خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 25؍جون2004ء

ایسے سفر جو اللہ کی خاطر کئے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھیں
مسافروں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے سفر میں آسانی کے لئے خیر مانگتے رہنا چاہئے۔
آ پ کے جو بھی سفرہوں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے ہوں ۔
(قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے حوالہ سے مسافروں کے لئے اہم ہدایات )
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر آپ کا ذکر خیر
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
25؍ جون2004ء بمقام مسسی ساگا ( کینیڈا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

انسان دنیا میں مختلف مقاصد کے لئے سفر کرتا ہے اور اس زمانے میں جب سفر کی بہت سی سہولتیں بھی میسر آگئی ہیں اور ان سفر کی سہولتوں کی وجہ سے فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں اور ان سہولتوں اور ان فاصلوں کے سمٹنے کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے کاموں کے لئے اکثر سفروں میں رہتے ہیں- جو 25-20میل کا فاصلہ پرانے زمانے میں سفر کہلاتا تھا وہ اب سفر نہیں کہلاتا لیکن بہرحال ایک لحاظ سے سفر ہی ہے تو یہ سفر جو مختلف مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں چاہے وہ کاروباری نوعیت کے ہوں چاہے عزیز رشتہ داروں کے ملنے کے لئے ہوں، چاہے تحصیل علم کے لئے ہوں، چاہے اللہ تعالیٰ کی پیدائش پر غور کرنے کے لئے تحقیق کے لئے ہوں، چاہے دینی اغراض کے لئے ہوں جو بھی مقصد ہومومن کو ہمیشہ یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ ان سفروں میں کبھی بھی ایسا وقت نہ آئے، چاہے جو بھی مجبوری ہو،کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے خالی ہو۔
آپ لوگ جو یہاں اس وقت بیٹھے ہیں ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے حالات کی مجبوری کے تحت پاکستان سے ہجرت کی اور ایک خطیر رقم خرچ کر کے بہت بڑے اخراجات کر کے اور ایک لحاظ سے اپنے تمام دنیاوی وسائل داؤ پر لگا کر یہاں آ کر اس ملک میں آباد ہوئے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو شروع میں آ کر بہت سی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حالات بہتر بنا دئیے۔ پھر ایسے بھی ہیں جن کو یہاں کی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے حکومت کے احسان کی وجہ سے یہاں کی شہریت یا کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ تو بہرحال یہ سفر اکثر کے لئے کامیابی کا باعث بنے ہیں- تو جس طرح اپنے کیس پاس ہونے سے پہلے آپ نے اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکائے رکھا اس سے مدد مانگتے رہے خود بھی دعائیں کرتے رہے اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہتے رہے، ایک درد اور ایک تڑپ آپ کے دلوں میں پیدا ہوتی رہی، اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں رہا اس طرح اب بھی یہ خوف، یہ تقویٰ دلوں میں قائم رہنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ساری سہولتوں سے نواز دیا ہے۔ اب یہاں آ کر بھی آپ کو اپنے کاروباری سلسلوں میں مختلف سفر کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ تو ہمیشہ یہ پیش نظر رہنا چاہئے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاناچاہئے کہ اب دنیاوی سہولتیں اور آسانیاں جو میسر آ گئی ہیں، کہیں تقویٰ سے دورنہ کر دیں- اگر اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارتے رہیں گے تو تقویٰ میں ترقی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے، دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ اس لئے ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہیں، ورنہ یاد رکھیں وہ خدا جس نے یہ سب نعمتیں دی ہیں ان کو واپس لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔
پھر احمدی کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت رہی ہے، یہ بھی امتیاز رہا ہے کہ وہ دین کی خاطر بھی سفر کرتا ہے۔ اجتماعوں پر، جلسوں پر خاص اہتمام کے ساتھ عموماً احمدی بڑے ذوق اور شوق سے آتے ہیں اور آج آپ میں سے بہت بڑی تعداد اس لئے سفر کر کے یہاں آئی ہے، کچھ لوگ آ رہے ہیں کینیڈا کے مختلف شہروں سے بھی اور امریکہ سے بھی، کہ اگلے جمعہ کو جو یہاں کینیڈا میں جلسہ ہو رہا ہے اس میں شمولیت اختیار کریں- یہ سفر آپ کا خالصتہً اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونا چاہئے۔ اس کا تقویٰ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہاں آ کر اپنے دلوں کو ایک دوسرے سے صاف کرنا ہے، ہر قسم کے لڑائی جھگڑے اور فساد سے بچنا ہے۔ ان دنوں میں جلسے کی خاطر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سفر تبھی شمار ہو سکتا ہے جب اس سفر میں آپ ہر قسم کی بدکلامی سے پرہیز کرنے والے ہوں، نہ ہی مہمان اور نہ ہی میزبان ذرا ذرا سی بات پر اپنے آپے سے باہر نکلنے والے ہوں- نہ ہی کسی کا مذاق اڑانے والے یا استہزا ء کرنے والے ہوں اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں بیٹھنے والے ہوں جہاں لوگوں کا ہنسی ٹھٹھا اڑایا جا رہا ہو۔ نہ ہی فضول قصے کہانیاں، لغو اور بیہودہ باتوں کی مجلسوں میں بیٹھنے والے،نہ ان میں شامل ہونے والے ہوں- یا را ت گئے تک لمبی مجلسیں لگا کرگپیں مارنے والے ہوں کہ صبح کی نماز پر آنکھ ہی نہ کھلے۔ ویسے بھی فضول مجلسیں دلوں کو زنگ آلود کر دیتی ہیں- تو نہ صرف ایسی مجلسوں میں شامل نہیں ہونا بلکہ ایسی مجلسیں لگانے والے احمدیوں کو بھی سمجھا کر ایسی مجلسوں کو ختم کرانے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محروم کر دیں گی۔ اور پھر دل تقویٰ سے خالی ہو جائیں گے۔ تو یہ تو کسی صورت بھی ایک احمدی کے لئے برداشت نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس کا دل خالی ہو جائے۔ یاد رکھیں کہ جب انسان تقویٰ سے خالی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور چلاجاتا ہے تو پھر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے دنیاوی بندھن اور رشتے قائم رہیں گے۔ پھر دنیاوی رشتوں اور تعلقات میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں- یہ بھی ٹوٹنے شروع ہو جائیں گے اور ایک فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس لئے ایسے سفر جو اللہ کے نام کی خاطر کئے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھیں- اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں حج کے متعلق ارشاد فرمایا ہے وہاں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہی ہے۔ جیسا کہ فرمایا

فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادَ التَّقْوٰی ( البقرۃ:۱۹۸)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو صرف حج پر جانے والے ہیں وہی زاد راہ جمع کریں اور تقویٰ پر قائم ہو جائیں یا صرف ان کے لئے بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ بلکہ فرمایا کہ جو تمہارے سفر خاص طور پر اللہ کی خاطر سفر ہوں دین کی خاطر ہوں، ان میں بہت زیادہ تقویٰ کاخیال رکھو۔ اگر اس پر تم قائم ہو گئے تو اپنی ذاتی اصلاح کا بھی موقع ملے گا اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہو گے۔ اللہ تعالیٰ سے تمہارا اخلاص کا تعلق بڑھے گا اس کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل ہو گی۔ اور پھر تمہاری اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے اور انسانوں سے بھی محبت بڑھے گی۔ اور جب یہ چیزیں پیدا ہو جائیں گی تو پھر تمہارا معاشرہ یقینا جنت نظیر معاشرہ کہلانے کا مستحق ہو جائے گا۔
یہ بھی یادرکھیں کہ دنیا میں لڑائی،جھگڑے، فساد اس وقت زیادہ بڑھتے ہیں جب انسان دوسرے انسان پر بھروسہ کرتا ہے یا بھروسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانوں سے زیادہ توقعات رکھتا ہے۔ اللہ کی بجائے انسانوں پر توقعات ہوتی ہیں- ا ن پر زیادہ امیدیں لگا کے بیٹھا ہوتا ہے۔ تو جب اس سوچ کے ساتھ جو کسی کے گھر مہمان بن کر آئیں گے یا جائیں گے تو مہمانوں میں بھی اور میزبانوں میں بھی ہمیشہ بدظنیاں پیدا ہوں گی اور رنجشیں پیدا ہوں گی۔ ا ور ہمارے معاشرے میں تو بعض طبیعتیں اس کو کچھ زیادہ محسوس کرلیتی ہیں اور دلوں میں رنجشیں پالتے رہتے ہیں- یہ سب تقویٰ کی کمی ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں- بعض لوگ جوعقلمند ہیں بڑا اچھا کرتے ہیں کہ اپنے چھوٹے خیمے لگا کر اپنی رہائش کا بندوبست کر لیتے ہیں- مجھے نہیں پتہ کہ یہاں یہ انتظام ہے کہ نہیں اور پھر جو صاحب استطاعت ہیں وہ اپنے کاروان (Caravan)بھی لے کے آ جاتے ہیں- اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔ آزادی سے رہتے ہیں- تو انتظامیہ کی طرف سے صرف خیموں اور Caravanکے لئے جگہ مہیاکرنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ ان کایہ فرض بھی ہے کہ اگر ایسے لوگ چاہتے ہوں تو وہ مہیا کریں- U.K. میں تو اس کا اب بہت رواج ہو گیا ہے۔ اور کھانا حضرت مسیح موعودؑکا لنگر تو خاص طور پر ان دنوں میں چلتا ہی رہتا ہے اس کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ تو مہیا ہو ہی جاتا ہے۔ اور انتظامیہ کا فرض بھی ہے کہ ان دنوں میں مہمانوں کا خیال بھی رکھیں- یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان بن کر آ رہے ہیں-
تو میں سفر کی بات کر رہا تھا، کہ سفر جو بھی ہو بہرحال سفر ہی ہوتا ہے۔ اس لئے جو بھی انتظام ہو جتنا مرضی بہترین انتظام ہو کچھ نہ کچھ اس میں ایسی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں جوبعض دفعہ تکلیف کا باعث بنتی ہیں- اس لئے مسافروں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے سفر میں آسانی کے لئے خیر مانگتے رہنا چاہئے تاکہ ہمیشہ یہ سفر آرام سے گزریں جس قسم کے مرضی سفر ہوں-
ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی یا رسول اللہ! میں سفر پر روانہ ہونا چاہتا ہوں مجھے زاد راہ عطا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کی زاد راہ عطا کرے۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے کچھ اور بھی دعا دیجئے۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہوں کو بخش دے۔ ابھی بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی، اس نے عرض کی: میرے والدین آپ پر قربان جائیں، مجھے کچھ اور دعا بھی دیجئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خیر آسان کر دے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء ما یقول اذا ودع انسانا)
تو دیکھیں اس صحابی نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے کتنی جامع دعا منگوائی کہ سفر میں ہمیشہ ایسے حالات رہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی خیر اور فضل ملتا رہے۔ اگر یہ ملتا رہا تو مجھے تقویٰ پر چلنے میں بھی آسانی رہے گی،میرے دل میں اس کا خوف اور خشیت بھی قائم رہے گا۔ اور جب یہ قائم ہو جائے تو گناہوں سے بھی انسان بچتا رہتا ہے۔ اس لئے سفر میں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! تقویٰ بھی تیرے فضل سے حاصل ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اپنا فضل فرما۔ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں کہ مَیں دوسروں پر انحصار کر کے دل میں شکوہ پیدا کرنے والا بنوں اور تقویٰ سے دور ہو جاؤں- اس لئے اپنی جناب سے ہی مجھے ہر خیر عنایت فرماتا رہ۔ اس قسم کی دعا حضرت موسیٰؑ نے بھی سفر میں اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی کہ

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص:۲۵)۔

اے اللہ میں تو مسافر آدمی ہوں تو ہی مجھے خیر فرماتا رہ میں تو تیراہی محتاج ہوں اور محتاج رہنا چاہتا ہوں اور تیرے بغیر میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔
پھر ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں سفر پر جانا چاہتاہوں آپ مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔ آپؐ نے فرمایا : اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جب بھی بلندی پر چڑھو تکبیر کہو، وہ آدمی واپس ہوا تو آپؐ نے دعا کی کہ اے اللہ! اس کی دوری کو لپیٹ دے۔ یعنی اس کا سفر آسان کر دے اور طے کر دے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب مایقول اذا ودع انسانا) ایک تو اس میں یہ سبق ہے کہ جب بھی سفر پر روانہ ہوں پہلے دعا کر کے چلنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر سفر کی مشکل اور پریشانی اور صعوبت سے بچائے، تکلیف سے بچائے۔
آنحضرت ﷺ نے ہمیں سفر کرنے کے بارے میں جو طریق سکھلائے ان میں سے کچھ بیان کرتاہوں- جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ دعا کر کے چلنا چاہئے۔ پھر سفر میں دعا مانگے وہ دعا بھی ہمیں سکھا دی کہ سفر شروع کرنے سے پہلے جب سواری پہ بیٹھ جائیں تو تین بار تکبیر کہتے ہوئے یہ دعا مانگو

سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَاکُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ۔ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ (الزخرف:۱۴)۔

یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا حالانکہ ہم اسے قابو میں رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اور ہم اپنے رب کی طرف ہی جانے والے ہیں- پھر اور آگے دعائیں ہیں کہ اے ہمارے خدا ! ہم تجھ سے اپنے سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں- توُ ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں- اے ہمارے خدا ! تو ہی ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دور ی کو لپیٹ دے۔ اے ہمارے خدا! تو سفر میں ہمارے ساتھ ہو اور پیچھے گھر میں بھی خبر گیر ہو۔ اے ہمارے خدا ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اوربے چین کرنے والے مناظر سے، مال اور اہل وعیال میں برے نتیجے سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے۔ پھر جب آپؐ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا مانگتے۔ اس میں یہ زیادتی فرماتے کہ ہم واپس آتے ہیں تو بہ کرتے ہوئے، عبادت گزار اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان بن کر۔ یعنی اسی کی تعریف کرتے رہتے ہیں-
تو دیکھیں کیسی جامع دعائیں ہیں- اُس زمانے میں اگر اونٹ اور گھوڑے کی سواری تھی اس کو سدھایا جاتا تھا تو سوار بھی کوئی سواری سیکھتاتھا۔ جس کو سواری آتی تھی وہی ان سواریوں پر بیٹھ سکتا تھا۔ ورنہ اناڑی سوار کو تویہ سواریاں فوراً نیچے پھینک دیں- تو آج کل بھی جو سواریاں ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ ایسی سواریاں بنائے اور پھر ان کے استعمال کی عقل بھی اللہ تعالیٰ نے دی اور یہ سہولت والی سواریاں پیدا فرمائیں تو فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سواری پر بیٹھو اور پھر سفر میں بھی لوگوں کی باتیں اور آپس میں چغلیاں کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہو، اس سے بھلائی مانگواور اس سے ڈرتے رہو اور سفرکے خیریت سے کٹ جانے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو۔ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سفر میں بھی ہماری حفاظت فرمائے۔ ہر قسم کے حادثے سے ہم کو بچا کے رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو انسان ہر شر سے محفوظ رہتا ہے۔ جتنا مرضی کسی کو زعم ہو کہ ہماری نئی گاڑی ہے، بڑی اعلیٰ گاڑی ہے، یا بڑی مضبوط گاڑی ہے اور اس پر ہم انحصار کر سکتے ہیں،بڑا اعتماد کر سکتے ہیں- کبھی سواری پر اعتماد یا انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ ایک پرزہ بھی ڈھیلا ہو جائے، بعض دفعہ فیکٹری سے نکل کر آتی ہے تو پرزہ ڈھیلا ہوا ہوتا ہے یا چلانے والے کو ہلکا سا نیند کا جھونکا ہی آ جائے یا دوسری سواری جوسڑک پر ہے اس کی کوئی غلطی ہو جائے تو کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ اس لئے مومن کاتو کوئی قدم بھی اللہ تعالیٰ کی مددکے بغیر نہیں اٹھ سکتا۔ کوئی لمحہ بھی اس کے فضل کے بغیر نہیں گزر سکتا۔ پھر اگر گھر کے کچھ لوگ آئے ہیں یا اکیلا ہی آیا ہے تو اس سفر میں بھی یہ دعا مانگتے رہنا چاہئے کہ اے خدا پیچھے بھی خیر رکھنا یا تمام گھر والے بھی اگر سفر میں ہوں تو مال و اسباب، سامان وغیرہ گھر میں ہوتا ہے تو اس لئے پیچھے کی خیر کی دعا مانگتے رہنا چاہئے۔ یہاں تو ان ملکوں میں گھروں میں لکڑیوں کا استعمال بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں اور بجلی کا شارٹ سرکٹ ہوا اور واپس آئے تو گھر راکھ کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ اس لئے ہمیشہ سفر میں بھی دعاؤں میں رہنا چاہئے۔ مومن کا تو ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے بغیر نہیں گزر سکتا۔
پھر سفر میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کومل جاتے ہیں جو انسان کی طبیعت پر برا اثر ڈالتے ہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہی دیکھ لیا اس سے طبیعت پر ایک بو جھ پڑ جاتا ہے۔ تو آنحضرت ﷺ ہمیشہ خود بھی دعاکرتے تھے اور ہمیں بھی یہی حکم ہوا کہ جب بھی سفر پر ہو دعائیں مانگتے رہو اور سفر سے واپس آ ؤ تو اللہ کا شکر ادا کرو۔ توبہ کرتے ہوئے گھر میں داخل ہو، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دو تاکہ ہمیشہ اس کا فضل شامل حال رہے۔
حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوسعیدرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تین آدمی سفر پر جائیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں- (سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب فی القوم یسافرون یومرون)
بعض لوگ گروپوں کی شکل میں نکلتے ہیں تو اپناامیر مقرر کر لیں- یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ امیر ضرور مقرر کیا جائے اور پھر جب آپ نے امیر مقررکرلیا تو اس کو مشورہ تو ضرور دیں، مشورہ دینے کا آپ حق رکھتے ہیں لیکن اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی بات نہیں کر رہا تو اس کی ہر بات بھی ماننی پڑے گی۔ اور بچوں میں یہ روح پیدا کرنے کے لئے کہ یہ اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ سفروں میں امیر مقرر کرو، بچوں کے ساتھ جب سفر کریں تو باپ یا جو بھی اس خاندان کا بڑا ہو جس کو بھی آپ امیر بنائیں، بتائے کہ یہ امیر ہے اوراس کی بات ماننی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول نے بتایا ہے کہ سفروں میں امیر ہونا چاہئے۔ تو جب آپ بچوں کو اس طرح ٹریننگ دیں گے تو بچوں کو بچپن سے ہی نظام جماعت سے اطاعت کی بھی عادت پیدا ہو جائے گی اور ایک سفر سفر میں ہی بچوں کو سبق مل جائے گا۔
پھر ایک روایت ہے حضرت کعب بن مالکـ ـؓبیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور وہاں دو رکعت نفل نماز پڑھتے۔ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک)
تو جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا ہے کہ آپؐ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ سفر سے واپسی پر توبہ کرتے ہوئے، اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس سے دعائیں مانگتے ہوئے گھروں میں داخل ہو جاؤ۔ تو اس حدیث نے یہ نمونہ دیا کہ سفر سے واپس آ کر دونفل مسجدمیں ادا کرتے تھے۔ اب دیکھ لیں کیا ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے سکتا ہے، اپنا محاسبہ کر سکتا ہے کہ نفل تو علیحدہ رہے بہت سے ایسے ہیں کہ سفرسے واپس آ کر بچوں میں یا دوسرے گھریلو معاملات میں یا اپنی مجلسوں میں اتنے کھو جاتے ہیں، دنیاوی معاملات میں اتنے زیادہ گم ہو جاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آجکل کا سفر اُس زمانے کے سفر کے لحاظ سے بہت آرام دہ ہے، کوئی مقابلہ ہی نہیں اس زمانے کے سفر کے ساتھ، لیکن پھر بھی جو فرض نمازیں ہیں وہ بھی قضا کر کے پڑھتے ہیں یا پڑھتے ہی نہیں اورتھکاوٹ کا بہانہ بنا لیتے ہیں- اگرہر کوئی اپنا اپنا جائزہ لے تو آپ کو بڑی واضح تصویر سامنے آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب سستیاں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ کیونکہ وہ تمہارے کھانے، پینے اور سونے میں روک بنتا ہے پس چاہئے کہ جب مسافر اپنا کام مکمل کر لے تو اپنے اہل کی طرف واپسی کے لئے جلدی کرے۔ (مسلم کتاب ا لامارۃ۔ باب السفرقطعۃ من العذاب واستحباب تعجیل المسافر الی اھلہ بعد قضاء مشغلۃ)
آجکل بھی آپ دیکھ لیں کہ باوجود اس کے کہ سفر میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں- جہازوں، کاروں، گاڑیوں وغیرہ کے ذریعے ہم ہزاروں سینکڑوں میل کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود گھر سے بے گھر ہو کر ڈسٹرب (Disturb)ضرور ہوتے ہیں- آدمی کی وہ روٹین(Routine) نہیں رہتی جو اپنے گھر میں ہوتی ہے کھانے کے اوقات میں یا اس کی پسند میں تبدیلی آ جاتی ہے` بعض مریضوں اور خوراک کے معاملے میں خاص مزاج رکھنے والے لوگوں کو تو سفروں میں بہت دقت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اوقات کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی نہیں رہتی، سونے جاگنے میں باقاعدگی نہیں رہتی۔ جن کو وقت پر فجر کی نماز پڑھنے کی عادت بھی ہووہ بھی بعض دفعہ سفر کی وجہ سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور نما ز چھوٹ جاتی ہے۔ اور بعض لوگ جس طرح کہ پہلے میں نے کہا کہ رات دیر تک مجلسیں لگانے کی وجہ سے ان کی نمازیں قضا ہو جاتی ہیں- تو جب اللہ کے حقوق ادا نہ ہو رہے ہوں تو پھر سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہی بن جاتا ہے۔
پھر ایک روایت میں ہے حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے کہ میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے پناہ چاہتا ہوں- عربی میں الفاظ یہ ہیں

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ۔

تو فرمایا کہ جب یہ دعا مانگو گے تو اس شخص کو رہائش اختیارکرنے یااس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (مسلم کتاب الذکر باب التعوذ من سوء القضاء ودرک الشقاء وشرہ)
تو سچی نیت سے تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جب مومن سچے دل سے یہ دعا مانگے گاتو اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ضمانت دیتے ہیں کہ پھر تم ہر شر سے محفوظ رہو گے۔ تو اس سفر میں بھی جو آپ کا خالصتہً للّٰہی سفر ہے اور آئندہ ہر قسم کے سفر میں اس دعا کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ دعاؤں پر زور دیں اور ہمیشہ سفروں میں دعاؤں پر زور دیتے رہیں کہ مسافر کی دعائیں بھی بہت قبول ہوتی ہیں-
ایک روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جو قبولیت کا شرف پاتی ہیں- مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی بیٹے کے بارے میں بددعا۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما ذکر فی دعوۃ المسافر)
تو یہ تو فرمایا کہ سفر میں دعائیں مانگو اور یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ کیا کیا دعائیں مانگو کچھ تو میں پہلے بتاآیا ہوں- ان دعاؤں کے بارے میں ایک اوربھی روایت ملتی ہے کہ کیا دعا مانگنی چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو آپؐ دعاکرتے کہ اے زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ میں تجھ سے اور جو کچھ تیرے اندر ہے اس کے شر سے، اور جو کچھ تیرے اندر پیدا کیا گیا ہے اس کے شر سے، اور جو کچھ تیرے اوپر چلتا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں- اور میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور اژدھا ا ور سانپ اور بچھوکے شر سے اور شہروں کے رہنے والوں سے اور بدی کا آغاز کرنے والے سے اور اس بدی سے جس کا اس نے آغاز کیا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب ما یقول الرجل اذا نزل المنزل)
تو دیکھیں کئی جگہ جب آدمی جاتا ہے تو بہت سے ناپسندیدہ واقعات ہوجاتے ہیں- آپؐ نے ان سب سے پناہ مانگی ہے۔ ان ملکوں میں آپ لوگ جو پاکستان سے آئے ہیں یا یہاں بھی سفر کرتے رہتے ہیں یا دنیا میں احمدی کہیں بھی سفر کر رہے ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو بعض برائیاں حملہ آور ہوتی ہیں، ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر یہاں کے ماحول کی آزادی اور بعض ایسی غلط باتیں ہیں جن سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے۔ آپ کی روایات آپ کے مذہب کی تعلیم یہی ہے کہ ان باتوں سے بچو اور اپنی روایات کو قائم رکھواور اس معاشرے کی برائیوں کا زیادہ اثر نہ لو۔ لیکن اکثر لوگ اثر لے لیتے ہیں اور پھر وہ کہتے ہیں نا!’ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘۔ پھر نہ اپنی چال رہتی ہے نہ ہنس کی چال رہتی ہے۔ تو کسی معاشرے کی اچھائیاں اپنانا اچھی بات ہے۔ بلکہ یہ مومن کی گمشدہ چیز ہے، متاع ہے۔ لیکن ہر معاشرے کی جو برائیاں ہیں ان سے ضرور بچنا چاہئے۔ اور یہ اچھائی اور برائی کی تمیز آپ کو اس وقت ہو گی جب آپ کو دین کے بارے میں بھی صحیح علم ہوگا۔ اس لئے اپنے دین کے سیکھنے پہ بھی بہت غور کرنا چاہئے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر کی غرض سے روانہ ہونے کیلئے سورج کے غروب ہو جانے سے رات کی سیاہی کے دور ہونے تک اپنے جانوروں کو نہ کھولوکیونکہ رات کی تاریکی میں شیاطین چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں- (سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد باب مؒ فی کراھیۃ السیر اولی النہار)
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کو سفر کرنے سے بچیں- یہاں بھی یورپ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی وقت بچانے کے لئے رات کا سفر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ا ور خاص طور پر جب کاموں سے فارغ ہو کر چاہے وہ دنیاوی کام ہوں یا دینی مقاصد کیلئے سفر ہوں اجتماعوں، جلسوں وغیرہ پر آنے جانے کے لئے اس طرح سفر کرنا چاہئے کہ اگر انتہائی مجبوری بھی ہو تو کم از کم نیند پوری ہو جائے۔ اور یہ تسلی ہو کہ راستہ بھی محفوظ ہے۔ بہت سے حادثات صرف نیند نہ لینے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ہو جاتے ہیں- اور پھر ہم سب کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں- اس لئے ہمارے محسن اعظم ﷺ نے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی نصائح ہمیں فرمائی ہیں ان کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دعا کی کہ: اے اللہ میری امت کے علی الصبح کئے جانے والے سفروں میں برکت رکھ دے۔ یہ روایت حضرت صخرؓ غامدی کی ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ جب کسی سریّہ یا کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو اسے دن کے پہلے حصے میں روانہ فرماتے۔ اور صخرؓ ایک تاجر شخص تھے وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے تجارتی اموال دن کے پہلے حصے میں روانہ کرتے تھے۔ اور اسی وجہ سے وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت بڑھ گیا۔ (سنن ابی داؤد کتا ب الجہاد باب فی الابتکار فی السفر)
تو کاروباری آدمی کو بھی سفر صبح صبح کرنا چاہئے۔ کوئی بھی سفر ہو جلدی نکلنا چاہئے کیونکہ صبح کے سفر شروع کرنے میں بہت برکت ہے۔ آدمی اس دعا کا حقدار بن جاتا ہے جوآنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے لئے کی۔ لیکن یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ برکتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہیں- اس لئے یہ ہمیشہ مد نظر رہنا چاہئے کہ سفر شروع کرتے وقت بھی اور سفر کے دوران بھی اور واپسی پر بھی کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی عبادت سب سے اول ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ آپ اپنے کاروباری سفر کریں گے تو ان میں پہلے سے بہت زیادہ برکت پڑے گی۔ کئی لوگ ملتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں یا ملازمتوں پر جاتے ہیں باقاعدگی سے روزانہ صبح اٹھنے والے بھی ہیں لیکن ان کا طریق یہ ہو گیا ہے کہ گھر سے نماز سے چند منٹ پہلے نکلے اورراستے میں کار چلاتے وقت ٹکریں مار کے نماز پڑھ لی یا کچھ لوگ کبھی نہیں بھی پڑھتے۔ تویہ بالکل غلط طریق ہے۔ یا تو گھر سے نماز پڑھ کر اور دعا کر کے سفر شروع کریں یا راستے میں رک کر نماز ادا کریں- لیکن نماز کو نماز سمجھ کر پڑھنا چاہئے نہ کہ جان چھڑانے کے لئے یا مجبوری کے تحت کہ نماز پڑھنی ہے گلے سے اتارو۔ اس طرح ٹکریں نہیں مارنی چاہئیں- حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس طرح نہ پڑھو کہ لگے کہ مرغی دانہ کھا رہی ہے، صرف ٹکریں ہوں-
ا ب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے سفر کا کس طرح اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ان سفروں میں جو آپ نے بعثت سے پہلے زمانے میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی اطاعت وپیروی کا نمونہ دکھانے کے لئے کئے آپ کے معمولات بہت مختصر تھے۔ کسی قسم کا سامان آپ ساتھ نہیں لیتے تھے۔ صرف وہی لباس ہوتا تھا جو آپ پہنے ہوئے ہوتے تھے اور ایک مختصر سا بستر، ایک لوٹا اور ایک گلاس بھی لیا کرتے تھے۔ اور جو بعثت کے بعد کے سفر ہیں ان کی نوعیت پھر تبدیل ہو گئی۔ کیونکہ سفروں میں بہت سارے لوگ آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ قافلہ ہوتا تھا، ایک جماعت ساتھ ہوا کرتی تھی۔ اس لئے آپ کا معمول تھا کہ بہت سی موم بتیاں، ضروری ادویات اور دیا سلائی وغیرہ تک ساتھ رکھا کرتے تھے۔ تاکہ جب کسی چیز کی ضرورت ہو تلاش نہ کرنی پڑے۔ اور انہوں نے لکھا ہے کہ چونکہ اس وقت سیا ہی بھرے ہوئے پینوں (Pens) کا رواج نہیں تھا تو اس لئے قلم کاغذ دوات بھی ساتھ رکھاکرتے تھے۔ ا ور لمبے سفروں میں جو تبلیغی سفر تھے عام طور پر حضرت ام المومنین اور بچوں کو ساتھ رکھتے تھے اور یکّے (ٹانگے) کی سواری میں آپ اندر بیٹھا کرتے تھے۔ اور ریلوے کے سفر میں سیکنڈ کلاس میں ابتداء ً اور پھر تھرڈ اور انٹرمیں سفر کیا کرتے تھے۔ مگر آپ تھرڈ، انٹر یا سیکنڈ کی تمیز یا خصوصیت نہیں کرتے تھے بلکہ صرف چونکہ ان کلاسوں میں بیت الخلاء کی زیادہ سہولت ہوتی ہے اس لئے اس کو پسند کرتے تھے اور ضرورت پڑتی تھی اور عام طور پر آپ کا طریق یہ تھا کہ علی الصبح سفر پر روانہ ہوتے تھے (اسی حدیث کی روشنی میں ) جب ریلوے سفر ہوتا تو ریل کے اوقات کے لحاظ سے بعد دوپہر بھی روانہ ہوتے۔ رات کے پہلے حصے میں سفرکو پسند نہیں فرماتے تھے کہ رات کے پہلے حصے میں سفر کیا جائے۔ بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر سفر کرنا چاہئے۔ وہی جومیں نے بات آپ سے کی کہ کچھ دیر نیند پوری کر کے پھر سفر کرنا چاہئے۔ ا ور ثابت نہیں ہے کہ رات کے ابتدائی حصے میں آپ نے سفر کیا ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے سفرکا آغاز رات کے ابتدائی حصے میں کیاہو۔ ریل کے سفر میں بھی اس کو ملحوظ رکھتے تھے۔
پھر ایک روایت ہے آخری روایت۔ حضرت ابو اَمامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے سیرو سیاحت کی اجازت دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا میری امّت کی سیر وسیاحت اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ہے۔ (سنن ابو داؤد کتا ب الجہاد باب فی النھی عن السیاحۃ)
تو اس حدیث میں ہمیں ایک یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارے جو بھی سفر ہیں ایک بات یاد رکھو کہ یہ سفر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے ہوں- سیر کرنے کے لئے بھی جب نکلو تو اللہ کی مخلوق پر غور کرتے رہو۔ مختلف نظارے دیکھو،ان پہ غور کرو۔ اور پھر تمہارا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کی طرف لے جانے والا ہو۔ جہاد یہ نہیں کہ صرف تلوارسے ہی جہاد کرنا ہے۔ بلکہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ۔ تمہارے سفر میں اپنے نفس کے خلاف بھی جہادہے۔ ایسے موقعے پیداہوں تو اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھو اور کبھی ایسا فعل سرزد نہ ہونے دو جو تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والا ہو جائے۔ بلکہ تمہارا سفر اور تمہارے سفر میں اٹھنے والا تمہارا ہر قدم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے والا ہو۔ اور پھر اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑکے ماننے والوں کا سب سے بڑا جہاد دعوت الی اللہ ہے۔ اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ اس کے لئے اپنے سفروں میں تبلیغ کے مواقع ہر ایک کو پیداکرنے چاہئیں- کاروباری سفر بھی اگر ہے تو جس جگہ آپ کاروبار کے لئے جائیں وہاں آپ کے نمونے اور آپ کے طرز عمل کو دیکھ کرلوگوں کی توجہ آپ کی طرف ہو۔ اپنے اندر ایک ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں جو لوگوں کو نظر آتی ہو اور جس کو دیکھ کر لوگوں میں خود بخود آپ کے دین کی کشش پیدا ہو جائے، اسلام کی کشش پیدا ہو جائے۔ اگر دینی اجتماعات کے لئے سفر پر نکلے ہیں تو ان سفروں میں بھی ان اجتماعوں کے بعد ہر احمدی کی طبیعت میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہونا چاہئے۔ پہلے سے بڑھ کر تقویٰ کے معیار قائم ہوں- ایسے روحانی اجتماع میں ہر احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایک جوش پیدا ہو جائے، یہی جہاد ہے۔ اللہ کرے کہ اس جلسے میں آنے والا ہر احمدی اس جذبے کے تحت اس جلسہ میں شامل ہو اور یہ جلسہ ہر احمدی کے لئے بے انتہا برکتوں، رحمتوں اور فضلوں کا لانے والا بن جائے اور ہر احمدی میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوجائے جو نظر بھی آتی ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
آخرمیں ایک افسوسناک خبر ہے اس کے بارے میں ذکر کروں گا۔ حضرت صاحبزادہ مرزامبارک احمد صاحب کی 21جون کو وفات ہو گئی تھی۔ آپ کی عمر 90سال تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اور آپ بڑا لمبا عرصہ بیمار رہے۔ 1914ء میں آپ پیدا ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دوسرے بیٹے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفروں میں کافی رہے ہیں- اور پھر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا، یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور ا س کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی۔ اور تحریک جدید میں حضرت مصلح موعود نے ان کو لگایا تھا۔ اور آپ نے بڑا لمبا عرصہ خدمت سلسلہ کی توفیق پائی۔ بطور وکیل صنعت، زراعت، آ پ بہت عرصہ وکیل التبشیر رہے ہیں، وکیل الدیوان رہے پھر تحریک جدید کے وکیل اعلیٰ رہے۔ اور پھر صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ بھی رہے۔ خلافت رابعہ کے دورمیں صدر مجلس تحریک جدیدرہے۔ ابھی میں نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھا ؤں گا۔ ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاکریں- آپ کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی جو یہیں کینیڈا میں رہتی ہیں امتہ الباقی عائشہ، ان کے خاوند ظفرنذیر صاحب ہیں- اوربیٹے مرزامجیب احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم صاحب۔ ڈاکٹر خالد تسلیم صاحب بھی آجکل ربوہ میں ہیں اور اللہ کے فضل سے اہل ربوہ کی بڑی خدمت کر رہے ہیں- اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے اور ان سب کو صبر کی توفیق دے۔ میاں مبارک احمد صاحب میرے ماموں بھی تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں