خلافتِ خامسہ میں تائیداتِ الٰہیہ احمدیت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی و جون2023ء)

چودھری ناز احمد ناصر صاحب

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جنود اور لشکروں، مومنوں اور متقی مسلمانوں کے جو نشانات بیان فرمائے ہیں ان میں ایک روشن اورچمکدار نشان تائیدات الٰہیہ کا نشان ہے جوہر جگہ، ہر مقام، ہر قریہ اور تمام دیار و امصار میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُو فیِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُومُ الْاَشْھَادُ (مومن52:) کہ ہم اپنے رسولوں کی اوران پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں بھی ضرور مدد کریں گےاور اس دن بھی جب کہ گواہ کھڑے ہوں گے۔ نیز فرمایا: وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ اَنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ (الصٰفٰت172:تا174) اورہمارا فیصلہ ہمارے بندوں یعنی رسولوں کے لیے پہلے گذر چکا ہے (جو یہ ہے) کہ ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر(یعنی مومنوں کا گروہ) ہی غالب رہے گا۔ پھر فرمایا: کَتَبَ اللّٰہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی۔اِنَّ اللّٰہ قَوِیٌ عَزِیْزٌ (المجادلہ22:) اللہ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ اللہ یقیناً طاقتور (اور) غالب ہے۔
ہر صاحبِ بصیرت انسان دیکھ اور پرکھ سکتا ہے کہ قرآن کریم میں موجود یہ آفاقی سچائیاں کس طرح خلافتِ خامسہ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں جگمگا رہے ہیں۔ ہر احمدی ان نشانات کا گواہ ہے اور سعید روحیں ان نشانوں کو دیکھ کر امام مہدی پر ایمان لانے کی توفیق پا رہی ہیں۔

کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اک عالَم دکھاتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 22؍اپریل2003ء کو منصبِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد دنیا میں امن کے بارہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ از قسم پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل الیکٹرانک میڈیا، مختلف سربراہان مملکت اور عیسائیوں کے مذہبی پیشوا کو خطوط لکھ کراور طاہر ہال مسجدبیت الفتوح لندن میں سالانہ امن کانفرنسز کے انعقاد سے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔اسی طرح آپ نےدنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمنٹس میں خطابات بھی ارشاد فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ نصرت اور تائید تو دراصل حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے سے شروع ہو چکی تھی اور اللہ تعالیٰ کا آپؑ سے وعدہ تھا:اَلَیْسَ اللّہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کہ اللہ تعالیٰ آپؑ کے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نصرت ہمیں آپؑ کی زندگی کے ہر لمحہ میں نظر آتی ہے اور آپؑ کے خلفاء، متبعین اور ماننے والے مؤمنین بھی اس نصرتِ خداوندی سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
اسلام کی نشأتِ ثانیہ الٰہی پیش خبریوں کے مطابق مسیح و مہدی موعودؑ کے زمانہ میں مقدر تھی۔ حضرت اقدسؑ نے 1889ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور 1891ء میں اسلام کی موعودہ ترقی اور نشاتِ ثانیہ کا احاطہ کرنے کے لیے پانچ شاخوں کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر تے ہوئے فرمایا کہ ’’اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لیے بھیج کر… دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پر امرِ تائیدِ حق اور اشاعتِ اسلام کو منقسم کردیا… یہ پانچ طور کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا… خداتعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں اور جس اصلاح کے لیے اس نے ارادہ فرمایا ہے وہ اصلاح بجز استعمال ان پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
(فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ11-12، 25-26)
حضو ر علیہ السلام نے شجرِ اسلام کی ان تر وتازہ شاخوں کے پھلنے پھولنے کو جماعت احمدیہ کی تر قی کا ایک پیمانہ قرار دیا۔ آپؑ کی وفات کے بعد جماعت میں الٰہی وعدوں کے مطابق خلافت احمدیہ قائم ہوئی جس کے ہر مبارک دَور میں اشاعت اسلام کا سلسلہ بدستور بڑھتا چلا جاتا رہا ہے اور یہ شاخیں مسلسل پھیلتی اور پھولتی پھلتی جارہی ہیں۔تمکنت دین کایہ سلسلہ خلافت اولیٰ سے خلافت خامسہ تک گزشتہ ایک سو چودہ سالوں پر محیط ہر دور خلافت میں مسلسل ترقی پذیر نظر آتا ہےجواس حقیقت پرگواہ ہے کہ خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی افضال سے تائید یافتہ ہےجس کے نتیجہ میں قافلۂ احمدیت شاہراہِ غلبۂ اسلام پر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہوئےدینِ حق کی شان ظاہر کر رہا ہے۔خلافت خامسہ کا عہد آفریں اورانقلاب انگیز دَور اب تک قریباً اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیاں اپنے اندر سمیٹ چکا ہےاور اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات ’اِنِّی مَعَکَ یَا مَسْرُوْر‘ اور ’وہ بادشاہ آیا‘اس دَور میں نئی شان اور آن بان کے ساتھ ہم اپنی آنکھوں سے پورے ہو تے دیکھ رہے ہیں۔
اب ہم حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ پانچ شاخوں کے تحت خدا تعالیٰ کے فضلوں کاخلافت خامسہ میں نزول کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔اشاعت دین کی پہلی شاخ تالیف وتصنیف


حضرت مسیح موعودؑ نے 1891ء میں فرمایا تھا:’’منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے۔‘‘ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ 12)
حضرت مسیح موعودؑ کے بعد بھی ہر دور خلافت میں تالیف وتصنیف کی شاخ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں اس شاخ کی عظیم الشان ترقی کا مختصر جائزہ ہی حیران کن ہےکہ وہ کتب جن کی اشاعت کا آغاز چند ہزار سے ہوا تھاآج خدا کے فضل سے ان کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ تالیف و تصنیف کی شاخ کی ذیلی شاخیں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ مثلاً
٭… خلافت خامسہ کے آغاز پر پریس میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل بھی انقلاب برپا ہوا چنانچہ اس دور میں اعلائے کلمہ اسلام کے لیے جماعتی لٹریچر کی اشاعت کی ایک الگ شان نظر آتی ہے۔ رقیم پریس کاآغازاسلام آبادبرطانیہ میں 1987ء میں ہوا تھا جبکہ آج درجن بھر ممالک میں جدید سہولتوں سے آراستہ اس کی شاخیں قائم ہیں جہاں ہر سال لاکھوں کتب کی اشاعت ہوتی ہے۔’’ فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان‘‘ بھی جدید پرنٹنگ و بائنڈنگ مشینری سے آراستہ ہے۔
٭…خلافت خامسہ میں سالانہ کتب کی اشاعت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی تقاریر جلسہ سالانہ میں صرف گیارہ سالوں میں 98 لاکھ سے زائد کتب کی اشاعت کا ذکر فرمایا ہے جس کی سالانہ اوسط تقریباً نولاکھ بنتی ہے۔ اسی طرح لیفلیٹس اور اشتہارات کی لاکھوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔
٭…خلافت خامسہ میں انیس نئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم و مختصر تفسیری نوٹس کی اشاعت ہو ئی ہے۔ جبکہ اب تک جماعت کے ذریعہ شائع شدہ تراجم قرآن کی کل تعداد چھہتر ہو چکی ہے۔
٭…اکناف عالم میں اشاعت اسلام کی خاطراس وقت دنیا کی نوزبانوں عربی، فرنچ، ٹرکش، رشین، بنگلہ، چینی، انڈونیشین، سواحیلی، سپینش میں مرکزی ڈیسک قائم ہیں جن کے ذریعہ لٹریچر کے ترجمہ کا کام جاری ہے۔ انٹرنیشنل عربک انگلش ٹرانسلیشن ڈیسک الگ قائم ہے جس کے ذریعہ انگریزی سے عربی میں لٹریچر کے ترجمہ کا کام ہورہا ہے۔ دنیا میں یہ نو زبانیں بولنے والوں کی تعداد تین ارب ہے۔

2۔اشاعت دین کی دوسری شاخ (اشتہارات)


حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے1891ءمیں فرمایا تھا:’’دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو حکم الہٰی حجت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک بیس ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لیے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے‘‘۔ گویاحضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے ابتدائی تین سالوں میں اس وقت اپنی توفیق کے مطابق بیس ہزار اشتہار شائع کر کے بھی جماعت کتنی خوشی محسوس کرتی تھی، آج ان کی تعداد لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ اشاعت اسلام کی یہ شاخ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں درج ذیل مزید شاخوں میں تقسیم ہوکر بےشمارشیریں پھل دےرہی ہے۔
٭…تبلیغ احمدیت کا یہ ذریعہ اشتہارات یعنی لیفلیٹس اورپملفٹس کی صورت میں ہردور خلافت میں مسلسل ترقی پذیر رہا ہے جو خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں کی تعداد میں داخل ہوچکا ہے اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذاتی توجہ اور اُس بابرکت تحریک کا مرہون منت ہے جس میں حضور انور نے صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر جماعتی تعارف پر مشتمل اشتہارات ہر ملک کی آبادی کے کم از کم دس فیصد حصہ تک پہنچانے کے لیے ارشاد فرمایا تھا۔ اس پر عمل کے نتیجہ میں دنیا کی مختلف زبانوں میں کروڑوں کی تعداد میں اشتہارات کے ذریعہ کروڑہا افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ چکا ہے۔
٭… دنیائے صحافت کا ایک شعبہ اخبارات اور رسائل ہیں چنانچہ جماعت میں سینکڑوں اخبارات اور رسائل شائع ہورہے ہیں۔ دیگر اخبارات میں بھی جماعتی مضامین کی اشاعت ہوتی رہتی ہے چنانچہ گزشتہ صرف ایک سال میں مجموعی طور پر 2021 اخبارات نے 3274 جماعتی مضامین اور آرٹیکلز شائع کیے ہیں جن کے ذریعہ تقریباً تینتیس کروڑ سے زائد افراد تک پیغام پہنچایا گیا ہے۔
٭… حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ دور حاضر کی ایجادات پریس وغیرہ اور رسل و رسائل کے جملہ وسائل و انتظامات در اصل تواسلام کی اشاعت کی خاطر ہیں۔ (ملخص از تحفہ گولڑویہ صفحہ 99، 100)۔ اکیسویں صدی میں خلافت خامسہ کے عہد سعادت میں صحافت نے ماس میڈیا کی صورت اختیار کر لی ہے جس کے ذرائع مثلاً ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے ذریعہ بھی تبلیغ اسلام کا کام جاری ہے۔
٭…حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ایک احمدیہ ریڈیو سٹیشن کے قیام کی خواہش ظاہر کی تھی۔خلافت خامسہ میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے ریڈیو سٹیشنز کی تعداد 27 ہو چکی ہے۔7؍ فروری 2016ء کو’’وائس آف اسلام ‘‘ریڈیو اسٹیشن کا آغاز بھی جماعتی میڈیا میں ایک مفید اضافہ اور سنگ میل ثابت ہوا ہے جس کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔
٭…خلافت خامسہ کے آغاز میں ایم ٹی اے کا ایک چینل جاری تھا۔اب اللہ کے فضل سے مسلم ٹی وی احمدیہ (MTA)انٹرنیشنل کے آٹھ ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے نشریات پیش کر رہے ہیں جن کے سترہ زبانوں میں رواں تراجم نشر ہوتے ہیں جن میں انگریزی، عربی، فرانسیسی، جرمن، بنگلہ، سواحیلی، افریقن، انڈونیشین، ترکی، بلغارین، بوزنین، ملیالم، تامل، روسی، پشتو، ہسپانوی اور سندھی شامل ہیں۔
٭…جماعت کے اپنے چینلز کے علاوہ انہترممالک میں دیگر ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر صرف ایک سال میں پانچ ہزار اڑسٹھ ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ ایک ہزار آٹھ سو ستتر گھنٹے جماعت کے لیے وقت ملا۔
٭…دور حاضر میں ویب سائیٹس یا بلاگز نے کافی اہمیت حاصل کی ہے۔ جماعت کی آفیشل ویب سائیٹ alislam.org کا آغاز 1995ء میں ہوا تھا جس پر انگریزی زبان میں تین سوسولہ اور اردو زبان میں ایک ہزار کتب موجود ہیں نیز اس ویب سائیٹ کی شاخیں چالیس سے زائد مختلف زبانوں میں بھی قائم ہیں۔

3۔اشاعت دین کی تیسری شاخ(آمد مہمانان اور ملاقاتیں)


حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے1891ء میں فرمایا تھا:’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لیے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں …چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے۔‘‘ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 14)
ہر خلیفہ وقت کی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی شبانہ روز مصروفیات کا ایک پہلو افراد جماعت اور دیگر اغراض سے آنےوالے غیر از جماعت اور بااثر افراد سے ملاقات کا ہے۔ اب تک ہزاروں احمدی خاندانوں و دیگر غیر از جماعت افرادنے حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ سےبالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا ہےجس میں ہرسال جلسہ سالانہ برطانیہ پر آنےوالے روحانی پرندوں کے علاوہ دوران سال آنےوالے وہ مخلصین بھی شامل ہیں جن میں سے بعض کینیڈا کی طرح اپنے ممالک سے پورا جہاز چارٹرڈ کر کے آ چکے ہیں۔ اس شاخ کی بھی کئی ذیلی شاخیں جاری ہیں۔ مثلاً
٭…مہمانان کے قیام و طعام کے لیے نہ صرف لندن میں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں نظام جماعت موجود ہے مہمان خانے بھی قائم ہیں، تاہم ایسے مہمانان کی زیادہ تر آمد کا سلسلہ مسکنِ خلافت یعنی برطانیہ میں جاری رہتا ہے۔
٭…مہمانان کے لیے توسیع عمارات:دنیا بھر میں مہمانان مسیح موعودؑ کے لیے توسیع مکانات کا خوبصورت نظارہ ہمیشہ جاری رہا ہے۔ خلافتِ خامسہ میں یہ توسیع خاص طور پر برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، پاکستان اور بھارت میں جاری رہی لیکن خاص طور پر مرکز اوّلین قادیان میں جو توسیع اور تزئین خلافت خامسہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ظاہر ہوئیں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جماعت کی ترقی کے ساتھ قادیان کی ترقی کابھی وعدہ الٰہی ہے جسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓنے دعوۃ الامیر میں صداقت احمدیت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کو قادیان کے کسمپرسی کےزمانہ میں 1882ء میں الہام ہوا کہ وَسِّعْ مَکانِکَیعنی اپنے مکان وسیع کرو۔حضور علیہ السلام اس وقت کی مالی توفیق کے مطابق صرف تین چھپر ہی بنواسکے۔اس کے بعد مختلف ادوار میں اس ارشاد کی تعمیل میں قادیان کے عمارات کی توسیع و تجدید ہوتی رہی۔اللہ تعالیٰ کی شان اور تقدیر ہے کہ خلافت رابعہ کے دور میں دورہ 1991ء کے بعد پھریہ سلسلہ خاص طور پر جاری ہوا۔ اور 2005ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کے بعد تو قادیان میں ایسی شاندار توسیع و تجدید ہوئی جو ہر جانے والے کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث ہے۔ اس حوالہ سے حضورانور فرماتے ہیں:
’ 1991 ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دورہ کیا تو اس دورہ کے بعد وَسِّعْ مَکَانَکَ کا پھر ایک نیا دور شروع ہوا۔جہاں احمدیوں کےمکانوں میں بھی، جماعتی عمارات میں بھی خوب اضافہ ہوتا چلاگیا۔پھر 2005 ءمیں میرے دور کےبعد اللہ تعالیٰ نے مزید توفیق عطا فرمائی کہ قادیان میں جماعتی عمارات میں وسعت پیدا ہوئی اور جماعتی مرکزی عمارات کےعلاوہ آسٹریلیا، امریکہ، انڈونیشیا، ماریشس وغیرہ نے وہاں اپنے بڑے وسیع گیسٹ ہاوسزبنائے۔جماعتی طور پر ایم ٹی اے کی خوبصورت بلڈنگ اور دفتر نشرو اشاعت بن گیا ؛کتب کے سٹوربھی اس میں مہیا کئے گئے ہیں ؛بڑے بڑے ہال بنائے گئے ہیں، دومنزلہ نمائش ہال بنایا گیا۔ ایک بڑی وسیع تین منزلہ لائبریری بنائی گئی ہے ؛فضل عمر پریس کی تعمیر ہوئی، لجنہ ہال بنایا گیا؛ ایک تین منزلہ گیسٹ ہاؤس مرکزی طور پر بنایا گیا۔ لنگرخانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مزید توسیع ہوئی اور نئے بلاک بنے اور اس طرح بےشمارنئی تعمیر اور توسیع ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسجد اقصیٰ میں توسیع کی گئی ہے۔ جس میں صحن سے پیچھے ہٹ کے تقریبا ًتین منزلہ جگہ مہیا کی گئی ہے اور اس میں جو نئی جگہ بنی ہے اس میں تقریباًپانچ ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح قادیان میں کئی دوسری مساجد کی تعمیر ہوئی اور سب کی تفصیل کا تو بیان نہیں ہوسکتا اور نہ بغیر دیکھے اس وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جوان نئی تعمیرات کی وجہ سے وہاں قادیان میں ہورہی ہے۔ یہ چند تعمیرات جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ گزشتہ تین چارسال کے عرصہ میں ہوئی ہیں۔تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا کرنا کہ ہر روز ہم اس الہام کی شان دیکھ رہے ہیں اور نہ صرف قادیان میں بلکہ دنیا میں ہر جگہ حتٰی کہ پاکستان میں بھی نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالی توفیق دے رہا ہے۔ ہمارے مخالفین سے کس طرح اللہ تعالی نے مواخذہ کرنا ہے یہ تواللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔لیکن جہاں تک اس کے وَسِّعْ مَکَانَکَ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ ہر روز ہمیں ایک شان سے اسے پورا ہوتا دکھارہا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 12 جون 2009ء)
خلافت خامسہ میں قادیان میں ہونے والی توسیع غیرمعمولی ہے،ان عمارات میں درج ذیل شامل ہیں: دارالضیافت تعمیرنو، تعمیرنوسرائے وسیم، تعمیرنو سرائے خدمت، آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس، ماریشس گیسٹ ہاؤس، میانمار (برما)، انڈونیشیا گیسٹ ہاؤس کی تعمیر نو، تعمیر نوسرائے طاہر(جامعہ احمدیہ)، روٹی پلانٹ اورلنگرخانوں کا قیام، چوتھی اورپانچویں توسیع مسجد اقصیٰ، تجدیدمسجد مبارک، پرانی مساجد کی از سر نو تعمیر، تجدیددارالمسیح، تجدیدمکان حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ، تعمیر دفاتر صدرانجمن احمد یہ، تعمیرفضل عمر پرنٹنگ پریس، تعمیرنورالدین لائبریری، تعمیر و تجدیدتعلیم الاسلام ہائی اسکول، تعمیرجلسہ گاہ بستان احمد، تعمیر و تجدیدنور ہسپتال، تجدیدبہشتی مقبرہ اور تاریخی مکان اماں جان، تعمیر یادگار مقام ظہور قدرت ثانیہ و پارک بہشتی مقبرہ، تجدیددار البیعت لدھیانہ، تجدیدتاریخی مکان ہوشیار پور۔
اسی طرح ربوہ پاکستان میں صدرانجمن اور ذیلی تنظیموں کے گیسٹ ہاؤسز کے علاوہ وقف جدید اور تحریک جدید کےگیسٹ ہاؤسز ہیں۔خلافت خامسہ میں تحریک جدید نے ایک نیا گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا ہے۔پرانے گیسٹ ہاؤس سرائے فضل عمر کے پندرہ کمروں میں نئے گیسٹ ہاؤس سرائے ناصرکے مزید پینتالیس کمروں کا اضافہ ہو گیا ہے۔صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کی ضرورت کے تحت ایک نئی چھ منزلہ عمارت زیرتعمیرہے۔اسی طرح صدرانجمن احمدیہ کے کارکنان کے لیے 181کوارٹرز تعمیر کیے گئے اور36کوارٹرز زیرتعمیر ہیں۔ نیز تحریک جدید انجمن احمدیہ کے کارکنان کےلیے 162 کوارٹرزاور وقف جدید انجمن احمدیہ کے تحت ساٹھ سے زائد کوارٹرز تعمیر کیے جاچکے ہیں۔اسی طرح نظارت تعلیم کے18 کوارٹرزبھی تعمیر ہوئے۔بیوگان کےلیے 66کوارٹرز اور شہداء کی فیملیز کےلیے 36 کوارٹرز اس کے علاوہ ہیں۔
اسی طرح مسجداقصیٰ ربوہ، دفتر الفضل کی تزئین اور بہشتی مقبرہ دارالفضل کی توسیع و تزئین بھی ہوئی۔بہشتی مقبرہ طاہر آباد کا قیام خلافت خامسہ میں ہوا۔اس کے علاوہ مربی ہاؤس طاہرآباد غربی، مسجد بیت الطاہر دارالفضل، مسجد عقب ہسپتال، مسجد باب الابواب، مسجد دارالنصر شرقی نور، مسجد بیت الغالب نصیر آباد غالب، مسجد فیکٹری ایریا کوارٹرز دارالنور، مسجد دارالنصر غربی اقبال، وئیرہاؤس صدر انجمن احمدیہ، مکان دارالنصر وغیرہ کی تعمیرات بھی شامل ہیں۔ نظارت تعلیم کے تحت ناصر ہائی سکول، طاہر پرائمری سکول، مریم سکول دارالنصر، مریم سکول دارالرحمت، نصرت جہاں اکیڈمی پرائمری سکول، احمدنگر سکول، نصرت جہاں گرلز کالج کی تعمیرات بھی اسی بابرکت خلافت خامسہ کے دور میں ہوئیں۔ ربوہ میں اسی دَور میں دونئے لنگرخانے اور دارالضیافت ربوہ کی تعمیر نو عمل میں لائی گئی۔
اس مضمون میں اختصار کی وجہ سے صرف مراکز احمدیت قادیان اور ربوہ کے مراکز کا بطور نمونہ ذکر کیا ہے ورنہ دنیا کے تمام بڑے ممالک میں خلافت خامسہ میں توسیع مراکز کے وسیع کام ہوئے ہیں۔
٭…خلیفۃ المسیح سے ملاقات کا ذریعہ( جلسہ ہائے سالانہ): ہر دورِ خلافت میں جماعت احمدیہ عالمگیر کے سالانہ جلسے بھی خلیفہ وقت سے افراد جماعت سے ملاقات کا ایک مؤثر ذریعہ رہے ہیں۔ خلافت خامسہ کے انیس سالوں میں ہونے والے اٹھارہ مرکزی جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد جماعت نے شرکت کر کے براہ راست حضور انور کے خطابات سننے کی توفیق پائی۔ان مرکزی جلسہ ہائے سالانہ میں دنیا بھر سے بیسیوں بااثر افراد بھی شامل ہوئے جنہوں نے اشاعت اسلام کے حوالہ سے جماعت اور حضرت خلیفۃ المسیح سے جماعت کی مساعی کے بارہ رپورٹس سن کر نہایت خوشگوار تاثرات بیان کیے ہیں۔
پس پاکستان جس کے ایک جلسہ سالانہ اور لنگر کو روکا گیا اور جہاں آخری جلسہ میں تین لاکھ کے قریب مہمانان نے ربوہ میں شرکت کی تھی، اب عالمی سطح پر دنیابھر کے اسّی سے زائدممالک میں جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہو رہا ہے جہاں لنگر مسیح موعودؑ بھی جاری ہوتا ہے۔
٭… خلافت رابعہ میں وہ تاریخ ساز دور شروع ہوا جس میں خلیفة المسیح کا خطبہ جمعہ دنیابھر میں سنا جانے لگا۔یہ سلسلہ مسلسل وسعت پذیر ہے اور خلافت خامسہ میں دنیا کی پانچ بڑی زبانوں (انگریزی، عربی، فرنچ، جرمن اور بنگالی) میں
براہ راست رواں ترجمہ بھی نشر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ بےشک یہ خطبات تربیت اور دعوت الی اللہ کا مؤثر ذریعہ ہیں۔
٭… حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ایم ٹی اے پر اطفال و ناصرات کی تعلیمی و تربیتی کلاسز کا سلسلہ شروع کروایا تھا۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت عہد میں اس میں وسعت اور ترقی ہوئی۔ان کلاسز کے ذریعہ احمدیت کی ایسی فوج تیار ہو رہی ہے جس نے آئندہ اشاعت اسلام کی اہم ذمہ داری ادا کرنی ہے چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت کے ابتدائی سالوں میں ان کلاسز میں بیٹھنے والے بچے آج جماعت کےسکالرز کے طور پر MTA کے پروگراموں کے ذریعہ اشاعت اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
٭…امام مہدی کے زمانہ کی علامات میں سے ایک حضرت امام جعفرصادقؒ نےیہ بیان فرمائی تھی کہ’’جب ہمارے قائم(امام مہدی) کا ظہور ہوگا تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کی قوت سماعت اور قوت بصارت میں اتنا اضافہ کردے گا کہ ان لوگوں اور امام قائم کے درمیان قاصد کی ضرورت نہ رہے گی امام اپنے مقام پر بیٹھے بیٹھے جو کچھ فرمائیں گے وہ یہ لوگ سنیں گے اور جب نظر اٹھائیں گے تو اپنے امام کی زیارت کرلیں گے۔‘‘
(بحار الانوار مترجم ازعلامہ باقر مجلسی جلد 12 صفحہ346
ترجمہ سید حسن امداد30اپریل 1998محفوظ بک ایجنسی کراچی)
اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا آغاز دورِ خلافتِ رابعہ ( 1994ء) میں مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے قیام سے ہو گیاتھا۔ عہد خلافت خامسہ میں اس پیشگوئی کی عظمت میں اَور اضافہ ہوا جب کرونا وائرس کی وبا کے دوران ساری دنیا محدود و مقید ہو کر رہ گئی مگر ہمارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ورچوئل ملاقات کا متبادل سلسلہ شروع فرمایاجس کے ذریعہ مختلف ممالک کے جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے ممبران عاملہ و دیگر افراد جماعت اپنے آقا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ اور یوں اس مشکل دَور میں آپ کی تائید میں اِنِّی مَعَکَ یَامَسْرُوْرَ کاا لہام بڑی شان سےپورا ہو رہا ہے۔
٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہفتہ بھر کی مصروفیات کا مختصراحوال ایم ٹی اے کے پروگرام This Week With Hazoorمیں قابل دید ہوتا ہے جو ایک مقبول و معروف پروگرام بنتا جا رہا ہے اور افراد جماعت کے لیے حضور انور کی بے تکلف براہ راست راہنمائی کے حصول کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔

4 ۔اشاعت دین کی چوتھی شاخ (مکتوبات)


حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں، چنانچہ اب تک عرصہ مذکورہ بالا میں نوے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا۔‘‘ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 23)
تمام خلفائے احمدیت کے ادوار میں خطوط کے ذریعہ رابطہ، تعلیم و تربیت اوردعوت الی اللہ کاسلسلہ بدستور ترقی پذیررہاتاہم خلافت خامسہ کے بابرکت عہد میں جماعت میں وسعت اور ذرائع رسل و رسائل میں تیز رفتار ترقی کے ساتھ اس شعبہ میں ایک غیر معمولی تغیر آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس ذمہ داری سے خوب عہدہ برآ ہوئے۔حضورانور کی دن بھر کی مصروفیات کا ایک پہلو وہ خطوط ہیں جو افراد جماعت کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں بغرض راہنمائی، مشورہ یا دعا وغیرہ تحریر کیے جاتے ہیں اور ان کے جواب حضورانور کی طرف سے تحریر کیے جاتے ہیں۔اکثر جوابی خطوط پر حضورانور کے دست مبارک سے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔ یہ جوابات ایک طرف اُس احمدی کےلیے سکون طمانیت اوربے انتہادلی مسرت کا موجب ہوتے ہیں تودوسری طرف دعائیہ خطوط کے جوابات کے جلو میں قبولیت دعا کے حیران کن معجزانہ نشانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ہر احمدی گھرانہ اس کا چشم دید گواہ ہے۔ ان دعاؤں کی برسات سے نہ صرف وہ مظلوم احمدی اور ان کے خاندان حصہ پاتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں مذہب کے نام پہ ظلم و جبر کا نشانہ بنائے جاتے ہیں، شہادت کا رتبہ یا اسیری کی سعادت حاصل کرتے ہیں بلکہ عام احمدی بھی اپنے امام کی دعاؤں کی برکت سے اپنے آپ کو حصارامن و عافیت میں محفوظ پاتے ہیں۔کیونکہ ان کا امام راتوں کو جاگ کر ان کےلیے دعائیں کررہا ہوتاہےجس کے نتیجہ میں احمدیوں کے اموال و اولاد میں غیر معمولی برکت عطا ہوتی ہے۔ بہتیرے نرینہ اولاد سے بہرہ مند کیے جاتے ہیں، لاعلاج مریض معجزانہ شفاپاتے ہیں، طالبعلم اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور ان میں بہتیرے ایسے ہیں جنہیں پیش از وقت حضور کی طرف سے جوابی مکتوب متعلقہ دعا کی قبولیت کے حوالہ سے جو بشارت دی جاتی ہےوہ من و عن اسی طرح پوری ہوتی ہے۔یہ سلسلہ ہر خلافت میں جاری رہا لیکن خلافت خامسہ کے انیس سالوں میں جبکہ جماعت دنیا کے دوسوتیرہ ممالک تک پھیل چکی ہے، ان دعاؤں کی وسعت اور ہمہ گیری میں بھی غیرمعمولی اضافہ نظر آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مختلف خطوط پر مشتمل روزانہ اڑھائی ہزار سے تین ہزار فیکسز موصول ہورہی ہیں۔ بذریعہ ڈاک روزانہ سینکڑوں خطوط آتے ہیں جن کی تعداد ماہانہ نوے ہزار اور سالانہ دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ مختلف ممالک اور اداروں کی طرف سے آنے والی رپورٹس اس کے علاوہ ہیں۔ چنانچہ خلافت خامسہ میں موصول ہونے والے خطوط اور ان کے جوابات کی تعداد کروڑوں میں جا پہنچتی ہے۔یقیناً یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک غیبی ہاتھ مسلسل خلافت خامسہ کی تائید میں ہے اور ملائکہ مسلسل آپ کی مدد کے لیے آسمان سے اترتے ہوئے اِنِّی مَعَکَ یَا مَسْرُورَ کے نعرے الاپتے ہیں۔
٭…سربراہان ممالک کو خطوط:حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں یہ الہام کہ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ان کے پوتے حضرت مرزامسروراحمد صاحب کی ذات میں اس رنگ میں پورا ہوا کہ آپ کو مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعدقیامِ امنِ عالم کی خاطردنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور سربراہوں کو بذریعہ خطوط مخاطب کرنے کا موقع پیداہوگیاجوخلافت خامسہ کے کارہائے نمایاں کا ایک درخشاں اور تاریخی پہلو ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو درپیش عالمی خطرات کے تناظر میں قیام امن کی خاطر سنجیدہ تعاون اور جدو جہدکے لیے خطوط لکھنے کا اہتمام فرمایا۔یہ خطوط پوپ بینیڈکٹ XVI، اسرائیل کے وزیر اعظم، صدر اسلامی جمہوریہ ایران، صدر متحدہ امریکہ، وزیر اعظم کینیڈا، سعودی عرب کے بادشاہ، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم، وزیراعظم برطانیہ، جرمنی کی چانسلر، صدر جمہوریہ فرانس، ملکہ معظمہ برطانیہ، صدر روسی فیڈریشن اور ایران کے مذہبی راہنما آیت اللہ خامنئی کی خدمت میں تحریر کیے گئے۔ان خطوط کو بہت قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا اور ان کے دُو رس اثرات پیداہوئے۔ چند خطوط نمونۃً پیش ہیں:
(1) امریکہ کے صدر اوباما کو لکھا:’’ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات بر ملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دَور کے معاشی مسائل اور 1932ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا۔…بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے جو سب کا خالق ہے اور انسانیت کی بقاکی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی۔‘‘
(2) عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم وین جیاباؤ کو لکھا:’’میری دعا ہے کہ عالمی راہنما دانشمندی سے کام لیتے ہوئے اقوام عالم اور افراد کے مابین موجود چھوٹے چھوٹے تناعات کو عالمگیر بننے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔‘‘
(3) برطانوی وزیر اعظم کو لکھا :’’میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی اور ناکامی کی صورت میں ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پھیلنے والی مسلسل تباہی کا تحفہ دے رہی ہوں گی اور یہ نسلیں اپنے ان بڑوں کو جنہوں نے دنیا کو عالمی تباہی میں د ھکیل دیا، کبھی معاف نہیں کریں گی۔میں دوبارہ آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ پس اگر آپ چاہیں تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دنیا کی راہ نمائی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیام امن کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے۔
(4) روس کے صدرکو لکھا:’’موجودہ حالات کے پیش نظر مَیں اپنے خطبات اور خطابات میں بلا امتیاز ہر ایک کو خالق حقیقی کی طرف سے عاید کردہ ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔مملکت شام کے تیزی سے بدلتے حالات اور آپ کی قابل تحسین کوشش نے مجھے آپ کو یہ خط لکھنے پر آمادہ کیا جب آپ نے دنیا کو میدان جنگ میں کودنے کی بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دلائی۔کسی ملک کے خلاف جارحیت نہ صرف اس خطے میں جنگ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے ایک مؤقر مغربی اخبار میں آپ کا حالیہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی جس میں آپ نے نشان دہی کی ہے کہ ایسا طرز عمل انتہائی خطرناک اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والا ہوگا۔ آپ کے اس واضح اور امن پسند مؤقف کی وجہ سے بڑی طاقتیں باز رہیں اور انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کے اس بروقت قدم نے دنیا کو درپیش بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔‘‘
٭…خطابات: حضورانور نے دنیا کی مختلف پارلیمنٹس میں جا کر خطابات بھی فرمائے، جیسے یورپین پارلیمنٹ، کیپیٹیل ہل (USA) وغیرہ میں جا کر مقتدر لوگوں کو امن، انصاف، عالمی اتحاد کے قیام اور مخلوق کی خدمت کی کی طرف بلایا۔
اپنے ایک خطاب بعنوان ’ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت‘ میں حضور فرماتے ہیں:’’ … ساری دنیا میں بے چینی اور خلفشار پھیلتا اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آج کی دنیا میں تصادم، بے چینی اور بعض ممالک میں عوام آپس میں لڑائی اور جنگ کر رہے ہیں اور بعض ممالک میں عوام حکومت سے بر سر پیکار ہیں یا اس کے برعکس حکام اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں…آج کے دور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اورعالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بد اثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ درحقیقت اس کے ہولناک نتائج آئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے… اگر ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو جو لوگ براہ راست اس کی زد میں آئیں گے ان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔لوگ آناًفاناً ہلاک ہو جائیں گے یا مجسموں کی صورت میں منجمد ہو جائیں گے۔پینے کا پانی، غذا اور سبزہ وغیرہ ایٹمی تابکاری سے ناقابل استعمال ہو جائیں گے۔اس تابکاری کے اثرات سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی ہم اس کا صرف تصور کرسکتے ہیں… اگر ایٹمی ہتھیار آج دوبارہ استعمال ہوتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ بعض ممالک کے کچھ حصے مکمل طور پر دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے…لہٰذااس امن کانفرنس کے ذریعہ میں تمام دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات اور پیغام محبت، ہمدردی، نرمی، امن اور آشتی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (ملحض:امن کا پیغام، صفحہ 53تا 65 اردو ترجمہ)

5۔اشاعت دین کی پانچویں شاخ(مریدین اور مبائعین)


حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا:’’پانچویں شاخ اس کارخانہ کی جو خداتعالیٰ نے اپنی خاص وحی اور الہام سے قائم کی مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ہے‘‘۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 24)
اللہ تعالیٰ نے اعلائے کلمہ اسلام کے لیے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعہ جو سلسلہ قائم فرمایا تھا آج اس کا قیام دوسوتیرہ ممالک میں ہو چکا ہے جن میں سے اڑتیس ممالک وہ ہیں جن میں عہد خلافت خامسہ میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے اور اس دَور میں اسّی لاکھ سے زائد افراد سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں۔
خلافتِ خامسہ میں تین ہزارسے زائد نئے مراکز تبلیغ قائم ہوئے۔چھ ہزار سے زائد نئی مساجد کا قیام عمل میں آیااور پندرہ ہزارسے زائد جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اب 90 ممالک میں 591 لائبریریاں موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ خلافت خامسہ کے بابرکت عہد میں عالمگیر سطح پر جماعت میں کس طرح وسعت اور ترقی کے سامان خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے پیدا کئے۔یہ اپنی ذات میں الٰہی تائید کا ایک زبردست نشان ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء
٭…دورہ جات حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ: مُرشد اور مرید کا تعلق بھی الفت و محبت اور عشق کاعجیب رنگ رکھتا ہے۔ اگر مرید اپنا سب کچھ مرشد پر فدا کرنے کے لیے ہر دم تیار اور آمادہ ہوتاہےتو دوسری طرف مرشد بھی ان کی خبر گیری کےلیے ہرلحظہ بے چین ہوتا ہے۔ اکثر مرید ملاقاتوں کے لیے حاضر خدمت ہوتے ہیں تو گاہے مرشد ازراہ شفقت خودان کی احوال پُرسی کے لیے دورے پر تشریف لے جاتے ہیں اور جب کبھی نہ جاسکیں تو چشم تصور سے انہیں محو نہیں ہونے دیتے جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں، میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔‘‘ (روزنامہ الفضل یکم اگست 2014ء)
افراد جماعت کی تعلیم و تربیت اور جماعتی نظام کے استحکام اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی خاطر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انیس سالہ دور خلافت میں دنیابھر کے دورے کیے جن سے کوئی برّاعظم خالی نہیں رہا۔آپ نےاندرون برطانیہ کے دورہ جات کے علاوہ دیگر ممالک کےسو سے زائد دورہ جات کیے جن میں انتیس مغربی ممالک شامل ہیں۔ان دورہ جات کا عرصہ قیام قریباًتین سال پر محیط ہے۔ان دورہ جات کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے42 مساجد کا سنگ بنیاد رکھا، 103مساجد کا افتتاح فرمایا۔ ہزاروں بااثر افراد اور قریباً دو لاکھ احمدیوںکو شرف ملاقات بخشا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان دوروں میں بھی حضور کی معمول کی روزمرہ مصروفیات بدستور جاری رہتی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان دورہ جات کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دوروں کے بڑے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ اپنوں اور غیروں سے تعلق کے لحاظ سے بھی اور جماعتی انتظامی لحاظ سے بھی براہ راست مشاہدہ اور معلومات سے بہت سی چیزیں میرے علم میں آ جاتی ہیں۔تین بڑے فائدے تو یہ ہیں کہ ان ملکوں کے پڑھے لکھے طبقے اور اثر و رسوخ والے لوگوں سے رابطہ ہو جاتا ہے، ملاقاتوں کی صورت میں بھی اور مساجد کے افتتاح یا ریسپشن وغیرہ میں دوسرے میڈیا کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا تعارف اور حقیقی تعلیم لوگوں کے علم میں آ جاتی ہے۔ اور تیسری بڑی بات یہ ہے کہ افراد سے، افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ اور تعارف ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کے ایمان و اخلاص اور جو تعلق ہے، مودّت و اخوت کا، محبت اور بھائی چارے کا اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیفہ وقت اور افرادِ جماعت کے آپس میں براہ راست ملنے، دیکھنے، سننے سے غیر معمولی تبدیلی بھی پیدا ہوتی ہے اور جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ان حالات کے مطابق جو اِن ملکوں میں ہوتے ہیں براہ راست خطبات میں ان سے باتیں بھی ہوجاتی ہیں‘‘۔
(خطبہ جمعہ 16؍ نومبر 2018ء، مطبوعہ الفضل 7تا13دسمبر 2018ء صفحہ5)
٭… تحریک وقف نوکے بابرکت پھل:حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی جاری فرمودہ واقفین نو کی تحریک اپنے آغاز3؍اپریل 1987ء سے بلوغت کے بعد خلافت خامسہ میں ایک باشعور ذمہ دار عمر کو پہنچ چکی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی خلافت کے آغاز سے ہی اس تحریک کے نونہالوں کو اپنی آغوش میں لے لیااور تربیت کے لیے ہر لمحہ نگرانی اور رہ نمائی فرمائی۔ خطبات جمعہ، بر اجتماعات وقف نو اور پھر دیس بدیس وقف نو کلاسز میں ان واقفین نو کو برکت بخشی اور بیش بہا قیمتی نصائح سے نوازا۔ 27؍جون 2003ء کو حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ’’ آئندہ …مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اس لیے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان میں جانے والی ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل22؍اگست2003ء)
اس وقت دنیا بھر میں کُل 66973 واقفین نو میں سے 39781 واقفین نو اور27192واقفات نو ہیں۔ہزاروں بچے اور بچیاں اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرکے دنیابھر میں جماعت کے نظام میں خدمات بجالارہے ہیں۔
٭…نئے جامعات احمدیہ کا قیام:قادیان میں پہلے مدرسہ احمدیہ اور پھرجامعہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسرا جامعہ احمدیہ ربوہ میں قائم ہوا۔خلافت رابعہ کے دورمیں تیسرا جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش میں شروع ہوگیا۔خلافت خامسہ کا بابرکت دَور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی تحریک وقف نو کے پھل تیار ہونے کا بھی دَور ہے چنانچہ جماعتی ضرورت کے مطابق اس بابرکت عہد میں دنیا بھر میں آٹھ نئے جامعات کینیڈا، یوکے، جرمنی، غانا، سیرالیون، بنگلہ دیش اور بورکینافاسو میں قائم ہوئے۔ چنانچہ کُل تعداد اب دس ہوچکی ہے۔
یہ محض چند مثالیں ہیں جو ’’ خلافت خامسہ میں الٰہی تائیدات ‘‘کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو قائم و دائم رکھے اور اپنی تائیدات کے نظارے ہمیشہ دکھاتا رہے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں