خلافت احمدیہ کا تعلق باللہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27 مئی 2022ء)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔
حضرت سلیمانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑے حیا واالا، بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ اُن کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے: ’’یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لیے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابتِ دعا کی مانند اَور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابتِ دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعا کا قبول ہوجانا ہر جگہ لازمی امر نہیں، کبھی کبھی خدائے عزوجل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابتِ دعا کے مرتبہ میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘ (حقیقۃالوحی صفحہ 334)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ14؍مارچ2013ءمیں شامل اشاعت مکرم فہیم احمد ناگی صاحب کے مضمون میں خلیفہ وقت کی قبولیتِ دعا کا ایک عظیم الشان نشان بیان کیا گیاہے۔

فہیم احمد ناگی صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ غالباً مارچ 1984ء میں مکرم محمد عثمان چوچنگ شی صاحب کے ارشاد پر میرے بڑے بھائی مکرم مقبول احمد ناگی صاحب چین سے آئے ہوئے ایک سرکاری وفد کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملانے کے لیے ربوہ گئے۔ حضورؒ سے وفد کی پچپن منٹ کی ملاقات میں حضورؒ نے خداتعالیٰ کی ہستی اور قرآن کریم کی روشنی میں ارتقاء کے فلسفے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس ملاقات کا وفد پر گہرا اثر تھا۔ رات کو گیسٹ ہاؤس میں کھانے کے بعد دیگر لوگ تو اپنے کمروں میں چلے گئے لیکن وفد کے اراکین محترم عثمان چینی صاحب کے ساتھ تبلیغی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد اُن میں سے ایک چینی خاتون شاہینہ صاحبہ نے اُس کمرے کے دروازے پر دستک دی جس میں مقبول ناصر صاحب اپنی اہلیہ کے ہمراہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ شاہینہ صاحبہ نے معذرت کے بعد پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ جواب ملا: دو لڑکیاں ہیں اور چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال ہے۔آدھ گھنٹے بعد وہی خاتون دوبارہ تشریف لائیں اور معذرت کے بعد حضورؒ کی ملاقات کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر آپ کے حضور یہ کہہ دیں کہ آپ کے ہاں اب لڑکا پیدا ہوگا تو کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ مقبول صاحب نے جواب دیا کہ دو سال قبل میری اہلیہ کا چھ ماہ کا حمل ضائع ہوگیا تھا اور اگر حضور فرمادیں تو پھر ان شاءاللہ تعالیٰ بیٹا پیدا ہوگا۔ اس پر انہوں نے حیرت سے کہا: ’’واقعی!‘‘۔
نماز فجر کے بعد محترم عثمان چینی صاحب نے مقبول صاحب کو بتایا کہ رات کی تبلیغی نشست میں جب ہستی باری تعالیٰ اور خلیفۃالمسیح کے خداتعالیٰ سے خاص تعلق اور دعاؤں کی قبولیت پر بات ہورہی تھی تو چینی وفد نے یہ نشان مانگا ہے کہ اگر مقبول صاحب کی اہلیہ کے ہاں اب لڑکا پیدا ہوجائے تو ہم مان جائیں گے کہ حضور کا تعلق واقعی خداتعالیٰ سے ہے۔ چنانچہ اُسی دن محترم چینی صاحب نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بیان کیا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ محترم چینی صاحب نے واپس آکر یہ خبر خوشی کے ساتھ سب کو سنادی۔

مقبول احمد ناگی صاحب اور عثمان مقبول. محترم محمد عثمان چینی صاحب کے ہمراہ

چند ہفتوں کے بعد ہی حضورؒ ہجرت کرکے لندن تشریف لے گئے۔ تاہم چینی وفد میں شامل خواتین وقتاً فوقتاً مقبول صاحب کی اہلیہ سے لاہور میں ملتی رہیں جو حضورؒ کی دعاؤں سے امید سے ہوگئی تھیں۔ بعض احمدی جنہیں اس واقعے سے اطلاع تھی انہوں نے مشورہ دیا کہ حکیم نظام جان صاحب کا نسخہ برائے اولاد نرینہ استعمال کروایا جائے۔ ایک بزرگ تو یہ دوا لے بھی آئے۔ لیکن مقبول صاحب کی اہلیہ رفعت پروین صاحبہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ بچہ حضورانور کی دعاؤں کے طفیل ہی پیدا ہوگا، کوئی دوا استعمال نہیں کروں گی۔
خداتعالیٰ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا فرمایا اور 6؍فروری 1985ء کو یہ بیٹا پیدا ہوا۔ حضورؒ کو اطلاع دی گئی تو جواباً مبارکباد کے خط میں حضورؒ نے دعائیں دیتے ہوئے چینی وفد کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ: ’’الحمدللہ، یہ تو خداتعالیٰ نے China کے لیے محبت بتائی ہے۔ ان سے کہو کہ زندہ خداتعالیٰ کا زندہ نشان ہے۔ لیکن ہمیں ڈر ہے کہ تمہارا نفس اب بھی بہانے بنائے گا۔ لیکن اب خدا کے سامنے جواب دہ ہوگے۔‘‘ بچے کی دادی جان کی درخواست پر حضورؒ نے بچے کا نام محترم عثمان چینی صاحب کے نام پر عثمان مقبول تجویز فرمایا۔ یہ بچہ اس وقت لندن میں NHS میں بطور مینیجر ملازمت کررہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں