خلافت ایک نعمت عظمیٰ ہے

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی وجون 2021ء)

منور احمد خورشید صاحب

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا شروع کرو تو تم ان کا شمار نہیں کرسکتے‘۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ درحقیقت ہر ایک نعمت اپنی اہمیت اور افادیت اور مقام کے لحاظ سے دوسری نعمت سے بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ خلافت بھی ایک ایسی نعمت بے بدل ہے جس کا مقام بہت بلند وبالا ہے۔ کیونکہ جس طرح دل ہمارے بدن میں مرکزی مقام رکھتا ہے اور زندگی کا دارومدار اسی کے دھڑکنے سے وابستہ ہے۔ اسی طرح خلافت بھی نظام عالم کو راہ راست پر چلانے کے لئے دل کا ہی مقام رکھتی ہے جس کے بغیر بظاہر زندہ نظام عملی طور پر مُردہ بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں خلافت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ (سورۃ النور آیت 56)
اس آیت استخلاف میں، خلیفہ کون بناتا ہے اور خلافت کے ارفع واعلیٰ مقام، اس کی ضرورت اور اس کے مقاصد پر واضح روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند متفرق واقعات کا انتخاب ہدیہ قارئین ہے:
خلافت طاقت اوردولت سے نہیں ملتی۔ یہ خدائی دین ہے
مسیلمہ بن ثمامہ آف یمامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺکی ملاقات کو گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے رسول کریم ﷺ سے کہا۔ اے محمد اگر آپ مجھے اپنا جانشین مقرر کرلیں تو میں آپ کی پیروی کروں گا۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا۔ (اس وقت آپؐ کے دست مبارک میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی)۔ اگر تم اس ٹہنی کی بھی مجھ سے درخواست کروگے تو میں وہ بھی تمہیں نہیں دوں گا۔
اپنے معاملات میں جو چیز خدا نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے اس کی مخالفت مت کرو۔ اگر تم خدا کے حکم سے روگردانی اختیار کرو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ پاؤ گے۔

تائید خلافت میں فرشتوں کا نزول

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے وصال کے موقع پر دنیا بھر سے غمزدہ احمدی احباب لندن تشریف لائے ہوئے تھے۔ ہر مجلس اور محفل میں ہر کوئی اپنے اپنے ساتھ پیش آنے والے سفرو حضر کے دلچسپ اورایمان افروز واقعات سنارہا تھا۔ تائیداتِ الٰہیہ کے معجزانہ واقعات سننے کو مل رہے تھے۔
مسجد فضل لندن میں انتخاب خلافت کے لئے نمائندگان حسب پروگرام اکٹھے ہوئے۔ مَیں نے دیکھا کہ ہمارے پیارے آقا مسجد میں داخل ہونے والوں کی لائن میں کافی پیچھے کھڑے ہیں، پھر اپنی باری آنے پر ہی کافی تاخیر کے ساتھ مسجد میں تشریف لاتے ہیں اور ہال کے دروازہ کے پاس خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ انتخاب کی کارروائی مکمل ہوتی ہے اور حضورانور کے نام نامی کے منصب خلافت پر فائز ہونے کا اعلان ہوتا ہے تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے غم، دکھ اور درد کے بادل چھٹ گئے ہیں اور ایک نیا روشن سورج طلوع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا ہے۔ ہر کسی کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتما اٹھتا ہے۔ جیسے ریگستان میں بھٹکے ہوئے کاروان کو رہنما مل گیا ہو۔ اس کے بعد سب لوگ مطمئن اور پُرسکون دلوں کے ساتھ اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ اگلے روز ہر طرف مبارک باد اور دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر کوئی اپنااپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کررہا تھا۔ ایک نائیجیرین دوست سے کسی نے پوچھا: آپ نے کس کوووٹ دیا ہے؟ کہنے لگے کہ میں نے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو ووٹ دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ حضور انور کو پہلے سے جانتے تھے؟کہنے لگے: نہیں۔ ان سے پوچھا گیا: پھر آپ نے انہیں ووٹ کیوں دیا؟ کہنے لگے: مجھے معلوم نہیں، کسی غیبی طاقت نے بے اختیار میرا ہاتھ بلند کردیا۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

خلیفہ کی اہمیت و ضرورت۔ عقلمند را اشارہ کافی است

بھلوال ضلع سرگودھا میں مولوی فضل الٰہی انوری صاحب کے والد محترم ایک مدرسہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور استاذ مکرم سراج الدین صاحب بھی بطور ٹیچر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ مؤخرالذکر بزرگ احمدی نہیں تھے۔ لیکن اپنے ماحول کی وجہ جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات میں لگے رہتے۔ اپنے دوسرے دوست کے ساتھ سوال وجواب کا سلسلہ چلتا رہتا۔ جس کے نتیجہ میں وہ اس بات کے قائل ہوگئے کہ جماعت احمدیہ ایک سچی جماعت ہے۔ اب کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا مجھے اہل پیغام کے ساتھ شامل ہونا چاہیے یا خلافت کی بیعت کرنی چاہیے۔ اسی کشمکش میں کافی دن گزر گئے۔ بہر حال احباب جماعت کے ساتھ نمازیں ادا کرنی شروع کردیں۔ دل میں احمدیت کی لو لگ چکی تھی۔
ایک دن جمعہ کا روز تھا۔ بھلوال میں کسی دوست کے گھر میں نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی۔ مولوی سراج الدین صاحب بھی نماز جمعہ کے لئے تشریف لائے۔ خطبہ جمعہ میں مکرم امام صاحب نے بتایا کہ اگر ایک آدمی جس کے ہاتھ، پاؤں اور دیگر سب اعضاء بہت ہی صحت مند نظر آتے ہوں لیکن اس کا سر نہ ہو تو اُسے ہم کیا کہیں گے۔ اسے ہم باوجود اس کے بہت ہی مضبوط اعضاء کے مردہ ہی کہیں گے۔ یہی مثال ہر اس جماعت پر بھی پوری اترتی ہے کہ جس کا امام نہیں ہے۔ جس کا خلیفہ نہیں ہے۔ وہ جماعت مُردہ ہے۔ بس پھر کیا ہوا۔ عقلمند را اشارہ کافی است۔ مولوی صاحب کی عقدہ کشائی ہوئی،جس پر انہوں نے بشاشتِ قلب اور انشراحِ صدر کے ساتھ مہدی امام الزمان کے خلیفہ کی غلامی کا جُوا زیب تن کرلیا۔

سینغورؔ کی حکمت عملی نے بتادیا۔ خلیفہ کون بناتا ہے

سینیگال میں پچانوے فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ باقی چند فیصد عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہل سینیگال فرانس کے زیر تسلّط تھے۔ 1960ء میں انہیں آزادی ملی۔ آزادی کے لئے ایک عیسائی لیڈر لیپورڈ سینغور نے نمایاں خدمات سرانجام دیں جس کی بنا پر آزادی ملنے کے بعد انہیں ملک کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ اب وہاں کے مذہبی لیڈرز کو خیال پیدا ہوا کہ ملک کی بیشتر آبادی تو مسلمان تھی اور سربراہ مملکت ایک عیسائی بن گیا۔ ملک کا سربراہ تو ایک مسلمان ہونا چاہیے۔ چنانچہ معروف علماء اور شیوخ نے باہمی مشورہ سے ایک ایسا وفد تجویز کیا جو صدر مملکت کو قبول اسلام کی دعوت دے۔
خیر وفد سربراہ مملکت کے پاس حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے عرض کی کہ سینیگال ایک مسلمان ملک ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس ملک کا سربراہ بھی مسلمان ہو۔ اس سے ملک کو بہت سارے متفرق فوائد حاصل ہوں گے، خاص طور پر اسلامی دنیا سے ہمیں ایک خاص مقام کے علاوہ معاشی فائدے بھی ملیں گے۔
سینغور ایک جہاندیدہ لیڈر تھا،کہنے لگا،مجھے تو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی آبادی مختلف فرقوں میں تقسیم ہے جس طرح تیجانی،مرید،اہل سُنہ،عبادالرحمان اور لائن وغیرہ ہیں۔ اب اگر میں تیجانی فرقہ میں شمولیت اختیار کرتا ہوں تو اس کے نتیجہ میں دیگر سارے فرقے میرے خلاف ہو جائیں گے۔ اگر مرید ہوتا ہوں تو ان کے علاوہ باقی ملک کی بیشتر آبادی میرے خلاف ہوجائے گی۔ میرے نزدیک اس کا ایک حل ہے کہ آپ لوگ واپس تشریف لے جاکر باہمی رضامندی سے اپنا ایک خلیفہ منتخب کرلیں پھر مَیں بھی اس کی بیعت کرکے آپ کے ساتھ شامل ہوجاؤں گا۔
نتیجہ کیا ہوا۔ وہی جو ازل سے ہوتا آیا ہے کہ دوبارہ کبھی بھی علماء اور شیوخ نے اس اہم مسئلے کے بارے بھی اپنی بات نہیں دوہرائی۔ اس کے بعد سینغور صاحب نے ایک لمبا عرصہ بڑی تسلی کے ساتھ حکومت کی۔ آ ج بھی اہل سینیگال ان کی عظمت،ملکی خدمات اور سیاسی بصیرت کو سلام کرتے ہیں۔

خلیفہ وقت کو قبولیت دعا کا اعجاز دیا جاتا ہے

برادرم آفتاب احمد جرمنی میں رہتے ہیں۔ انہیں سال 2009ء میں ہیپا ٹائٹس جیسے موذی مرض کی تکلیف ہوگئی جس کے بداثرات سے ان کا جگر متأثر ہوگیا۔ بعدازاں جگر نے بالکل جواب دے دیا اور سوائے جگر ٹرانسپلانٹ کے کوئی چارہ نہیں تھا جس کے لئے کئی لوگ لمبے انتظار میں تھے۔ بتایا گیا کہ عام حالات میں یہ انتظار ایک سال تک بھی ہوسکتا ہے۔ وہ اس بیماری کے پیش نظر مائینز شہر کے ایک معروف اسپتال میں داخل تھے۔ مجھے بھی انہیں اسپتال میں جاکر ملنے کا اتفاق ہوا۔ جسم بھر پرمختلف نالیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان کی حالت دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔
انہیں دنوں میں پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی جلسہ سالانہ جرمنی کے سلسلہ میں تشریف آوری ہوئی تو آفتاب احمد صاحب نے حضورانور سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جو ان کی حالت کے پیش نظر بظاہر ناممکن تھی۔ دنیا بر امید قائم است۔ حضور انور نے ازراہ شفقت اُن کی ملاقات منظور فرمالی جو اپنی ذات میں معجزہ سے کم نہ تھا کیونکہ وہ اسپتال میں داخل تھے۔
آفتاب احمد صاحب وقت مقررہ پر اسی حالت میں حضور انور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے۔ حضور انور نے جب ان کی تکلیف دہ کیفیت دیکھی تو حضورانور کو بہت تکلیف ہوئی۔ اس پر پیارے آقا نے انہیں تسلی دی نیز ان کی شفایابی کے لئے دعا فرمائی۔ جس کے بعد آفتاب احمد صاحب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔ بیت السبوح سے مائینز کا سفر آدھے گھنٹے کا ہے۔ ابھی یہ لوگ رستہ میں ہی تھے کہ انہیں اسپتال کی جانب سے فون آگیا کہ ایک جگر کا انتظام ہوگیا ہے۔ (دراصل کسی حادثہ میں ایک نوجوان اپنی جان کی بازی ہار گیا تھا جس کا جگر اس کی وصیت کے مطابق عطیہ دیا گیا اور جو بذریعہ ہیلی کاپٹر مائینز پہنچایا گیا تھا)۔ چنانچہ یہ اسپتال پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ پیارے آقا کی دعا کے اعجاز سے سال کا سفر ایک گھنٹہ میں طے ہوگیا۔ اس بات کو تقریباً بارہ سال ہوگئے ہیں۔ بفضل تعالیٰ جگر صحیح کام کررہا ہے۔

خود سے بنائی ہوئی خوابیں کبھی پوری نہیں ہوتیں

سینیگال میں مقیم ایک پاکستانی تاجر نے ایک دفعہ پاکستانی کمیونٹی کی محفل میں ایک واقعہ بیان فرمایا۔
بقول راوی ان کے ایک عزیز انڈیا میں رہتے تھے جو ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک عالی مقام کے حامل تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایاکہ انہیں رسول کائنات ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کا غلبہ ضیاء الحق کے ذریعہ ہوگا۔ یہ خواب جنرل ضیاء الحق تک پہنچائی گئی تو جنرل صاحب نے اس عالم دین سے خود ملنے کا فیصلہ کیا اور دورانِ ملاقات وہ خواب سننے کی فرمائش کی۔ جس پر انہیں وہ خواب سنائی گئی جس کے نتیجہ میں ہم سب جانتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی چوٹی سر کرنے کے لئے جنرل صاحب نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فاعتبروا یا أولی الابصار

خلافت، امن،پیار،محبت اور دعا کا خزانہ

بطور مربی سلسلہ خاکسار کا احمدی احباب سے رابطہ رہتا ہے۔ میں نے زندگی بھر اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ہر احمدی کے دل میں خلیفۂ وقت کے لئے محبت کا ایک دریا موجزن ہوتا ہے اور یہ رشتہ محض جذباتی نہیں ہوتا بلکہ ہر احمدی کی زندگی میں بے شمار ایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں خلیفۂ وقت کی محبت،رہنمائی اور دعاؤں کا ثمر ہوتا ہے۔ اور ہر احمدی یہی سمجھتا ہے کہ خلیفۂ وقت مجھ سے ہی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ چشمہ تو ہر کسی کو برابر سیراب کرتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہر احمدی کے دامن میں ان محبتوں اور ایمان افروز یادوں کے خزانے ہیں۔

سنت خداوندی کے برعکس قیام خلافت کی کوشش اور اس کانجام

پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سربراہ مملکت بن گئے ہیں۔ کرسی کا نشہ، پھراپنی ذہانت و فطانت کا غرورہے۔ پاکستان کے سربراہ بننے کے بعد عالم اسلام کی لیڈر شپ کے سنہرے خواب آنکھوں میں بسا کر ان کی تعبیر کے لیے رواں ہیں۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں دنیا بھر کے مسلم سربراہان کی ایک میٹنگ فروری 1974ء کو لاہور میں منعقد کی جاتی ہے جس میں غلبۂ اسلام کے لیے بزعم خود ایک عظیم الشان اور ناقابل تسخیر پروگرام اور لائحہ عمل تیارکیا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمّتِ مسلمہ واحدہ کا روپ دینے کے لیے، بنیادی اینٹ،قیامِ خلافت کے بارے میں بھر پور بات ہوتی ہے۔ جس میں شاہ فیصل آف سعودیہ کو خلافت کا تاج پہنائے جانے کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے حصول میں ایک مشکل سدّ باب بن جاتی ہے۔ اُمّت مسلمہ کا تو صرف ایک ہی خلیفہ ممکن ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ جماعت احمدیہ کا بھی تو ایک خلیفہ ہے۔ اس کا کیا حل ہے۔ اس پر بعض احباب نے دولت اور طاقت کے نشہ میں جماعت احمدیہ کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا ایک بہت ہی جامع منصوبہ تیار کرلیا۔ پھر محض دو ماہ کے بعد ملک بھر میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک خوفناک تحریک کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں انسانی خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور معصوم جانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح موت کی نیند سلایا جاتا ہے، جائیدادیں لوٹی جاتی ہیں۔ لیکن مسیح کے غلام ’’جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں‘‘ کی عملی تصویر بنے خدا تعالیٰ کے دربار میں سر بسجود ہیں۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن۔
اس سنگین صورت حال میں دشمنان احمدیت کی مخالفت نے حسب سنت الٰہی جماعتی ترقی میں کھاد کا معجزانہ اثر دکھایا۔ جس کے نتیجہ میں جماعت کا پیغام ِحق اور تعارف بغیر کسی ظاہری تگ و دو کے دنیا کے بے شمار ممالک تک پہنچ گیا۔ الحمدللہ
ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے ملاقات تھی جس میں آپ نے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ دنیا بھر کے اخبارات و جرائد میں جماعت احمدیہ کابہت زیادہ مثبت چرچا ہوا ہے۔ روسی سربراہ مملکت نے اپنی عقل ودانش اور ایمان کے مطابق تبصرہ کرتے ہوئے کچھ یوں کہا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے بہت دانائی اور حکمت عملی کے ساتھ اپنی جماعت کو تباہ ہونے سے بچا لیا ہے۔
بہرحال شاہ فیصل صاحب کی خلافت کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ اگلے سال 25؍ مارچ کو شاہ فیصل صاحب کے ایک اپنے ہی بھتیجے فیصل بن مساعد نے اپنی کسی ذاتی رنجش کی بنا پر انہیں قتل کردیا۔
اتفاق سے اس حادثہ کے چند روز بعد جامعہ احمدیہ ربوہ میں سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب تھی۔ اس سلسلہ میں جامعہ کی بلڈنگ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ اگلے روز اخبارات میں یہ خبر نمایاں تھی کہ شاہ فیصل کی ہلاکت کی خوشی میں ربوہ میں چراغاں کیا گیا ہے ۔

صادق خلیفہ کی محبت اللہ تعالیٰ دلوں میں ڈال دیتا ہے

سینیگال میں ایک معلم مکرم صالی جابی صاحب تھے۔ بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ جس روز حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا انتقال ہوا مکرم صالی صاحب کسی کام کے سلسلہ میں گھر پر نہ تھے۔ جب گھر واپس آئے تو انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات کے بارے میں بتایا گیا۔ ان کی حالت دیدنی تھی۔ وہ زمین پر گرگئے اور کافی دیر ایک ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ یہ پیار،عشق اور فدائیت کس نے دُور دراز بسنے والی روحوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے جو خلفاء کرام کی محبت دلوں میں ڈال دیتا ہے۔

خلافت ِحقہ کے لئے محبت

ایک دوست مکرم عبدالحمید صاحب بتاتے ہیں۔ 1983ء میں وہ قادیان تشریف لے گئے۔ ایک دن مسجد مبارک کے صحن میں نماز ظہر ادا کررہے تھے۔ ان کے قریب ہی ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ جب عبدالحمید صاحب نے نماز ادا کرلی تو وہ نوجوان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی میں پاکستان سے ہی آیا ہوں۔ نوجوان کہنے لگا۔ کیاآپ نے حضور کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا الحمدللہ دیکھا بھی ہے بلکہ معانقے بھی کئے ہیں۔ (یادرہے اس دَور میں ایم ٹی اے نہیں ہوا کرتا تھا) اس پر وہ نوجوان کافی دیر تک اشتیاق بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا: کبھی ہم بھی دیکھیں گے۔

خلافت ۔ تعلق باللہ

ایک عزیز بھائی ضیاء صاحب پاکستان سے جرمنی تشریف لائے۔ عدالت نے اسائیلم کیس کا فیصلہ اُن کے خلاف دیا اور پاکستان واپس بھجوانے کا حکم دیا۔ اس پریشان کُن صورت حال میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں حضور کا جواب ملا۔ جس میں ایک فقرہ یہ تھا: ’اللہ تعالیٰ آپ کا جرمنی میں رہنا مبارک کرے‘۔ یہ عجیب فقرہ تھا۔ وہ کہتے ہیں بظاہر تو میری پاکستان کے لئے تیاری ہورہی تھی لیکن چند ماہ بعد کچھ قوانین میں تبدیلی آگئی۔ جس کے پیش نظر نئے جج آ گئے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس طرح معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے آقا کی بات پوری فرمادی۔ خلافت کی برکت سے نا ممکن کو ممکن بنا دیا۔
خلافت احمدیہ زندہ باد۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کے ارفع واعلیٰ مقام کو سمجھنے اور کماحقہ اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں