خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍اکتوبر 2008ء

اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اپنے فضل کی بارش کا ایک قطرہ آج اس مسجد کی صورت میں ہم پر گرایاہے۔
احمدی مسلم خواتین کی 1لاکھ یورو (19کروڑ روپے) کی عظیم الشان مالی قربانیوں سے برلن(جرمنی) میں تعمیر ہونے والی پہلی احمد یہ مسجد ’’مسجد خدیجہ‘‘ کا مبارک افتتاح۔ ابتدائی مبلغین اور خواتین کی مالی قربانیوں کا تحسین بھرا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والیوں کو بے انتہا جزا دے۔ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔
احمدی عورتوں کوخاص طورپر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو قربانی انہوں نے کی ہے اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب اس سے ہمیشہ فیض اٹھاتے چلے جانے کی کوشش کریں گی اور وہ کوشش تبھی کامیاب ہوگی جب اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں گی جس کی تلقین خداتعالیٰ نے ہمیں فرمائی ہے اور ان کا مسجد سے تعلق جوڑیں گی۔
آپس میں محبت، پیار کے تعلقات اس طرح بڑھ سکتے ہیں جب شکووں، شکایتوں اور نفرتوں کی تمام دیواریں گرا دی جائیں۔ ذاتی لالچ اور مفاد ہمیں ایمان میں کمزور ی دکھاتے ہوئے دوسروں کے حق مارنے پر مائل نہ کرے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 17؍اکتوبر2008ء بمطابق17؍ اخاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد خدیجہ۔ برلن (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(سورۃالتوبۃ:18)
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءبَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ اُوْلٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللہُ۔ اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (سورۃالتوبۃ:71)

الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اپنے فضل کی بارش کا ایک اور قطرہ آج اس مسجد کی صورت میں ہم پر گرایا ہے۔ ملک کے مشرقی حصّہ میں یہ ہماری پہلی مسجد ہے۔ برلن شہر جو یہاں کا دارالحکومت بھی ہے اس کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ جرمنی اور خاص طور پر اس شہر میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے کی تاریخ جیسا کہ آپ جانتے ہیں 86سال پرانی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں یہاں احمدی مبلغین آئے تھے اور ان کی رپورٹوں کے مطابق جرمن قوم میں بڑی سعادتمندی پائی جاتی تھی اور حقیقی اسلام کو سمجھنے کی طرف ان کی اُس وقت توجہ تھی۔ بہرحال یہاں اس شہر میں اور اس ملک میں جو ابتدائی مبلغین آئے تھے ان کی جو کوششیں تھیں، ان کا بھی مَیں ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ ان کی یادیں وابستہ ہیں۔ یہاں احمدیت کی ترقی کے بارے میں اس شہر سے بھی اور اس ملک سے بھی کس حد تک وہ پُر امید تھے، یہ ان کی بعض رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے اور مَیں یہ ذکر اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ نوجوانوں، بچوں اور نئے آنے والوں کو بھی جو اس ملک میں رہ رہے ہیں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہیں اپنی تاریخ کا کچھ پتہ لگے، تاکہ ان مبلغین کے لئے دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جو ہمارے ابتدائی مبلغین تھے جنہوں نے شروع میں بڑی قربانیاں کیں اور مختلف ممالک میں گئے۔ جو اپنے ملکوں سے نکلے تھے اور پھرمختلف جگہوں پر رہے۔ اِس زمانہ میں جماعت کے مالی وسائل تو بہت اچھے ہیں اور اُس زمانے میں تو وسائل بھی نہیں تھے لیکن ان لوگوں کی احمدیت کے لئے بے لوث خدمت کا جذبہ اور انتھک محنت انہیں وسائل نہ ہونے کے باوجود ہر جگہ متعارف کروا دیتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں کی دعاؤں کی طرف بہت توجہ تھی اور اس وجہ سے وہ جماعت کی ترقی کے بارے میں پُرامید بھی بہت زیادہ تھے۔
1922ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جرمنی میں مشن کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور مولوی مبارک علی صاحب بنگالی بی اے کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ وہ جرمنی جائیں اور وہاں مشن کا آغاز کریں۔ مولوی مبارک علی صاحب1920ء سے لندن میں بطور مبلغ کے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر 1922ء میں وہ لندن سے برلن آگئے۔ پھر آپ کی معاونت کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو بھی جرمنی جانے کے لئے منتخب فرمایا اور وہ بھی26نومبر 1923ء کو قادیان سے جرمنی کے لئے روانہ ہوئے اور 18دسمبر 1923ء کی صبح یہاں برلن پہنچے۔
جرمنی پہنچ کر محترم مولوی مبارک علی صاحب کی ابتدائی کوششوں کو خداتعالیٰ کے فضل سے کس قدر کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 2فروری 1923ء کے خطبہ میں فرمایا کہ ان کی رپورٹیں نہایت امید افزا ثابت ہوئیں بلکہ ان کو تو اس ملک میں کامیابی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ وہ متواتر مجھے لکھ رہے ہیں کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنوایا جائے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ چھ ماہ مَیں خود وہاں چلا جاؤں۔ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو کہا کہ آپ خود وہاں آجائیں جس کے نتیجہ میں انہیں جلد کامیابی کی امید ہے کہ قلیل عرصہ میں دنیا میں اہم تغیرات ہو سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو خود جرمنی جانے پہ انشراح نہیں تھا لیکن دوسری تجویز کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ان کی اس درخواست کو کہ اس جگہ فوراً ایک مسجداور سلسلہ کا ایک مکان بن جائے تو بہت کامیابی کی امید ہے نظر انداز کر دینا میرے نزدیک سلسلہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا تھا۔ اس لئے مَیں نے اس کے متعلق ان کو تاکید کر دی ہے کہ وہ فوراً زمین خرید لیں۔ چنانچہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت موصول ہونے پر مولوی مبارک علی صاحب نے اس طرف توجہ دی اور فوری طورپر برلن شہر میں دو ایکڑ زمین خریدلی گئی۔
برلن میں مسجد کے لئے زمین کا انتظام ہو جانے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 2فروری 1923ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر احمدی خواتین کے چند ہ سے ہو۔ اس کے لئے حضور ؓ نے 50ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔ اس تحریک میں احمدی خواتین کے مطمح نظر کو یکسر اتنا بلند کر دیا کہ ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا ہو گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں تھی۔
اُس وقت تو ہندوپاکستان ایک تھا۔ وہاں کی لجنہ نے، خاص طور پر قادیان کی لجنہ نے ایسی مثال قائم کی کہ اس سے پہلے وہاں کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ اُس زمانہ میں جو ایک انقلابی صورت پیدا ہوئی تھی لجنہ کی ایکٹیوٹیز (activities) میں اور خاص طور پر اس تحریک کے لئے قربانی میں، ایسی قربانیاں قرون اولیٰ میں نظر آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس زمانے کی جو جاگ لگی ہوئی ہے، آج تک اس کی مثالیں ملتی رہتی ہیں۔ اُس وقت احمدی عورتوں نے نقد رقمیں اور طلائی زیورات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں پیش کئے۔ پہلے دن ہی 8ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں قادیان کی احمدی عورتوں نے یہ وعدہ پیش کیا اور یہ رقم عطا کی اور 2ماہ کے تھوڑے سے عرصہ میں 45ہزار روپے کے وعدے ہو گئے اور 20ہزار روپے کی رقم بھی وصول ہو گئی۔ پھر کیونکہ اخراجات کا زیادہ امکان پیدا ہو گیا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس کی مدت بھی بڑھا دی اور ٹارگٹ بڑھا کے 70ہزار روپے کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں نے اس وقت 72 ہزار 700کے قریب رقم جمع کی۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ 5؍ اگست 1923ء کو مسجد برلن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس میں جرمنی کے وزیر داخلہ اور وزیر برائے رفاہ عامہ، ترکی اور افغانستان کے سفراء، متعدد اخبار نویس اور بعض دیگر معززین شامل تھے اور مہمانوں کی تعداد 400 تھی اور احمدی اس زمانے میں صرف چار تھے۔ یہ اُس وقت حال تھا لیکن اتنے وسیع تعلقات تھے۔ یہ تھی اُس وقت کے مبلغین کی کوشش کہ اتنے وسیع تعلقات تھے اور یہ سب بڑی بڑی شخصیات اُس وقت مسجد کی بنیاد کے لئے تشریف لائیں اور بہرحال مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
لیکن کیونکہ اقتصادی حالات یہاں کے بہت خراب ہو گئے تھے، جنگ عظیم کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوا تو وہی جوخیال تھا کہ 60-50 ہزار میں مسجد بن جائے گی اس کا اندازہ خرچ 15لاکھ روپیہ پہ لگایا گیا۔ اتنے اخراجات پورے کرنا جماعت کے وسائل کے لحاظ سے بہت ناممکن تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فیصلہ فرمایا کہ دو مراکز کو چلانا بہت مشکل ہے، ایک لندن والابھی اور ایک برلن میں بھی۔ تو 1924ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ برلن مشن کو ان حالات کی وجہ سے بند کر دیا جائے کیونکہ مالی وسائل بھی نہیں ہیں اخراجات بھی نہیں پورے ہو سکتے، حالات یہاں بہت خراب ہو گئے تھے۔ لیکن وہ جو عورتوں نے، احمدی خواتین نے قربانیاں کی تھیں، وہ رقم حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر لندن بھیج دی گئی اور وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لندن تعمیر ہوئی۔ پھر یہاں 1948ء میں دوبارہ شیخ ناصر احمد صاحب آئے تھے جنہوں نے ہمبرگ میں مشن شروع کیا۔
اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیساکہ پہلے بھی مَیں نے کہا کہ سفر کی سہولتیں بھی ہیں اور جماعت کے مالی حالات بھی بہت بہترہیں۔ اُس زمانے میں سمندری سفر ہوتا تھا۔ مکرم ملک غلام فرید صاحبؓ کو سفر میں 22دن لگے تھے۔ یہ وہی حضرت ملک غلام فرید صاحب ہیں جنہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور مختصر نوٹس جن کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نوٹس پرہے اور اسی طرح انگریزی کا ترجمہ و تفسیر’’فائیو والیوم’‘ (Five Volumes) بھی انہوں نے کیا ہوا ہے۔ گو اس کے لئے ایک کمیٹی تھی لیکن اس کا زیادہ کام اور اکثر کام آپ نے کیا اور حضرت ملک صاحب بڑے پڑھے لکھے اور انگریزی علم پر بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کے الفاظ کی ڈکشنری بھی تیاری کی تھی لیکن وہ شائع نہیں ہو سکی۔ اب گزشتہ سال اس کو مکمل کرکے شائع کروایا گیا ہے اور ملک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔
اسی طرح مولوی مبارک علی صاحب کا بھی تعارف کرا دوں۔ وہ ابتدائی مبلغ تھے یہاں آئے۔ انہوں نے 1909ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تھے اور 1917ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو جن 63 نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے اُن میں مولوی مبارک علی صاحب بھی تھے۔ آپ نے 1969ء میں بنگلہ دیش میں وفات پائی۔ بوگرا(Bogra) میں مدفون ہیں۔ تو یہ تھے دو ابتدائی مبلغ جو یہاں آئے اور ان کے تعلقات باوجود وسائل کی کمی کے کس قدر وسیع تھے، یہ مَیں آپ کو بتا چکا ہوں۔
اب جو مربیان اور مبلغین ہیں ان کو بھی اپنے جائزے کے لئے پرانے مبلغین کے جو واقعات اور رپورٹیں ہیں وہ ضرور پڑھنی چاہئیں تو بہرحال ان بزرگوں نے یہاں انتھک محنت کی۔
اُس وقت تو حالات کی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مسجد باوجود کوشش کے نہ بن سکی۔ لیکن قادیان اور ہندوستان کی لجنہ کی جو قربانی تھی وہ رائیگاں نہیں گئی۔ اُس رقم سے مسجد فضل تعمیر ہو گئی اور آج اِس مسجد کی جو تاریخی اہمیت ہے وہ بھی سب پر واضح ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اُس و قت کی احمدی خواتین کی قربانی اتنی سچی تھی اور اس کی قبولیت کے لئے دعائیں اِس درد کے ساتھ انہوں نے کی ہوں گی کہ ایک مسجد تو انہوں نے اپنی زندگی میں بنا لی اور دوسری مسجد کی تعمیر میں ہوسکتا ہے آج ان کی نسلیں شامل ہوئی ہوں۔ لیکن بہرحال وہی جذبہ جو اُن ابتدائی خواتین کی قربانی کا تھا وہ آج بھی کچھ حد تک لجنہ میں دین کی خاطر قربانی میں ہمیں نظر آتا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ان کی دعائیں تھیں جنہوں نے اپنی نسلوں میں بھی یہ جذبہ پیدا رکھا۔
یہ مسجد جو اس وقت موجودہ مسجد ہے 17لاکھ یورو میں تعمیر ہوئی ہے۔ جس میں سے 4لاکھ یورو کے علاوہ 13لاکھ جرمنی کی لجنہ نے دیا ہے اور 4لاکھ جو باہر سے آیا ہے اس میں سے بھی زیادہ بڑا حصہ لجنہ UK کا ہے۔ 17لاکھ یورو کو اگر آپ پاکستا نی روپوں میں بدلیں، یہ مَیں پاکستانیوں کے لئے بتا رہا ہوں تو 19کروڑ روپے کے قریب بنتا ہے۔
پس آج یہ قربانی کرنے والیاں جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ یہ مسجد تعمیر کرسکیں۔
اس مسجد کے کچھ کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں۔ اس زمانے میں تو دو ایکڑ رقبہ مل گیا تھا لیکن اس کا یہ کُل پلاٹ، 4ہزار 790مربع میٹر ہے جو ایک ایکڑ سے کچھ زیادہ ہے اور اس پر جو رقبہ تعمیر کیا گیا ہے وہ ایک ہزار 8مربع میٹر ہے۔ اسی طرح باوجود پابندیوں کے 13میٹر مینارہ کی اجازت مل گئی۔ 168مربع میٹر کے دو ہال ہیں یعنی کل 336 مربع میٹر کے مسجد کے ہال ہیں۔ اس میں 4کمروں کا ایک فلیٹ ہے۔ اس کے علاوہ جو گھر بنائے گئے ہیں، ایک دو کمروں کا ہے۔ ایک کمرے کا گیسٹ ہاؤس شامل ہے۔ 4دفترہیں۔ لائبریری ہے۔ کانفرنس کا کمرہ ہے اور بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا پارک بنانے کاان کا ارادہ ہے۔ تھوڑی سی پارکنگ بھی ہے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اس کی مخالفت بھی یہاں بہت ہوئی لیکن آہستہ آہستہ لگتا ہے مخالفت اب ٹھنڈی پڑتی جا رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا کہ خود ہی ٹھنڈی ہو جائے گی جب یہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ امن، پیار اور محبت کا پیغام دنیا میں ہر طرف پھیلے گا۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ آج جب دنیا دوبارہ اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی یورپ میں بھی بڑھ رہی ہے لیکن ایک تو یہ ہے کہ اس مہنگائی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے لجنہ کو توفیق دی کہ انہوں نے جو قربانی کی وہ رنگ لائے اور پھل لائے اور اس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والیوں کو بے انتہا جزا دے۔ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ یہ نظارے ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اس طرح بڑھ چڑھ کر احمدی قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ 1923 ء میں برلن کی مسجد کی تعمیر شروع کی گئی تھی تو خوفناک اقتصادی بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے تعمیر نہیں ہو سکی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے مسیح کی جماعت کو اس انعام سے نوازنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لئے جو آج کل دنیا میں اقتصادی حالات ہو رہے ہیں ان حالات سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مسجد کی تعمیر کی توفیق بھی عطا فرما دی اور مکمل بھی ہو گئی۔ باوجود تمام اقتصادی حالات کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس جذبہ سے احمدی قربانی کرتے ہیں مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ انشاء اللہ احمدیوں کے روپے میں ہمیشہ برکت ڈالتا رہے گا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ریٹرن(Return) داخل کرائے تو ٹیکس کے محکمہ والے اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ تمہارے گھر کا خرچہ تمہارے چندے سے کم کس طرح ہو سکتا ہے۔ تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھر کے خرچ ان کے چندوں کی ادائیگی سے کم ہیں۔ پس یہ وہ روح ہے جو ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہے کہ اپنے خرچ کم کرکے بھی قربانی کرنی ہے۔ اس روح کو قائم رکھنا اور قربانی کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ حقیقی مومن کبھی اس رُوح کو نہ مرنے دیتا، نہ اس پر فخر کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے آپ پر کیا اس پر اس کے آگے جھکتے چلے جائیں اور خود بھی اس مسجد کی تعمیر کا حق ادا کریں اور اپنی نسلوں کی بھی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مسجد کا حق ادا کرنے والی ہوں۔ احمدی عورتوں کو خاص طور پر آج اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو قربانی انہوں نے کی ہے اس کا فائدہ تبھی ہو گا جب اس سے ہمیشہ فیض اٹھاتے چلے جانے کی کوشش کریں گی اور وہ کوشش تبھی کامیاب ہو گی جب اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں گی جس کی تلقین خداتعالیٰ نے ہمیں فرمائی ہے اور ان کا مسجد سے تعلق جوڑیں گی۔
اسی طرح مرد بھی یاد رکھیں کہ عورتوں نے اس مسجد کی تعمیر سے جو احسان آپ پر کیا ہے اس کا حق اسی طرح ادا ہو سکتاہے۔ بہت سارے مرد کہیں گے کہ پیسے تو ہم سے ہی لئے تھے، بے شک لئے ہوں گے لیکن پھر دینا بھی بڑی قربانی ہے۔ بہرحال اس کا حق اس طرح ادا ہو سکتا ہے، احسان کا بدلہ تب اثرکر سکتا ہے جب آپ مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔
برلن کی مسجد کی تعمیر نے یہ سبق بھی آپ کو دیا ہے کہ عورتوں کی یہ خواہش ہے کہ ان کے مرد عبادت گزار ہوں اور اگر ان کے بس میں ہو تو وہ ہر جگہ آپ کو مسجد بنا کر دیں۔ جب مَیں کینیڈا گیا تو کینیڈا کی لجنہ نے ایک ملین ڈالر کی قربانی دی کہ اس سے مسجد بنا دیں۔ لیکن زائد بھی خرچ ہو گا تو کہتی ہیں بہرحال ہم دیں گی۔ ایسی قربانیاں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ مسجدوں میں آنے کی فرضیت تو مردوں کے لئے ہے۔ عورتوں کا تو اگر دل چاہے تو جمعہ پر آنا ہے نہیں تو نہیں آنا۔ یا پھر اگر کوئی اپنا فنکشن ہوا تو اس پر کبھی کبھار یہاں آنا ہے۔ پس مساجد کی تعمیر کے لئے عورتوں کی قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربانی کرتی ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ میری یہ سوچ صرف خوش فہمی پہ مبنی نہ ہو بلکہ عورتیں اپنے بچوں کی بقا اور اپنے مردوں کا خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے جو قربانیاں کر رہی ہیں وہ اسی سوچ کے ساتھ ہوں اور یہ سوچ پھر یقینا عورتوں کے لئے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پراور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں گے۔ پھر اسی سورۃ توبہ کی 71 ویں آیت ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک د وسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم کرے گا یقینا اللہ کامل غلبہ والا بہت حکمت والا ہے۔
پس اب اس مسجد کی تعمیر کے بعد مرد بھی اور عورتیں بھی اس انتہائی اہم کام کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اپنا بھی تعلق مسجد کے ساتھ جوڑیں اور اپنی اولادوں کا بھی تعلق مسجد کے ساتھ جوڑیں۔ کیونکہ یہی خداتعالیٰ اور
یوم آخرت پر ایمان لانے والوں کی نشانی ہے۔ اور ایمان کیا ہے؟ یا حقیقی مومن کون ہے؟ اس کی گہرائی میں جب ہم جائیں تو خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیا ہمارا ایمان اس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقیقی ایمان کہلا سکے؟ یا کیا ہم حقیقی مومن کے زُمرے میں آتے ہیں ؟ ہم پر خداتعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل کیا جنہوں نے قدم قدم پر ہماری راہنمائی فرمائی۔ ہمیں سیدھے راستے پر رکھنے اور حقیقی مومن بننے کے لئے بے شمار اور مختلف ذریعوں سے ہماری راہنمائی فرمائی۔
ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اس کی محبت میں محو ہوجاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں۔
پس یہ وہ ایمان ہے جو ہمیں کامل الایمان بنائے گا۔ فاسقانہ اعمال کے بارے میں تو کسی احمدی کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لیکن اگر ہمارے اخلاق میں ادنیٰ سی بھی کمزوری ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک ہمیں اپنی حالت کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ یہ ہمارے ایمان میں کمزوری پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن ہمارا ہر عمل اور فعل اگر خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو پھر ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ ہماری یہ کمزوریاں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دور فرماتا چلا جائے گا اور یہی بات پھر ایمان میں مضبوطی بھی پیدا کرتی ہے۔ ہم اگرآپس کے روزمرہ کے تعلقات نبھا رہے ہیں، خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کے حق ادا کر رہے ہیں تو یہ باتیں ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنانے والی ہوں گی۔ پس ان معیاروں کو حاصل کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ بعض دفعہ بعض عمل جان بوجھ کر ایک انسان نہیں کرتا لیکن غفلت اور سستی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ اس میں عبادت کی ادائیگی میں کمزوری بھی ہے اور دوسری ایسی باتیں بھی ہیں جو خداتعالیٰ کو ناپسند ہیں جن کے بارے میں خداتعالیٰ نے ہمیں تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ تمہارے فرائض ہیں، انہیں پورا کرو۔ اگر انسان لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے انہیں پورا نہیں کرتا تو آہستہ آہستہ یہ چیزیں پھر ایمان کی کمزوری اور شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔
پس ایک احمدی کو ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی نیکی سے جن کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے غفلت برتنا یا ان کے کرنے میں سستی دکھانا مومن کا شیوہ نہیں ہے۔ اس پہلی آیت میں جو مَیں نے پڑھی جو سورۃ توبہ کی آیت 18 ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ پر ایمان کامل ہو اور یوم آخر پر بھی۔ اور یوم آخرت کے بارہ میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کاذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں ؟ اور اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْن

میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے۔

مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ

سے قرآن شریف کی وحی، اورمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِک سے انبیاء سابقین کی وحی اور اٰخِرَۃ سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے‘‘۔ آخرت کے معنی ہیں پیچھے آنے والا۔ آپ فرماتے ہیں :’’آخرت کے معنی ہیں پیچھے آنے والی۔ وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے؟ …یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول سورۃ البقرۃ زیر آیت نمبر 5)۔ آخرت کا مطلب بے شک جزا سزا کا دن بھی ہے اور یہ مطلب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہوا ہے۔ لیکن جو وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے زمانے اور اپنی وحیوں سے تعلق میں بتائی ہے وہ یہاں بھی صادق آتی ہے۔ کیونکہ اس زمانہ میں مساجد تو بہت بن رہی ہیں لیکن حقیقی مساجد آباد کرنے والے وہی ہوں گے جو مسیح موعود کو ماننے والے ہوں گے۔ کیونکہ ایمان کی طرف صحیح راہنمائی بھی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی کرنی ہے۔ خدا اور آنحضرت ﷺ سے تعلق مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی جوڑنا ہے۔
پس جہاں ہمیں یہ بات تسلّی دلاتی ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی مسجدوں کی تعمیر اورآبادی کا حقیقی حق ادا کرنے والی ہے وہاں ایک خوف بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ صرف ایمان لا کر اور مسجد تعمیر کرکے ہی حق ادا ہو جاتا ہے؟ یا کچھ اور بھی کام کرنے والے ہیں۔ اور ان کاموں کی طرف اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا کہ نماز قائم کرو اور نماز قائم کرنے کے لئے جو دوسری جگہ وضاحت بیان فرمائی ہے اس میں فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا ہے اور باجماعت نماز پڑھنا ہے۔ پس ایک تو یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ مسجدوں کا حسن ان کی آبادی سے ہے اور ان کی آباد ی پانچ وقت مسجد میں آنے سے ہے۔
اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی آباد ی کے لئے قیام نماز ہو۔ یہاں کے مقامی لوگوں کو جو جرمن ہیں یہی شکوہ ہے کہ یہاں تو آپ کی اتنی تعداد نہیں ہے پھر مسجد اس علاقہ میں بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ تو ان لوگوں کا یہ شکوہ بھی اس طرح دور ہو سکتا ہے کہ جب ان کو پتہ لگے کہ یہ احمدی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے ایک خدا کے آگے جھکنے کے لئے باقاعدہ مسجد میں آتے ہیں۔ انہوں نے عمارت صرف دکھانے کے لئے نہیں بنائی بلکہ ایک خدا کی عبادت کرنے کے لئے اس جگہ اس عمارت کو کھڑا کیا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ اپنے مال میں سے غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور جماعت کی متفرق ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ اس بات پر ان لوگوں کو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ مالی قربانی کرکے مسجدیں بناتے ہیں۔ اس کا اخباروں میں ذکر بھی ہوا ہے کہ لجنہ کی قربانی سے یہ مسجد بنی ہے۔ اس کا مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ٹیکس کے محکمے والوں کو یقین نہیں آتا کہ کس طرح تم لوگ کر سکتے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ مسجدوں کی تعمیر و آبادی کے ساتھ مالی قربانی کی طرف توجہ پہلے سے بڑھتی ہے۔ کیوں بڑھتی ہے؟ اس لئے کہ ان کا کامل توکل خداتعالیٰ پر ہوتا ہے جو مومن ہوتے ہیں۔ وہ کسی چیز سے خوف نہیں کھاتے۔ آج کل کے سودی مالی نظام چلانے والوں کی طرح انہیں یہ خوف لاحق نہیں کہ ہماری معاش کا کیا ہو گا۔ ہماری آمد کا کیا ہو گا۔ کیونکہ مومن کا ہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اس لئے یہ تسلی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق، اپنی خاطر کی گئی قربانی کو کئی سو گنا کرکے نوازتا ہے اور نوازے گا۔ اس لئے خوف کرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے اقتصادی حالات جیسے بھی ہوں احمدی ایک قربانی کے بعد دوسری قربانی کرنے کے لئے بغیر خوف کے تیار بیٹھا ہوتا ہے اور میرے سامنے کئی مثالیں ایسی ہیں، کئی ملکوں کی مثالیں ایسی ہیں جو غریب ملک ہیں لیکن قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور ہر احمدی اپنا یہ عہد پورا کرتا ہے کہ جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوں گا اور یہ اس لئے ہے کہ اُس کو خداتعالیٰ نے ہدایت کا راستہ دکھاتے ہوئے مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی 71ویں آیت میں فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور دوست وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے حقوق ادا کر رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں مسجدوں کی آبادی انہی لوگوں سے بتائی ہے جو مومن ہیں اور مومن اخلاق میں بڑھنے والے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں۔ اس دوستی سے یہ مراد نہیں کہ مرد عورتوں کی آپس میں دوستیاں ہو جائیں اور آپس کے حجاب اور پردے ختم ہو جائیں۔ بلکہ ایسے رشتے قائم ہوں جن کی بنیاد تقدس پر ہو۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔
اب یہ اخلاق کیا ہیں جن کا ایک مومن میں پایا جانا ضروری ہے؟ اس میں آپس کے تعلقات میں محبت پیار اور بھائی چارے کو بڑھانا ہے۔ محبت پیار کے یہ تعلقات اس طرح بڑھ سکتے ہیں جب شکووں، شکایتوں اور نفرتوں کی تمام دیواریں گرا دی جائیں۔ جب ہر ایک یہ ارادہ کر لے کہ ہم نے ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کرنے کی بھی کوشش کرنی ہے اورہر قسم کی برائی سے بچنا ہے۔ ہم نے رشتوں کے حقوق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ہم نے اس عظیم رشتہ کی قدر کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے۔ جو ایک احمدی کا احمدی کے ساتھ ہے اور

رُحَمَآءبَیْنَھُمْ

کی عظیم مثال قائم کرنی ہے۔ ہم نے اپنے غریبوں کی مدد کرنی ہے اور اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے ہیں۔ ذاتی لالچ اور مفاد ہمیں ایمان میں کمزوری دکھاتے ہوئے دوسروں کے حق مارنے پر مائل نہ کرے۔ ہمارا ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا جذبہ ایسا ہونا چاہئے جس کے نمونے قرون اُولیٰ کے صحابہ میں نظر آتے ہیں جو اپنی آدھی جائیدادیں بانٹ دیا کرتے تھے۔ بدظنیوں کے خلاف جہاد کی صورت ہم میں سے ہر ایک میں نظر آنی چاہئے کہ بہت سے فتنہ و فساد اور آپس کی رنجشوں کی وجہ سے یہ بدظنیاں ہیں۔ سچائی کے وہ معیار ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ سچائی ہر جگہ، ہر موقع پر ہمارا طرہ امتیاز ہو۔ شکرگزاری کے جذبات ہم میں اس حد تک پیدا ہوجانے چاہئیں کہ ہر آن اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں نعمتوں میں اضافے کی نوید ملتی رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عفو اور درگزر ہمارا شیوہ بن جانا چاہئے۔ ہمارے عدل اور انصاف کے معیار ہر معاملے میں اتنے اونچے ہونے چاہئیں کہ وہ احسان کے راستوں سے گزرتے ہوئے اِیْتَاءذِی الْقُرْبٰیکی بلندیوں کو چھوتے ہوئے بے نفس ہو کر اپنے اور غیروں کی خدمت پر مجبور کرنے والے ہوں۔ اپنے وعدوں کی پابندی ہمارا وہ خاصہ ہو جو ہماری پہچان بن جائے تاکہ آپس میں دوستیاں اور بھائی چارے بڑھتے چلے جائیں۔ دنیا بھی آنکھیں بند کرکے ہم پر اعتماد کرنے والی ہو۔ اپنے اور ایک د وسرے کے تقدس، عِصمت اور عزت کی حفاظت ہر وقت ہمارے پیش نظر رہے۔ مردوں عورتوں میں غض بصر کی عادت ہو اور یہ چیزیں اپنے کردار کا ہر احمدی لازمی حصہ بنا لے۔ احمدی عورتیں اپنے لباس، پردے اور حجاب میں پوری پابندی کرنے والی ہوں۔ اس بارہ میں بہت کانشنس ہوں۔ ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف ہر وقت توجہ رہے اور ہمسایہ صرف گھریلو ہمسایہ نہیں بلکہ سفر کرنے والے بھی ہمسائے ہیں۔ آپس میں کام کرنے والی جگہوں پہ رہنے والے بھی ہمسائے ہیں اور پھر افراد جماعت بھی خاندان اور ہمسائے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ گویا تمام قسم کی اخلاقی کمزوریاں ہم میں دور ہوں گی تو ہم حق ادا کرنے والے ہوں گے اور عملی طورپر مومن کہلانے والے ہوں گے۔
پھر اس آیت میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔ اس کی پہلے مَیں وضاحت کر چکا ہوں۔ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے۔ اور ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر اپنے اعمال اس طرح درست کرتے ہیں کہ جو درحقیقت حقیقی مومن کے اعمال ہونے چاہئیں کیونکہ یہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ گویا اس آیت میں مومن کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ وہ ایک د وسرے کے دوست کی حیثیت سے ایک دوسرے کا حق ادا کرتے ہیں۔ جماعت ایک مضبوط جسم بن کر رہتی ہے۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں۔ اور تیسری بات برائیوں سے بچتے ہیں۔ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور نیکیوں کا حکم دینے کے بارے میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ وہ امت ہو جو انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہے۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو۔ پھر ایمان کی نشانی یہی ہے کہ تمہارا فرض یہ بتایا گیا ہے کہ تم خیر اُمّت بنائے گئے ہو۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تمہارے سے صرف وہ اعمال سرزدہوں جو نیکیوں کی طرف لے جانے والے ہیں اور کبھی ان چیزوں کے قریب نہ جاؤ جن کی اللہ تعالیٰ نے نہی فرمائی ہے۔ تبھی فائدہ ہو گا زمانے کے امام کی بیعت کا بھی۔ تبھی فائدہ ہو گا عبادت گاہوں کی تعمیر کا بھی۔
پھر چوتھی چیز یہ بتائی کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یعنی باقاعدگی سے نمازیں ادا کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے مَیں نے بتایا۔ اور باجماعت نمازیں ادا کرنے والے ہیں یا اس کی کوشش کرنے والے ہیں۔ پانچویں چیز زکوٰۃ اور مالی قربانیوں میں پیش پیش۔ اور چھٹی یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں اورپھر اس میں بڑھنے والے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اطاعت کا نتیجہ ہے کہ اس زمانہ کے امام کو ماننے کی نئے آنے والوں کو توفیق ملی اور جو ہمارے بڑے ہیں ان کو توفیق ملی۔ اس لحاظ سے اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جن کے باپ دادا نے احمدیت کو قبول کیا۔ ہر ترقی اور ہر نئی چیز اور ہر نیا انعام جو اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرماتا ہے وہ ان کو جو پرانے پیدائشی احمدی ہیں اس طرف توجہ دلانے والاہونا چاہئے کہ یہ بھی ان کے بزرگوں کی نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں جس کی وجہ سے خداتعالیٰ نے قبولیت کی توفیق دی اور آج ہم اس کے پھل کھا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کے لئے بھی دعائیں کرتے چلے جائیں تاکہ اگر وہ فوت ہو چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔
پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو ان باتوں کے پابند ہیں وہ خدا تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتا چلا جائے گا اور جب اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے تو اور زیادہ نوازتا چلا جاتا ہے۔
اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ لیتا چلا جائے۔ اس مسجد کا حق ادا کرنے والا ہو اور یہاں کے لوگوں کی توجہ جو اس طرف پیدا ہو رہی ہے اور اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ سے جو کوریج مل رہی ہے اور جو ملے گی، ابھی تک مجھے رپورٹ تو نہیں ملی کہ فنکشن پہ کیا کوریج تھی، بہرحال مجھے امید ہے انشاء اللہ ہو گی، تواس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور فائدہ یہی ہے کہ جو توقعات لوگوں کی ہم سے ہیں اور سب سے بڑھ کرجو توقعات ہیں اللہ تعالیٰ کی ایک مومن بندے سے ان کو پوراکرنے والے ہوں۔ پس ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے فیض اٹھانے والے ہوں اور فیض تبھی اٹھا سکیں گے جب اپنی عبادتوں اور نیک اعمال کے نمونے قائم کریں گے۔ اپنی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی نسلوں میں بھی اسلام اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ انہیں حقیقی رنگ میں خدا اور رسول ﷺ کا اطاعت گزار بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں