خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 21؍اکتوبر2005ء

قرآن کریم کا ادب یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔
قرآن کریم کی تلاوت کرو،اس کے مطالب پرغورکرو،اس کی تعلیمات کو ا پنی زندگیوں کا حصہ بناؤ
(قرآن مجید،احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حوالہ سے قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبّر وتفکّر اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے متعلق نہایت اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 21؍ اکتوبر2005 ء (21؍اخاء 1384ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح لندن برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ۔ اُوْلٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۔ وَمَنْ یَّکْفُرْبِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ البقرہ122:)

آجکل ماشاء اللہ جہاں رمضان کی وجہ سے مسجدوں میں درسوں کے سننے اور پھر اس کا مختصر ترجمہ اور تفسیر یا اہم مقامات کی وضاحت سننے کا موقع میسر ہوتا ہے جس سے بڑے شوق کے ساتھ بہت سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھرنماز تراویح میں قرآن کریم کا دور مکمل ہو رہا ہوتا ہے اور خاصی تعداد اس سے بھی فائدہ اٹھاتی ہے، وہاں گھروں میں بھی قرآن کریم پڑھنے، اس کی تلاوت کرنے اور بعض کو اس کا ترجمہ پڑھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ عموماً ماشاء اللہ! اکثر احمدی گھروں میں رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو رمضان کی وجہ سے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی مومن عمومی کوشش کرتا ہے۔
دوسرے قرآن کریم کو جیسا کہ ہم جانتے ہیں رمضان سے ایک خاص نسبت ہے۔ اس کا نزول اس مہینے میں شروع ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے حضور مناجات کو خداتعالیٰ نے سنا اور اپنی رحمت کے دروازے کھولے اور دنیا کو گند اور شرک میں پڑا ہوا دیکھ کر بے چین اور بیزار ہونے والے وجود کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے آخری شرعی کتاب دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اور پھر 23سال کے لمبے عرصہ تک یہ شریعت اترتی رہی اور جبریل آپؐ کے پاس ہر رمضان میں اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کا ایک دَور مکمل کرواتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سال (جس سال آپؐ کا وصال ہوا) اس سال کا جو رمضان تھا، اس سال میں جبکہ شریعت مکمل اور کامل ہو چکی تھی جبریل نے دو دفعہ قرآن کریم ختم کروایا۔ پس یہ سنّت ہے جس کو مومن جاری رکھتے ہیں۔ اور کم از کم ایک یا دو دفعہ رمضان میں قرآن کریم کا دور مکمل کرتے ہیں، ختم کرتے ہیں، پڑھتے ہیں۔ اور جن کو توفیق ہو وہ دو دفعہ سے زیادہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اتنی جلدی بھی نہیں پڑھنا چاہئے کہ سمجھ ہی نہ آئے کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ جو اہل زبان تھے، عرب تھے ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ بھی نہیں سمجھا۔ (ترمذی ابواب القرأت باب ما جاء انزل القرآن علی سبعۃ احرف)
ایک روایت میں سات دن کا بھی ذکر آتا ہے۔ تو صحابہؓ کی بھی جو اپنی استعداد تھی اس کے مطابق آپؐ حکم دیا کرتے تھے، ارشاد فرمایا کرتے تھے، نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ بہرحال بنیادی مقصد یہی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرو، اس کے مطالب پر غور کرو، اس کی تعلیمات پر غور کرو۔ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔ اگر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر رہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ صحابہ نے اس نکتے کو خوب سمجھاکہ قرآن کریم کو کس طرح پڑھنا ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی تلاوت کا حق اد ا کرنے کی گواہی دی۔جیسا کہ اس آیت میں جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی، وہ اس کی ایسی ہی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں۔
تو یہ تھے وہ لوگ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسی اور اس کتاب کے ذریعہ سے نہ صرف انسان بنایا بلکہ عبادت گزار اور باخدا انسان بنایا۔ یہ تلاوت کا حق وہ کس طرح ادا کیا کرتے تھے؟۔ کیا صرف پڑھ لینے سے ہی حق ادا ہو جاتا ہے؟۔ نہیں، بلکہ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں۔ اس کے لئے بھی کچھ شرطیں ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح رمضان میں آجکل ہم میں سے ہر کوئی صبح جلدی اٹھتا ہے اور نفل ادا کرتا ہے پھر روزہ رکھنے کے لئے سحری کھاتا ہے، اور پھر نماز کے لئے جاتا ہے۔ اگر سحری اور نفل کے درمیان میں وقت ہو تو پھر بعض دفعہ بعض لوگ اُس وقت میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کر لیتے ہیں۔ نوافل میں قرآن کریم جتنا یاد ہو وہ پڑھا جاتا ہے۔ اور پھر نما ز کے بعد بھی ہر گھر میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے۔ عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر گھر میں تلاوت ہو رہی ہو۔ کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس سے روحانیت میں زیادہ ترقی ہوتی ہے۔ اس وقت ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔ اس طریق کو ہمیں جاری رکھنا چاہئے۔ رمضان کے بعد بھی، روزے تو رمضان کے بعد نہیں رکھنے ہوں گے لیکن نفل ہیں، نماز ہے، قرآن کریم کی تلاوت ہے، وقت پہ صبح اٹھنا چاہئے اور یہ کام ضرور کرنے چاہئیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فجر کے وقت کی تلاوت کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ

وَقُرْاٰنَ الْفَجْر

اور قرآن اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دو۔ اور پھر فرمایا

اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْھُوْدًا (بنی اسرائیل:79)

کہ یقینا فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے۔ پس یہ صبح کے وقت کی تلاوتیں ہر مومن کے لئے گواہ بن رہی ہوں گی۔ لیکن کیا صرف پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اور ہمارے حق میں گواہی دینے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ جو تلاوت کی ہے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا، مَیں نے ضمنا ً پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن تفصیلی حدیث یہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا :قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرأ القرآن)
تاکہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے، غور کرو گے، سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعداد بھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپؐ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ نہیں۔ تو آپؐ صحابہؓ کو سمجھانا چاہتے تھے کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کر ے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی۔ بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں۔ جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہو لیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 20-18منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں۔ تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہو گی؟ تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور انداز ہوتا ہے۔ کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے۔ کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا (المزّمّل:4)

کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو۔ اب جس نے 20-18منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے،اس نے کیا سمجھنا ہے اور کیا نکھارنا ہے۔
ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی۔میں سمجھا پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہو گئی۔ میں نے پوچھا ہوا کیا ہے۔ کہنے لگے کہ مَیں دو تین دن سے دیکھ رہاہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اٹکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم شریف پڑھنا نہیں آتا۔ تو میں نے ان کو کہا کہ اٹکتا نہیں ہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے۔ اس حدیث کا حوالہ تو نہیں پتہ تھا۔ قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں نہیں آئی۔ لیکن مَیں نے کہا مجھے تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہرحال جس میں مجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھو تاکہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے۔ ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہرحال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر، ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو۔پھر جب انسان سمجھ لے، ہر ایک کا اپنا علم ہے اور استعداد ہے جس کے مطابق وہ سمجھ رہا ہوتاہے جیسا کہ مَیں نے کہا لیکن قرآن کریم کا فہم حاصل کرکے اس کو بڑھانا بھی مومن کا کام ہے۔ ایک جگہ ہی یہ تعلیم محدود نہیں ہو جاتی۔ تو جتنی بھی سمجھ ہے، بعض تو بڑے واضح احکام ہیں، سمجھنے کے بعد ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی بھی اچھی بات کا یا نصیحت کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب وہ نصیحت پڑھ یا سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ تلاوت کا ایک مطلب پیروی اور عمل کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ یہ قرآن میں نے تمہارے لئے، ہر اس شخص کے لئے جو تمام نیکیوں اور اچھے اعمال کے معیار حاصل کرنا چاہتا ہے اس قرآن کریم میں یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے تمام اصول اورضابطے مہیا کر دئیے ہیں۔ ہر قسم کے آدمی کے لئے، ہر قسم کی استعداد رکھنے والے کے لئے، اور نہ صرف یہ کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کسی خاص آدمی کے لئے نہیں رکھے ہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر معیار کے آدمی کے لئے رکھے ہیں۔ اور اس میں ہر آدمی کے لئے نصیحت ہے وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ لے۔ فرمایا کہ

وَلَقَدْیَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِفَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر:18)۔

اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا۔اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے نصیحت پکڑتے ہیں۔
پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلام کو، جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔ اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں۔ اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں، اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے۔ فرمایا کہ

وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان :31)۔

اوررسول کہے گا اے میرے رب! یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔
یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں۔پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آ چکی ہیں۔ اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اَور بھی دلچسپیاں ہیں۔ خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں۔ جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے والے ہیں اور مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ دنیا میں سارا معاشرہ ہی ایک ہو چکا ہے۔ قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے۔ یہی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے کے بارے میں کہا گیاہے کہ قرآن کو متروک چھوڑ دیاہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شدہ تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپؑ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپؑ نے یہ رائج کرکے دکھایا بھی ہے۔ آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پرلاگو کرنے والا ہوبلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھائے۔ اور کبھی بھی یہ آیت جو مَیں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں۔ اور عزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآء وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا (بنی اسرائیل:83)۔

اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔
پس ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے تمام اوامر و نواہی کو سامنے رکھیں اور اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ تبھی ہم روحانی اور جسمانی شفا پانے والے بھی ہوں گے اور قرآن کریم ہمارے لئے رحمت کا باعث بھی ہوگا۔ اور عمل نہ کرنے والے تو ظالم ہیں اور ان کے لئے سوائے گھاٹے کے اور کچھ ہے ہی نہیں، جیسا کہ قرآن شریف نے فرمایا۔ ان کی تو آنکھ ہی اندھی ہے۔ ان کو تو قرآن کریم کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ اسلام کے خلاف بہت ساری کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ بعض گو کہ مسلمان نہیں ہیں، عیسائی ہیں،لیکن بعض دفعہ حق میں بھی باتیں لکھ دیتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پہ ایک کتاب لکھنے والی ہیں کیرن آرمسٹرانگ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں کسی کا حوالہ Quoteکیا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہے فیٹر ویلڈن، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اندھوں کی نشانی بتا دی ہے۔ اس نے قرآن کریم سے کیا اخذ کیا؟ سنیں، وہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی بھی قابل توجہ اور سوچنے والی بات نہیں ہے۔ پھر کہتاہے کہ یہ کوئی ایسا کلام نہیں ہے کہ جس پر معاشرہ عقل و شعور سے بنیاد کر سکے۔ مفہوم تقریباً یہی بنتا ہے اس کی باتوں کا۔ پھر کہتا ہے کہ یہ صرف طاقت اور ہتھیار مہیا کرتا ہے ان لوگوں کو جو ہر اس تصور کو دباتے ہیں جو ان کے خیال سے مطابقت رکھنے والا نہ ہو۔ اور پھر آگے اسی طرح لکھتا ہے کہ اس کا نفس مضمون محدود ہے اور سوچوں کو محدود کرنے والا ہے۔ تو قرآن نے تو پہلے ہی دعویٰ کر دیاہے ایسے لوگوں کے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے ہدایت پانی ہے کہ یہ تو ہدایت ان کو دیتا ہے جن کے دل میں کوئی نیکی ہو یا نیکی کی طرف جانے کا رجحان ہو۔ شروع میں فرما دیا کہ

ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن (البقرۃ)

تو ہر ایک کا جوپہلے مسلمان نہیں بھی ہوا تقویٰ کا ایک معیار ہے کہ چیزوں کو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کے دیکھے۔ یہ بھی ایک تقویٰ کی قسم ہے۔ تو یہ تو متقیوں کے لئے جو صاف ذہن رکھتے ہیں ان کے لئے ہدایت ہے۔ تو جس نے دیکھنا ہی تعصب کی نظر سے ہے اس کے لئے تو قرآن نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ ان کو کبھی ہدایت نہیں دے گا۔ بلکہ فرمایا کہ یہ متعصب لوگ جو اسلام کی دشمنی کی باتیں کرتے ہیں یہ تو ظالم لوگ ہیں اور قرآن کریم میں ان کے لئے سوائے گھاٹے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے کہ

وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا

کہ وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔ پس اب یہ احمدی کا فرض ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی تلاوت کو بھی اور اس پر عمل کرکے بھی اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں تاکہ ہر احمدی کے عمل سے ان ظالموں کے منہ خود بخود بندہوتے چلے جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتا یا ہے۔ اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘۔(ملفوظات جلد 5صفحہ 102جدید ایڈیشن)
اب میں چند احادیث پیش کرتا ہوں جن سے قرآن کریم کے پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی برکات پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا اس کو اس کے پڑھنے کی وجہ سے ایک نیکی ملے گی اور اس ایک نیکی سے دس اور نیکیاں ملیں گی۔ پھر فرمایا : مَیں یہ نہیں کہتا کہ الٓم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، اور لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن)
پھر ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ شخص جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس میں عبور رکھتا ہے، اچھی طرح پڑھتا ہے، وہ فرمانبردار اور معزز سفر کرنے والوں کے ساتھ ہو گا۔ ان کے ساتھ اس کو مقام ملے گا۔(ترمذی کتاب فضائل القرآن)
پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: جس شخص نے دن میں پچاس آیات قرآن کی تلاوت کیں وہ غافل لوگوں میں شمار نہ کیا جائے گا۔(سنن الدارمی۔کتاب فضائل القرآن)
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ: جس نے ایک رات میں پچاس آیات قرآن کی تلاوت کیں وہ حفاظ قرآن میں شمار ہو گا۔(سنن الدارمی۔کتاب فضائل القرآن)
اور حفاظ قرآن کے درجات کے بارے میں روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حافظ قرآن کو جنت میں داخل ہوتے وقت کہا جائے گا کہ تم قرآن پڑھتے جاؤ اور بلندی کی طرف چڑھتے جاؤ۔ پس وہ قرآن کریم پڑھتا جائے گا اور بلندی کی منازل طے کرتا جائے گا۔ کیونکہ ہر ایک آیت کے بدلے اس کے لئے ایک درجہ ہو گا۔ یہاں تک کہ آخری آیت کے پڑھنے تک جو اسے یاد ہو گی وہ بلندی کی طرف چڑھتا جائے گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب)
پھرقرآن کریم کی گھروں میں باقاعدہ تلاوت کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کیا کرو۔ یقینا وہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو وہاں خیر کم ہو جاتی ہے۔ اور وہاں شر زیادہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ پڑ جاتا ہے۔
پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اس رمضان میں گھر کے ہرفرد نے جس برکت کو قرآن کریم کی تلاوت کرکے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس کو جاری رکھیں۔اس برکت سے نہ صرف دین و دنیا سنوار رہے ہوں گے بلکہ شیطان کے حملوں کے خلاف طاقت بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ برکتیں اس وقت حاصل ہو رہی ہوں گی جب اس کو سمجھ کر، اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے۔ ورنہ تو اندھوں والا ہی حال ہو گا جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ برکت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور چال چلن کو اس تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔
پھر قرآن کریم کی تلاوت کس طرح کرنی چاہئے اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کے حُسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو۔ کیونکہ عمدہ آوازقرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔کتاب فضائل القرآن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پرستش کی جڑ تلاوت کلام الٰہی ہے۔ کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے۔(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ283)
ایک گرمی پیدا ہوتی ہے اور عشق میں توجہ پیدا ہوتی ہے۔ پس اگر خداتعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے۔ تو اس محبت میں مزید اضافے کے لئے اور خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کو پڑھنا چاہئے اور سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے اور یہ بہت ضروری ہے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں، کسی صاحب نے سوال کیا تھا اس کے جواب میں فرمایا کہ:’’ قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔‘‘ بڑا غور کرو اس پر۔ ’’حدیث شریف میں آیا ہے

رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰنُ۔

یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے۔ اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبرو غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔(ملفوظات جلد 5صفحہ157جدید ایڈیشن)
تو یہ ہے قرآن کریم پڑھنے کا طریق۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم پڑھا کرو یقینا وہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کرے گا۔ فرمایا زَھْرَاوَیْندو خوشنما اور حسین پھولوں یعنی سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کی تلاوت کیا کرو۔ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن دو بدلیوں کی مانند ہوں گی یا دو منتہائے مقصود۔ایسی چیزیں جن کو حاصل کرنا ہو۔ یا صفت بستہ پرندوں کی دو ٹولیوں کی شکل میں ہوں گی۔ اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی، ان کے حق میں بیان کر رہی ہوں گی۔
پھر فرمایا کہ سورۃ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کو اختیار کرنا یا عمل کرنا موجب برکت ہے اور اس کو چھوڑنے میں حسرت۔ اور کوئی جھٹلانے والا اسے جھٹلا نہیں سکتا۔ یا کوئی بھی اس کامقابلہ نہیں کر سکتا۔(مسلم کتاب صلوۃ المسافرین)
تو یہی ہے کہ سورۃ بقرہ اور آل عمران میں جومضمون ہیں ان کو سمجھو، پڑھو، تلاوت کرو،ان پر عمل کرو تو بہت ساری باتیں اس سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ باقی قرآن کریم کی تلاوت ضروری نہیں ہے۔ اور یہ دو سورتیں ہی ہیں جن کی ہر وقت تلاوت کی جائے۔ بلکہ ان کے مضمون کے لحاظ سے اور ان کو سمجھ کر عمل کرنے کے لحاظ سے بات کی گئی ہے۔ پھر ان کویاد کرکے نماز میں ،خاص طورپر اپنے نوافل میں پڑھنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
ایک روایت میں آتاہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی کی رات کو آنکھ کھل گئی تو انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نفل پڑھ رہے ہیں۔ تو وہ بھی بڑے شوق سے ساتھ شامل ہو گئے۔ کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد تھک کے میرا برا حال ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو پوری سورۃ بقرہ پڑھی پھر شاید دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران پڑھی۔دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھنے کا انداز بھی کیسا ہوتا ہو گا۔ اس بیچارے نے تو تھکناہی تھا۔ روایت میں ملتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور سنتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص کیفیت ہو جایا کرتی تھی۔
پھر سورۃ بقرہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ ہے۔ سورۃ بقرہ میں مضامین ہیں۔ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیاء کا ذکر بھی اس میں موجود ہے۔ عبادتوں کے مسائل کا ذکر بھی ہے۔ نماز وغیرہ کس طرح پڑھنی ہے۔ روزے کس طرح رکھنے ہیں۔ اس طرح دوسرے احکامات ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑکی دعاؤں کا بھی ذکر ہے اس طرح اور بھی مختلف دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ پھر آل عمران میں بھی مختلف مضامین عیسائیت کے بارے میں بھی اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں وغیرہ کے جنگ بدر کے بارے میں اور دوسری جنگوں کے بارے میں۔ تو ان میں یہ مختلف قسم کے مضامین کا خزانہ ہے۔
پھر ایک روایت میں قرآن کریم کے یاد کرنے اور نماز میں پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں اس طرح آتا ہے۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ نماز میں قرآن کریم کا پڑھنا افضل ہے، اُس پڑھنے سے جو نماز کے علاوہ پڑھا گیا ہو‘‘۔ جو نماز میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہ اس سے زیادہ افضل ہے جو عام حالات میں پڑھا جائے۔’’ اور نماز کے علاوہ قرآن کریم پڑھنا خداتعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی بیان کرنے سے زیادہ افضل ہے‘‘۔ اور جو دوسرے ذکر ہیں ان کی نسبت قرآن کریم کا پڑھنا زیادہ افضل ہے۔’’ اور خداتعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرنا صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے‘‘۔ یہ جو بہت زیادہ ذکر کرنے والے اور سوچ سمجھ کر کرنے والے ہیں بعض دفعہ صدقے سے بھی زیادہ افضل ہیں۔’’ اور فرمایا صدقہ کرنا روزے سے زیادہ افضل ہے۔ اور روزہ آگ سے بچنے کے لئے ڈھال ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
تو کتنی فضیلت ہے قرآن کریم کو یاد کرنا اور پھر نماز میں پڑھنا۔ کیونکہ نماز میں ایک خاص کیفیت ہوتی ہے۔ اس لئے تلاوت کرتے وقت ایک ایک لفظ پر مومن زیادہ غور کر رہا ہوتا ہے۔ اور جہاں جہاں انذار ہوں، جہاں جہاں بشارتیں ہوں، ان آیات پر استغفار اور حمد کی توفیق مل رہی ہوتی ہے۔ ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔یہ احساس ہوتا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ نماز کے بارہ میں یہ آیا ہے کہ نماز یہ سوچ کر پڑھو کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ نماز میں قرآن کریم پڑھنا سب سے افضل ہے۔ دوسرے یہ فائدہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم یاد کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہو گی۔یہ ایک علیحدہ برکت ہے۔ لیکن بہرحال فرمایا کہ ویسے تلاوت کرنا بھی بہت ساری نیکیوں سے زیادہ افضل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اُس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے۔ اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں۔ اور قریباً سب کے سب لوگ بداعمالیوں اوربدعقیدگیوں میں گرفتارتھے۔ اس کی طرف اللہ جل شانہ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے

ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ

یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب کے بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانے میں خداتعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہب باطلہ کا رد ّ موجود ہے۔ اور خاص طور پر سورۃ فاتحہ میں جو پنج وقتہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے۔ (الحکم 2؍جنوری 1908ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ (کشتیٔ نوح۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)
فرمایا :’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر قرآن کریم سے اعراض صوری یا معنوی نہ ہو‘‘ نہ ظاہری طور پر نہ معنوں کے لحاظ سے۔ جو بھی تعلیم دی گئی اس پر عمل ہو ’’تو اللہ تعالیٰ اس میں اور اس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے‘‘، فرق ظاہر کر دیتا ہے۔’’اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی معرفت بڑھتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قویٰ دئیے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرار قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے۔ وہ ان باتوں کو سنتا ہے کہ اوروں کو ان کی خبر نہیں ‘‘۔ (الحکم 17؍اگست 1905ء)
تو دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی قرآن کریم کا سیکھنا، پڑھنا، یاد کرنا ضروری ہے۔
اللہ کرے کہ ہم نے رمضان کے گزشتہ دنوں میں، آج 17روز ے گزر گئے ہیں، قرآن کریم کے پڑھنے سے جو فیض پایا ہے اس سے بڑھ کر رمضان کے جو بقیہ دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں ان دنوں میں یہ فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم روزانہ اپنا جائزہ لیں اور لیتے رہیں کہ ہر روز ہم نے اس سلسلے میں کیا ترقی کی ہے۔ اور پھر یہ بھی ارادہ کریں کہ رمضان کے آخری دنوں تک جو ہم نے قرآن کریم سے حاصل کیا ہے اس کو اب باقاعدہ اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ یہ تلاوت کی عادت جو ہمیں رمضان میں پڑ گئی ہے اس کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہم نے رمضان کے بعد بھی عام دنوں میں بھی کرنی ہے۔ اپنے گھروں کی بھی نگرانی کرنی ہے کہ ہمارے بیوی بچے بھی اس طرح عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ وہ بھی تلاوت کر رہے ہیں یا نہیں جس طرح آج کل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ ہم قرآن کریم کی برکات سے فیض پانے والے ہوں اور ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں