خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 27؍جون2003ء

آئندہ زمانے میں جو ضرورت پیش آنی ہے مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے
اس لئے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کوپتہ ہوکہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان میں جانے والی ہے

(واقفین نو بچوں کی تربیت کے متعلق متفرق ہدایات)

خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۷؍جون ۲۰۰۳ء مطابق ۲۷؍احسان۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرَاہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔ ذُرِّ یَّۃً بَعْضُھَا مِنْ بَعْضٍ۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ- (سورۃ آل عمران ۳۴۔۳۵)

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اسلام کی طرف ایک غلط قسم کے جہاد کے تصور کو منسوب کرنے کا ذکر کیا تھا جس نے اسلام کی بہت ہی پیاری محبت سے بھری ہوئی حسین تعلیم کو بعض مفاد پرستوں کے ذاتی مفاد نے انتہائی خوفناک اور بھیانک شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔اور پھر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ان کی اصلاح کی کوشش کرے توکہتے ہیں کہ یہ اسلام دشمن ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں- ان عقل کے اندھوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس عمل سے اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی برباد کر رہے ہیں- ماؤں کی گودوں سے ان کے بچے چھین رہے ہیں ،بہنوں سے ان کے بھائی جدا کر رہے ہیں اور باپوں سے ان کے بڑھاپے کے سہارے جدا کر کے ان کو دَردَر کی ٹھوکریں کھلانے کا باعث بن رہے ہیں-کیونکہ چھوٹی عمر کے بچوں اور کم عمر کے نوجوانوں کو پہلے یہ دینی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ، مدرسوں میں داخل کرتے ہیں- پھر اللہ کی رضا اور ہمیشہ کی جنتوں کا وارث ہونے کا لالچ دے کر مکمل طورپر برین واش (Brain Wash)کر کے اپنے مقاصد میں استعمال کیا جاتاہے ان بچوں کو۔ اور جتنے اس قسم کے لیڈر ہیں کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اپنے بچوں کو ایسے کاموں کے لئے بھیجیں-کچھ خوف خدا نہیں-
لیکن اس کے مقابل پر ایک اور قسم کا گروہ ہے جواسلام کی حقیقی اور حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتاہے۔جو آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے یہ کہتاہے کہ ؎

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

قتال اور تلوار کے جہاد کو حرا م قرار دے کر کہتاہے کہ اس سے بڑے جہاد کی طرف آؤ اور اسلام کے محاسن کو دنیا پر ظاہر کرو۔ قرآن کریم کے دلائل دنیا کے سامنے پیش کرو۔ دلائل سے دنیا کا منہ بند کرو۔ محبت سے اور دلائل سے دنیا کے دل جیتو۔ اور یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہیں بلکہ دنیا پر ثابت کر دیاہے کہ اس وقت اسلام کی بقا اور ترقی اسی مسیح محمدی ؑکے ساتھ وابستہ ہے جس نے دلائل سے لوگوں کے دل جیت کر اپنے زیر نگین کیا اور یہ اعلان کیا کہ’’ سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے ‘‘۔
پس آج اس مسیح موعود کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفۂ وقت کی تحریک پر انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعود کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جا رہے ہیں-اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ’ جیسے حضرت مریم کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے

رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ-

کہ اے میرے رب جوکچھ بھی میرے پیٹ میں ہے مَیں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں- مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے۔لڑکی ہے کہ لڑکاہے۔ اچھا ہے یا براہے۔ مگر جو کچھ ہے مَیں تمہیں دے رہی ہوں-

فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ

مجھ سے قبول فرما۔

اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

توُبہت ہی سننے والا اور جاننے والاہے۔ …… یہ دعا خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق، یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ ہیں- بعض جگہ آپ کو ظاہر طورپر وقف کا مضمون نظرآئے گا اور بعض جگہ نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا مُحَرَّرًا اے خدا ! مَیں تیری پناہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں- لیکن بسا اوقات آ پ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا !جو نعمت توُنے مجھے دی ہے،وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما۔ …پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلّہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے۔ آپ چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے، میری طرف سے ایک تحفہ ہوتیرـے حضور، تو یہ ہے سنت انبیاء،ـ سنت ابرار۔
اور اس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کاعمل، خوبصورت عمل، جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں- جہاد میں حصہ لے رہے ہیں لیکن علمی اور قلمی جہاد میں- حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہو کر۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے ا س کے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں-جس طرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے اسی طرح اس دکھاوے کے جہاد میں بھی سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں ملے گا۔لیکن جن ماؤں اور جن باپوں نے قربانی سے سرشار ہو کر، اس جذبہ سے سرشار ہوکر،اپنے بچوں کو خدمت اسلام کے لئے پیش کیا ہے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بھی اگر توجہ نہ دلائی جائے تو بعض دفعہ والدین اپنی ذمہ داریوں کوبھول جاتے ہیں اس لئے گو کہ شعبہ وَقفِ نَو توجہ دلاتا رہتاہے لیکن پھر بھی مَیں نے محسوس کیا کہ کچھ اس بارہ میں عرض کیا جائے۔ اس ضمن میں ایک اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں مَیں پیش کرتاہوں- فرمایا:
’’اگر ہم ان واقفین نو کی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔اور پھر ہرگز یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اتفاقاً یہ واقعات ہو گئے ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور اگر خدا نخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ مَیں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بدقسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کے لینے کے لئے تیار ہے تو مَیں حاضر ہوں ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے۔(خطبہ جمعہ ۰۱؍فروری ۹۸۹۱ء)
والدین نے تو اپنے بچوں کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔جماعت نے ان کی صحیح تربیت اور اٹھان کے لئے پروگرام بھی بنائے ہیں لیکن بچہ نظام جماعت کی تربیت میں تو ہفتہ میں چند گھنٹے ہی رہتاہے۔ان چند گھنٹوں میں اس کی تربیت کا حق ادا تو نہیں ہو سکتا اس لئے یہ بہرحال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت پر توجہ دیں- اور اس کے ساتھ پیدائش سے پہلے جس خلوص اور دعا کے ساتھ بچے کو پیش کیا تھا اس دعا کا سلسلہ مستقلاً جاری رکھیں یہاں تک کہ بچہ ایک مفید وجود بن کر نظام جماعت میں سمویا جائے۔بلکہ اس کے بعد بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ بگڑتے پتہ نہیں لگتا اس لئے ہمیشہ انجام بخیر کی اور اس وقف کو آخر تک نبھانے کی طرف والدین کو بھی دعا کرتے رہنا چاہئے۔
چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب مَیں آگے واقفین نوبچوں کی تربیت کے لئے جووالدین کو کرنا چاہئے اور یہ ضروری ہے پیش کرتاہوں-
اس میں سب سے اہم بات وفا کا معا ملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی، قربانی نہیں کہلا سکتی۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے الفاظ میں چند باتیں کہوں گا-آپ نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ :
’’واقفین بچوں کو وفا سکھائیں-وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتاـ، وہ الگ ہوتاہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پرغداری کا داغ لگا لیتاہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے۔ اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا،یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیا ء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا احتما ل ہے۔ جتنی بلندی ہو،اتنی ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی بڑھ جایا کرتاہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کا سبق دیں اور باربار دیں- اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں- بعض بچے شوخیا ں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کوہلاک کر دیتی ہے۔ اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔ واقفین بچوں کہ یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیاہے لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ(Gate) اور بھی آئے گا۔جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے،اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے؟۔ وقف وہی ہے جس پرآدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتاہے۔ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتاہے، واپس نہیں مڑا کرتا‘‘۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ ۱۰؍فروی ۱۹۸۹ء )
اس کے علاوہ ایک اور اہم بات اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں- کیونکہ جس دین میں عباد ت نہیں وہ دین نہیں-اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہئے اور اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے۔ اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے۔نہیں توصرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پرکوئی اثر نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ:’’ بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے، اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی۔ا س کا طریقہ آنحضرت ﷺنے یہ سمجھایاہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اور پیار سے ایسا کریں- کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں ،کوئی مارنے کی ضرورت نہیں ،محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ،اس کو عادت پڑ جاتی ہے۔ دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں- ہم نے تو گھروں میں دیکھاہے اپنے نواسوں وغیرہ کو بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سال کی عمر کے ساتھ آکے تو نیت کر لیتے ہیں اور نما ز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ان کو اچھا لگتاہے دیکھنے میں ،خدا کے حضور اٹھنا،بیٹھنا،جھکنا ان کو پیارا لگتاہے ا ور وہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں- مگر و ہ نماز نہیں ، محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے۔ لیکن جب سات سال کی عمر تک بچہ پہنچ جائیـ تو پھر ا س کو باقاعدہ نماز کی تربیت دو۔ اس کو بتاؤ کہ وضو کرنا ہے، اس طرح کھڑے ہونا ہے، قیام و قعود، سجدہ وغیرہ سب اس کو سمجھاؤ۔اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک، پیار و محبت سے سیکھتا رہے،پھر دس اور بارہ کے درمیان اس پر کچھ سختی بے شک کرو۔کیونکہ وہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا،کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتاہے بچوں کی تربیت کے لئے۔تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے،بار ہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں- پھر اس کا معاملہ اور اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے۔ تو ا نسانی تربیت کا دائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہو جاتاہے،بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلا ہواہے۔ ا س کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر وہ اور رنگ ہے۔ انسان اپنی اولاد کا ذمہ دار بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے۔
بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوارنے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھانا کھانے کے آداب ہیں یہ ضرور سکھانا چاہئے۔اب یہ ایسی بات ہے جو گھر میں صرف ماں باپ ہی کر سکتے ہیں یا ایسے سکول اور کالجز جہاں ہوسٹل ہوں اور بڑی کڑی نگرانی ہو وہاں یہ آداب بچوں کو سکھائے جاتے ہیں لیکن عموماً ایک بہت بڑی تیسری دنیا کے سکولو ں کی تعداد ایسی ہے جہاں ان باتوں پر اس طرح عمل نہیں ہوتا اس لئے بہرحال یہ ماں باپ کا ہی فرض بنتاہے۔ لیکن یہاں مَیں ضمناً یہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ ربوہ کی ایک مثال ہے مدرسۃ الحفظ کی جہاں پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد بچے داخل ہوتے ہیں-مختلف گھروں سے،مختلف خاندانوں سے،مختلف ماحول سے، دیہاتوں سے، شہروں سے بچے آتے ہیں لیکن وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ان کی تربیت ماشاء ا للہ ایسی اچھی ہے اور ان کی ایسی اعلیٰ نگرانی ہوتی ہے اور ان کو ایسے اچھے اخلاق سکھائے گئے ہیں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ۔ اتنے سلجھے ہوئے طریق سے بچے کھانا کھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔باوجود مختلف قسم کے بچوں کے ماحول ہے کہ مثلاً یہی ہے کہ بسم ا للہ پڑھ کے کھائیں ،اپنے سامنے سے کھائیں ،ڈش میں سے سالن اگر اپنی پلیٹ میں ڈالنا ہے تو اتنی مقدار میں ڈالیں جو کھایا جائے۔ دوبارہ ضرورت ہو تو دوبارہ ڈال دیا جائے۔دائیں ہاتھ سے کھانا کھاناہے،کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں تو بہرحال بچپن سے ہی وقف نوبچوں کو تو خصوصاً اور عموماً ہر ایک کو سکھانی چاہئیں-تو بہرحال یہ جو مدرسۃ الحفظ کی مَیں نے مثال دی ہے اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جو انہوں نے تربیت کا شروع کیا ہے جاری رہے اور والدین بھی اپنے بچوں کی اسی نہج پر تربیت کریں-
پھر یہ ہے کہ بعض بچوں کو بچپن میں عادت ہوتی ہے اور یہ ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ بعض دفعہ والدین اس پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ کھانا کھانے کے بعد گندے ہاتھوں کے ساتھ بچے مختلف چیزوں پر ہاتھ لگادیتے ہیں اسے بھی ہلکے سے پیار سے سمجھائیں- تو یہ ایسی عادتیں ہیں جو بچپن میں ختم کی جاسکتی ہیں اور بڑے ہو کر یہ اعلیٰ اخلاق میں شمار ہو جاتی ہیں-
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ: ہر وقف زندگی بچہ جو وقف نومیں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے۔اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ سے ملنی چا ہئے۔ جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے، اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔واقفین نوبچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضرور ی ہے۔اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو ا پنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنا نا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طورپر،مذاق کے طورپر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہرحال آپ نے پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول، سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں-
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: قناعت کے متعلق مَیں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص وہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے۔ عقل ا ور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غرض دیانت اور ا مانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے۔ ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی۔ ترش رُو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیاکر تے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں- اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں-
اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا،ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ (اقتباسات ازخطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۸۹ء)
اب یہ ایسی چیزیں ہیں بعض واقفین نو بچے سمجھتے ہیں کہ صرف ہماری علیحدہ کوئی تنظیم ہے جو جماعت کی باقاعدہ ذیلی تنظیمیں ہیں ان کا حصہ ہیں واقفین نوبچے بھی۔
پھر بچپن سے ہی کردار بنانے کی طر ف توجہ دلاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں- مَیں اس لئے حوالے حضور کے بھی ساتھ دے رہاہوں کہ یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک تھی جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جار ی فرمائی۔ اور اس کے فوائد تو اب سامنے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور آئندہ زمانوں میں انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ کس کثرت سے اور بڑے پیمانہ پر اس کے فوائد نظر آئیں گے۔ انشاء اللہ۔
فرمایا کہ:بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں- دراصل اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ محاورہ ہے کہ گرم لوہا ہو تو اس کو موڑ لینا چاہئے۔لیکن یہ بچپن کا لوہا ہے کہ خداتعالیٰ ایک لمبے عرصہ تک نرم ہی رکھتاہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کردیتے ہیں وہ دائمی ہو جایا کرتے ہیں- اس لئے وقت ہے تربیت کا اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزور ی کو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے۔ یہاں پھر والدین کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہے یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجہ میں قومیں بھی ہلاک ہو سکتی ہیں اور یاد رکھنے کے نتیجہ میں ترقی بھی کر سکتی ہیں- ایک نسل اگلی نسل پر جو اثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموماً یہ اصول کار فرماہوتاہے کہ بچے ماں باپ کی کمزور یوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں- اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزور ی ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا۔ اس لئے یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضروری کرنی ہوگی۔ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو تم سچ بولا کرو، تم نے مبلغ بننا ہے۔تم بددیانتی نہ کیا کرو، تم نے مبلغ بننا ہے۔ تم غیبت نہ کیا کرو، تم لڑا نہ کرو، تم جھگڑا نہ کیا کروکیونکہ تم وقف ہو اور یہ باتیں کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر ماں باپ ایسا لڑیں ،جھگڑیں ،پھر ایسی مغلظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف، ایسی بے عزتیاں کریں کہ وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کردی اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا۔جو اُن کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے۔ جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو،بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پروا نہیں- ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے، تم خدا کے لئے سچ بولا کرو، سچائی میں زندگی ہے۔ بچہ کہتاہے ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتاہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولتاہے۔ اس لئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ ا صول کارفرما ہوتاہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں ‘‘۔
(اقتباسات ازخطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مورخہ۸؍ستمبر ۱۹۸۹ء)
تو واقفینِ نَو بچوں کے والدین کو اس سے اپنی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گیا ہوگا کہ اپنی تربیت کی طرف کس طرح تربیت دینی چاہئے۔
پھر جیسا کہ مَیں نے ذکر کیاہے حضور کے ا لفاظ میں- اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پرسکون اور محبت بھرا بنائیں کہ بچے فارغ وقت میں گھر سے باہر گزارنے کے بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں- ایک دوستانہ ماحول ہو۔ بچے کھل کر ماں باپ سے سوال بھی کریں اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کرسکیں- اس لئے ماں باپ دونوں کو بہرحال قربانی دینی پڑے گی۔ جوعہد اپنے ربّ سے والدین نے باندھا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے بہرحال والدین نے بھی قربانی دینی ہے۔ اور یہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں اور حضور نے یہی نصیحت فرمائی ہے والدین کو بھی، مَیں بھی یہی کہتاہوں- بعض دفعہ بعض والدین اپنے حقوق تو چھوڑتے نہیں بلکہ ناجائز غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زور یہ ہوتاہے کہ چونکہ ہمارے بچے وقف نومیں ہیں اس لئے ہم نے اگر کوئی غلطی کر بھی لی ہے تو ہم سے نرمی کا سلوک کیاجائے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔
پھر یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی قسم کی برائی دل میں تب راہ پاتی ہے جب اس کے اچھے یا برے ہونے کی تمیز اٹھ جائے۔ بعض دفعہ ظاہر اً ہر قسم کی نیکی ایک شخص کررہاہوتاہے۔ نمازیں بھی پڑھ رہا ہے،مسجد جا رہاہے، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آ رہا ہے لیکن نظام جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہو جائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہو تو پہلے تو اس عہدیدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے۔پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا سا کوئی فقرہ کہہ دیا،اس عہدیدار کی وجہ سے۔ پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیوی سے یا کسی اور عزیز سے کوئی بات کر لی تو اس طرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کا ا حترام اٹھ جاتاہے۔ اس احترام کو قائم کرنے کے لئے بہرحال بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچاتا ہوں-
’’بہت ضروری ہے کہ( واقفینِ نَوکو) نظام کا ا حترام سکھایا جائے۔پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو۔ وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے۔ آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے۔ یہ ایسا زخم ہواکرتاہے کہ جس کو لگتاہے اس کو کم لگتاہے، جوقریب کا دیکھنے والاہے اُس کو زیادہ لگتاہے۔ اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ـ،ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتاہے۔ اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں- واقفین بچوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری توقعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں ، اس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔… ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اس کے دین سے ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو۔ آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچاہے تو ا س کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کوحق ہے کہ اپنے ماحول،اپنے دوستوں ،اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کردیں- اپنے زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اندمال کے جو ذرائع باقاعدہ خداتعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ فروری ۱۹۸۹ء)
پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہوگی۔ وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیداکریں ، انہیں متقی بنائیں- اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک والدین خود متقی نہ ہوں- یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں- کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے منہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے،اپنے بہن بھائیوں کے حقوق غصب کررہے ہیں-ذرا ذراسی بات پر میاں بیوی میں ، ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہو رہے ہیں-تو پھربچوں کی تربیت اور ان میں تقویٰ پیدا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔بچوں میں تقویٰ کس طرح پیدا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ ا للہ فرماتے ہیں-
’’واقفین نوبچوں کو بچپن ہی سے متقی بنائیں اور ان کے ماحول کو پاک ا ور صاف رکھیں- ان کے ساتھ ایسی حرکتیں نہ کریں جن کی وجہ سے ان کے دل دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں-پوری توجہ ان پر اس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کو ایک بہت ہی عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جا رہاہو اور اس طرح ان کے دل میں تقویٰ بھر جائیں پھر یہ آپ کی ہاتھ میں کھیلنے کے بجائے خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کردی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیزہے جس کے ذریعہ آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپردکرسکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے، سارے مراحل ہٹ جائیں گے۔رسمی طورپر تحریک جدید سے بھی واسطہ رہے گا یعنی وکالت وقف نو سے۔ اور نظام جماعت سے بھی واسطہ رہے گا۔ مگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لا ڈالیں خدا ان کو سنبھالتاہے،خود ہی ان کا انتظام فرماتاہے، خود ہی ان کی نگہداشت کرتاہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی۔ آپ لکھتے ہیں :

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا مَیں مثلِ طفلِ شیر خوار

پس ایک ہی راہ ہے اور صر ف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کردیں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء)
پھر بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کریں کہ تم واقف زندگی ہو اور فی زمانہ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں-اپنے اندرقناعت پیداکرو، نیکی کے معاملہ میں ضرور اپنے سے بڑے کو دیکھو اورآگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ لیکن دنیاوی دولت یا کسی کی امارت تمہیں متأثر نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں اپنے سے کمتر کو دیکھو اور خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین کی خدمت کی توفیق دی ہے۔ اور اس دولت سے مالاما ل کیاہے۔ کسی سے کوئی توقع نہ رکھو۔ ہرچیز اپنے پیارے خدا سے مانگو۔ ایک بڑی تعداد ایسے واقفین نوبچوں کی ہے جو ماشاء اللہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے ہیں-ان کو خود بھی اب ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
ضمناً یہ بات بھی کردوں کہ حضور رحمہ اللہ نے بھی ایک دفعہ اظہار فرمایا تھا کہ واقفین نو بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو ہے ان کی تربیت ایسے رنگ میں کرنی چاہئے اور ان کے ذہن میں یہ ڈالنا چاہئے کہ انہیں مبلغ بننا ہے۔ اور آئندہ زمانے میں جو ضرورت پیش آنی ہے مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اس لئے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کوپتہ ہوکہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان میں جانے والی ہے اور اس لحاظ سے ان کی تربیت ہونی چاہئے۔
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام کے کچھ اقتباسات پڑھتاہوں- آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے، دو قسم پرہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا ء و قدر کے اُمور بہ دل و جان قبول کئے جائیں- اور نہایت نیستی اور تذلّل سے ان سب حکموں اور حدّوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بہ ارادتِ تامّہ سر پر ا ٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علوّمرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعمآء کے پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں ، بخوبی معلوم کر لی جائیں-
دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور باربرداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے، دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دکھ اٹھا ویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رنج گوارا کر لیں ‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۶۰)
پھر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
’’مسلمان وہ ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کردیوے۔ اور پھر نیک کاموں پر خداتعالیٰ کے لئے قائم ہوجائے۔ اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طورپر محض خداتعالیٰ کا ہو جاوے۔
اعتقادی طورپر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طورپر اس طرح سے کہ خالصتاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق وشوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہاہے ‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۷۔۵۸)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’مَیں اپنا فرض سمجھتاہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں- آئندہ ہرایک کو اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتاہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلبگارہے تو و ہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ ا س درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں ، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ کی طر ح اس کی روح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن-جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا،خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی نہیں پا سکتا۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف مَیں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتاہوں- پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں ‘‘۔ ( الحکم جلد ۴ نمبر ۳۱ بتاریخ ۳۱؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۴)
پھر آپ ؑنے فرمایا :
’’ نہایت امن کی راہ یہی ہے کہ انسان اپنی غرض کو صاف کرے اور خالصتاً روبخدا ہو۔ اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو صاف کرے اور بڑھائے اور وجہ اللّٰہ کی طر ف دوڑے۔ وہی اس کا مقصود اور محبوب ہو اور تقویٰ پر قدم رکھ کر اعمال صالحہ بجا لاوے۔پھر سنت اللہ اپنا کام کر ے گی- اس کی نظر نتائج پر نہ ہو بلکہ نظر تو اسی ایک نقطہ پرہو ، اس حد تک پہنچنے کے لئے اگر یہ شرط ہو کہ وہاں پہنچ کر سب سے زیادہ سزاملے گی تب بھی اسی کی طرف جاوے یعنی کوئی ثواب یا عذاب اس کی طرف جانے کا اصل مقصد نہ ہو، محض خداتعالیٰ ہی اصل مقصد ہو۔ جب وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف آئے گا اور اس کا قرب حاصل ہوگا تو یہ وہ سب کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی کبھی نہ گزرا ہوگا اور کشوف اور خواب تو کچھ چیز ہی نہ ہوں گے۔ پس مَیں تو اس راہ پر چلانا چاہتا ہوں اور یہی اصل غرض ہے‘‘۔ (الحکم جلد ۱۰ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں