خلافت کی برکات

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی و جون 2022ء)

(اخلاق احمد انجم مبلغ سلسلہ)

وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (سورۃ النور، آیت 56)
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

خلافت راہ ظلمت کے لیے روشن چراغاں ہے
اسی سے غلبۂ دیں کے لیے قدرت نمائی ہے
خلافت شعلۂ نورِ نبوت ، مظہرِ قدرت
خلافت نے ہمیں وحدانیت کی مَے پلائی ہے

انسانی پیدائش کا اوّلین مقصد قربِ الٰہی کا حصول ہے تا اس کے ذریعہ صفات باری تعالیٰ کا ظہور ہو جیسا کہ حدیث قدسی ہے : کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَرَدْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے آدم کو پیدا کیا ۔ اور اس عظیم مقصد کے پیش نظر انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ اس سلسلہ کے آخری راہنما ہمارے آقا و مولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نوع انسان کی ہدایت کے لیے جو احکامات آپ ﷺ کو عطا کیے گئے وہ قرآن کریم میں درج ہیں اور ان کا بہترین اسوہ حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہے۔ انبیاء کے ذریعہ جس نظام کی تخم ریزی ہوئی اس کی آبیاری کے لیے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی مؤیّد یہ حدیث ہے:
مَا کَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْہَا خِلَافَۃٗ
یعنی کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے بعد خلافت قائم نہ ہوئی ہو۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلفاء راشدین کا دور آیا جو آپ ﷺ کے سچے اور حقیقی جانشین تھے اور جن کے وجودوں میں اللہ تعالیٰ کا نور پوری طرح منعکس تھا۔ ان خلفائے راشدین نے آنحضرت ﷺ کے جوارح اور اعضاء بن کر آپ ﷺ کے مشن اور آپ کی تعلیم و تبلیغ کی تکمیل کی۔ ان کے ذریعہ سے اسلام کو ترقی عطاہوئی اور جہاں تک خدا کا منشا تھا اسلام دنیا میں پھیلا اور خدا کا نام بلند ہوا۔ پھر قرآن کریم اور ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئیوں وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ اور ثُمَّ تَکُوْنُ الْخِلَافَۃُ عَلیٰ مِنْہَاجِ النَّبُوَّۃِ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی امت کی اصلاح اور اشاعت دین کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر مبعوث فرمایا ۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اعلان فرمایا:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا ، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (الوصیت صفحہ ۷)
خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے ذریعہ امت محمدیہ کا لشکر تیار کیا جنہوں نے اپنا سب کچھ اسلام اور نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کو عین سعادت سمجھا اور تقویٰ شعاروں کی ایک جماعت قائم ہوئی جن کے دلوں سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی۔ آپؑ کے ذریعہ محمدیوں کا پیر بلند تر مینار پر استحکام پذیر ہوا۔
جیسا کہ خدا نے یہ قانون مقر ر فرمایا ہے کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْت کسی انسان کے لیے بقا نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی رحلت کی خبریں دیں تو آپؑ نے جماعت احمدیہ کو بشارت دی کہ خدائے قادرو توانا آپ کے ذریعہ جاری ہونے والے مشن کو ہر گز ناتمام نہیں چھوڑے گا اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم قدرتِ ثانیہ کے ذریعہ پروان چڑھتی رہے گی۔ چنانچہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یقینا سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہو ا پودا ہے۔ خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آبپاشی کر ے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔‘‘
(انجام آتھم روحانی خزائن جلد11 صفحہ 64)
پھر دوسری قدرت یعنی خلافت کے نفوذ کی بشارت دیتے ہوئے آپؑ نے یہ اعلان فرمایا:
’’تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘
(رسالہ الوصیّت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305تا 306)
چنا نچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد سنتِ الٰہی کے عین مطابق خلافتِ احمدیہ کا نظام جاری ہوا اور ساری برکات آپ کی جانشین خلافت سے وابستہ کر دی گئیں اور آپ کی جماعت کو متحد رکھنے اور دین واحد پر قائم رکھنے کا کام اَظلال نبوت کے سپرد ہو ا۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد توحید کے قیام اور مسلمانوں کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ بنا یا تو آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس لیے خلیفہ مقرر کیا ہے تاکہ تمہاری آپس میں محبت اور اُلفت اور شیرازہ بندی قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی برکات میں سے جو ایک عظیم الشان برکت بیان فرمائی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ وحدت قائم رہے اور تفرقہ پیدا نہ جیسا کہ فرمایا:
وَاعۡتَصِمُواۡ بِحَبۡلِ اللّہِ جَمِیۡعاً وَلاَ تَفَرَّقُواۡ وَاذۡکُرُواۡ نِعۡمَتَ اللّہِ عَلَیۡۡکُمۡ إِذۡ کُنتُمۡ أَعۡدَاء فَأَلَّفَ بَیۡۡنَ قُلُوبِکُمۡ فَأَصۡبَحۡتُم بِنِعۡمَتِہِ إِخۡوَاناً۔ (آل عمران)
ایک وہ وقت تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، نبوت کے نور کے ذریعہ تمہیں ایسی محبت عطا ہوئی کہ تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے مگر اب نبوت کے جانے کے بعد تمہارے اندر اتفاق اور اتحاد تبھی پیدا ہو سکتا ہے کہ تم خدا کی رسّی جو خلافت کی صورت میں عطا کی گئی ہے اُسے مضبوطی سے تھامے رکھو۔نبوت کے بعد خلافت ہی ایسی نعمت ہے جس کی برکت سے تم آپس میں محبت اور اُلفت کا ناطہ برقرار رکھ سکتے ہو۔خلافتِ راشدہ کا نظام وہ جزا ہے جو توحید پرستوں کو عطا ہوتی ہے۔ یہ ایک روحانی جنت کی طرح ہے جس کے گھنے سایوں تلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی نہریں بہتی ہیں اور روحانی فیوض کے اثمار سے اس کی شاخیں لدی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابوبکرؓ کا بروز نورالدین کی شکل میں عطا فرمایا جو اسلام کی کشتی کو ساحل تک پہنچانے کے لیے مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور آپؑ کے وصال کے بعد بھی ایک بہادر اور نڈر ملاح کی طرح تمام مخالف لہروں کا مقابلہ کرتا چلا گیا۔ آپ نے جماعت کو متحد رکھنے کے لیے اور توحید کے قیام کے لیے زندگی کے آخری دم تک جد و جہد کی۔آپ نے جماعت کو خدا کی عبادت کی طرف بلایا۔ آپ نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی طرف پکارا۔ جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ جلّشانہ کی سچی فرمانبرداری اختیار کرو۔ اس کی اطاعت کرو ۔ اس سے محبت کرو۔‘‘
(درس القرآن 17؍ جنوری 1908ء)
مزید فرمایا:
’’ ایک بات اَور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیّت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستور العمل ہو۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضانِ الٰہی کو روکتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی طرح کے نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول کریم ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے اس لیے چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسے وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظُلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔پس اس نعمت کا شکر ادا کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔ لَئِن شَکَرْتُم لَاَزِیدَنَّکُمْ۔ لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے۔اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْد۔‘‘ (ابراہیم:8)
پھر خلافت کی رداء حضرت مرزا بشیرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنائی گئی اور آپ نے جماعت کو متحد رکھنے کے لیے انوار خلافت پر متعد د خطبات دیے۔ باون سال تک اسلام کی ترقی اور مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے آپ نے اپنی زندگی کا رُواں رُواں وقف کر دیا اور کوئی بیرونی اور اندرونی مخالفت آپ کے راستہ کو نہ روک سکی۔آپ کی باون سالہ خلافت کا دَور ہرروز ایک نئی ترقی لے کر آتا رہا۔ بیرونی دنیا میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا اور شرک میں مبتلا لوگ خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے۔ مختلف زبانوں میں تراجم قرآن ہوئے۔ آپ نے ذیلی تنظیموں انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کا قیام فرمایا جو اس دَور میں بھی خلافت احمدیہ کی ہدایات اور نگرانی کے ماتحت شریعت اسلامیہ کے روحانی پانی کو سمیٹے ہوئے چلتی ہیں۔اور اسی کی برکت و فیض سے تمام افرادِ جماعت آپس میں اُنس،محبت اور اُلفت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں نیز تعلیم اور تربیت کی راہ پر گامزن ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو اپنے بعد بھی خلافت کے جاری رہنے کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خدا تمہارے لیے قدرت ثانیہ بھیج دے گا۔ مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں۔ اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے۔ قدرت اولی کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں پھیلا نہیں دیتا اس وقت تک۔ قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبردست سے زبردست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لیے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلی اینٹ بنایا۔‘‘ (الفضل22 ستمبر 1950ء)
پس یہ جماعت جس کی جان خلافت راشدہ میں ہے اور خلیفہ اس کے لیے بمنزلہ دل کے ہے۔یہ دل قالب بدلتا ہے لیکن خود کبھی نہیں مرتا۔ اس دل کے نام بدلتے ہیں،کام نہیں بدلتے۔ یہ کبھی نورالدینؓ کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی محمودؓ کا لبادہ اوڑھے ہوئے، کبھی ناصرؒ بن کر غلامانِ محمد کی قومی زندگی کے سینے میں دھڑکتا ہے، کبھی طاہرؒ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی مسرور( ایدہ اللہ) کے روپ میں شمع حیات بن جاتا ہے۔اور دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ یہ مُٹھی بھرجماعت خلیفۃالمسیح کی ہر آواز پر سَمعاً و طَاعۃً کے سوا کچھ کہنا نہیں جانتی۔جو نیکی کی راہیں وہ انہیں دکھاتا ہے وہ بڑی تیزی کے ساتھ ان پر قدم مارتی ہے اور دینِ محمدی کی جس خدمت کے لیے اسے بلاتا ہے وہ لبیک یا سیّدی لبیک کہتی ہوئی اپنی جانیں اور اپنے اموال لیے ہوئے حاضر ہو جاتی ہے۔وہ اُس کے ایک ہاتھ پر اُٹھنا اور ایک ہاتھ پر بیٹھنا جانتی ہے۔
جیسا کہ آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ کہ نبوت کے بعد اسلام کے دینی و روحانی استحکام، اس کی ترقی کا انحصار، اس کے غلبہ اور اس کی ترقیات کا سر چشمہ خلافت ہے۔ ہمارے امام سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ دَور جس میں خلافت خامسہ کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں ہم داخل ہورہے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن احمدیت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔ میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں۔ میں تو ایک عاجز، ناکارہ، نااہل پُرمعصیت انسان ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ خدا تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی لیکن یہ مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دَور کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور کوئی نہیں جو اس دور میں جماعت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ یہ ترقی رکنے والی ہے۔ خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے سے آگے بڑھتا چلاجائے گا۔‘‘ ( خطاب بر موقع صد سالہ جوبلی 2008ء)
ہر احمدی اس بات کا گواہ ہے کہ خلافت خامسہ کے دَور میں فتوحات اور ترقیات کے نئے باب کھلے ہیں۔ خدائی وعدہ کے مطابق اس دور میں تبلیغ احمدیت کو وسعت عطا ہوئی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر لا رہے ہیں ۔ اس دور خلافت میں بھی ہر سال لاکھوں نفوس اسلام احمدیت کے نور سے منور ہو رہے ہیں۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا، کیا افریقہ اور کیا امریکہ، انڈونیشیا، جاپان، فجی، ہر ملک میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد دَورے فرمائے اور اسلام کی پُرامن تعلیمات کو ہر طبقہ کے لوگوں کے سامنے پیش فرمایا اور ان کو بتایا کہ اسلام کی راہ ہی امن کی راہ ہے اور اس کے جھنڈے تلے آکر ہی تم روحانی ہلاکتوں اور دنیوی جنگوں سے بچ سکتے ہو۔ کئی مساجد کے سنگ بنیاد رکھے اور کئی مساجد کا افتتاح فرمایا۔
جلسہ سالانہ یو کے (2021ء) کے دوسرے دن کے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کے افضال و برکات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک سال میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں 403 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ ان نئی جماعتوں کے علاوہ 829 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ 211 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ 123 نئے مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک لاکھ پچیس ہزار دو سو اکیس افراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں۔ تراجم قرآن کریم میں اضافہ ہوا ہے۔ کتب کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے ۔رقیم پریس میں چھپنے والی کتب کی تعداد تین لاکھ پندرہ ہزار ہے۔ دنیا کے 90 ممالک میں 591 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریز کا قیام ہو چکا ہے۔ ایم ٹی اے چینلز میں اضافہ ہوا ہے اوراللہ کے فضل سے آٹھ چینل چوبیس گھنٹے نشریات پیش کر رہے ہیں۔ ریڈیو اسٹیشنز میں اضافہ ہو ا ہے۔ ابھی اگست میں ٹرکش ریڈیو کا افتتاح ہوا ہے۔ پس بے شمار افضال اور برکات ہیں جو اس دور خلافت میں جماعت پر نازل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک سال کا ذکر ہے اور سال بھی وہ جس میں کرونا وائرس دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور بہت سے ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے تبلیغ کی راہیں مسدود ہیں۔
آپ کے دَورِ خلافت کی ہی برکت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک یوکے، جرمنی، کینیڈا، غانا، سیرالیون، تنزانیہ، بورکینا فاسو وغیرہ میں جامعات کا قیام عمل میں آیا ہے اور ہر سال مبلغین تیار ہو کر میدان عمل میں حضور انور ایدہ اللہ کی براہ راست راہنمائی میں تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے ایک فوج تیار کی ہے جس کا مقصد اسلام احمدیت کے لیے دلوں کو جیتنا ہے۔
خلافت کی برکت اور اس کے ساتھ وابستہ ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دیکھیں اللہ تعالیٰ کس شان سے اپنے وعدے پورے فرماتا ہے۔ کس طرح اپنے رسول ﷺ کے قول کو پورا کرتا ہے۔کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی خوشخبری کو نہ صرف پورا فرماتا ہے بلکہ آج تک ہر روز ایک نئی شان سے پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ وہ دس سال کی بات کرتے تھے کہ اس سے پہلے ہی آریہ اور عیسائی یہاں قبضہ کر لیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں کی اپنی شان ہے وہ دس سال بھی گزر گئے اور اس کے بعد کئی دہائیاں گزر گئیں اور آج اس بات کو 101 سال ہو گئے ہیں لیکن نہ صرف انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قادیان ترقی کر رہا ہے۔ … نئی سے نئی جدید عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ایک سکول پر قبضہ کرنے کی بات کرتے تھے کئی کروڑ روپے کی لاگت سے نئے سکول بن رہے ہیں۔ تبلیغ کے کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بہت وسعت اختیار کر چکے ہیں اور پھر قادیان ہی نہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ جماعت کی کئی کئی منزلہ عمارتیں اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کا ثبوت دے رہی ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب کے افراد تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچ رہی ہے۔ پس یہ تائید ہے اللہ تعالیٰ کی خلافت احمدیہ کے ساتھ جس کے نظارے ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں۔ فرمایا جرمنی بھی ان فیوض سے خالی نہیں ہے جو خلافت سے جڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ پہنچا رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے جماعت کی دو ذیلی تنظیموں انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ نے پانچ منزلہ عمارت خریدی جو ایک اعشاریہ سات ملین یا سترہ لاکھ یورو کی خریدی گئی۔ وہ خزانہ جس میں خلافت کے مخالفین نے ایک روپے سے بھی کم رقم چھوڑی تھی اور ہنستے تھے کہ دیکھیں اب نظام کس طرح چلے گا۔ اس خلافت سے وابستہ ایک جماعت کی دو ذیلی تنظیموں نے آج ایک پانچ منزلہ وسیع عمارت تقریبا انیس کروڑ روپے سے بھی زیادہ مالیت خرچ کر کے خریدی ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت احمدیہ کی تائید نہیں تو اَور کیا ہے؟جو خلافت سے علیحدہ ہوئے ان کا مرکزی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔‘‘ (خطبہ جمعہ 29؍ مئی 2015ء)
خوف کا امن میں بدل جانا
خلافت کی عظیم الشان برکات میں سے ایک برکت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے خوف کو امن میں بدل دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا ازسرِنو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دہم صفحہ 229)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر خوف کو خلافت کی برکت سے امن میں بدل دیا۔ چاہے وہ خلافت اولیٰ کا دورتھا جس میں بیرونی مخالفتوں کے علاوہ اندرونی فتنوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا یا خلافت ثانیہ کا دور تھا جس میں انتخاب خلافت سے لے کر خلافت ثانیہ کے پورے دَور میں مختلف فتنے اندرونی طور پر بھی اٹھتے رہے۔ جماعت کا ایک حصہ علیحدہ بھی ہوا۔ بیرونی مخالفتوں نے بھی شدید حملوں کی صورت اختیار کر لی لیکن خلافت کی دعاؤں، برکات اور ہر موقع پر بر وقت راہنمائی نے جماعت کو ہر خوف سے محفوظ رکھا۔ احمدیت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہ ہوئی۔ پھر خلافت ثالثہ میں بھی بیرونی حملوں کی شدت اور بعض اندرونی فتنوں نے سر اٹھایا لیکن جماعت ترقی کرتی چلی گئی اور جماعت کو خلافت احمدیہ آگے ہی بڑھاتی چلی گئی۔ پھر خلافت رابعہ کا دَور آیا تو دشمن نے ایسا بھرپور وار کیا کہ اس کے خیال میں اس نے جماعت کو ختم کرنے کے لیے ایسا پکا ہاتھ ڈالا تھا کہ اس سے بچنا ناممکن تھا۔ کوئی راہ فرار نہیں تھی لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ بڑی شان کے ساتھ پورے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے۔ وہ قدرت ظاہر ہوئی اور اس نے مخالفین کی خاک اڑا دی۔
پھر خلافت خامسہ کا دَور ہے۔ اس میں بھی حسد کی آگ اور مخالفت نے شدت اختیار کر لی۔ کمزور اور نہتے احمدیوں پر ظالمانہ حملے کر کے خون کی ظالمانہ ہولی کھیلی گئی۔ اندرونی طور پر جماعت کے ہمدرد بن کر جماعت کے اندر افتراق پیدا کرنے کی بھی کوششیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تائیدیافتہ خلافت کی زبردست قدرت اس کا مقابلہ کرتی رہی اور کر رہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مخالفین کا مقابلہ کر رہا ہے۔ میں تو ایک کمزور ناکارہ انسان ہوں، میری کوئی حیثیت نہیں لیکن خلافت احمدیہ کو اس خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے جو قادر و توانا اور سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ میں زبردست قدرت دکھاؤں گا اور وہ دکھا رہا ہے اور دکھائے گا اور دشمن ہمیشہ اپنی چالاکیوں، اپنی ہوشیاریوں، اپنے حملوں میں خائب و خاسر ہوتا چلا جائے گا اور ہو رہا ہے۔‘‘ ( خطبہ جمعہ 27 مئی 2011ء)

تزکیہ نفس بھی خلافت کی برکت سے ہی حاصل ہوتا ہے

انبیاء کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان حاصل کریں اور گناہ آلودہ زندگی سے نجات پائیں۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور نفوس کا تزکیہ ہو۔ جیسا کہ خدا خود فرماتا ہے یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں جو بات آپ کو پہنچانا چاہتا تھا وہ یہی ہے کہ میں انسان کو گناہ سے بچنے کا حقیقی ذریعہ بتاتا ہوں اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنے کی راہ دکھاتا ہوں۔ یہی میرا مقصد ہے جس کو لے کر میں دنیا میں آیا ہوں۔‘‘( ملفوظات جلد 3)
نبی کی وفات کے بعد یہ کام خدا کے قائم کردہ خلیفہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور خلافت ہی در اصل وہ چشمہ ہے جس سے روحانیت کے سوتے پھوٹ کر امت کی کھیتی کو ہر وقت سیراب کرتے رہتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک پاک جماعت کا قیام فرمایا جو تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی جماعت ہے۔ آپ کی بیعت میں شامل ہونے والوں نے ایک نئی زندگی حاصل کر لی اور انہوں نے جان لیا کہ ان کی زندگی کا کیا مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کے خلفاء جو آپ کے سچے جانشین ہیں ان کے وجودوں میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشنی منعکس ہوئی اور وہ اس روشنی کے ذریعہ سعید روحوں کو باقاعدہ اور مسلسل منور کر تے رہے اور اب خلافت خامسہ کے دور میں اس نور کی شعاعیں نئی شان کے ساتھ تمام عالم میں پہنچ رہی ہیں۔ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بڑی جانفشانی کے ساتھ مردوں، عورتوں، بچوں اور جوانوں اور بوڑھوں، سب کی حقیقی منزل کی طرف راہنمائی کر رہے ہیں اور مسلسل خطبات، خطابات، ذاتی اور انفرادی ملاقاتوں، اجتماعی پروگراموں کے ذریعہ افراد جماعت کو تقوی کے قیام کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ہر خطبہ اور خطاب احباب جماعت کے تزکیہ نفس کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد پر ہوتا ہے۔ Covid کے نامساعد حالات میں جبکہ فزیکل انفرادی ملاقاتوں اور اجتماعات اور جلسوں وغیرہ کے انعقاد میں مشکلات پیش آئیں تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے virtual ملاقاتوں کا سلسلہ شروع فرمایا۔ ویڈیو لنک کے ذریعہ ملکوں ملکوں پہنچ کر احمدیوں کے تزکیہ نفوس کا کام شروع فرمایا اور باقاعدگی سے مختلف ممالک کی مجالس عاملہ، اطفال، خدام،انصار اور لجنہ کے ساتھ الگ الگ میٹنگز کر کے ان کی دینی و دنیوی، روحانی اور اخلاقی، مذہبی اور سیاسی معاملات میں راہنمائی فرما رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ جہاں اپنے روحانی باپ کو دیکھ کر پیاسی روحوں اور پیاسی آنکھوں کی سیرابی کے سامان ہوئے وہاں افراد جماعت کے علم و عرفان میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کے لیے تزکیہ نفس کے سامان بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس ذریعہ سے ایسے لوگو ں نے بھی حضور کا دیدار آمنے سامنے کیا جو عام حالات میں کسی وجہ سے بھی ملاقات کی توفیق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی خوشی تو دیدنی ہوتی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 3 ستمبر 2021ء میں عزیزم سید طالع احمد شہید کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا۔… وہ خلیفۂ وقت کے الفاظ پر عمل کی کس کس طرح کوشش کرتا تھا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مربیان سے بعض میٹنگز میں میں نے کہا تھا کہ مربیان کو ایک گھنٹے کے قریب تہجد پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عزیز طالع نے اس پر عمل کرنے کی کوشش شروع کردی۔‘‘
تو یہ تزکیہ نفس ہے۔ یہ پاک تبدیلی ہے جو خلافت کی برکت سے احمدی وجودوں میں آتی ہے۔ وہ یقینا ہیرا تھا جسے خلافت کی قربت، خلافت کی محبت اور خلافت کی راہنمائی نے تراش کر صیقل کر دیاتھا۔ پاک تبدیلیوں کی بے شمار مثالیں ہیں۔ لیکن وقت کی مناسبت سے تازہ اور زندہ مثال آپ کے سامنے پیش کی ہے۔

خلیفۂ وقت کا وجود دعاؤں کا خزینہ ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ172 ایڈیشن1988ء)
دعاؤں کا یہ فیض اور برکت بھی نبوت کے بعد خلافت میں جاری ہوتی ہے اور خلیفہ کی صورت میں مومنوں کو ایک ایسا وجود میسر آجاتا ہے جو ہر دم ان کے لیے خداتعالیٰ کے حضور سربسجود رہتا ہے اور ان کے لیے خدا تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتا رہتا ہے، اور احمدیوں کو حق الیقین ہے کہ دربارِ خلافت سے کی گئی دعائیں عرش پر قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’خلیفہ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔… یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ان کے لیے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔ کون سا لیڈر ہے ، جو بیماروں کے لیے دعا ئیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لیے بے چین اور ان کے لیے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے، جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بے شک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے، صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم کی فکر جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔… کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہواور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور نہ جھکتا ہو، اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کرتے رہے۔ … دنیا کاکوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 348)
یہ کوئی زبانی دعویٰ نہیں۔ خلیفہ کی دعاؤں اور ان کی قبولیت کے نظارے پہلی خلافتوں میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں اور خلافت خامسہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص سلوک ہے کہ آپ کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت عطا فرماتا ہے اور ان دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کی۔ آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں موت کے منہ تک پہنچے ہوئے افراد جماعت کو نئی زندگی عطا ہوئی جس کے واقعات ہمارے روزمرہ مشاہدے کا حصہ ہیں۔
مثلا ًہمارے ایک عرب بھائی مکرم ابراہیم اِخلف صاحب جو نیشنل سیکرٹری تبلیغ یوکے بھی ہیں۔ وہ کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار ہو گئے اور بیماری اتنی شدّت اختیار کر گئی کہ ڈاکٹروں کے مطابق بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی اور ان کو خود بھی یہ لگنے لگا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے ۔ بیماری کے آغاز سے ہی حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لیے درخواست کی گئی تھی اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں دعا کر رہا ہوں اور آپ نے ہومیوپیتھک ادویات بھی تجویز فرمائیں اور استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ باقاعدگی سے ان کی طبیعت کے بارہ میں بھی استفسار فرماتے رہے۔ منیر عودہ صاحب نے ایک ملاقات کے دوران ابراہیم صاحب کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ ابراہیم صاحب کی اہلیہ مریم صاحبہ بہت پریشان ہے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی بخش الفاظ کی منتظر ہے۔ امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ دیر توقف کے بعد فرمایا۔’’ریم سے کہہ دو کہ تسلّی رکھے۔ ابراہیم کو کچھ نہیں ہو گا اور وہ صحت یاب ہو جائے گا۔‘‘ اسی دن سے خدا تعالیٰ جو اپنے بندوں کی دعاؤں کو سننے والا ہے کے فضل سے ابراہیم صاحب کی حالت میں بہتری آنے لگی اور وہ مکمل طور پر شفایاب ہو گئے اور اب پہلے سے بھی بڑھ کر اسلام احمدیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ کی دعا کے معجزہ نے جہاں ان کو ظاہری زندگی دی ہے وہاں آپ کی زندگی میں ایک روحانی جوش بھی پیدا کر دیا ہے۔
ایک نوجوان نبیل احمد بھٹی صاحب کی بیماری اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا سے معجزانہ شفا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ قبولیت دعا کا جو نشان اور برکت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی وہی برکت آپ کی خلافت کو عطا کی گئی ہے۔ ان کو اچانک کسی وائرس کا حملہ ہوا اور بڑی تیزی سے ان کے جسم کا نظام درہم برہم ہو گیا اور ڈاکٹرز نے ان کے والدین کو کہہ دیا کہ ہم اس کو بچا نہیں سکتے تو سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ اور دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس مُردے کو زندہ کیا ۔ تین Consultants نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ ہم نے اپنے 35 سالہ تجربے میں مشاہدہ کیا ہے کہ اس حالت کا مریض Survive نہیں کرتا۔ بعد میں ایک ملاقات کے دوران نبیل کو حضور انور نے فرمایا کہ ’’ڈاکٹرز نے تمہیں مار دیا تھا لیکن خدا نے کہا میں نے نہیں مارنا۔‘‘
بلغاریہ کے نو احمدی مسٹر Etem جلسہ سالانہ یوکے 2015ء پر آئے۔ اُن کی اہلیہ احمدی نہیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں اگر بیٹا ہوجائے تو مَیں احمدی ہو جاؤں گی۔چنانچہ انہوں نے حضورِ انور کی خدمت میں اس حوالے سے دعا کے لیے لکھا۔اگلے سال جب وہ جلسہ پر آئیں تو سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ ملاقات پر انہوں نے بچے کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی، حضورانور نے صرف لڑکے کا نام تجویز فر مایا۔ جب وہ واپس گئیں تو اپنے ڈاکٹرز سے ملیں اور انہوں نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹی ہوگی۔ اس پر مسز Etem وہاں کے مبلغ سلسلہ سے ملیں اور کہا کہ مجھے حضور سے لڑکی کا نام منگوادیں۔ مبلغ نے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا بیٹا ہو تو احمدی ہو جاؤں گی اور حضور نے لڑکے کا نام ہی تجویز فر مایا تھا اب ان شاء اللہ آپ کے بیٹا ہی ہوگا چاہے ڈاکٹرز کی مشینیں جو بھی کہیں۔اس کے جواب میں اُس خاتون نے کہا میں تو پہلے ہی احمدی ہو چکی ہوں۔ چنانچہ جب بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ لڑکا تھا اور اگلی دفعہ وہ جلسہ سالانہ پر اپنے نومولود بیٹے کے ساتھ آئیں تو لوگوں کو بتاتی تھیں کہ دیکھو! یہ میرا بچہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ہے۔

جس بات کو کہے کہ کروں گا مَیں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

روحانی امن ہو یا گھریلو امن، معاشرتی امن ہو یا عالمی امن ہر دائرۂ حیات میں امن کی ضمانت خلافت کی بدولت ہی ہے۔خلافت ایک العروۃالوثقٰی ہے (یعنی مضبوط کڑا) جس پر ہر قسم کے حالات میں مکمل بھروسا کیا جاسکتا ہے،اور اگر کوئی اس پر بھروسا کرتا ہے تو اس کو گرنے یا ٹھوکر کا ڈر نہیں رہتا۔ لیکن یاد رکھیں یہ ساری برکات اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ مشروط ہیں۔ جب تک کوئی انسان پوری طرح فرمانبرداری اختیار نہیں کرتا اور اپنے ارادوں اور خواہشات کو خلیفۂ وقت کے تابع نہیں کرتا اس وقت تک وہ ان برکات سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ خلافت کے با برکت نظام سے چمٹے رہنا ہی ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کا ضامن ہے۔
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادیٔ کامل ﷺ کی اُمت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانہ میں مسیح موعود و مہدی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فر مائی جس میں ایک نظام قائم ہے،ایک نظامِ خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں، لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے ہاتھ ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔ … اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظامِ جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو،کیونکہ اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 22؍اگست 2003ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’اے خلافتِ محمدیہ کے جانثارو، جو شمع خلافتِ محمدیہ کے گرد آج اس میدان میں پروانوں کی طرح جمع ہوئے ہو۔ اس روحانی اجتماع میں شرکت کرنے والی سعید روحو! تمہی تو بُستانِ احمد کے گُل بوٹے ہو جن کی سر بلندی اور شادابی کی خوشخبریاں مسیح موعودؑ نے دنیا کو دیں۔وہ تم ہوجن پر نسیمِ رحمت پھر سے چلی ہے اور وقت خزاں میں جن پر عجب طرح کی بہار آگئی۔سو سنو!اور خوب اچھی طرح اسے اپنی عقل و فراست کی گانٹھوں میں باندھ کر محفوظ کر لو کہ تمہاری شادابی اور تمہاری یہ بہارِ نو، تمہاری کلیوں کا چٹکنا اور شگوفوں کا پھوٹنا یہ سب سر تا پا خلافتِ محمدیہ کے دم قدم کی برکت سے ہے۔یہ نعمت تمہیں ہجر کی تیرہ، طویل، درد ناک اور صدیوں کی گریہ و زاری کے بعد نصیب ہوئی ہے۔اب اس نعمت کو سر آنکھوں پر بٹھانا، سینہ سے لگانا اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں اور اپنے باپوں اور اپنے ہر دوسرے پیارے سے ہزار بار بڑھ کر عزیز رکھنا۔ تمہارے اِحیاء اور تمہاری بقا کی تمام کنجیاں خلافت میں رکھ دی گئی ہیں۔ سب تد بیریں قیامت تک کے لیے خلافت سے وابستہ ہو چکی ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی تقدیر اس نظام سے وابستہ ہے اور تمہاری غیرمتناہی عظیم شاہراہ اس در سے ہو کر گزرتی ہے جسے خلافتِ راشدہ محمدیہ کہا جاتا ہے۔ جان دے کر بھی اس نعمت کی حفاظت کرو، اور ایک کے بعد دوسرے آنے والے خلیفۂ راشد سے انصار کی زبان میں بہ منّت عرض کرو کہ اے خلیفۃالرسول! ہم تمہارے آگے بھی لڑیں گے، ہم تمہارے پیچھے بھی لڑیں گے،ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور تمہارے بائیں بھی لڑیں گے۔ اور خدا کی قسم! خدا کی قسم! اب قیامت تک کسی دشمن کی مجال نہ ہو گی کہ محمدِ عربی ﷺ کی خلافت کو بُری نظر سے دیکھ سکے۔‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء۔ تقاریر قبل از خلافت صفحہ ۲۳۳ تا ۲۳۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان بابرکت الفاظ پر میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو ہی نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔ … اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی سِر ہے۔ اللہ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبر خدا کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے۔… مگر رسول اللہ ﷺ کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔… ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے مگر مَیں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہوکر بہ نکلی تھیں۔ یہ اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسروں کو تسخیر کرلیا۔ تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو، اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی، باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی۔ غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شمع خلافت سے محبت، عشق اور فدائیت میں ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے۔ہم خلافت کی مکمل اطاعت کرنے والے ہوں اور جو برکات خلافت سے وابستہ ہیں ہم ان کے حقیقی وارث بن سکیں۔آمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں