خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍دسمبر2005ء

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے لیکن تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جا رہی جس طرح ہونی چاہئے۔ اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں۔
اپنی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو بھلاکر ایک دوسرے سے پیار اور محبت کا تعلق پیدا کریں تاکہ جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے والے بن سکیں۔
ماریشس کے ابتدائی مخلص وباوفا احمدیوں اور ابتدائی مبلغین کی قربانیوں کا تذکرہ اور احباب جماعت کو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اوراپنے اخلاص ووفا کو بڑھانے اور اسے آئندہ نسلوں میں قائم کرتے چلے جانے کی پُراثر نصائح
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 09؍دسمبر 2005ء (09؍ فتح 1384ہجری شمسی) بمقام ماریشس

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ ماریشس کا یہ میرا پہلا دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ کل یہاں سے روانگی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ اس چھوٹے سے جزیرے کی مخلص اور باوفا جماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے اخلاص و وفا میں اضافہ فرماتا رہے۔ اور آپ ہمیشہ ان خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں جو یہاں کے ابتدائی احمدیوں اور آپ کے بزرگوں نے آپ کے بارے میں رکھیں اور آپ ہمیشہ ان دعاؤں کے وارث بننے والے ہوں جو آپ کے بزرگوں نے اپنی نسلوں کے بارے میں کیں۔ان لوگوں نے انتہائی مشکل حالات میں یہاں احمدیت کے پودے کو لگایا اور اسے پروان چڑھایا۔ مخالفتوں کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ وہ لوگ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہے اور اس سے مدد اور طاقت مانگتے رہے۔ باوجود اس کے کہ وہ لوگ یہاں دنیا کمانے آئے تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ اور یہ وہ سبق ہے اور یہ وہ اعلیٰ نمونہ ہے جو آپ کے بزرگوں اور ابتدائی احمدیوں نے آپ کو دیا ہے۔ اور ان کی یہ وہ مثالیں ہیں جو وہ آپ کے سامنے رکھ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جزیرے میں احمدیت 1912ء میں خلافت اولیٰ کے زمانے میں آئی۔ یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے نوردیا صاحب، ماسٹر محمدعظیم سلطان غوث صاحب، میاں جی رحیم بخش صاحب، میاں جی سبحان محمد رجب علی صاحب وغیرہ ہیں۔بہرحال یہ ایک لمبی فہرست ہے جو 1912ء سے لے کر 1920ء تک کے عرصے میں احمدی ہوئے۔ انہیں مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے بعض کے خلاف قتل کے مقدمے بھی بنائے گئے۔ لیکن جس سچائی کو وہ پہچان چکے تھے اس سے وہ ذرا بھر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ پہلے مبلغ آنے تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا خلیفہ وقت سے براہ راست تربیت پانے والے کسی شخص کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اخلاص و وفا میں بڑھتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام دعاوی پر جن کا اس وقت تک ان کو علم تھا یا نہیں تھا وہ ایمان لانے والے تھے اور اس فکر میں رہتے تھے کہ ان کو مانیں۔ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ہم سے یا ہماری نسلوں سے ایمان ضائع نہ ہو جائے۔ چنانچہ مکرم ایم اے سلطان غوث صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں جماعت کے حالات کے بارے میں لکھا اور مبلغ بھجوانے کے بارے میں درخواست کی، اپنی وفا اور تعلق کا اظہار کیا۔ آخر میں لکھا پیارے آقا آپ ہمیں راستہ دکھائیے اور ہمیں اپنے مذہب کی تعلیم سے مزید آشنا کیجئے۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق میں اس طرح کھوئے ہوئے تھے، آپ کی سیرت کو اس طرح وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سوانح کی کوئی جلد بھیجی جائے تو مجھ پر بڑااحسان ہو گا۔ توان لوگوں کو مزید سیکھنے کا بہت شوق تھا اور بار بار مبلغ بھجوانے کامطالبہ کرتے تھے۔ آخر ان کی خواہش کے مطابق 1915ء میں حضرت صوفی غلام محمدصاحبؓ ماریشس پہنچے۔ لیکن پورٹ پر ہی ان کو روک لیا گیا۔ اور دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اس وقت بھی بڑی کوشش ہوئی کہ انہیں واپس بھجوا دیا جائے۔ آخر روشن علی بھنو صاحب کی30 ہزار روپے کی ضمانت پر انہیں ماریشس کی سر زمین پر اترنے کی اجازت ملی۔ مکرم صوفی غلام محمد صاحب کی کوششوں سے ماشاء اللہ جماعت آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوئی۔ دوسرے مبلغ یہاں حضرت حافظ عبیداللہ صاحبؓ آئے۔ اور آپ نے بھی انتھک محنت اور کوشش سے جماعت کو آگے بڑھایا۔ اور آخر یہیں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کے بارے میں فرمایا کہ مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نبھانا دونوں باتوں کوجانتا تھا۔ شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا یعنی ہندوستان کے کسی شخص کی شہادت کا۔ فرمایا ہمیں اس کی موت پر فخر ہے تو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہو گئی۔
پھر حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کی واپسی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ کو یہاں بھجوایا۔ آپ یہاں 29جولائی 1928ء کو پہنچے۔ حضرت حافظ جمال احمد صاحب نے روانگی کے وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے درخواست کی کہ ان کے بچوں کو بھی ساتھ جانے کی حضور اجازت فرمائیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اس شرط پر ان کو اجازت دی کہ پھر ساری زندگی وہیں گزارنی ہو گی۔ واپس آنے کی کبھی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ جب ان کے بچے جوان ہوئے تو رشتوں کے لئے انہوں نے آنے کی اجازت چاہی۔ حضور نے فرمایا نہیں، اپنے وعدے کے مطابق وہیں رہیں۔اس وقت جماعت کے مالی وسائل اس قابل نہ تھے کہ ان کو واپس بلایا جا سکتا۔ حضرت حافظ جمال احمد صاحب نے بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ کا خوب حق ادا کیا۔ مسلموں اور غیرمسلموں دونوں میں آپ نے خوب احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ حضرت حافظ جمال احمد صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہیں دفن ہیں۔ آپ کے بچے بھی یہیں ہیں۔
حضرت حافظ جمال احمد صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے کام اور خدمات اورقربانیوں کا ذکر فرمایا۔ نیز فرمایا’’ وہ زمین مبارک ہے جس میں ایسا اولوالعزم اور پارسا انسان مدفون ہوا‘‘۔ تو ان سب پرانے احمدیوں کا جن میں سے چندایک کا مَیں نے ذکر کیا ہے اور ان ابتدائی مبلغوں کا میں نے ذکر اس لئے کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو احساس رہے کہ جماعت کے ابتدائی بزرگوں نے اور ان مبلغین نے اس ملک میں احمدیت کو پھیلانے اور اپنے اندر احمدیت کو قائم رکھنے کے لئے کیا کیا کام کئے ہیں۔ اس سے پوری تصویر تو سامنے نہیں آتی لیکن کچھ نہ کچھ پتہ لگ جاتا ہے۔ اس کے لئے آپ جب تک ان پرانے بزرگوں کی تاریخ نہ پڑھیں آپ کو پتہ نہیں لگے گا کہ وہ لوگ کس طرح قربانیاں دیتے رہے۔ تو بہرحال ان لوگوں نے قربانیوں کی بڑی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ آپ کو میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ ان کی قربانیوں کو بھلا نہ دیں۔ ہمارے مبلغین کے لئے بھی ان مبلغین کی قربانیاں قابل تقلید ہیں۔ اپنے بزرگوں کے اس عمل اور احمدیت کے لئے اس درد کو بھلا نہ دیں۔ جس طرح ان بزرگوں نے کوشش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو سیکھیں اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور پھر اسے آگے پھیلائیں،آپ بھی اس پر عمل کریں۔ آپ کے بزرگوں نے احمدیت کو اس لئے قبول کیا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے احمدیت کی تبلیغ کو آگے اس لئے پھیلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ جو تم اپنے لئے پسند کرو وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو اس لئے انہوں نے اس فرض کو ادا کیا۔ اب آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور جہاں احمدیت کے انعام کے وارث ہونے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے رہیں، اپنی نسلوں میں بھی احمدیت کی حقیقی تعلیم کو دلوں میں راسخ کئے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ وہاں اس خوبصورت پیغام کو دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ اور یہ کام آپ اس وقت احسن رنگ میں کر سکیں گے جب اپنے ہر عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اور 1907ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی یہ پیغام اس جزیرے میں پہنچ گیا جس کو زمین کا کنارہ بھی کہا جاتا ہے اور بغیر کسی مبلغ کے یہاں اللہ تعالیٰ نے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف پھیرنا شروع کر دیا۔ اور اب تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وسائل بھی عطا فرما دئیے ہیں جن سے چوبیس گھنٹے آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے۔ اس نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو کر رہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور دل پھیرنے ہیں۔ جس طرح آج مخالفین آپ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اس ابتدائی زمانے میں بھی یہ نعرے لگاتے تھے جب احمدیوں کی تعداد چند ایک تھی اور جیسا کہ میں نے کہا ان کے خلاف بڑے سخت منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مخلصین کی تضرعات اور دعاؤں کو سنا اور ہر شر سے احمدیت کو محفوظ رکھا۔
ان ابتدائی مخلصین اورفدائین میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے کچھ اور بھی ہیں،ذکر کر دیتاہوں۔ یعنی عباس کاہلوں صاحب، حاجی سلمان اچھا صاحب، لطیف بخت صاحب، مولا بخش بھنو صاحب وغیرہ۔ مناف سوکیہ صاحب اسی طرح سدھن فیملی کے بزرگ تھے، جوا ہر فیملی کے بزرگ تھے، محراب فیملی کے بزرگ تھے، نوبھے فیملی کے بزرگ تھے، درگاہی فیملی کے بزرگ تھے، عبدالرحمن صاحب تھے، بدھن خاندان کے بزرگ تھے، سلیمان تیجو صاحب تھے، یہ سب لوگ ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ ان کا نام میں نے اس لئے لیا ہے کہ ان خاندانوں کے افراد کو ذاتی تعلق کی وجہ سے احساس ہو کہ ہمارے بزرگوں نے احمدیت کی تعلیم کو اپنایا اور اس پر قائم رہے۔ یہ لوگ وہ تھے جو ہمیشہ اللہ کے آگے جھکے رہے۔ اپنے اخلاص و وفا کو بڑھاتے رہے اور اس بات کو اپنی نسلوں میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ پس ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ بھی یہ اعمال بجا لائیں۔اس اہم کام کو دنیا کی چکاچوند اور دنیا کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے بھول نہ جائیں۔ آپ کا جوش اور وفا کا تعلق عارضی نہ ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر آپ نے اپنے دلوں میں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں یہ اخلاص و وفا کا تعلق قائم رکھا تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ اپنے ترقی کے قدم دیکھتے رہیں گے۔ پس ہر وقت اس کوشش میں رہیں کہ ہم قرآن کریم کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو مکمل طور پر اپنانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ کیسی تبدیلی ہے جو آپؑ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں ؟۔
آپؑ فرماتے ہیں :
’’ سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے۔ اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بےزار ہو کر ترک کرو‘‘۔ (کشتی ٔ نوح،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تعلیم کے مطابق ہر احمدی کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے۔ نمازوں کی طرف توجہ کرے، عبادات کی طرف توجہ صرف رسماً نہ ہو بلکہ حقیقت میں یہ نیکیاں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں قائم رکھتے ہوئے پیدا ہو رہی ہوں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایابدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ وہ بدیاں کیا ہیں ؟۔ بظاہر عبادتیں کرنے والے ہوتے ہیں لیکن بعض برائیوں میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ان کی عبادتیں ان کو کچھ فائدہ نہیں دے رہی ہوتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو ایسے لوگوں کی عبادتیں دوسروں پر نیک اثر ڈالنے کی بجائے بداثر ڈال رہی ہوتی ہیں اور ان کو خود بھی کوئی فائدہ نہیں دے رہی ہوتیں۔ کمزور ایمان والوں کو اورکچے ذہنوں کو مذہب سے دور لے جا رہی ہوتی ہیں۔
اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکثر فرمایاہے کہ حقوق دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ پس جہاں آپ حقوق اللہ ادا کر رہے ہوں وہاں حقوق العباد بھی ادا کرنا ضروری ہے۔ حقوق العباد میں آپس میں محبت اوربھائی چارے کا تعلق پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اور یہی بنیادی چیز ہے جس سے کہ انسان دوسرے انسان کے حقوق ادا کرتا ہے پس اس بنیادی چیز کو پکڑلیں۔ جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے ہر قسم کی ناراضگیوں کو دور کرکے محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کریں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔ اس سے خدا سے تعلق مزید مضبوط ہو گا اور مزید نیکیاں اختیار کرنے اور برائیاں چھوڑنے کی توفیق ملے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اپنی جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بہت اونچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس جہاں ان معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے آپ عبادات کی طرف توجہ کریں۔ وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک جان ہونے کی طرف بھی توجہ کریں۔ یہاں مخالفت بھی کافی ہے اور مخالفین بھی یقینا اس کوشش میں ہیں کہ یا تو ڈرا کر یا آپ میں بداعتمادی پیدا کرکے آپ کو کمزور کیاجائے۔ پس اپنی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو بھلاکر ایک دوسرے سے پیار اور محبت کا تعلق پیدا کریں۔ تاکہ جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے والے بن سکیں۔ ہمیشہ قرآن کریم کے اس حکم کو اپنے سامنے رکھیں کہ

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا (الانفال:47)۔

اور آپس میں جھگڑ ے نہ کیا کرو اگر ایسا کرو گے تو تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپس کے لڑائی جھگڑے اور آپس کے اختلافات ختم کر دے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صبر سے کام لے۔ غیروں کے مقابلے میں تو ہم صبر سے کام لیتے ہیں۔ گالیاں سن کر اکثر اوقات چپ رہتے ہیں۔ لیکن آپس میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر مہینوں، سالوں ناراضگیاں چلتی رہتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں تو یہ حکم ہے کہ آپس میں زیادہ محبت کا سلوک کرو۔ دیکھیں جو وقار آپ کے بڑوں نے بنایا، جماعت کو مخالفت کے باوجود ایک مقام دلانے کی کوشش کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس نیک نیتی اور جماعت کی خاطر قربانی کو قبول فرمایا۔ آج ان کا نام جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ لوگ بھی یاد رکھیں کہ جماعت کی خاطر، اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر آپ آپس میں ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی کوشش کریں گے تو جہاں آپ جماعت کاوقار قائم کر رہے ہوں گے وہاں آپ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا پیار بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا یقینا اس کے فضلوں کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس کی نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوتی ہیں۔ اور ان کا مخالفین پر بھی رعب قائم رہتا ہے۔ ان کے اعلیٰ نمونے دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوتے ہیں۔ پس دعوت الی اللہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپس کے اختلافات دور ہوں۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی فکر ہو۔ یہی چیز آپ میں مضبوطی پیدا کرے گی۔ اور آپ کو تبلیغ کے میدان میں بھی آگے لے جانے والی ہو گی۔ دیکھیں آپ کے بڑوں نے کس فکر کے ساتھ اس چیز کو اپنایا تھا۔
یہاں کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گویا وہ ایک جان تھے اور اس کا اثر تھا کہ ان چند لوگوں نے آج سے 70سال بلکہ اس سے بھی پہلے 7-6 سوافراد کی جماعت بنالی۔ اب ان میں سے ایک ایک کے آگے کئی کئی بچے ہیں۔ ان میں تو نسل بڑھ رہی ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں پیچھے ہیں۔ اس کی ایک وجہ دنیا داری کی طرف زیادہ توجہ بھی ہو سکتی ہے۔ آپس کی ان لوگوں کی طرح پیار ومحبت میں کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے جہاں اپنی کمزوریوں کو دورکریں وہاں جیسا کہ میں نے کہا تبلیغ میں بھی آگے بڑھیں، لوگوں کی رہنمائی کریں لیکن اس کے لئے اپنے بھی اعلیٰ عمل اور عملی نمونے دکھانے ہوں گے۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کمزوری یہاں کافی ہے کہ تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جا رہی جس طرح ہونی چاہئے۔ اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں۔ ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں بھی آبادی ہے وہاں وفد بھیجیں اور ان جزیروں کو احمدیت کی آغوش میں لائیں۔ یہاں اس جزیرے میں بھی تبلیغ کریں۔ مسلمان یہاں اگر خلاف ہیں تو اپنے مولویوں کے احمدیت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے خلاف ہیں۔ ان کے علم میں ہی نہیں ہے کہ احمدیت کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور ہمارا کیا ایمان ہے اور کیا مانتے ہیں۔ کئی مسلمان شرفاء باوجود ان فسادیوں کے جلوس نکالنے اورتقریریں کرنے کے، جوکہ ہمارے جلسے کے دوران آخری دن انہوں نے کیں،یہ شرفاء ہمارے جلسے میں شامل ہوئے اور مجھے ملے اور اسلام کی صحیح تصویر دکھانے اور احمدیت کے حقیقی پیغام کے پہنچانے کا شکریہ ادا کرکے گئے۔ تو یہ مستقل تبلیغی رابطے اگر ہوں گے تو انہیں احمدیت کی حقیقی تعلیم سے آگاہی ہو گی۔ پس آپ لوگ ایک ہو کر اس تبلیغی مہم میں جُت جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔
یاد رکھیں یہی ایک ذریعہ ہے جس سے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی محفوظ رکھیں گے۔ اپنے نوجوان بچوں اور بچیوں کو دنیا کے گند سے بچا کر رکھ سکیں گے۔ اپنے بچوں میں بھی اس بات کو راسخ کریں کہ تمہارے باپ دادا نے، تمہارے بزرگوں نے احمدیت کو صحیح سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بے انتہا فضلوں سے نوازا۔ تم لوگ بھی بجائے یہ دیکھنے کے کہ دنیا آجکل کس طرف جا رہی ہے یہ دیکھو کہ خداتعالیٰ تمہیں کس طرف بلا رہا ہے۔ پس اس طرف آؤ اور اس کے حکموں پر عمل کرو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بدی کو بے زار ہو کر ترک کرو۔ پس اس کے لئے آپ کو اپنے بچوں کے لئے اپنے عملی نمونے بھی پیش کرنے ہوں گے، اپنے اندر سے بھی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ آپ لوگوں کو خود بھی نیکیوں کو اپنانا ہو گا۔ آجکل معاشرے میں بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن کا اثر ہمارے معاشرے میں پڑ رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے خود بھی ان سے بچیں اور اپنی اولادوں کو بھی ان سے بچائیں۔ کیونکہ اسی میں اب آپ کی بہتری ہے۔ اللہ کرے کہ آپ لوگ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور مرد بھی اور عورتیں بھی نیکیوں کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں تاکہ اپنی نسلوں اورنئے آنے والوں کی تربیت بھی کر سکیں اور احمدیت کے پیغام کو اپنے عمل سے بھی اپنے ہم قوموں کو پہنچا سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت الی اللہ کے میدان میں اب تک جو سستی ہوئی ہے اس کی کمی کوپورا کرنے کی توفیق دے۔ آپ کو ہر لحاظ سے اپنی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ کا جماعت اور خلافت سے جذبۂ اخلاص و وفا ہمیشہ قائم رہے اور اس میں اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتا رہے۔ آمین
(نوٹ:اس خطبہ کے ساتھ مکرم امین جواہر صاحب امیر جماعت احمدیہ ماریشس نے کریول زبان میں رواں ترجمہ بھی پیش کیا۔)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں