خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 5؍ نومبر2004ء

دفتر اوّل کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک کی یاددہانی
وہ تمام احمدی جو ابھی تک تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل نہیں ہوئے انہیں دفتر پنجم میں شامل کیا جائے
تحریک جدید کا نظام، نظام وصیت کے لئے ارہاص کے طورپر ہے اور نظام وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بڑا گہرا تعلق ہے
سال گزشتہ میں تحریک جدید میں مالی قربانی پیش کرنے کے لحاظ سے دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان اول، امریکہ دوم اور برطانیہ تیسرے نمبر پر رہا
تحریک جدید دفتر اول کے 71ویں سال کا، دفتر دوم کے 61ویں سال، دفتر سوم کے 40ویں سال کا، دفتر چہارم کے 20ویں سال کا اور دفتر پنجم کے پہلے سال کااعلان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
5؍ نومبر2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن۔ لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْء فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ-(آل عمران:93)

اس کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکو گے۔ یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
یکم؍ نومبر سے ہر سال تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اور عموماً پہلے یا دوسرے جمعہ میں اس کا ا علان ہوتا ہے۔ نئے آنے والوں اور شعور کی عمرکوپہنچنے والے بچوں اور بعض نوجوانوں کو شاید تحریک جدید کی تاریخ کا صحیح طور پر علم نہ ہو اس لئے مختصراً یہاں اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا۔
تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا جب جماعت کے خلاف ایک فتنہ اٹھا، احرار نے بڑا شور مچایا۔ مخالفت کا ایک طوفان تھا کہ احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ قادیا ن کا نام و نشان مٹانے کی باتیں ہوتی تھیں- اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں ہوتی تھیں- بہشتی مقبرہ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مزار ہے اور دوسرے مقدس مقامات کی بے حرمتی کے پروگرام تھے اور پھر حکومت کی طرف سے بھی بجائے تعاون کے مخالفین کی زیادہ حمایت نظر آتی تھی۔ ان کی طرفداری تھی۔ تواس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو تحریک کی کہ ایک فنڈ مہیا کریں،کچھ چندہ اکٹھا کریں،رقم اکٹھی کریں- اس سوچ کے ساتھ یہ تحریک کی کہ مخالفین کی ریشہ دوانیاں،یہ شور شرابہ اس لئے ہے کہ جو تبلیغ کا حق ہمیں ادا کرنا چاہئے وہ ہم نے پوری طرح ادا نہیں کیا۔ اس کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا، احمدیت کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے جوکو شش ہونی چاہئے تھی وہ اس طرح نہیں کی گئی جو حق تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ جماعت کو اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ اور احمدیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا چاہئے۔ اور اس کے لئے آپ نے جماعت کو مالی قربانی کی تحریک کی۔ فرمایا کہ تین سال میں کم از کم 27ہزار روپیہ جمع کریں-
لیکن یہ بات دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ مسیح موعودؑکی اس پیاری جماعت نے تین سال میں 27ہزار جمع کرنے کی بجائے پہلے سال ہی ایک لاکھ روپیہ پیش کر دیا۔ (یہ ستائیس ہزار روپیہ تین سال میں جمع ہونا تھا)اور تین سال میں چار لاکھ روپے سے زیادہ کی قربانی کی۔ آج ہم اس رقم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک تو روپے کی قیمت آج کل کے لحاظ سے بہت بہتر تھی۔ آج تو پاؤنڈ ایک سو دس روپے میں آجاتا ہے۔ اس لئے تصور نہیں ہے۔ پھر جماعت کے افراد کی مالی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ کہہ سکیں کہ صاحب ثروت اور امیر لوگوں نے قربانی کر دی ہو گی۔ نہیں، بلکہ دو آنے چار آنے، روپیہ، دو روپیہ پیش کرنے والے لوگ تھے اور انہیں کی تعداد تھی جو اکثریت میں تھی۔ اپنے پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو سوکھی روٹی کھلا کر یہ قربانیاں کی گئی تھیں کہ خدا کے خلیفہ نے ہمیں آج پکارا ہے کہ میرے انصار بن کر آؤ اپنی زندگیوں میں مزید سادگی پیدا کرو اور اس مال میں سے جس کی تمہیں ضرورت ہے خرچ کرو، اللہ کی راہ میں قربان کرو، اللہ کی خاطر اس کو دو۔ کیونکہ آج دشمن اس سوچ میں ہے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے، احمدیت کو جڑ سے ختم کر دے، مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کرے۔
تو یہ تھے وہ حالات جن میں اُس زمانے کے احمدیوں نے، اُس وقت کے احمدیوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں- اور جو مطالبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا اس سے کوئی 15,14 گنا زیادہ رقم اکٹھی کرکے خلیفہ ٔ وقت کے قدموں میں لا کے رکھ دی اس لئے کہ دین کی مدد کرکے ہم بھی خدا کو راضی کریں- وہ خدا جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے وہ کیا کہے گا کہ جو کچھ مَیں نے تمہیں دیا تھا جب میرے دین کے لئے ضرورت پڑی ہے تو تم چھپانے لگ گئے ہو۔ حالانکہ میرے علم میں ہے کہ کس کے پاس کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ اکثر نے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر یہ قربانیاں خدا کو راضی کرنے کے لئے دیں- کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ اسی میں ہماری بقا ہے کہ آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے چاہے وہ کم ہے لیکن ان کے لئے تو وہی بہترین حصہ تھا، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دیا جائے۔ کیونکہ اسی وجہ سے انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں شمار ہو سکتے ہیں جن کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کے لئے دوڑا چلا آتا ہے جن کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں کی گئی قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں- ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تعلیم کا جو قرآن ہی کی تعلیم ہے اس کا مکمل ادراک اور سمجھ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز نہیں پا سکتے بجز اس کے کہ تم خداتعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔ (فتح اسلام صفحہ 63۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد نمبر 2 صفحہ 130 مطبوعہ ربوہ)
غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مالی و سائل کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ پھر زندگیاں وقف کیں جن کے ذریعہ سے ہندوستان سے باہر احمدیت کاپیغام زیادہ منظم ہوکر پھیلنا شروع ہوا۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے دوسرے ملکوں میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں (قید بھی ہوئے)۔ غرض اشاعت دین کے لئے یہ تحریک جو حضرت مصلح موعودؓ نے شروع کی تھی اس کے لئے اس زمانے کے لوگوں نے بے انتہا قربانیاں دیں- اور آپؓ نے شروع میں فرمایا تھا کہ یہ تحریک دس سال کے لئے ہو گی۔ پھر جب دس سال ختم ہو گئے تو آپؓ نے اس کو مزید بڑھا دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق یہ مستقل تحریک بن گئی۔
اور آج ہم جو دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیت کی ترقی کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ان پہلے لوگوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ جماعتی ترقی کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انفرادی طورپر بھی اُن لوگوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں کیا۔ اُن لوگوں نے اُس وقت جو چند آنوں اور روپوں کی قربانیاں دی تھیں ان میں سے اکثر کی اولادیں آج بڑی آسودہ حال اور بہتر حالات میں ہیں لاکھوں کما رہی ہیں- مالی لحاظ سے بڑی اچھی حالت میں ہیں- بعض ان میں سے شاید ایسے بھی ہوں گے جو تحریک جدید کے اس وقت کے بجٹ کے مطابق شاید آج کل انفرادی طور پر بھی چندہ دے دیتے ہوں- لیکن ان لوگوں کی قربانیاں بھلائی نہیں جا سکتیں- اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اظہار کیا تھا کہ تحریک جدید کے جو شروع کی قربانی کرنے والے ہیں ان کے کھاتوں کو تاقیامت زندہ رکھا جائے، ہمیشہ جاری رکھا جائے اور ان کی اولادیں یہ کام اپنے سپرد لیں،اس ذمہ داری کو اٹھائیں اور ان کے کھاتے کبھی مرنے نہ دیں- وہ پانچ ہزار مجاہدین جو تھے ان کے کھاتے کبھی نہ مریں- شروع میں وہ پانچ ہزار تھے اس کے لئے دو دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے تحریک کی کہ ایسے لوگوں کی اولادیں کچھ ہوش کریں اور آگے آئیں اور اپنے بزرگوں کے کھاتے جو فوت ہو گئے، جنہوں نے قربانیاں دیں، ان کھاتوں کو دوبارہ زندہ کریں- ان کے نام رجسٹروں میں رہنے چاہئیں- ان کے نام کا چندہ جاری رہنا چاہئے۔ چند روپے ہی تھے وہ، لیکن ان کا نام بہرحال رہنا چاہئے۔ اور یہ تاقیامت رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اس وقت ان میں سے اکثریت یہ لوگ پانچ دس روپے ہی دینے والے تھے۔ ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ یہ کھاتے دوبارہ زندہ نہ کئے جا سکیں- ان کے نام کے چندے دوبارہ جاری نہ کئے جا سکیں- جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ بہتوں کے حالات اب ایسے ہیں کہ ان کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کے چندے دوبارہ دینا شروع کر دیں- بہرحال دفتر تحریک جدید نے بھی حضورؒ کے توجہ دلانے پر کوشش کی تھی اور ان پانچ ہزاری مجاہدین میں سے چونتیس سو کے کھاتے دوبارہ جاری ہو گئے تھے، ان کے نام کے چندے دئیے جانے لگ گئے تھے۔ لیکن پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے یا کچھ لوگوں کے باہر نکل جانے کی وجہ سے یا اور کچھ وجوہات سے پھر اس طرف توجہ کم ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ باہر آ کے کچھ لوگ چندے اپنے بزرگوں کے نام پہ دیتے بھی ہوں لیکن باہر کے ملکوں میں یہ ادائیگیاں ان کے بزرگوں کے نام میں شمار نہیں ہوتیں- اور اگر ہوتی بھی ہیں تو مرکز میں کیونکہ ریکارڈ ہے وہاں درج نہیں ہوتیں- اور ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے نام پر ادائیگی کر رہے ہوں اور آپ کے نام پر یہ ادائیگی شامل کی جا رہی ہو۔ تو جیساکہ مَیں نے کہا کیونکہ ریکارڈ مرکز میں ہے اس لئے ایسے بزرگوں کی اولادیں اپنے بزرگوں کے کھاتے اگر زندہ کرنا چاہتی ہیں تو وہ سہولت اسی میں ہے کہ مرکزربوہ سے رابطہ کریں کہ ان کی کیا کیا رقم تھی یا وعدے تھے اور وہیں ادائیگی کی کوشش کریں تاکہ ریکارڈ درست رہے۔ کیونکہ اب جیسا کہ میں نے کہا یہ چونتیس سو جو کھاتے تھے ان میں سے بھی توجہ کم ہوتی چلی گئی ہے اور پھر یہ اب اکّیس سو کے قریب رہ گئے ہیں- اس لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جن بزرگوں کے کھاتے کوئی زندہ نہیں کرتا ان کے حساب میں کوئی چندہ نہیں دیتا، ان کے اس وقت کے مطابق جو چند روپوں میں ادائیگی ہوتی تھی، (پانچ دس روپے میں) یا ویسے بھی ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے ٹوکن کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ فرمایا تھا کہ پانچ روپے کے حساب سے ایک ہزار کی میں ذمہ واری اٹھاتا ہوں- میں اپنے ذمے لیتا ہوں اگر ان کی اولادیں ان کے نام کے ساتھ چندہ نہیں دے سکتیں- آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اور اس طرح لوگ آگے آئیں اورذمہ واری اٹھائیں- اور اپنے بارے میں یہ فرمایا کہ میرے بعد میری اولاد امید کرتا ہوں اس کام کو جاری ر کھے گی۔ تو بہرحال آپ کو بھی دفتر نے توجہ نہیں دلائی یا ریکارڈ درست نہیں رکھا، ہو سکتا ہے کہ اپنے چندوں میں شامل کرکے آپ ان لوگوں کے لئے چندے دیتے رہے ہوں لیکن بہرحال ریکارڈ میں یہ بات نظر نہیں آرہی کہ آپ کا وعدہ تھا۔ اس لئے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا جو اکّیس سالہ دور خلافت تھا جس حساب سے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے فرمایا تھا، اپنے خطبے میں ذکر کیا تھا۔ اب دفتر تحریک جدید کو مَیں کہتا ہوں کہ یہ حساب مجھے بھجوا دیں- مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اس کی ادائیگی کر دے گی۔ جو بھی ان کا حساب بنتا ہے، ان ایک ہزار بزرگوں کا۔ بہرحال اگر اولاد نہیں بھی کرے گی تو میں ذمہ واری لیتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ ادا کردوں گا۔ اور اسی حساب سے دفتر ایسے تمام لوگوں کے کھاتوں کے بارے میں مجھے بتائے جن کے کھاتے ابھی تک جاری نہیں ہوئے تاکہ ان کی اولادوں کو توجہ دلائی جاتی رہے۔ لیکن جب تک ان کی اولادوں کی اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی، اسی حساب سے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کھاتے ٹوکن کے طور پر زندہ رکھنے چاہئیں، ان لوگوں کی ادائیگی مَیں اپنے ذمے لیتا ہوں، انشاء اللہ تعالیٰ مَیں اد اکروں گا۔ اور جب تک زندگی ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے ادا کرتا رہوں گا اس کے بعد اللہ میری اولاد کو توفیق دے۔ لیکن یہ لوگ جن کی قربانیوں کے ہم پھل کھا رہے ہیں- ان کے نام بہرحال زندہ رہنے چاہئیں- اللہ تعالیٰ ان سب کی اولادوں کو توفیق دے۔
یاد رکھیں کہ یہ فیض، یہ فضل، جیسا کہ مَیں نے کہا ان لوگوں کی قربانیوں کی ہی وجہ سے ہے جو آج ہم پر ہے۔ اور آج آپ کی اس قربانی کی وجہ سے اسی طرح بڑھ کریہ فیض اور فضل آپ کی نسلوں میں، آپ کی اولادوں میں جاری ہو جائے گا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی۔ جیسے تم میں کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور بڑا جانور بنا دیتا ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ۔ باب لایقبل اللہ صدقۃمن غلول)
تو یہ ہے اللہ کے رسولؐ کا وعدہ اور یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ میں بڑھاتا ہوں اور اتنا بڑھاتا ہوں کہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پس اس بات پر خوفزدہ نہ ہوں کہ اتنے لمبے عرصے کے کھاتے کس طرح زندہ کئے جائیں- جتنا زیادہ سے زیادہ پیچھے جا کر اپنی توفیق کے مطابق کھاتے زندہ کر سکتے ہیں، وہ کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی دیکھیں- اور پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ فضل بڑھاتا چلا جائے گا آپ کی توفیق بھی بڑھتی جائے گی۔ پھر یہ بھی خواہش ہو گی کہ مَیں وہ تسلسل قائم رکھوں اور کوئی بیچ میں سال ایسا نہ ہو کہ خالی گیا ہو۔ اگر ایسے لوگ کچھ دیتے ہیں تو دفتر بھی یہ خیال رکھے صرف تسلسل کے پیچھے نہ پڑھائیں، قواعد کی زیادہ پیچیدگیوں میں، اگر کوئی کھاتے زندہ کرنا چاہتا ہے تو کھاتے زندہ کر دیں-
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے سخی کواور دے۔ اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر۔ دوسرا کہتا ہے اے اللہ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللہ فاما من اعطی واتقی…)
تو یہ ایک اور ترغیب ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے والدین کی قربانیوں کی طرف توجہ نہیں کی۔ اپنے لئے بھی اور اپنے والدین کی قربانیوں کی طرف بھی توجہ کریں- پس جلدی سے آگے بڑھیں اور فرشتوں کی دعائیں لینے والے بنیں تاکہ آپ کی اولادیں بھی اس قربانی سے فیض پاتی رہیں- یہی سب سے بڑا خزانہ ہو گا جو آپ اپنی اولادوں کے لئے ان دعاؤں کا چھوڑ کر جائیں گے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے، ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کو راہ حق میں خرچ کردیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب انفاق المال فی حقہ)
پرانے بزرگوں کے کھاتوں کے علاوہ تو ماشاء اللہ اس وقت جو بعض جگہوں پہ قربانی کا معیار ہے۔ جماعت میں بہت اعلیٰ معیاری قربانیاں ہیں- جماعت قابل رشک نمونے دکھاتی ہے اور دکھا رہی ہے۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہر سال یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن ان معیاروں کو قائم رکھنے کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کوبھی تلقین کرتے رہیں-
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے گھر کی کھانوں کی چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے، بشرطیکہ بگاڑ کی نیت نہ ہو تو اس عورت کو بھی ویسا ہی ثواب ملے گا جیساکہ اس کے خاوند کواس مال کے کمانے کی وجہ سے ملا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اجرالمرء ۃ اذا تصدقت من بیت زوجھا…) کیونکہ رقم خاوند کی ہے۔ اگر وہ خرچ کرتی ہے تو دونوں کو اس کا ثواب مل رہا ہے۔ جماعت پر بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ ہماری جماعت کی خواتین اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں-اور اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں- پھر بعض عورتوں کے ہاتھوں میں اتنا سگھڑ پن ہوتا ہے کہ عام طور پہ گھر والوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا اور اسی طرح گھر کا نظام چل رہا ہوتاہے، گھر کا وہی معیار قائم رہتا ہے اور اس میں سے بچت کرکے وہ چندوں میں دے رہی ہوتی ہیں- اگر ایسی عورتیں ہیں جو اچھے طور پہ گھر چلا رہی ہیں، خاوندوں کو بھی ان کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے کہ چندہ فلاں جگہ سے تم نے کس طرح دے دیا۔ جو دے دیا وہ دے دیا۔ اس حدیث کے مطابق ثواب عورت کو بھی مل رہاہے، آپ کو بھی مل رہا ہے۔ اور جن عورتوں کو بچت کی عادت نہیں ہے ان کو بھی بچت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ بعضوں کو فضول خرچی کی بہت زیادہ عادت ہوتی ہے ان کو اپنے اخراجات کو کم کرنا چاہئے۔ دکھاوے کے لئے بلاوجہ گھروں پر خرچ کر رہی ہوتی ہیں- بعض جیسا کہ مَیں نے کہا کہ گھروں میں بھی خرچ کرتی ہیں لیکن بچت کرکے کرتی ہیں- تو چندوں کے ساتھ ساتھ اگر وہ اپنے گھروں میں بھی خرچ کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن فضول خرچی کرکرکے صرف گھر پر خرچ کئے جانا اور کہہ دینا ہمیں چندے دینے کی توفیق نہیں،یہ غلط ہے۔ اور جن ماؤں کو سادگی کی عادت ہوتی ہے اور چندے دینے کی عادت ہوتی ہے تو ان کی اولادوں میں بھی یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ اولادیں عملی زندگی میں آتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح برکت پیدا کر دیتاہے۔ ان کو بھی بہترین انداز میں بہترین رنگ میں گھر چلانے کے ساتھ ساتھ چندے دینے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہے یہاں مَیں بتا دوں کہ بعض گھروں میں کشائش آنے کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ مَیں نے کہا فضول خرچی کی عادت پڑ جاتی ہے اور دکھاوے کے لئے خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تو ان لوگوں کوپھرمَیں کہتا ہوں کہ توجہ کرنی چاہئے۔ اپنے اخراجات کم کریں اور سادگی کو اپنائیں- اور پھر اس سادگی کہ وجہ سے مالی قربانیاں کرنے کی توفیق پائیں-
ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا۔ اپنی روپوں کی تھیلی کا منہ بندکرکے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کیا کرو۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ فیھا استطاع)
جیساکہ مَیں نے کہا جماعت میں بہت تعداد ہے جو دل کھول کر چندہ دینے والی ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اچھی بھلی آمد ہوتی ہے تو حیلے بہانے تلاش کر رہے ہوتے ہیں- بہت سارے اپنے اخراجات شامل کرنے کے بعدکہتے ہیں کہ اصل آمد تو ہماری یہ ہے۔ اس پہ ہم چندہ دیں گے۔ یا اس کے مطابق ہم چندہ دیں گے۔ ہماری آمد کوئی نہیں، حالات بڑے خراب ہیں- تو ان کو بھی سوچنا چاہئے، ناشکری نہیں کرنی چاہئے۔ اس ناشکری کی وجہ سے جو اچھے بھلے حالات ٹھیک ہیں وہ خراب بھی ہو سکتے ہیں- اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ تو یہی کہتا ہے کہ میری راہ میں وہی مال خرچ کرو جو تمہیں زیادہ محبوب ہے۔ اپنی ضروریا ت کو پیچھے ڈالو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر،اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں- اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔ …… لیکن اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے۔ اور خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔ اور وہ گھر بابرکت ہو گا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہو گی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہو گا جہاں ایسا آدمی رہتا ہو گا‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-307)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہئے۔ دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریم ﷺ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لو گ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ:’’انسان اگر بازار جاتا ہے تو بچے کی کھیلنے والی چیزوں پر ہی کئی کئی پیسے خرچ کر دیتا ہے۔ تو پھر یہاں اگر ایک ایک پیسہ دے دیوے تو کیا حرج ہے؟ خوراک کے لئے خرچ ہوتا ہے، لباس کے لئے خرچ ہوتا ہے، اَور ضرورتوں پر خرچ ہوتا ہے، تو کیادین کے لئے ہی مال خرچ کرنا گراں گزرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان چند دنوں میں صدہا آدمیوں نے بیعت کی ہے مگر افسوس ہے کہ کسی نے ان کو کہا بھی نہیں کہ یہاں چندوں کی ضرورت ہے۔ خدمت کرنی بہت مفید ہوتی ہے۔ جس قدر کوئی خدمت کرتاہے اسی قدر وہ راسخ الایمان ہو جاتا ہے۔ اور جو کبھی خدمت نہیں کرتے ہمیں تو ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے۔ چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس عہد کرے کہ مَیں اتنا چندہ دیا کروں گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایا:’’بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خداتعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں-اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ۔ نہایت درجہ کا بخیل(کنجوس) اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے۔ ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ اگر کوئی چارروٹی کھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے سلسلہ کے لئے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اسی طرح سے نکالا کرے۔ چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانوں میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 361-358 جدید ایڈیشن)
پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بچوں، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لئے کیوں نہیں کئے جاتے۔ تو اس وقت بھی جب بچوں پہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہئے اور اس لئے کہ جماعت میں بچوں کے لئے بھی، جو نہیں کماتے ان کے لئے بھی ایک نظام ہے۔ تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے۔ تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لئے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہئے۔ اس کے لئے کہنا چاہئے، اس کی تلقین کرنی چاہئے۔ جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لئے یا کھیلنے کے لئے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہئے۔
اب عید آ رہی ہے۔ بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تحفے بھی ملتے ہیں- نقدی کی صورت میں بھی۔ اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں- اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہو کر یہ سوچ پکّی ہو جاتی ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں، قربانیاں دوں-
پھرنومبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے۔ ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ بہت سے نومبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کوئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں- تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے۔ اب اگر ہندوستان میں،انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی تھی۔
اب مَیں دوبارہ تحریک جدید کے نئے مالی سال کی طرف، جو شروع ہونا ہے، آتا ہوں- لیکن اس سال کے شروع میں جہاں مالی پوزیشن بتائی جاتی ہے چندوں کی تعداد بھی بتائی جاتی ہے وہاں ساتھ ہی نئے سال کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ تو اعلان کرنے سے پہلے اس کا جو تھوڑا سا تاریخی حصہ رہ گیا تھا وہ میں بتا دیتا ہوں- تحریک جدید جیسا کہ مَیں نے بتایا، پہلا دور دس سال کا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے شروع کیا تو اس وقت آپؓ نے اس دور کو دفتر کہا۔ 1934ء میں جب شروع کیا تو وہ دس سال کے لئے تھا وہ دفتر اول کہلاتا تھا۔ اس میں جیسا کہ میں نے بتایا پانچ ہزار مجاہدین شامل تھے۔ پھر کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر جیسا کہ مَیں نے کہا آپؓ نے اس کو مزید آگے بڑھا دیا، دس سال سے زائد کر دیا۔ اور اس دوسرے دور کو دفتر دوم کا نام دیا گیا۔ شروع میں تو دفتر دوم کا کوئی معین عرصہ نہیں تھا، جہاں تک مَیں نے دیکھا ہے، لیکن بعد میں آپ کا ایک ارشاد ملتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آئندہ یہ دفتر قائم ہوتے چلے جائیں گے اور ہر دور، ہردفتر 19سال کا ہو گا۔ لیکن دفتر دوم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی لمبی بیماری کی وجہ سے بند نہ ہوا اور اس وقت، 1964ء میں دفتر سوئم جاری ہونا چاہئے تھا۔ لیکن دفتر سوم اس وقت جاری نہ ہو سکا۔ اور 1966ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں کے لئے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور فرمایا کہ کیونکہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہونا چاہئے تھا اس لئے میں اس کو یکم نومبر 1965ء سے شروع کرتا ہوں- تو اس طرح سے یہ دفتر حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت سے منسوب ہو جائے گا۔ کیونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات 9نومبر 1965ء کو ہوئی تھی۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا کہ کیونکہ اعلان مَیں کر رہا ہوں اس لئے اس کا ثواب مجھے بھی مل جائے گا۔ تو بہرحال اس دفتر سوم کا اعلان خلافت ثالثہ میں ہوا تھا۔ اور پھر دفتر چہارم کا آغاز 19سال بعد 1985ء میں خلافت رابعہ میں ہوا۔ اور اس اصول کے تحت کہ (وہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے اصول رکھا تھا کہ 19سالہ دور ہو گا) آج 19سال پورے ہونے پر دفتر چہارم کو بھی 19سال پورے ہو گئے ہیں اس لئے آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہوں گے وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے۔
ایک تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ نئے بیعت میں شامل ہونے والوں کو احمدیت میں شامل ہونے والوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ایسے تمام لوگوں کو، اب مَیں اس ذریعہ سے دفتر کو ہدایت کر رہا ہوں
کہ چاہے جو گزشتہ سالوں میں احمدی ہوئے ہیں لیکن تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ان سب کو اب تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور ان کا شمار اب دفتر پنجم میں ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا اگر ان کو بتایا جائے کہ مالی قربانی دینی ضروری ہے اور ان کو بتائیں کہ تمہارے پاس جو یہ احمدیت کا پیغام پہنچا ہے یہ تحریک جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی وجہ سے ہی پہنچا ہے۔ اس لئے اس میں شامل ہوں تاکہ تم اپنی زندگیوں کو بھی سنوارنے والے بنو اور اس پیغام کو آگے پہنچانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ حصہ دار بن جاؤ۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہے میرے علم میں ہے کہ ہندوستان میں بھی اور افریقہ میں بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کو مالی قربانی میں شامل نہیں کیا گیا ان کو مالی قربانی میں شامل کریں- پھر اس دفتر پنجم میں نئے پیدا ہونے والے بھی یعنی جو اب احمدی بچے پیدا ہوں گے۔ وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے۔ تو بہرحال افریقہ میں جہاں بہت بڑی تعداد احمدیت میں شامل ہوئی ہے یہ ہماری سستی ہے کہ ان کو ہم مالی نظام میں شامل نہیں کر سکے۔ ایک تو اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ بیعتیں کروانے کے بعد رابطہ صحیح نہیں رکھا پھر ا ن لوگوں کو مالی قربانی کی اہمیت سے صحیح طرح آگاہ نہیں کیا گیا، واقفیت نہیں کروائی گئی۔ اور اب جب مَیں نے جماعتوں کو توجہ دلائی کہ افریقہ میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ رابطے نہیں ان سے رابطے پیدا کریں اسی طرح ہندوستان میں بھی۔ جب ان لوگوں سے رابطے کئے گئے تو انہوں نے شکوہ کیا کہ تم ہماری بیعت کروا کے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور بعض لوگوں نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا۔ بعض ملکوں کے جب مَیں دورے پر گیا ہوں، بعضوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی گئی ہم ملنے کے لئے آ جاتے، وہ نہیں آ سکے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم احمدیت پر قائم ہیں لیکن جو تم لوگوں نے رویہ رکھا ہے اگر کچھ عرصہ اور تم نہ آتے اور ہم سے رابطے نہ کرتے تو پھر ہم انہیں اندھیروں میں چلے جاتے جن میں پہلے پڑے ہوئے تھے۔ تو جماعتوں کو مَیں دوبارہ آج پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ان رابطوں کو قائم کریں اور وسیع کریں اور تربیت کی طرف توجہ دیں- اپنی سستیاں دور کریں اور ان نئے لوگوں کو بھی مالی قربانیوں میں شامل کریں چاہے وہ ٹوکن کے طور پر ہی تھوڑا بہت دے رہے ہوں- اس طرح جیسا کہ میں نے کہا جو نئے بچے ہیں ان کوبھی ماں باپ شامل کرنے کی کوشش کریں- اس مالی قربانی میں شامل کریں- اور خاص طورپر واقفین نو بچے تو ضرور،بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس میں شامل ہونا چاہئے۔ بلکہ بعض احمدیوں کا ایمان تو اس سے بھی تازہ ہوتا ہے کہ کسی کے اولاد نہیں ہوتی تھی تو انہوں نے تحریک جدید میں اپنے بچوں کے نام پر بھی چندہ دینا شروع کر دیا۔ 100روپے بچے کے حساب سے 400روپے دینے شروع کر دئیے (پاکستان کی بات ہے) اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں اولادکی امید پیدا ہوئی اور اب چار بچے ہو گئے۔ جتنے بچوں کا چندہ دیتے تھے اتنے بچے اللہ تعالیٰ نے دے دئیے۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ فوری طور پر نظارے دکھا دیتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے چاہے بچوں کی طرف سے معمولی رقم ہی دیں لیکن اخلاص سے دی ہوئی یہ معمولی رقم بھی خداتعالیٰ کی طرف سے بڑا اجر پانے والی ہوتی ہے۔ اور جماعت میں اللہ تعالیٰ بہت سوں کو یہ نظارے دکھاتا ہے۔ اور پھر اسی چندے کی وجہ سے، ان برکتوں کی وجہ سے پھر آپ کے گھر برکتوں سے بھرتے چلے جائیں گے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک وقت فرمایا تھا کہ تحریک جدید کا جو نظام ہے، تحریک ہے، یہ نظام وصیت کے لئے ارہاص ہے کے طور پر ہے یعنی اس کی وجہ سے نظام وصیت بھی مضبوط ہو گا۔ یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہو گی۔ یہ پیشرو ہے، یہ آگے چلنے والی چیز ہے، اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح ہے۔ لوگوں کو اطلاع دیتا چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اس کے پیچھے آ رہا ہے یہ نظام وصیت کہلائے گا۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکاہوں کہ نظام وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بھی بڑا گہرا تعلق ہے۔ اب اس نظام وصیت کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں- تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کے لئے تحریک جدید کا نظام ہی ہے۔ او رپھر ان قربانیوں کے معیار بڑھنے سے حقوق العباد کے ادا کرنے کے معیار بھی بڑھیں گے۔ پس جماعتیں اس طرف بھرپور توجہ دیں، خاص طور پر توجہ دیں تاکہ آئندہ نظام وصیت بھی مضبوط بنیادوں پر اس قربانی کی وجہ سے قائم ہو۔
اب کچھ اعداد و شمار کے ساتھ مَیں دفتر اول کے 71ویں سال کا، دفتر دوم کے 61ویں سال، دفتر سوم کے 40ویں سال کا دفتر چہارم کے 20ویں سال کا اور دفتر پنجم کے پہلے سال کااعلان کروں گا۔ اور اس خواہش کا دوبارہ اعادہ کرتا ہوں، دوبارہ دوہراتا ہوں کہ دفتر دوم، سوم اور چہارم میں جو شامل لوگ ہیں وہ اپنے دفتر اول کے بزرگوں کے کھاتے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں- بہرحال جیساکہ جماعت کے ساتھ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا سلوک رہا ہے کہ ہر سال گزشتہ سال سے آگے بڑھنے والا ہوتا ہے، جماعت کو قربانیوں کی توفیق ملتی ہے۔ اس سال بھی خداتعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور جماعت کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی ہے۔ اور اللہ کے فضل سے اس وقت تک 127ممالک تحریک جدید میں شمولیت کی توفیق پا چکے ہیں اور رپورٹوں کے مطابق مجموعی طور پر جو تحریک جدید کی مالی قربانی ہے وہ31لاکھ 60 ہزار پونڈ ہے۔ جو گزشتہ سال سے 3لاکھ 48ہزار پونڈ زیادہ ہے۔ اور پوزیشنز کے لحاظ سے باوجود غربت کے پاکستان نے اپنی پہلی پوزیشن قائم رکھی ہے۔ اور امریکہ نے بھی اپنی گزشتہ سال کی طرح دوسری پوزیشن قائم رکھی ہے۔ لیکن اوسط فیصد ادائیگی کے لحاظ سے جو فی احمدی ادائیگی ہے اس لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پہ ہے۔ اور آپ لوگوں کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اس سال جو ایک جگہ آپ ٹکے ہوئے تھے اس سے قدم آگے بڑھایا ہے اور برطانیہ تیسرے نمبر پر آگیاہے۔ اور 35فیصد زائد ادائیگی ہوئی ہے۔ یہ’ کفر ٹوٹا‘ تونہیں ہو سکتا، قسم ٹوٹی خدا خدا کرکے ہو سکتا ہے۔ ماشاء اللہ جماعت برطانیہ بھی مالی قربانی میں بہت بڑھ رہی ہے۔ مساجد کے لئے بھی بڑی رقوم پیش کررہی ہے۔ مساجد بھی تعمیر ہو رہی ہیں اور تحریکات بھی ہیں- اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزا دے بلکہ تمام دنیا کے تمام چندہ دینے والوں کو جزا دے اور ان کے مال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔
مجموعی قربانی کے لحاط سے ملکوں میں پہلے نمبرپر پاکستان، دوسرے پہ امریکہ، تیسرے پہ برطانیہ، چوتھے پہ جرمنی پانچویں پہ کینیڈا۔ ویسے جرمنی والوں کو بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح کینیڈاکوبھی، چھٹے پہ انڈونیشیا، ساتواں ہندوستان، آٹھویں پہ، بلجیم، نویں پہ سوئٹزر لینڈ، دسویں پہ آسٹریلیا اور ماریشس۔ اور مڈل ایسٹ کی جماعتوں میں سعودی عرب، ابو ظہبی اور افریقہ میں غانا نے قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اللہ سب کو جزا دے۔ اور تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے افراد کی جو تعداد ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال کافی اچھا اضافہ ہوا ہے۔ 4لاکھ 18 ہزار سے زیادہ تعداد ہو چکی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے پہ 34ہزار زائد ہے۔ اس میں غانا، انڈونیشیا، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا کی جماعتوں نے نمایاں کام کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اگر مزید توجہ کی جائے نومبائعین کو بھی چندے کی عادت ڈالنے کے لئے اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں، ایک مہم چلائیں تو انشاء اللہ میرے خیا ل میں یہ اضافہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو سکتا ہے صرف توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا کیونکہ اپنا ایک علیحدہ بھی مقابلہ چل رہا ہوتا ہے اس لئے ان کو اس بات کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ پتہ لگے کہ کون کون کس پوزیشن پہ آیا ہے۔ تو اس میں اوّل لاہور ہے، دوم کراچی ہے، سوم ربوہ ہے، اور اس کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان،کوئٹہ، سرگودھا، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، ڈیرہ غازی خان، نواب شاہ اور اوکاڑہ ہیں- اور ضلعی طور پہ سیالکوٹ، میر پور خاص، بہاولنگر، پشاور، بہاولپور، نارووال، بدین، جہلم، سانگھڑ اور وہاڑی۔ تو یہ ہیں ساری پوزیشنیں-
پاکستان اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کے لئے بھی مَیں خاص طور پر دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں-یہ دونوں ملک ایسے ہیں جہاں شرپسند بڑی شدت سے آج کل مخالفت پہ تلے ہوئے ہیں- اللہ تعالیٰ ان کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ خاص طور پر بنگلہ دیش میں ان دنوں میں زیادہ ہی شر پھیل رہا ہے۔ ابھی تک تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی حکومت بڑی عقل سے چل رہی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ میں ایک مسجد میں مخالفین کے حملے کا ارادہ تھا۔ بلکہ ارادہ کیا تھا! حملہ کرنے کے لئے آئے تھے کافی بڑی یعنی ہزار وں کی تعداد میں لیکن پولیس نے کارروائی کی تو سب کو بھگا دیا۔ پولیس بھی حکومت نے کافی تعداد میں بھیجی تھی۔ ان لوگوں کی ہمت تو اتنی ہے کہ قربانی کے نام پہ جنت لینے کے لئے آتے ہیں اور پولیس دیکھ کے دوڑ جاتے ہیں- لیکن اس میں بھی لوگ مُلّاں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتے ہیں-مُلّاں ہمیشہ دوسروں کو آگے کرتا ہے مرنے کے لئے، آپ کبھی قربانی کے لئے پیش نہیں ہوتا۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ بنگلہ دیش کی حکومت کو ثابت قدم رکھے اور ان کو ان مولویوں کے جال میں نہ آنے دے۔ ابھی تک تو بڑی حکمت سے یہ لوگ سارے کام چلا رہے ہیں- ہمیں تو خیر، جماعت کے لوگوں کوگالیاں سننے اور ماریں کھانے کی عادت بھی ہے لیکن اگر کسی حکومت نے اپنی کرسی بچانے کے لئے احمدیوں کو تکلیف پہنچائی ہے یا تکلیف پہنچانے والوں کا ساتھ دیا ہے تو پھر تجربہ یہی ہے اور آئندہ بھی یہی ہو گا انشاء اللہ کہ پھر وہ حکومت بھی اللہ تعالیٰ نے رہنے نہیں دی۔ اس لئے ان کو اس طرف ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے۔ خدا کرے کہ اسی نیک نیتی سے بنگلہ دیش کی حکومت اپنے فرائض نبھاتی رہے۔ اور اللہ تعالیٰ پاکستان کی حکومت کو بھی عقل اور سمجھ دے۔ وہ بھی اپنا کوئی سبق سیکھیں جو کچھ ان کے ساتھ ماضی میں ہو چکا۔ کہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھنا ہے۔
پس اس رمضان میں، اس آخری عشرے میں، خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں اور جن جن ملکوں میں احمدیت کے خلاف منافرت اور شر پھیلایا جا رہا ہے ان کے لئے بھی دعائیں کریں- اور ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ دفتر پنجم کا بھی اللہ تعالیٰ نے آغاز رمضان میں بلکہ اس آخری عشرے میں کروایا ہے اس میں بھی بے انتہا برکت ڈالے اور جیسا کہ میری خواہش ہے کہ اس میں لاکھوں پہلے سال ہی شامل ہو جائیں تاکہ قربانیاں کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’میرے پیارے دوستو! مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے۔ سومیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے۔ اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ا ُن علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خداتعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں’‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 516)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مشن کوہمیشہ جاری رکھنے والے ہوں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں