بھی زندگی دے گا۔
(ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب اور سیٹھ محمد یوسف صاحب کی شہادتوں پر شہداء کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احبا ب جماعت کو نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 12؍ستمبر 2008ء بمطابق12؍تبوک 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَ َیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءوَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْء مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اُولٰٓـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْن۔ (البقرۃ:154تا157)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُن کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔
ان آیات کی تلاوت سے اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ آج جو مضمون مَیں بیان کرنے لگا ہوں وہ گزشتہ دنوں ہمارے بھائیوں اور بزرگوں کی جو شہادتیں ہوئی ہیں ان کے حوالے سے ہے۔ ان آیات میں صبر، دُعا، شہداء کا مقام، ابتلاؤں کی وجہ، اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی طرف توجہ اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام پانے والوں کا ذکر ہے۔ اور یہ باتیں ہی ہیں جو ایک مومن کے حقیقی مومن ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ان آیات میں سے جو پہلی آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان لانے والوں کی نشانی یہ ہے کہ مشکلات کے وقت وہ گھبراتے نہیں۔ بلکہ ہر مشکل ان کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھیرتی ہے اور خداتعالیٰ ہی کی طرف ایک مومن کی توجہ پھرنی چاہئے اور کسی تکلیف پر ایک مومن کا فوری ردّ عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃ کا مظاہرہ کرے۔ یعنی صبر اور دُعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگے۔ پس مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے ہوشیار کیا ہے کہ تمہیں مشکلات آئیں گی، تکلیفیں پہنچیں گی لیکن ایسی صورت میں تمہارے ایمان کی پختگی کا حال یہی ہے کہ ایک تو صبر سے ان کو برداشت کرنا ہے، کسی بے چینی اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا، اللہ تعالیٰ سے کسی قسم کا شکوہ نہیں کرنا۔ دوسرے ان کے دُور کرنے کے لئے انسانوں کے آگے نہیں جھکنا بلکہ صرف اور صرف خداتعالیٰ کے آگے جھکنا ہے۔ اُسی سے دعا مانگنی ہے۔ اپنے ایمان میں استقامت اور ثبات قدم کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام پر استقلال سے قائم رہنا ہے جو خداتعالیٰ نے مومنوں کے سپرد کیا ہے اور وہ کام ہے خداتعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا۔ وہ کام ہے آنحضرت ﷺ کے کام کو دنیا میں پھیلانا۔ وہ کام ہے دنیا کو زمانے کے امام کی جماعت میں شامل کرکے حقیقی اسلام سے روشناس کرانا۔ اس کے لئے ہو سکتا ہے کہ تمہیں جان اور مال کے قربان کرنے کے امتحانوں سے گزرنا پڑے اور روحانی اذیتوں کا بھی سامنا کرنا پڑے۔ روحانی اذیتیں کیا ہیں ؟ ہمارے کلمہ کہنے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ نمازیں پڑھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ علاوہ دوسری اذیتوں کے جو جسمانی اور مالی اذیتیں ہیں، یہ روحانی اذیتیں بھی ہیں تو ان سب اذیتوں سے اس کام کے لئے گزرنا پڑے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلانے اور ذہنی طور پر مومن کو ان تکلیفوں اور اذیتوں کے لئے تیار کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم صبر، حوصلے اور دعاؤں کے ساتھ ان امتحانوں سے گزرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ پھر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا، تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ وہ ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور انجام کار فتح ان صبر کرنے والوں کی ہی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جان کی قربانی کرنے والوں کے مقام کے بارے میں فرماتا ہے کہ دین کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کا خداتعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑا مقام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن تو تمہیں اس لئے قتل کرتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کرکے تمہاری جان لے کر عددی لحاظ سے بھی تمہیں کم اور کمزور کر دے۔ لیکن یاد رکھو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو ایک شخص یا چند اشخاص کا قتل جو خدا کے دین کے لئے ہو، جماعتوں کو مُردہ نہیں کرتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جو دونوں جہاں کا مالک ہے اگر ایک انسان یہاں مرتا ہے تو دوسرے جہان میں جب زندگی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ تو اللہ فرماتا ہے کہ ایک قتل سے جماعتیں مردہ نہیں ہو جایا کرتیں۔ بلکہ ایک شخص کی موت کئی اور مومنوں کی زندگی کے سامان کر جاتی ہے۔ ایک شہادت مومنوں کو خوفزدہ نہیں کرتی بلکہ ان میں وہ جوش ایمانی بھر دیتی ہے کہ ایمانی لحاظ سے کئی کمزوروں کوسستیوں سے نکال کر باہر لے آتی ہے۔ ایمان میں وہ زندگی کی حرارت پیدا کر دیتی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی بجائے کئی اور سینہ تان کر دشمن کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اے نادانو! تم سمجھتے ہو کہ ایک شخص کو مار کر تم نے ہمیں کمزور کر دیا ہے؟ تو سنو اس ایک شخص کی موت نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہے جس نے ہمیں وہ زندگی عطا کی ہے، ہمیں اپنی قربانیوں کے قائم کرنے کا وہ فہم عطا کیا ہے جس سے ہم ایک نئے جوش اور جذبے سے دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں جب ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو شہید کیا گیا تو مَیں نے یہ نظارہ بھی دیکھا۔ زبانی بھی اور تحریری طور پر بھی میرے سامنے یہ اظہار کیا گیا کہ اگر فلاں جگہ جہاں ہم رہتے ہیں خون کی ضرورت ہے یا کسی بھی خطرناک جگہ پر جہاں کسی احمدی کے خون کی قربانی کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنا خون پیش کریں۔ پس یہ قربانی کا جذبہ اس لئے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ دشمن کو بتائیں کہ اللہ کے آگے جھکنے والوں اور ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنے والوں کو موتوں کا خوف متاثر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسے مرنے والوں کے لئے تو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ دائمی زندگی پانے والے ہیں۔
پس ایک تو خداتعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والا اپنے پیچھے رہنے والوں کے لئے، مومنوں کے لئے، ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بن کر ان کو زندہ کر دیتا ہے۔ جو اُس کے درجات میں بلندی کی بھی دعا کرتے ہیں اور جو دائمی زندگی ہے اس میں اُس کے درجات بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہی ایک مومن کی زندگی کا مقصد ہے کہ اس دنیا میں وہ کام کرے جس سے اخروی زندگی میں فیض پائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا واضح طور پر یہ اعلان بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں مرنے والا مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے کیونکہ وہ فوری طور پر وہ مقام پا لیتا ہے جس سے اسے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہر انسان نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے لیکن وہ درجہ جو اعلیٰ حیات کا درجہ ہے، ایک دم میں ہی ہر ایک کو نہیں مل جائے گا۔ ہر شخص جو مرنے والا ہے ایک درمیانی حالت میں اس کو رہنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے شہید کے بارے میں فرمایا کہ اسے فوری طور پر اعلیٰ حیات مل جاتی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید کی چھ خصوصیات ہیں۔
* نمبر ایک یہ کہ اسے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے وقت ہی بخش دیا جائے گا۔
* دوسرے وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے گا۔
* تیسرے اسے قبر کے عذاب سے پناہ دی جائے گی۔
* چوتھے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔
* پانچویں اس کے سر پر ایسا وقار کا تارج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔
* نمبر چھ، اور اسے اپنے 70 اقارب کی شفاعت کا حق دیا جائے گا۔
(سنن ترمذی۔ کتاب فضائل الجہاد۔ باب فی ثواب الشہید)
پس یہ شہید کا مقام ہے۔ اَحْیَاء جو حَیّ کی جمع ہے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس کی زندگی کا عمل ضائع نہیں جاتا۔ پس شہید کا قتل اس اعلیٰ حیات کو فوری پا لیتا ہے جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ جس کے پانے کے لئے ہر مرنے والا ایک درمیانی عرصے سے گزرتے ہوئے پہنچتا ہے اور وہ عر صہ ہر ایک کی روحانی حالت کے لحاظ سے ہے۔ کوئی اسے جلد حاصل کر لیتا ہے اور کوئی دیر سے حاصل کرتا ہے۔ اَحیاْءکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس کا بدلہ لیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ دشمن کو فرماتا ہے کہ تم نے ایک زندگی ختم کرکے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے بڑا ثواب کما لیا اور ہم نے جماعت کو کمزور کر دیا لیکن یاد رکھو کہ مرنے والے نے شہادت کا رتبہ حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب تو پا ہی لیا ہے لیکن اس کی شہادت بغیر بدلے کے نہیں جائے گی۔ پس غور سے سن لو کہ ع

خوں شہیدان ملت کا اے کم نظر رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا

آج بھی ہر شہید کے خون کے ایک ایک قطرے کا خداتعالیٰ خود انتقام لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْن۔

یہ دنیا والے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ تمہاری عقل تو ایسی ماری گئی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھنے کے، باوجوداپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے، ایسی حرکتیں کرکے تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء:94)

اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اسے اپنے سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر دے گا۔
اور مومن کی تعریف آنحضرت ﷺ نے ایک جگہ بیان فرما دی۔ ایک روایت میں آتا ہے، اسامہؓ بن زید اور ایک انصاری نے ایک موقع پر ایک کافر کا تعاقب کیا جب اس کو پکڑ کر مغلوب کر لیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔ اسامہؓ کہتے ہیں کہ میرے انصاری دوست نے تو اس کو کچھ نہیں کہا وہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے رک گیا لیکن میں نے اسے قتل کر دیا۔ واپسی پر جب آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اے اسامہ! کلمہ توحید پڑھ لینے کے بعد بھی تو نے اسے قتل کر دیا۔ کیا تو نے اس کے لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا۔ اور بار بار آپؐ نے یہ الفاظ دوہرائے۔ اس پرمَیں نے عرض کی یا رسول اللہ! اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تُو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا تلوار کے خوف سے کہا ہے؟۔ اس پر مَیں نے خواہش کی کہ آج سے پہلے مَیں مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لَاالہ الّا اللہ)
پھر ایک روایت میں ابی مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ تو اس کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں۔ باقی اس کا حساب اللہ کے ذمّہ ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایما ن۔ باب الامر ستقبال الناس حتی یقولوا الَاالہ الّا اللہ)
اب یہ جو نام نہاد علماء ہیں، مسلمانوں کو غلط رنگ میں ورغلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

کے ایک حصّہ پر تو احمدی ایمان لاتے ہیں، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو کہتے ہیں لیکن

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

پر ایمان نہیں لاتے۔ دوسرے حصے کی نفی کرتے ہیں، اس لئے یہ واجب القتل ہو گئے۔ کیا ان لوگوں نے ہمارے دلوں میں بیٹھ کر دیکھا ہے؟ یا دل چیر کر دیکھا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟
جو فہم و ادراک خاتم النبییّن کا اور حضرت محمدر سول اللہ ﷺ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے، ان مولویوں کو تو اس کا کروڑواں حصہ بھی ادراک نہیں ہے اور کہتے یہ ہمیں ہیں کہ ہم ختم نبوت کے قائل نہیں ہیں اس لئے واجب القتل ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس مقام ختم نبوت سے ہمیں آشنا کرایا ہے وہ یہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘’حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی کس قدر شان بزرگ ہے اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجہ پر روشن تاثیریں ہیں جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے، کسی کو عارف کے درجہ تک پہنچاتا ہے، کسی کو آیت اللہ اور حجۃ اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامدالٰہیہ کامورد ٹھہراتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر1صفحہ271-170۔ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر 1۔ مطبوعہ لندن)
پھر آپ فرماتے ہیں :’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیّین جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ اے ہمارے خدا ! اس پیارے نبی پر وہ رحمتیں اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘۔ (اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ308مطبوعہ لندن)
پھر آپؑ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں فرمایا کہ:
‘’اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں ‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 141مطبوعہ لندن)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر میں آنحضرت ﷺ کا یہ ہے مقام اور آج کے یہ فتنہ پرداز اور بدطینت نام نہاد علماء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو احمدی آخری نبی نہیں مانتے، اس لئے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور واجب القتل ہیں اور میڈیا پر اس کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ وہ کام جو یہ کر رہے ہیں اس کی نہ خدا ان کو اجازت دیتا ہے اور نہ خدا کا رسول ان کو اجازت دیتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ ان کے نام پر ظلم کیا جارہا ہے۔
پس ہمیں تو اس رسول کی پیروی نے نشانوں سے انعام یافتہ کیا ہوا ہے۔ اب بھی اپنی فتنہ پردازیوں اور احمدیوں پر ظلم سے باز آجاؤ، ورنہ یاد رکھو کہ

وَاُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ (الاعراف:184)

کا نشان جیسے کل ظاہرہوا تھا وہ آج بھی ظاہر ہو سکتا ہے اور ہو گا۔
پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل کو اپنی فتح نہ سمجھو۔ ہاں ہم کیونکہ ایمان میں پختہ ہیں، زمانے کے امام کو مان چکے ہیں جسے آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع نے آپ ﷺ کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے، آپؐ کے غلام کی حیثیت سے نبی کا مقام دے کر بھیجا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر اور حوصلے سے تمہارے ظلموں کو برداشت کر رہے ہیں کہ یہی اس زمانے کے امام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور ہم سے توقع رکھی ہے۔ اور یہی
اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ خوف اور بھوک اور جان و مال کے نقصان سے تمہیں آزمایا جائے گا اور جب تم اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلو گے تو تمہیں مبارک ہو کہ تم

بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ

کے گروہ میں داخل ہو گئے ہو۔ ان صبر کرنے والوں میں شامل ہو گئے جن کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی بشارتیں ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیاوی نقصانات یا جانی نقصانات کیا دکھ پہنچا سکتے ہیں۔ یہ تکلیفیں جہاں ہماری روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں جماعتی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ پس ہم احمدیوں کو بھی ان مصائب اور تکلیفوں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہو اور جب بھی مشکلات اور مصائب آئیں تو تمہارے منہ سے انتہائی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ الفاظ نکلیں کہ

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

کہ ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور جب ہم یہ کہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے والے ہوں گے۔ ہمیشہ ہدایت پر قائم رہیں گے۔ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے رہیں گے اور آخری فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے۔ انشاء اللہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’خداتعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت دکھاتے ہیں ‘‘۔
پس ہمارا صبر اور استقامت ہے جو

فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا

کی بشارت لے کر آئے گا۔ ہماری مخالفت اگر ہوتی ہے توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے۔ ہمیں دکھ دئیے جاتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے۔ ہمارے مالوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے۔ ہمارے پیاروں کو شہید کیا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے۔ پس اگر ہم استقامت دکھائیں گے، ابتلاؤں سے کامیاب ہو کر گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس وعدے کے بھی حقدار ٹھہریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو الہامات میں کئی دفعہ فرمایا کہ

اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (الفتح:02)

کہ مَیں ایک عظیم فتح تجھے عطا کروں گاجو کھلی کھلی فتح ہو گی۔ پس قوموں کی زندگی میں ابتلاء اور امتحان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کو دکھانے کے لئے آتے ہیں، نشانات ظاہر کرنے کے لئے آتے ہیں۔ پس صبر اور دعا سے اس کی مدد مانگتے چلے جائیں۔
یہ جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے دَور سے بعض جگہ جماعت گزر رہی ہے اس کے پیچھے بھی

فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا

کی آوازیں آرہی ہیں۔ خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دے گا۔ ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں۔ ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے، پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی۔ دشمن کی پکڑ کے نظارے ہم نے پہلے بھی دیکھے ہیں اور آج بھی اللہ تعالیٰ کا یہ کلام ہمیں تسلی دلاتا ہے کہ

فَاَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَمَاکَانَ لَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ (المومن:22)

پس اللہ نے ان کو بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔
پس جب ماضی میں اللہ تعالیٰ پکڑتا رہا ہے تو آج بھی وہی زندہ خدا ہے جو ہمارا خدا ہے، جو ان کو ان کا درد ناک انجام دکھائے گا۔ پس اللہ ہمارا پیارا خدا سچے وعدوں والا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے یقینا پورے کر ے گا جیسا کہ ہم پورے ہوتے دیکھتے آئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کی تسلی کے لئے فرماتا ہے اور وہ مختلف وقتوں میں نظارے دکھاتا رہتا ہے۔ ایک ہی بات کئی کئی دفعہ دکھاتا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی دکھاتا رہے گا۔ پس ہماراکام یہ ہے کہ ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ اپنے ان بھائیوں کی خوبیوں کو کبھی مرنے نہ دیں جنہوں نے جماعت سے وفا کے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے اپنی جانیں خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں۔
اِن شہداء کا اب مَیں مختصراً ذکر بھی کروں گا۔ پہلے شہید، ہمارے بہت ہی پیارے بھائی ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی ہیں۔ ان کی شہادت 27مئی کے بعد پہلی شہادت ہے۔ یعنی اِس عظیم شہید نے بھی اپنی جان خداتعالیٰ کی راہ میں دے کر یہ ثابت کر دیا کہ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی میں بھی ہمارے ایمانوں میں وہی پختگی ہے۔ جماعت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہم اسی طرح تیار ہیں جس طرح گزشتہ 100 سال یا اس سے زائد عرصے میں جماعت قربانیاں دیتی چلی آئی ہے۔
یہ شہید جن کی عمر صرف 46سال تھی۔ اپنی جوانی کی شہادت سے یقینا نوجوانوں میں بھی ایک روح پھونک گئے ہیں اور یہ سبق نوجوانوں کے لئے بھی اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ دیکھنا جان جائے تو چلی جائے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت پر حرف نہ آنے دینا۔ خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا۔ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب بڑی پیاری طبیعت کے مالک تھے۔ اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ میرا ذاتی طور پر پہلے بھی ان سے تعلق تھا۔ سندھ کے سفروں میں اور پھر ناظر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی پرانا تعلق تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس خاندان سے ہی ہمارا پرانا تعلق تھا۔ ان کے والد صاحب بھی جب ربوہ آتے تھے تو ہمارے والد صاحب کے پاس ضرور آتے اور ہمارے گھر میں پھر لمبی مجلسیں لگا کرتی تھیں، خاص طور پر شوریٰ کے بعد، جہاں جماعتی معاملات بڑی دیر تک ڈسکس (Discuss) ہوتے رہتے تھے۔ ان کے والد کا نام ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی تھا۔ ان کا بھی جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت سے گہرا تعلق تھا۔ خلافت سے وفا کا بڑا گہرا تعلق تھا۔ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے والدصاحب کی ایک جھلک مَیں بتا دیتا ہوں۔ وہ بھی تقریباً 40سال تک امیر ضلع میرپور خاص اورڈویژنل امیر حیدر آباد رہے۔ جب پاکستان بنا ہے تواس کے بعد ہجرت کرکے جب عبدالرحمن صدیقی صاحب پاکستان آئے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مستقبل کے بارہ میں رہنمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ میرپور خاص سندھ چلے جائیں اور وہیں سیٹ ہو جائیں وہاں ہماری سٹیٹس بھی ہیں، ان کو آپ کی مدد حاصل رہے گی اور آپ کو ان کا تعاون حاصل رہے گا۔ چنانچہ وہ بغیر کسی چوں چرا کے وہاں چلے گئے، جا کر آباد ہو گئے اور بڑے اخلاص سے جماعت کی وہاں خدمت کرتے رہے۔
یہ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب جو شہید ہوئے ہیں یہ ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب کی اکلوتی اولادتھے اور شادی کے گیارہ سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ سندھ میڈیکل کالج سے انہوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ پھر 1988ء میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں سے الٹرا ساؤنڈ کی ٹریننگ لی۔ پھر انٹرنل میڈیسن میں فلاڈ یلفیا کی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایشن کیا اور امریکن بورڈ آف انٹرنل میڈیسن کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر منان صدیقی صاحب نے وہاں ہی ملازمت کا پروگرام بنایا۔ لیکن آپ کے والد کو جب پتہ لگا کہ میرے بیٹے نے وہیں رہنے کا پروگرام بنایا ہے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ آپ کو اس علاقے کی خدمت کے لئے میڈیکل کی مَیں نے تعلیم دلوائی ہے جہاں حضرت مصلح موعود نے مجھے فرمایا تھا کہ بیٹھ جاؤ اور لوگوں کی خدمت کرو۔ ان غریب لوگوں کی خدمت کے لئے میں نے تمہیں میڈیکل کروایا ہے اور امریکہ بھیج کے بھی پڑھایا ہے اور تم نے بھی یہاں ہی خدمت کرنی ہے اور یہی میری خواہش ہے تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے تو اپنے والد صاحب کی خواہش کو انہوں نے پورا کیا اور امریکہ سے فوراً چھوڑ کر میرپور خاص تشریف لے آئے اور یہاں خدمت کا سلسلہ شروع کیا۔
ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کے نانا ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کی والدہ بھی حیات ہیں۔ ان کا نام سلیمہ بیگم ہے۔ نیک، تہجد گزار، دعائیں کرنے والی، بڑی شفیق، مہربان، غریبوں کا خیال رکھنے والی خاتون ہیں۔ 37سال انہوں نے بھی صدر لجنہ میرپور خاص کے طور پر خدمات انجام دیں اور لجنہ کی تربیت میں ان کابھی کردار ہے۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود بڑے حوصلے سے انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی اور اسے رخصت کیا۔ یہ اس بوڑھی والدہ کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بعد میں بھی برداشت حوصلہ اورصبر دے۔
ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کو مختلف شعبہ جات میں جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ 95ء سے وفات تک 13سال آپ نے بطور امیر میرپور خاص کے فرائض سرانجام دئیے۔ اس کے علاوہ اس سے پہلے بھی سیکرٹری امور عامہ جماعت میرپو ر خاص رہے۔ قائد علاقہ خدام الاحمدیہ رہے۔ نگران صوبہ سندھ مجلس خدام الاحمدیہ تھے اور 1998ء میں ان کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے ہسپتال بھی سنبھالا۔ چھوٹا کلینک تھا اس کو مکمل ہسپتال بنا دیا جس میں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھرپار کرکے علاقے نگر پارکر میں جو بہت دور دراز ہندوؤں کا اور غریبوں کا علاقہ ہے ہر ماہ ذاتی طور پر میڈیکل کیمپ لگاتے اور مریضوں اور ناداروں اور ضرور ت مندوں کو طبّی امداد پہنچانے کے لئے خود تشریف لے جاتے تھے۔ ہزاروں مریض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاتھ سے شفایاب ہوئے۔ ان کی شہادت پر غریب امیر سب رو رہے تھے۔ بہت دور دور سے ان کو دیکھنے کے لئے لوگ آئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کے اس غلام کو دستِ مسیحائی اور شفا عطا فرمائی ہوئی تھی جس سے وہ غریبوں کی خدمت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شفا کا ذریعہ بنایا تھا۔ میرپور خاص کے علاوہ بھی پورے صوبہ سندھ میں ان کی شہرت اور نیک نامی تھی۔ جوانی میں ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا نیک نام حاصل کر لیا تھا۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں یکساں مقبول تھے۔ بڑے ہر دلعزیز تھے۔ دعوت الی اللہ اور تبلیغ کا بڑا شوق تھا اور مختلف و فود کو مرکز میں بھی لے کر آتے تھے اور اپنی نگرانی میں بھجواتے بھی رہتے تھے۔ گزشتہ پانچ سال میں مَیں نے دیکھا کہ ہر دفعہ جب بھی کوئی دعوت الی اللہ کا پروگرام ہوتا، جانے سے پہلے دعا کے لئے لکھتے تھے کہ کامیابی ہو اور
اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرماتا تھا۔ اِن کی دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ دعوت الی اللہ بھی تھی کیونکہ سندھ کے وڈیروں، زمینداروں کو، غریبوں کوبے دھڑک تبلیغ کرتے تھے۔ الغرض ہر جگہ تبلیغ کا ماحول پیدا کر دیا کرتے تھے۔ تو دشمن نے تو اپنی طرف سے ان کو شہید کرکے تبلیغ کے ایک وسیلے کو ختم کرنا چاہا ہے۔ لیکن نادان یہ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر عبدالمنان اللہ کی راہ میں قربان ہو کر اپنے جیسے کئی اور منان پیدا کر جائے گا انشاء اللہ۔ ڈاکٹر صاحب کی شادی اپنی ماموں زاد امۃ الشافی صاحبہ سے ہوئی جو امریکن نیشنل ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، بڑی بیٹی 18 سال کی ہے اس نے ایف ایس سی کی ہے اور ایک بیٹا 13سال کا ہے۔ ان کی اہلیہ بھی میرپورخاص کی صدر ہیں۔ وقف جدید کا جو ہسپتال نگرپارکر کے علاقہ مِٹھی میں ہے اس میں بھی آپ کی بڑی نمایاں خدمات ہیں اور فری میڈیکل کیمپس لگاتے رہے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لئے قائم کی گئی النور سوسائٹی کے بھی آپ صدر تھے۔ صدر انجمن کی منصوبہ بندی کمیٹی کے ممبر اور مجلس تحریک جدید کے رکن کا بھی اعزاز حاصل تھا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا میرا ان سے ایک پرانا تعلق تھا اور ان کے والد کا بھی ہمارے والد سے تعلق تھا اور ان کے نانا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے معالج تھے ان سے بھی ہمارا تعلق تھا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قصر خلافت میں رہتے تھے۔ ان کے پاس آنا جانا تھا۔ تو اس سارے خاندان سے ایک خاندانی تعلق تھا۔
ڈاکٹر منان صاحب ان انسانوں میں سے تھے جن کے چہرے پر کبھی گھبراہٹ کے آثار نہیں آتے تھے، جیسے مرضی حالات ہو جائیں۔ ضلع میرپور خاص گزشتہ کئی سال سے مولویوں کا ٹارگٹ رہاہے بلکہ پورا سندھ ہی رہا ہے لیکن زیادہ تر اس علاقے میں۔ تو بڑے عمدہ طریق پر انہوں نے جماعت کو، اپنے ضلع کی جماعت کو سنبھالا۔ بلکہ ساتھ کے ضلعوں کی بھی اپنے تعلقات کو استعمال میں لا کر مدد کرتے تھے۔ لیکن کبھی انہوں نے اپنے تعلقات کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں کیا۔ استعمال کرتے تو جماعت کے مفاد کے لئے ہی استعمال کرتے تھے۔ پھر دن ہو یا رات جب کسی نے مدد کے لئے پکارا مسکراتے ہوئے اس کی مدد کی۔ ہمیشہ مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگتی تھی کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ یہ صرف مَیں نے ہی نہیں کہا بلکہ ہر غریب اور امیر نے اس کا اظہار کیا ہے۔ عاجزی انتہا کی حد تک تھی۔ کوئی زعم نہیں تھا کہ مَیں امریکہ سے پڑھا ہوا ہوں، ہسپتال کا مالک ہوں، ضلع کا امیر ہوں، مرکزی کمیٹیوں کا ممبر ہوں، تو کسی بھی قسم کا فخر نہیں تھا۔ عموماً امراء د عوت الی اللہ اور میڈیکل کیمپس میں خود نہیں جاتے لیکن ڈاکٹر صاحب مرحوم جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ہر موقع پراگر کوئی اور جماعتی مصروفیت نہیں ہوتی تھی تو خود جایا کرتے تھے۔ کسی نے میرے پاس ان کے بارے میں بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے جو سندھ سے آئے ہوئے ایک احمدی تھے کہ وہ سندھ میں داعیین الی اللہ کے امیر تھے۔ غریبوں کی مدد اس حد تک کرتے تھے کہ نہ صرف ان کا مفت علاج کرتے تھے بلکہ اپنے پاس سے بھی کچھ دے دیا کرتے تھے۔ ان کی وفات پر جہاں امراء، وڈیرے اور زمیندار افسوس کے لئے آئے وہاں غریب عورتیں، مرد بھی عجیب جذباتی کیفیت میں ڈاکٹر صاحب کا ذکر کرتے رہے۔ خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق بے انتہا تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ سرتاپا خلافت کے جاں نثار اور فدائی تھے اور میرے بہترین ساتھیوں میں سے تھے۔ ان پر مجھے اتنا اعتماد تھا کہ مَیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ ان کو کوئی کام کہوں، کوئی رپورٹ کے لئے بھیجوں اور اس میں کسی بھی طرح کی بے انصافی ہو گی یا تقویٰ کے بغیر کوئی بات کر جائیں گے۔ انتہائی متقی انسان تھے۔ باوجود اس کے کہ انہیں بڑے عرصہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں، بغیر کسی خوف کے اپنے کام میں مگن رہے۔ اگر کسی نے توجہ دلائی بھی، ان کو چند دن پہلے ہی کسی عزیز نے توجہ دلائی تھی کہ خیال کیا کریں تو ہنس کر ٹال دیا کہ دیکھا جائے گا جو ہونا ہو وہ ہو جائے گا۔
جماعت کے ایک بہترین کارکن تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے، شہید ہو کر وہ درجہ تو پا گئے ہیں اب ان کے درجات اللہ تعالیٰ بڑھاتا چلا جائے۔ ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے، انہوں نے بھی بڑے حوصلے سے اپنے خاوندکی شہادت کی خبرکو سنا اور بہترین صبر کا نمونہ دکھایا۔ اپنی ساس جو اُن کی پھوپھی بھی ہیں انہیں بھی سنبھالا اور اپنے بچوں کو بھی سنبھالا۔ امریکہ میں پلنے بڑھنے کے باوجود اپنے خاوند کے ساتھ کامل وفا سے ساتھ دیا اور جماعتی کاموں میں کبھی روک نہیں بنتی رہیں، بلکہ خدمت کرتی رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی لمبی زندگی کے ساتھ بچوں کی خوشیاں دکھائے۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات پر مختلف غیر از جماعت لوگوں نے بھی اظہار خیال کیا۔ ان کے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔
پہلے تو ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین صاحب کا ایک بیان جو یہیں لندن میں ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طبّ کے مقدس پیشے سے وابستہ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کا قتل میرپور خاص کے شہریوں کا بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سفاک قاتلوں نے ہزاروں مریضوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان، مذہب اور عقیدہ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے والے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو قتل کرکے ثابت کر دیا کہ یہ عناصر مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے وحشیانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قتل کی واردات سندھ میں مذہبی انتہا پسندی اور طالبانائیزیشن کی سازشوں کا تسلسل ہے۔ جو عناصر مذہب، عقیدہ اور فقہ سے اختلاف کی بنا پر بے گناہ شہریوں کو قتل کر رہے ہیں وہ انسانیت کے کھلے دشمن ہیں۔
پھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میرپور خاص کے صدر نے بیان دیا کہ ڈاکٹر منان کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔
لیکن یہ جو آج کل نام نہاد علماء ہیں جو اپنے آپ کو قرآن کریم کا عالم سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ خداتعالیٰ نے تو قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ایسے شخص کا قتل جس نے نہ توقتل کیا ہو اور نہ ملک میں فساد پھیلایا ہو، اس کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کا وجود ایسا ہی وجود تھا۔ جو ہر لمحہ انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوتا تھا اور غیر بھی اس کا اظہار کر رہے ہیں۔
پھر اور بہت سارے ڈاکٹر صاحبان کی ایک ٹیم اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز نے اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے بہت قریبی، پیارے اور ہمدرد تھے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ یہ قومی نقصان ہے۔ ایسے فرشتہ نما انسان صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتے۔
پھر بڑے بڑے زمیندار طبقے سے لوگ آئے۔ نام تو اس وقت نہیں لے سکتا۔ ان کا اظہار یہی تھا کہ یہ آپ کی جماعت کا نقصان نہیں بلکہ یہ ہم سب کا نقصان ہے۔
پھر بعض سماجی شخصیات نے اظہار کیا کہ وہ غریبوں کے ہمدرد، بے سہاروں کے سہارا تھے آپ کی مسکراہٹ لوگوں کے دل جیت لیتی تھی۔ آپ کا اخلاق ناقابل بیان ہے۔
پھر اس علاقے کے وکلاء نے بیان دیا کہ میرپور خاص ایک بہترین ڈاکٹر اور محسن سے محروم ہو گیا ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔
نومبائعین نے اظہار کیا کہ غریبوں کے ہمدرد تھے۔ ہم سب کو یتیم کرکے چلے گئے۔ ان کے ہسپتال کے اپنے عملہ کا اظہار یہ ہے کہ غریب پرور تھے۔ غریبوں کے ساتھ بہت ہمددری کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہمارا بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔
پھر سرکاری افسران ڈی ایس پی، ڈی پی او، ڈی آئی جی وغیرہ جو آئے ان کا اظہار یہ تھا کہ شہید کے ساتھ ہمارا ذاتی تعلق تھا وہ عظیم انسان تھے۔ ایک معروف سیاسی شخصیت نے کہا کہ یہ ڈاکٹر منان صدیقی کا قتل نہیں بلکہ پور ے میرپور خاص کا قتل ہے۔
پھر دوسرے ہمارے شہید سیٹھ محمد یوسف صاحب ہیں۔ یہ بھی ضلع نواب شاہ کے امیر جماعت تھے۔ گو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بڑے اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کاجذبہ رکھنے والے تھے۔ 1956ء میں نواب شاہ میں آکر آباد ہوئے۔ 1962ء میں نواب شاہ کے صدر جماعت بنے۔ پھر آپ کی صدارت کے دوران وہاں ایک بڑا ہال ’’محمود ہال‘‘ بنایا گیا، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس کا نام محمود ہال رکھا تھا۔ دو سال قائد ضلع بھی رہے اور پھر مسلسل 14سال قائد علاقہ سکھر ڈویژن رہے۔ 1993ء میں آپ ضلع نواب شاہ کے امیر مقرر ہوئے اور وفات تک اسی عہدے پر تھے۔ بہت ملنسار، مہمان نواز، خدمت خلق کرنے والے، غرباء کا خاص خیال رکھنے والے، اپنے پرائے کا درد رکھنے والے اور وہاں بڑے ہر دلعزیز تھے اور ہمیشہ ہر شخص کو پہلے سلام کرتے اور بڑی عزت و احترام سے پیش آتے۔ کوشش یہ کرتے تھے کہ کسی کی دلشکنی نہ ہو۔ واقفین زندگی کا خاص احترام کرنا اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا ان کی خاص بات تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیٹھ صاحب موصی تھے۔ گزشتہ دنوں اپنی امارت میں انہوں نے ایک اور بڑی مسجد اور ہال’’ایوان طاہر‘‘ کے نام سے نواب شاہ میں تعمیر کرایا۔ دل کے مریض ہونے کے باوجود بڑی محنت کیا کرتے تھے۔ بلکہ کسی نے مجھے لکھا کہ ان کا گھر دوسری منزل پر تھا، نیچے دکانیں وغیرہ تھیں۔ ڈاکٹر نے ان کو منع کر دیا کہ سیڑھیاں چڑھنی اور اترنی نہیں۔ اب یہ گھر تو بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ جماعت کا کام کس طرح کرتے؟قریب ہی ان کے گھرسے تھوڑے فاصلے پر مسجد تھی اور وہاں ہی امیر کا دفتر تھا۔ پاکستان میں لفٹ کا انتظام بھی نہیں ہوتا، نہ یہاں کی طرح معذوروں کے لئے جس طرح کرسی کا انتظام ہو جاتا ہے، آٹو میٹک کرسی یا الیکٹرانک کرسی تھی جو سیڑھیوں کے ساتھ لگ جاتی ہے۔ تو انہوں نے اس کا طریقہ یہ نکالا کہ ایک کرسی نما چھوٹی پیڑھی لے کر اس کے ساتھ رسیاں باندھ دیں اور اپنے گھر والوں، نوکروں کو کہہ کر روزانہ نیچے اتر جاتے تھے اور شام کو اس پر بیٹھتے تھے اور اسی سے اوپر کھینچ لئے جاتے تھے۔ اس طرح سارا دن جماعت کا کام کرتے رہتے تھے۔ بڑے انتھک اور جماعت کی خدمت کرنے والے تھے۔ تو یہ ہیں جماعت کے خدمت کرنے والے کارکنان۔
ہر شہید جب جاتا ہے تو یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ مَیں مرا نہیں بلکہ زندہ ہوں۔ اب تم بھی یاد رکھو کہ جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اور خداتعالیٰ کے ساتھ وفاکا یہی تعلق تمہیں بھی زندگی دے گا۔ ان کی اہلیہ کی عمر 60 سال ہے اور سیٹھ صاحب کی عمر تقریباً 70سال تھی اور ان کے بچے ہیں، ایک ڈاکٹر ہیں، ایک کاروبار کرتے ہیں، ایک وکیل ہیں اور ایک بیٹے کی وفات ہو چکی ہے، ان کی بیٹی راولپنڈی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے، مغفرت کا سلوک فرمائے۔
اس کے علاوہ ان دو زخمیوں کے لئے بھی دعا کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ایک تو شیخ سعید احمد صاحب ہیں جو پہلی رمضان کو یا ایک دن پہلے چاند رات کو کراچی میں ان کو اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور دوسرے ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کے ساتھ جو دوسرے احمدی گارڈ عارف صاحب زخمی ہوئے تھے۔ یہ بھی شدید زخمی ہیں اور یہ دونوں مریض کافی کریٹیکل (Critical) حالت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان کو صحت دے۔
رمضان میں ان نام نہاد مسلمانوں کا گروہ ثواب کمانے میں اور زیادہ تیز ہو جاتا ہے اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا کیا انجام بتا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور قوم کو بھی ان انسانیت دشمن لوگوں سے محفوظ رکھے۔ ان دنوں میں بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں