خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍ جنوری 2005ء

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے تو دنیا میں پھیلنا ہے۔ لیکن ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشش میں لگ جائے۔
آگے بڑھیں اور دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے اللہ کا مددگار بنیں اور ان برکتوں اور فضلوں سے حصہ لیں جو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے والوں کے لئے رکھی ہیں۔
فرانس اور سپین کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نہایت روح پرور اور ایمان افروز واقعات کا بیان۔
ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک میں زلزلہ سے متأ ثرین کی امداد کے سلسلہ میں ہیومینیٹی فرسٹ کے تحت کی جانے والی خدمات کا تذکرہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
28؍ جنوری 2005ء بمطابق28؍صلح 1384ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح۔مورڈن۔ لندن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 178ممالک میں جماعت قائم ہے اوراحباب جماعت ہر جگہ، ہر ملک میں
اخلاص ووفا میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر ملک کی جماعت کی یہ خواہش ہے کہ خلیفۂ وقت کا دورہ ان کے ملک میں ہو۔ کیونکہ خلیفۂ وقت کے دورے سے جماعت میں کام کرنے کی رفتار میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں امیر صاحب نائیجیریا اور ایک اَور نائیجیرین دوست آئے ہوئے تھے، انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ خلفاء کے دورے کے بعد ہمیشہ جماعت میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور کہنے لگے کہ گزشتہ سال آپ کے دورے کے بعد بھی جماعت میں خاص جوش پایا جاتا ہے۔ الحمدللہ کہ جماعت اپنے اخلاص و وفا کی وجہ سے جو اُسے خلافت سے ہے ان دوروں کی وجہ سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن فائدہ تبھی ہے جب ان تبدیلیوں کو مستقل اپنے اندر جاری کر دیاجائے، تبدیلیوں کا اثر مستقل رہے، یہ نہیں کہ کچھ عرصہ بعد آگے قدم پڑنے کی بجائے وہیں پر کھڑے ہو جائیں، تبدیلیوں کا اثر زائل ہونا شروع ہو جائے۔ کیونکہ اگرکھڑے ہو گئے تو پھر پیچھے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے اگر قدم آگے بڑھنے شروع ہوئے ہیں تو یہ اب زندگی کامعمول بن جانا چاہئے، روز مرہ کا حصہ بن جانا چاہئے۔ رفتار میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے لیکن قدم رکنے کبھی نہیں چاہئیں۔ ہر سال تو ہر ملک کے دورے ہو بھی نہیں سکتے کہ آکر پھر دھکا لگایا جائے اور پھر آپ چلیں۔ پھر بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں حالات یا مجبوریوں کی وجہ سے دورے نہیں ہو سکتے۔ اگر سب ممالک دوروں کی انتظار میں رہیں گے تو پھر جس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اس مقصد کا حصول تو بڑا مشکل ہو جائے گا۔ مقصد یہی ہے کہ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور اس پیغام کو بھی آگے پہنچانا ہے۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے اس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی جو حقیقی تعلیم ہمیں دی ہے وہ خلیفہ ٔوقت کی آواز میں سب تک پہنچ رہی ہے۔ اس آواز کے پہنچنے میں تو کوئی روک نہیں ہے،اس کو توکسی ملک کا ویزا درکار نہیں ہے، اس کو تو کسی ملک کے مُلّاں کی مرضی کے مطابق خطبات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ہوائی لہروں پر ہر گھر میں، ہر شہر میں ،اپنی اصلی حالت میں اسی طرح اتر رہی ہے جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا۔
پس جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان کو عارضی تبدیلیاں نہ بنائیں بلکہ یہ تبدیلیاں اب زندگی کاحصہ بن جانی چاہئیں۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں اور اپنے ماحول کو بھی بتائیں۔ ان کو بھی اس نعمت سے فیض اٹھانے کی طرف توجہ دلائیں۔ یہ نہ ہو کہ احمدیت کا پیغام کسی جگہ نہ پہنچا ہو اور اس جگہ کے رہنے والے یہ شکوہ کریں کہ کیوں یہ پیغام ہمیں نہیں پہنچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ آپ کے پیغام نے دنیامیں پھیلنا ہے اور ضرور پھیلنا ہے انشاء اللہ اور کوئی طاقت اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکتی۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ مَیں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ مَیں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے۔ اور جہاں تک مَیں دوربین نظر سے کام لیتا ہوں، تمام دنیا اپنی سچائی کی تحت اقدام دیکھتا ہوں۔ اور قریب ہے کہ مَیں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر مَیں دیکھ رہا ہوں۔میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے حرف حرف اور لفظ لفظ کو زندگی بخشتی ہے۔ اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اِس مشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے۔ ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں ؟ کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں ؟ ‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 403)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فتح تو مقدر ہے۔ آپؑ کی تعلیم نے تو دنیا میں پھیلنا ہے۔ لیکن ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشش میں لگ جائے۔ افریقن ممالک میں خاص طور پر جس طرح پہلے کوشش ہوتی رہی ہے اب پھر وہی کوشش کریں۔ جیسے پہلے منظم ہو کر احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا، اب پھر اس طرف توجہ دیں۔ پہلے تربیت میں جو کمی رہ گئی تھی ان کمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں اور جلد سے جلد اپنے ملک کے تمام نیک فطرت شہریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا غلام بنا دیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے۔ آسمانی تائیدات لوگوں کے دلوں پر بھی اتر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ مختلف ذریعے سے تنبیہ بھی کر رہا ہے، اس کے نظارے بھی ہم ہر جگہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے نظارے طوفانوں اورزلزلوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ ایک خدا کو بھلانے کی وجہ سے انسان انسان کے خلاف جو ظالمانہ حربے استعمال کر رہا ہے وہ اس لئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک ہی ملک کے شہری ظالمانہ طریق پر ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے ہیں، وہ اسی وجہ سے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مسلمان کہلانے والے بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔
پھر مغرب کے نام نہاد امن کے علمبردار، امن کے نام پر ملکوں کی شہری آبادیوں کو تہس نہس کر رہے ہیں، تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے پیسے سے غریب لوگوں کی مدد کریں، ان کی بھوک مٹائیں، اس کی بجائے اس پیسے سے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ تو یہ سب کچھ چاہے وہ قدرتی آفات ہوں یا اللہ تعالیٰ نے دلوں میں سختی پیدا کر دی ہو جس سے انسان اپنی اقدار ہی بھول گیا ہے اور ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح نوچنے اور بھنبھوڑنے لگ گیا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان خداتعالیٰ کو بھول گیا ہے اور زمانے کے امام کو پہچاننے سے انکاری ہے یا خدا کے خوف کی جگہ بندوں کے خوف نے لے لی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ مجھ سے اورصرف مجھ سے ڈرو۔ انسان کو اپنا بندہ بنانے کے لئے، اس کی اصلاح کے لئے، خداتعالیٰ ہر زمانے میں اپنے کسی خاص بندے کو مبعوث فرماتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا ہے۔ یہ دنیا جو خدا کو بھلا بیٹھی ہے اس کو خدا کی طرف لائیں۔ اور آج یہی پیغام لے کرہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک واحد خدا کی پہچان کروائے۔ پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کریں، اپنے آپ کو بھی تقویٰ کے اعلیٰ معیار تک پہنچائیں اور دنیا کو بھی اس حسین تعلیم سے آگاہ کریں۔اس انتظار میں نہ رہیں، جہاں جہاں اور جن جن ملکوں میں بھی احمدی ہیں ،کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہو گا تو اس کے بعد ہی ہم نے اپنے اندر تیزی پیدا کرنی ہے۔ یہ وقت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آسمان پر بھی جوش ہے۔ پس آگے بڑھیں اور دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے اللہ کے مددگار بنیں۔ اور ان برکتوں اور فضلوں سے حصہ لیں جو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے والوں کے لئے رکھی ہیں۔ یہ کام تو ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کا وارث بنانے کے لئے یہ موقع دیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کی تقریباً سب جماعتوں کی خواہش ہے کہ میرے دورے ہوں تاکہ ان میں تیزی پیدا ہو۔ وہ تو ہوں گے انشاء اللہ اور ہو بھی رہے ہیں لیکن اپنے اس کام کو بھی ہر جماعت کو جاری رکھنا چاہئے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان دوروں کی وجہ سے جماعت کو جو خلافت سے تعلق ہے اس میں تیزی پیدا ہو بھی جاتی ہے۔ لیکن ہم اس انتظار میں بیٹھ بھی نہیں سکتے کہ خلیفۂ وقت کا دورہ ہو گا تو کام ہو گا۔ وہ براہ راست ہم سے مخاطب ہو گا تو کام ہو گا۔ کام بہرحال ہوتے رہنے چاہئیں۔ جہاں تک میرے دوروں کا تعلق ہے، گزشتہ سال میں بھی جس حد تک ممکن تھا دورے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کے مخلصین کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے بھی دیکھے، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت نے غالب آنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہمیں موقع دے کر ان فضلوں کا وارث بنا رہا ہے۔
اب گزشتہ دنوں جو مَیں نے دورہ کیا ہے اس کا بھی تھوڑا سا حال بیان کر دیتا ہوں۔ فرانس اور سپین کے دوروں اور جلسوں میں شمولیت کی توفیق ملی، وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائید و نصرت کے بے شمار نظارے دیکھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس میں ہماری کسی کوشش یا ہوشیاری یا چالاکی کا دخل ہے تو وہ غلط بیانی سے کام لینے والا ہے، وہ جھوٹ بولنے والا ہے۔ فرانس کے جلسے میں، فرانس کی جماعت کو بھی امید نہیں تھی جس طرح وہاں کے سربراہوں، صدر اور وزیراعظم نے اور دوسرے وزیروں نے پیغام بھجوائے، اس میں کسی انسانی کوشش کا دخل نہیں تھا۔ خاص طور پر ان حالات میں جب ہر جگہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا قائم ہوئی ہوئی ہے۔ اور پھر وہاں چند دن پہلے ہی وزارت داخلہ نے امیر صاحب فرانس کو بلا کر سوال جواب کئے۔ وہ کہتے ہیں کئی آدمیوں کا پینل تھا اور اس طرح وہ جماعت اور اسلام کے بارے میں تابڑ توڑ اور سخت لہجے میں بات کر رہے تھے اور امیر صاحب سے سوال کر رہے تھے کہ کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ ہمارے جلسے میں بھی روک ڈالیں گے۔ پھر جس علاقے میں ہمارا مشن ہاؤس ہے اور جہاں جلسہ ہوا،وہ بھی ایسے لوگوں کا علاقہ ہے جن کو مذہب سے کم ہی تعلق ہے اور مسلمانوں کے خلاف تو خاص طور پر ان جگہوں پر فضا قائم ہوئی ہوئی ہے۔ اور اس جگہ بھی انتظامیہ کو یہ خطرہ تھا کہ جلسے میں کہیں روک ڈالنے کی کوشش نہ ہو، علاقے کے لوگ کوئی اعتراض نہ اٹھانے شروع کر دیں۔
پھر اس علاقے کے میئر بھی لمبا عرصہ ہمارے خلاف رہے ہیں اور چند سال پہلے مشن ہاؤس اور مسجد کو بھی میئر نے خود آ کے سِیل (Seal)کر دیا تھا۔اور نہ صرف مسجد کو سِیل (Seal)کر دیا تھا بلکہ جوتوں سمیت مسجد کے اندر چلے گئے تھے۔ اور پھر ہمارے وہاں کے لوگوں کو بھی سخت برا بھلا کہا، جماعت کو بھی سخت برا بھلا کہا۔ اس کی طرف سے بھی فکر تھی تو جماعت نے اس کو بھی جلسے پر آنے کی دعوت دی تھی اور ان کا خیال ہے کہ وزارت داخلہ نے بھی ان کو کہا تھا کہ نمائندگی کریں اور جلسہ اٹینڈ کریں۔ تو بہرحال میئر نے آنے کی حامی تو بھر لی تھی کہ آؤں گا لیکن صرف چند منٹ کے لئے۔ لیکن پھر چند منٹ کی بجائے پورا وقت جو میری تقریر کا آخری سیشن تھا اس کے خاتمے تک بیٹھے رہے۔ اور پھر یہ کہ کجا وہ وقت تھا کہ مسجد میں میئر صاحب جوتوں سمیت آئے تھے اور کجا یہ کہ سٹیج پر آنے سے پہلے جوتے اتار رہے تھے۔ اور پھر اپنا پیغام بھی دیا۔ میری جلسے کی تقریر کا فرنچ میں ترجمہ ہو رہا تھا وہ بھی سنا اور جاتے ہوئے امیر صاحب کو کہہ گئے کہ اس تقریر کو لکھوا کر مجھے دو مَیں وزیر داخلہ کو دوں گا۔ اسلام کا یہ پہلو تو پہلی دفعہ سننے اور دیکھنے میں آیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ اب مَیں تمہارے ہر کام میں تمہاری مدد کے لئے تمہارے ساتھ چلوں گا۔ تو یہ تبدیلیاں، یہ دلوں کو پھیرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ پھر اس بات سے بھی بڑے متاثر تھے کہ ایم ٹی اے کے ذریعے سے قادیان والے یہاں کے نظارے دیکھ رہے ہیں اور ہم لوگ وہاں بیٹھے قادیان کے نظارے دیکھ رہے تھے۔ تو یہ بھی جماعت کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ہزاروں میل کی دُوری کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے جلسوں سے فیض اٹھا رہے تھے۔ تو یہ ہے وحدانیت جس کو قائم کرنے کے لئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا کہ ہر جگہ سے ایک طرح، ایک خدا کا نام بلند ہو۔ تو جہاں دینی فوائد اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے اور ان دوروں سے ہوتے ہیں۔ جماعت کی تربیت کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود بخود ایسے بھی سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ غیروں پر بھی اسلام کی خوبیوں کا اثر قائم ہو جاتا ہے۔ یہ سب اثر اور رعب اللہ تعالیٰ کی نصرت سے قائم ہوتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وعدہ فرمایا تھا۔ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ کا آپؑ کا الہام بھی ہے۔
فرانس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مراکو، الجزائر اور بعض دوسرے چھوٹے ملکوں کے لوگ بھی احمدی ہو رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی فرانس کی جماعت ماشاء اللہ کافی فعال ہے، اچھا کام کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو سنبھالنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اب وہاں مشنری کی بھی تعیناتی ہو گئی ہے، ان کو مبلغ بھی مل گئے ہیں۔ امید ہے کہ اب مزید اس سے بہترنتائج پیدا ہوں گے۔ اور پچھلے سال بھی جب میں گیا تھا، وہاں دستی بیعتیں ہوئی تھیں۔ اس سال بھی ہوئیں۔ اور اس دفعہ تو سوئٹزر لینڈ سے بھی تین چار احباب جنہوں نے گزشتہ سال سوئٹزر لینڈ کا جلسہ سنا تھا، ان میں سے کچھ لوگ آئے تھے پھربیعت کرنے کے لئے آ گئے۔ تو اس طرح فرانس میں دو دن بیعت ہوئی۔
مراکو اور الجزائر کی جو عورتیں ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے اور پڑھی لکھی لڑکیوں میں مذہبی رجحان ہے اور بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ عہد بیعت کو نبھا رہی ہیں۔ بلکہ سختیاں برداشت کرنے کے باوجود اپنے خاندان والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں، اپنے گھر والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں۔ اور بڑے درد کے ساتھ اس بات کا احساس رکھتی ہیں اور دعا کے لئے کہتی ہیں کہ ہمارے گھر والے بھی احمدیت قبول کرکے اپنی عاقبت سنوارنے والے بن جائیں۔ کئی عورتوں اور لڑکیوں نے جو پڑھی لکھی ہیں، یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں، ہچکیوں سے روتے ہوئے مجھے کہا کہ دعا کریں ہماری مائیں، ہمارے باپ، ہمارے بھائی، احمدی ہو جائیں۔ تو ایک دو کو تو میں نے کہا کہ اپنی ماؤں کو جو ذرا سا نرم گوشہ رکھتی تھیں، کسی نہ کسی طرح جلسے پر لے آؤ، چنانچہ اگلے دن وہ لے بھی آئیں۔ تو ان ماؤں سے اس کے بعد ملاقات بھی تھی۔ تین چار لڑکیوں کی وہ مائیں تھیں۔ جب ان کی غیر احمدی مائیں آئیں، مسلمان تھیں، تو مَیں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری بیٹیاں احمدی ہیں اور تم لوگ صرف اس وجہ سے ان پر سختیاں کر رہے ہو کہ وہ احمدی کیوں ہیں۔ آج تم نے ہمارا یہ جلسہ سنا ہے، مجھے بتاؤ کہ تمہیں یہاں کیا چیز ایسی لگی ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہو۔کہنے لگیں کچھ نہیں بلکہ یہاں ہر چیز عین اسلام کے مطابق ہے۔ تو مَیں نے ان کو بتایا کہ یہ تو ہماری تعلیم کا حصہ ہے یہ تم نے دیکھ لیا سن لیا، تم اب اپنی بیٹی کو بھی جانتی ہو، یقینا اس کی دینی حالت کا احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا بھی تمہیں علم ہو گا اور اب کا بھی ہے۔ پھر تمہارے دوسرے بچے بھی ہیں جو مسلمان ہیں، تم بتاؤ کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد تمہاری بیٹی کی دینی حالت اچھی ہوئی ہے یا اور خراب ہوئی ہے۔ کہنے لگیں (وہ تین عورتیں تھیں) کہ ہمارے بچے جو احمدی ہوئے ہیں باقی بچوں کی نسبت گھر میں اسلام کی عملی تصویر کا یہی نمونہ ہیں۔ مَیں نے ان کو کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر تم ان پر سختیاں کیوں کر رہی ہو۔ ان اچھوں میں تو تم لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ تو بہرحال ان کے دل کافی نرم ہو گئے۔کچھ نے کہا ہم سوچیں گے احمدی ہونے کے بارے میں۔ ایک عورت نے تو وہیں کہا کہ میں بیعت کروں گی۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چھوٹی سی باتوں سے بعض دفعہ دلوں کو بدل دیتا ہے۔ ان لوگوں میں شرافت ہے، ہمارے بعض لوگوں اور مولویوں کی طرح بزدل اور ڈھیٹ نہیں ہیں کہ مولوی کا خوف زیادہ ہو اور اللہ کا خوف کم ہو۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جانے سے پہلے اکثر کے رویے بالکل نرم ہو چکے تھے۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ احمدی ہوتی ہیں، لیکن بہرحال یہ وعدہ کرکے گئیں کہ اب ہم اپنے احمدی بچوں سے نرم سلوک کریں گے، نرمی کا سلوک کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب بیعت کرنے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے۔
پھر سپین کا دورہ تھا۔ سپین بھی گو یورپ کا حصہ ہے لیکن مجھے تو یورپ سے بالکل مختلف لگا۔ جو لو گ بھی سپین جا چکے ہیں۔ اکثر کی یہ رائے ہے، وہاں جا کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ یہ ملک جہاں چھ سات سو سال پہلے تک مسلمانوں کی حکومت تھی، جہاں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے ایک شہر میں کئی سو مساجد تھیں، جہاں سے پانچ وقت

اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ

کی آوازیں گونجتی تھیں اور اب یہ مساجد یا تو گرا دی گئی ہیں اور جو زیادہ بڑی تھیں، اچھی تھیں، ان کو چرچ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تو بہرحال یہاں بھی جا کے عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ جلسہ سے پہلے ایک دن ہم قرطبہ کی مسجد دیکھنے کے لئے گئے یہاں مسجد کے عین درمیان میں اب عیسائیوں نے ایک چرچ بنا دیا ہے،پرانا بنایا ہوا ہے۔ لیکن باقی مسجد کا حصہ محفوظ ہے، محراب وغیرہ۔ اس طرف کسی کو جانے تو نہیں دیتے لیکن بہرحال انہوں نے دکھایا۔ یہاں جو چرچ ہے اس کی وجہ سے وہاں بشپ کے نمائندے نے استقبال کیا، ہمیں ریسیو (Receive)کیا۔ اور ان کا نیچے بیسمنٹ (Basement)میں ایک کانفرنس روم، کافی بڑا تھا اس میں وہ لے گیا۔ مَیں نے کہا ہم نے تو مسجد دیکھنی ہے وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن شاید اس کو یہی ہدایت تھی۔ بہرحال وہاں لے جا کر انہوں نے ہمیں باقاعدہ بٹھایا جس طرح کوئی کانفرنس ہوتی ہے۔ اور وہاں فارمل ویلکم (Formal Welcome) کیا، خوش آمدید کہااور جماعت کابھی جتنا اس پادری کو تعارف تھا اس نے اچھے الفاظ میں اس کا ذکر کیا۔ پھر اس کے بعد مَیں نے بھی چندالفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا اوربتایا کہ آپس میں مل جل کر رہنے اور امن قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کرنی ہو گی، ایک خدا کی طرف آنا ہو گا۔ بہرحال اس نے سب باتیں سنیں بلکہ وہ تو یہاں تک تیار تھا کہ اگر وقت ہو تو میں سارے شہر کے پادریوں کو اکٹھا کر لوں اور انہیں بھی آپ ایڈریس کریں۔ کیونکہ پہلے پروگرام نہیں تھا اس لئے یہ تو نہ ہو سکا۔ اب وہاں کے جو مبلغین ہیں انہیں چاہئے کہ ان لوگوں سے رابطہ رکھیں۔
پھر اسثبیلیہ جسے اب سپینش میں سَوِیّہ (Seville)کہتے ہیں۔ وہاں گئے۔ یہاں بھی جو پہلے ایک مسجد تھی اس کو بھی اب چرچ میں بدل دیا گیاہے اور ساتھ محل ہے۔ عبدالرحمان اوّل کے زمانے کا بناہوا محل ہے یہاں بھی استقبال ہوا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہاں استقبال ہو گا۔ لیکن بہرحال پادری صاحب نے استقبال کیا اور اپنا تحفہ بھی دیا۔مَیں نے بھی ان کو لٹریچر دیا، اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری چیزیں۔ ایک قرآن کریم بھی دیا تھا۔ تو بہرحال استقبال کے بعد ہم نے مسجد بھی دیکھی، جیسا کہ مَیں نے کہا اسے اب چرچ میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ پتہ نہیں کہ ان پادریوں کا، اللہ بہتر جانتاہے کہ جماعت کو احترام دینے کی کیا وجہ ہے؟ کیوں توجہ پیداہوئی ہے۔
چند دن ہوئے یہاں بیت الفتوح میں امن کانفرنس ہوئی تھی، یہاں بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے۔ مختلف مذاہب کے لوگ، ممبرز آف پارلیمنٹ اور بعض پادری بھی تھے۔ تو مجھے کسی نے بتایا کہ یہاں ایک پادری بھی آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ ہم تمہارے یہاں صرف اس لئے آ جاتے ہیں کہ تم جو کہتے ہو اسے کرکے دکھانے کی تمہارے پاس 100سال سے زائد کی تاریخ ہے۔ تمہاری تعلیم اور عمل ایک ہے۔ شاید اس بات نے دنیا کو متوجہ کرنا شروع کیا ہے۔ یابہرحال جو بھی وجہ ہو، جہاں تک جماعت کی حفاظت کا سوال ہے وہ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ کیا ہوا ہے، وہ تو انشاء اللہ ہوتی رہے گی۔ تو اس لحاظ سے تو کوئی فکر نہیں کہ کیوں توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ نیک نیتی سے اگر توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور اگر کوئی بدنیتی ہو گی تو اللہ تعالیٰ خود حفاظت کا انتظام فرمائے گا۔ بہرحال یہاں جو مَیں نے مسجد کا ذکر کیا۔ مسجد کا مینار بھی ہے جو کئی 100فٹ اونچا ہے۔ سارے شہر میں یہ سب سے اونچی عمارت ہے۔ یہ کافی چوڑا ہے۔ اس مینار کی چوٹی پہ جا کے چرچ میں جس طرح گھنٹیاں لگانے کا رواج ہے وہ لگی ہوئی ہیں۔ اور سیڑھیوں کی بجائے اوپر جانے کے لئے کھلی جگہ ہے اور ریمپ (Ramp) بنائے ہوئے ہیں۔ اس میں چل کے جانا آسان رہتا ہے اور کافی چوڑا رستہ ہے۔ گائیڈ کے بقول کہ بادشاہ گھوڑوں پہ جایا کرتا تھا اس لئے اس نے سیڑھیاں نہیں بنائیں۔ پھر اس مینار کے اوپر سے اذان دی جاتی تھی۔ اور اس کی آواز بھی یقینا سارے شہر میں گونجتی ہو گی۔ اور آج چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں۔ اس کو دیکھ کر بھی دل کٹتا ہے کہ مسلمانوں نے کس طرح اپنی عظمت کو برباد کیا۔ اللہ واحد کے نام پر بنائی گئی عمارتوں کو شرک کی جھولی میں کس طرح ڈال دیا۔
آج احمدیوں کا کام ہے کہ اس عظمتِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کریں۔ لیکن پیار اور محبت اور دعاؤں سے۔ اس مسجد کے ساتھ بادشاہ کا محل بھی ہے اور یہ محل جو ہے اب تک جو مَیں نے سپین میں عمارتیں دیکھی ہیں، غرناطہ میں بھی الحمراء کا محل بھی دیکھا تھا، اس کی نسبت گو یہ چھوٹا ہے لیکن تقریباً تمام سنبھالا ہوا ہے۔ بلکہ اس کا ایک حصہ ابھی بھی سپین کے بادشاہ کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا ہے، جب وہ اس شہر میں (اشبیلیہ میں) آئے۔ تو اس محل میں بھی جگہ جگہ جس طرح اس زمانے میں کیلیگرافی کا رواج تھا قرآنی آیات اور کلمہ،

اَلْقُدْرَۃُ لِلّٰہ، اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہ

وغیرہ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہاں کلمہ دیکھ کریہ بھی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان عیسائیوں نے تو اپنی تمام تر دشمنی اور طاقت کے باوجود گزشتہ چھ سو،سات سو سال سے یہ محل ان کے قبضے میں ہے اور اس پر لکھے ہوئے کلمہ کو انہوں نے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے بد نصیب مُلاں احمدیت کی دشمنی میں کلمہ گوئی کا دعوٰی کرنے کے باوجود، کلمہ مٹانے کی کوشش میں ہے۔
میں ان کو کہتا ہوں اے پاکستانی مولویو! کچھ تو ہوش کرو، کچھ تو خدا کا خوف کرو، اللہ سے ڈرو اور ان حرکتوں سے باز آؤ کہیں یہ کلمہ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہیں ہی نہ مٹا دے۔ اللہ بھی اپنی سنت کے مطابق ایک حد تک ڈھیل دیتا ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ وقت اب قریب ہو، اگر اب بھی تم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو یقیناً مٹ جاؤ گے۔ پس اللہ سے رحم مانگو، اللہ سے رحم مانگو اور اپنی اصلاح کرلو۔
جلسہ سپین بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کامیاب رہا۔ پہلی دفعہ اس طرح سربراہ حکومت کے پیغام وغیرہ ملے، حکومت کے نمائندے آئے، وزارت انصاف کے ڈائریکٹر وغیرہ، ان کے بڑے اچھے تاثرات تھے۔ ایک عیسائی سپینش مجھے ملے، وہ کتابیں لکھتے ہیں انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے بڑے اچھے الفاظ میں احمدیت کا ذکر کیا ہوا ہے۔ کہنے لگے میں بھی آدھا احمدی ہوں، تو مَیں نے کہا پھر پورے کیوں نہیں ہو جاتے، کہ ابھی وقت نہیں ہے ان کو بھی کچھ خوف تھا۔ پھر اس طرح اور بعض عیسائی خاندان آئے ہوئے تھے ملے، ایکواڈور کی دو تین فیملیاں تھیں، وہ قرطبہ سے جلسے پر آئے ہوئے تھے کسی احمدی کے واقف تھے، ان میں سے ایک بڑی پڑھی لکھی خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے اس چھوٹی سی جگہ پہ مسجد بنائی ہے یہاں کون آتا ہو گا اور پھر آپ سارے سپین میں کس طرح پھیلیں گے۔ بڑے شہروں میں بنائیں تاکہ تعارف زیادہ ہو۔ میری آخری تقریر سننے کے بعد مجھے ملی تھیں۔ میں نے انہیں یہی کہا کہ آج کی تقریر میں میں ذکر کر چکاہوں کہ یہ ایک مسجد کی عاجزانہ ابتدا تھی اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اور بھی بنائیں گے اور انشاء اللہ اسلام کو سب سپین میں دوبارہ جانیں گے۔ پھر مقامی سپینشں بھی بہت سارے جلسے میں شامل ہوئے اور کافی متاثر تھے۔ بہرحال ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے تحریک ہوئی کہ اب سپین میں مسجدوں کی تعمیر ہونی چاہئے جس کی مَیں نے وہاں ایک خطبے میں تحریک بھی کی تھی۔ اور امیر صاحب کا بھی ذکرکیا تھا کہ بڑے پریشان تھے۔ تو یا تو انہوں نے بڑے ڈرتے ڈرتے جس رقم کا مجھے بتایا تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اتنی رقم اکٹھی کر سکتے ہیں یاپھر یہ حالت تھی خطبے کے بعد، جمعہ کومَیں نے خطبہ دیا اور ہفتے کو میری واپسی تھی تو اس ایک رات کے دوران میں ہی ان کے اس خوفزدہ وعدے کی نسبت سے ڈیوڑھے سے زیادہ وعدہ اکٹھا ہو چکا تھا اور ادائیگیاں بھی ہو رہی تھیں۔ اورمجھے امید ہے اب تک دوگنے سے زیادہ رقم انہوں نے اکٹھی کر لی ہو گی، جو ان کا اپنا اندازہ تھا۔اسی طرح دنیا بھر کے احمدیوں نے بھی بڑے فراخدلانہ وعدے پیش کئے ہیں اور ادائیگیاں کی ہیں۔ اور اب میرا خیال ہے۔ میں نے وہاں ذکر کیا تھا کہ ایک چھوٹا پلاٹ خریدا جائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے کچھ بڑا پلاٹ خریدنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے۔
سپین کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یورپ کے بہت سے احمدی سیر کرنے بھی سپین جاتے ہیں۔ یا مختلف جگہوں پر جاتے ہیں۔ اگر اِدھر اُدھرجانے کی بجائے سپین کی طرف رخ کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تھی کہ سپین میں وقف عارضی کے لئے جائیں۔ سیر بھی ہو جائے گی اور اللہ کا پیغام پہنچانے کا ثواب بھی مل جائے گا۔ تو اس طرف مَیں احمدیوں کو دوبارہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ملکوں کے امراء کے ذریعے سے جو اس طرح وقف عارضی کرکے سپین جانا چاہتے ہوں ،امراء کی وساطت سے وکالت تبشیر میں اپنے نام بھجوائیں۔
اسی طرح حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سپین کے جو ٹورسٹ (Tourist) باہر جاتے ہیں مختلف ممالک میں اور ایشیا، پاکستان وغیرہ میں بھی جاتے ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے بھی ایک منصوبہ بنایا تھا کہ اگر ان کو اپنے گھروں میں مہمان ٹھہرایا جائے، جن جن شہروں میں وہ جاتے ہیں یا ملکوں میں تو اس سے بھی ایک تعارف حاصل ہو گا۔ لیکن یہ منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوا اس کا ابھی مجھے جائزہ لینا ہے، تفصیلات دیکھنی ہیں۔ ضرورت ہوئی تو جائزہ لینے کے بعد پھر جماعت کو بتاؤں گا، توجہ دلاؤں گا۔ اس میں یہ بھی تھا کہ اچھے ٹورسٹ کی معلومات لی جائیں اور یہ معلومات لینے کے لئے سپین کی جماعت نے بھی کافی کردار ادا کرنا تھا۔ اس لئے بہرحال اس کی عملی صورت کا جائزہ لینا ہو گا۔
سپین کے دورے کے دوران ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ پرتگال سے، جو ساتھ ہی وہاں ملک ہے، جماعت کے احباب جلسے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کی عاملہ بھی تھی ان سے میٹنگ ہو گئی۔ ابھی تک وہاں بھی مسجد نہیں ہے۔ اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نومبائعین کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ اکثر افریقن اور عرب ملکوں کے مسلمانوں میں سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ مسجد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ تو وہاں بھی مَیں نے ان کو کہا ہے کہ جلد از جلد مسجد بنائیں اور وہاں اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا کر دی ہے، مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی ہو گی کہ وہیں سے مسجد کے اخراجات کے سامان بھی مہیا ہو جائیں گے۔ ایک پرانا گھر ہے جس کو بیچ کے نئی جگہ خریدی جا سکتی ہے اور تعمیر بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر تھوڑا بہت کچھ ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ مرکز سے پوری ہو جائے گی۔
دعا کریں اللہ تعالیٰ ان تمام منصوبوں میں برکت ڈالے۔ اب یورپ کے ہر ملک میں اور ہر شہرمیں ہمیں مسجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام تو ہونے ہیں۔ دعا یہ کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے اور ہم ان ترقیات کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلے کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا۔ یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں، یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں ‘‘۔(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 182)
اب میں مختصراً جماعتی خدمات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ملکوں میں زلزلہ آیا تھا ان کے بارے میں۔ یہ جو آفت زدہ لوگوں کی خدمت ہے اور جو مخلوق سے ہمدردی ہے، یہ سنت نبویؐ ہے اور اس کا ہمیں حکم ہے کہ کمزوروں کی مدد کی جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جوپہلی وحی ہوئی تھی اور آپؐ پر بڑے خوف کی حالت طاری تھی، اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپؐ کو تسلی میں جو باتیں کہی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں پر آنے والی اچانک آفات میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس لئے کس طرح ہو سکتا ہے خدا آپ کو رسوا کرے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سخت دلوں میں اگر نرمی پیدا کرنی ہے تو اس کا نسخہ یہ ہے مساکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:’’ حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں وہ مسکینوں اور یتیموں اورقیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اسی کے منہ کے لئے خدمت ہے۔ ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایصال خیر کی تیسری قسم جو محض ہمدردی کے جوش سے ہے وہ طریق بجا لاتے ہیں ‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ 357)
پس اس ہمدردی کے جوش کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد نے مختلف ممالک میں، ان ملکوں میں جہاں یہ طوفان اور زلزلہ آیا تھا، مختلف طریقوں سے آفت زدہ لوگوں کی مدد کی ہے اور کر بھی رہی ہے۔اس کی مختصر تفصیل یہ ہے۔ بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ ہمیں بھی بتا یا جائے اور علم ہونا بھی چاہئے۔
جیسا کہ ساروں کو علم ہے کہ تقریباً اڑھائی لاکھ افراداب تک کہتے ہیں جاں بحق ہوئے ہیں،شاید اس سے زیادہ بھی ہوجائیں۔ تو ہیومینیٹی فرسٹ جو جماعتی ادارہ ہے خدمت خلق کا اس کے تحت مختلف ملکوں میں ذمہ واری سونپی گئی تھی۔ اس کے تحت جماعت جرمنی نے اور بھارت نے ملک کر ہندوستان میں یہ خدمت خلق کی کارروائی کی اور علاج معالجے کی وہاں سہولتیں بہم پہنچا رہے ہیں۔ ساڑھے چار ہزار کے قریب مریضوں کا علاج ہو چکا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے لوگ جن کو کھانے پینے کی ضرورت تھی ان کو خوراک مہیا ہوتی ہے اور ہومینٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعے سے تقریباً سات لاکھ اور کچھ یو۔ کے کی جماعت نے دیا۔ تو آٹھ لاکھ ڈالر سے اوپر۔ ان کا خیال ہے کہ ہم کم از کم ایک ملین ڈالر پیش کریں ،اس خدمت خلق کے لئے خرچ کریں۔ اس کے علاوہ دنیا کی جماعتوں میں بھی ہر ملک میں اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے وہاں کے ان ملکوں کے سفارت خانوں میں مدد کے چیک جماعت کی طرف سے دئیے ہیں۔ گو نقصان کی نسبت ہماری جو رقم ہے وہ بہت تھوڑی ہے اور اس طرح باوجود خواہش ہونے کے ہم ہر ایک کی خدمت کر بھی نہیں سکتے۔ لیکن مستقل مزاجی سے کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔ یہاں سے سری لنکا بھی ڈاکٹروں کا وفد بھجوایا گیا تھا۔ اس کی بھی آپ نے رپورٹ سن لی ہو گی اور یہ بھی روزانہ خدمت کرتے رہے۔ پھر کچھ مچھیرے تھے جن کی کشتیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ ان کشتیوں کی مرمت کی۔ پھر انڈونیشیا میں امریکہ اور یو کے، دونوں اس خدمت کا فرض سر انجام دے رہے ہیں۔ اور یہاں ایک جگہLamno سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ اور یہاں اتنی اونچی لہریں آئی ہیں کہ تین تین منزلہ مکانوں کی چھتوں پہ کشتیاں اور جہاز جا کے کھڑے ہو گئے۔ اور میل ہا میل تک سمندری لہروں نے انسانی آبادی کا نام ونشان مٹا دیا۔صرف جماعت احمدیہ ہے جس نے یہاں متاثرین کے لئے خوراک کی صورت مہیا کی ہے۔ اور کوئی بھی تنظیم یہاں تک ابھی خدمت کے لئے نہیں پہنچی۔ پھرLambaroمیں یہاں بھی آٹھ سو سے ہزار افراد تک بچے ہوئے لوگوں کی روزانہ خدمت چالیس خدام کر رہے ہیں۔ تین وقت کا کھانا ان کو مہیا ہوتا ہے۔ اب انڈونیشیا کی جماعت کا پلان یہ بھی ہے، ان کو اس بات کی اجازت بھی دے دی ہے کہ آئندہ دو ماہ تک جب تک وہ سیٹل نہیں ہو جاتے وہاں ان لوگوں کے لئے جو بچے ہیں خوراک کا انتظام ہوتا رہے۔
اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس آبادی میں دوسرے تمام ادارے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ امریکہ نے وہاں پچاس واٹر پمپ لگانے کا وعدہ کیا ہے کیونکہ وہاں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ انڈونیشیا، یو کے اور امریکہ سے 24ڈاکٹر، 6ہومیو پیتھی ڈاکٹر، اور 6دوسرے افراد پر مشتمل عملہ اور 74خدام یہاں کام کر رہے ہیں اور پہلے تو کافی تعدادمیں مریض دیکھے تھے۔ اب روزانہ 100، 150 مریض یہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ انڈونیشیا نے ہندوستان اور پاکستان سے جو مدد آئی تھی، یہاں تقریباً اڑھائی اڑھائی سو فوجی تھے یہاں۔وہاں انڈونیشیا کی حکومت ہیومینٹی فرسٹ کے کام سے اس طرح متاثر ہوئی ہے، بلکہ یہ لوگ خود بھی کہ وہ ان کے ساتھ مل کے کام کر رہے ہیں بلکہ پاکستانیوں نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ جب ہم فروری میں چلے جائیں گے تو صرف آپ ہی ہمارے ملٹری ہسپتال کو سنبھالیں۔ لیکن یہ بات اگرمُلّاں کو پہنچ گئی تو بڑا سخت اعتراض ہوگا۔
پھر یتامیٰ کی پرورش کا بہت سارے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ وہاں بڑے بچے یتیم ہوئے ہوں گے اور ہو رہے ہیں اور سنا ہے کہ عیسائی چرچوں نے وہاں جا کے بچے لینے شرو ع کر دئیے ہیں یہ تو عیسائی بن جائیں گے۔ مسلمان بچوں کو مسلمان رہنا چاہئے۔ اس لئے ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، ہم اتنے بچے سنبھالیں گے، اتنے بچے سنبھالیں گے۔ تو اس کے لئے مَیں نے پتہ کروایا تھا۔ اب تک کی جو رپورٹ ہے اس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یتامیٰ کی نگہداشت کے لئے ان کو دوسروں کے سپرد نہیں کرنا۔ کیونکہ بوسنیا اور البانیہ وغیرہ کا ان کو تجربہ ہے اسی حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بچے کہیں عیسائی نہ ہو جائیں اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ فیصلہ اب تک ہے کہ وہاں جو 200یتیم بچے ہیں ان کو جماعت سنبھالے گی اپنے وسائل کے لحاظ سے۔ ابھی مَیں ویسے پتہ کروا رہا ہوں۔ مزید ان کو کہا ہے کریں کہ اگر یہ ان کو یقین ہو جائے کہ مسلمان گھرو ں میں ہی بچے جائیں گے تو پھر وہ دینے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں۔
اسی طرح انڈونیشیا کے سفارتخانے نے ہیومینٹی فرسٹ سے درخواست کی کہ ہمیں بہت سی امداد مل رہی ہے لیکن ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ جس طرح افریقہ میں غریبوں کی امداد کرتے ہیں اسی طرح ہماری بھی مدد کریں۔ تو اس پروگرام کے تحت انڈونیشین سفارتخانے نے یہاں مقیم انڈونیشین باشندوں اور دوسرے مسلمانوں، سب کو یہی ہدایت کی ہے کہ وہ جماعت یو کے سے رابطہ کریں۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض بھی کیا ہے؟ یہاں اعتراض تو فوراً آجاتا ہے نا کہ آپ احمدیوں سے مدد لے رہے ہیں یہ تو غیر مسلم ہیں۔ جس پر سفارتخانے نے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وہاں لوگوں کو جان کی پڑی ہوئی ہے، بھوکے مر رہے ہیں اور یہاں اس حالت میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا جھگڑا شروع کیا ہوا ہے۔ یہ مُلّاں جو ہے یہ کبھی ہمدردی خلق نہیں چاہتا، یہ صرف فتنہ اور فتنہ اور فتنہ اور فساد، اس کے علاوہ ان کا اور کچھ نقطہ نظر نہیں ہے۔
اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے چالیس فٹ لمبائی کے 13کنٹینر کی اس جماعت کے ذریعہ سے امداد جا چکی ہے تقریباً 2لاکھ 45ہزار کلو وزن کی یہ امداد تھی۔ جس میں 78ہزار کھانے پینے کی، ضروریات کی چیزیں تھیں۔ اور ایک سو تیس ہزار (130,000) کپڑے اور دوسری چیزیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ حقیر کوشش قبول فرمائے۔ اوربغیرکسی خوف اور بغیرکسی نام کی خواہش کے یہ تمام خدمت کرنے والے، خدمت میں مصروف رہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ان سب کو جزا دے جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اس میں حصہ لیا۔
اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی آنکھیں کھولے کہ وہ خدائے واحد کی پہچان کرنے والے ہوں اور امام الزمان کو پہچاننے والے ہوں اللہ کرے۔
(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا) ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں، گزشتہ جمعہ پہ عید تھی۔ تو صرف عید پڑھی گئی تھی جمعہ نہیں پڑھا گیا تھا۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھائے کہ ہمارے ہاں عید بھی پڑھی گئی اور جمعہ بھی پڑھا گیا۔ اگر یہ ضروری تھا تو ہمیں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے تھا، آپ نے نہیں پڑھا۔ تو اس بارے میں واضح کردوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹ دی ہے۔ اگر جمعہ پڑھا بھی گیا ہے تو وہ عین سنت کے مطابق ہے، کوئی حرج نہیں۔ اور اگر بعض مخصوص حالات میں چھوٹ سے یارخصت سے بھی فائدہ اٹھا لیا جائے، اس پر بھی عمل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہاں سرد ملکوں میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور پھر وقت بھی تھوڑا ہوتا ہے بعض دفعہ مشکل ہو جاتا ہے تو اس لئے اس سے فائدہ اٹھایا گیا تھا۔ اسلام سہولت کا مذہب ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دونوں طرح سے کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ اب اسی دن کینیڈا سے نسیم مہدی صاحب کی مجھے مبارکباد کی فیکس آئی اور ساتھ یہ بھی تھا کہ آپ نے جمعہ نہیں ہو گا کہا تو ہم نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا، کیونکہ وہاں منفی 35ڈگری ٹمپریچر تھا اور شدید ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اور مسجد بھی اتنی نہیں جتنی تعداد تھی وہاں پتہ نہیں انہوں نے عید کس طرح پڑھی۔ کہتے ہیں ساڑھے سات ہزار آدمی تھے جو عید پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ سے ہم نے بھی جمعہ نہیں پڑھا۔ تو بعض مخصوص حالات میں اگر اس رخصت سے فائدہ اٹھا لیا جائے توکوئی حرج نہیں ہوتا۔ اور اگر پڑھ بھی لی ہے تب بھی کوئی بات نہیں۔
حدیث بھی مَیں آپ کو سنا دیتا ہوں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دو عیدیں یعنی جمعہ اور عیداکٹھی آ گئیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید پڑھائی پھر فرمایا جو نماز جمعہ کے لئے آنا چاہے وہ بے شک جمعہ کے لئے آ جائے اور جو نماز جمعہ کے لئے نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے۔(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔باب ماجاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)
تو رخصت ہے اور مسجد میں بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ یہ حالات کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ ضرورہم ہر دفعہ جمعہ نہیں پڑھیں گے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ضرور پڑھا جائے۔ تو حالات کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں