خواتین مبارکہ کے اخلاق حسنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18اکتوبر 2010ء میں مکرمہ م۔شاہین صاحبہ کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی بعض خواتین کے اخلاق حسنہ کے بے مثال نمونے پیش کئے گئے ہیں۔
٭ میری والدہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں چھوٹی سی تھی جب ہم احمدی ہوئے اور پھر قادیان میں آکر رہنے لگے۔ مجھے حضورؑ کے خاندان کی خواتین کو دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ مَیں ایک مرتبہ دارالمسیح میں گئی۔ حضرت اماں جانؓ اپنے صحن میں چولہے پر کچھ پکا رہی تھیں اور چولہے کے قریب ہی بڑا سا دوپٹہ لئے ہوئے کھڑی تھیں۔ آپؓ کا حسن وہ ملکوتی تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں آپؓ کو دیکھتی رہی اور دل چاہ رہا تھا کہ واپس ہی نہ جاؤں۔
اسی طرح حضرت ام طاہرؓ کی ذات میں میرے لئے بڑی جاذبیت تھی۔ میں پہلی مرتبہ اپنی پڑوسن خالہ رحمتے کے ساتھ اُن کے ہاں گئی۔ آپؓ کے کمرہ میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک پر بستر تھا اور ایک بغیر بستر کے۔ ہم بغیر بستر والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ حضرت امّ طاہرؓ تشریف لائیں تو ہمیں بستر والی چارپائی پر بٹھایا۔ پھر فرمایا کہ ٹانگیں چارپائی کے اوپر کرلو اور رضائی لے لو۔ خالہ رحمتے سے حال احوال پوچھا۔ میرے سر پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور مجھے بہت پیار کرتی رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پھر مَیں کئی دفعہ موقعہ پا کر آپ کے گھر پہنچ جاتی اور دل چاہتا کہ کسی نہ کسی طرح دیدار کی پیاس بجھاتی رہوں۔ آپ کی آخری بیماری کے دنوں میں کئی بار چھپ چھپ کر سیڑھیوں سے اوپر چڑھتی۔ آخری سیڑھی پر سے جھانک جھانک کر آپ کو دیکھتی اورپھر ڈر کر جلدی سے بھاگ کر نیچے اتر آتی کہ کہیں کوئی دیکھ لے اور سمجھے کہ یہ لڑکی چور ہے۔ جب آپؓ کی وفات ہوئی تو میں نے سات مرتبہ لائن میں لگ کر آپؓ کا دیدار کیا۔
حضرت صاحبزادی امۃالحفیظ بیگم صاحبہ سے ایک بار ملنے گئی تو آپؓ نے ہمیں اپنے پاس ہی بستر پر بٹھالیا۔ مَیں آپ کے ہاتھ دبانے لگی جو پشم کی مانند نرم تھے۔ آپؓ نے پوچھا کہ میاں کیا کرتے ہیں؟ مَیں نے بتایا کہ ہم نے ربوہ میں اپنا گھر بیچ دیا ہے اور اب کراچی شفٹ ہوکر کاروبار کرنے کا ارادہ ہے۔ فرمایا کہ کاروبار چھوٹے پیمانے سے شروع کرنا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ سارا پیسہ ایک دم لگا دیں اور اگر خدانخواستہ نقصان ہو تو سارا پیسہ ہی ڈوب جائے۔ یہ بھی فرمایا کہ عورت کی اپنی بھی یعنی اپنے نام پر بھی کوئی جائیداد ہونی چاہئے۔
ایک بار حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو ملنے گئی۔ آپ بہت محبت سے ملیں۔ ہمیں بٹھایا اور کہا کہ مَیں اپنے میاں کے لئے ہانڈی بھون رہی تھی، ان کا کھانا خود ہی پکاتی ہوں۔ چنانچہ ہمیں بٹھا کر آپ ہانڈی بھون کر واپس آئیں۔ پھر فرمایا کہ عورتوں کو عادت ہوتی ہے اور کہتی رہتی ہیں کہ ہم بیمار ہیں اور ہم سے کام نہیں ہوتا، ہم نے عہدہ نہیں لینا۔ آپ نے فرمایا کہ جو عہدہ ملے اسے اللہ کا فضل اور انعام سمجھ کر سلسلہ کی خدمت کرنی چاہئے۔
حضرت صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کو ملنے بھی چند بار گئی۔ آپ بہت بے تکلف، سادہ اور درویش منش طبیعت کی مالک تھیں۔ بہت ہی چاہت سے ملتیں، واپسی پر ضرور دروازے تک چھوڑنے آتیں۔ ایک دفعہ ہم آپ سے ملنے گئے تو ایک عورت آپ کے ہاں شہد بیچنے کے لئے آگئی۔ میں نے اُس سے ایک بوتل شہد خریدا اور بی بی صاحبہ کو تحفۃً پیش کردیا۔ جب ہم واپس آنے لگے تو فرمایا: کچھ دیر ٹھہریں۔ پھر چند منٹ بعد واپس آکر دو بوتلیں شہد کی مجھے اور میری بیٹی کو دیں اور فرمایا کہ اُس شہد کا تو مجھے پتہ نہیں مگر یہ شہد بالکل خالص ہے۔ مَیں دل میں سوچ رہی تھی کہ آپ کس قدر غنی ہیں۔
٭ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ (اہلیہ مکرم شیخ لطیف احمد صاحب حال جرمنی) کی پرورش حضرت اماں جانؓ کے ہاں ہوئی تھی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت اماں جانؓ سے بہت لاڈ پیار کرتی۔ موتیے کے پھول توڑ کر گجرے بناتی۔ آپؓ کے سر میں کنگھی کرتی اور بالوں میں پھول بھی سجاتی۔ آپؓ کی ٹانگیں بھی دباتی۔ جب کبھی آپؓ کھانا پکا رہی ہوتیں تو آپؓ کے فرمانے پر بھاگ بھاگ کر چیزیں پکڑاتی۔
آپؓ میری نمازوں کا بھی خیال رکھتیں۔ میری والدہ سے فرماتیں کہ مہر بی بی! رشیدہ کو قرآن پڑھاؤ۔ کسی کے ذمہ لگاؤ کہ اس کو قرآن پڑھائے ، کپڑوں پر بھی نظر رکھتیں کہ دُھلے اور صاف ہوں۔ باہر زیادہ نہ نکلنے دیتیں کہ آوارگی کی عادت نہ پڑے۔ گویا میری پوری طرح حفاظت فرماتیں۔ جب پارٹیشن ہوئی تو اس وقت مَیں بارہ تیرہ سال کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے مَیں اکیلی قادیان سے لاہور آئی۔ اللہ تعالیٰ نے بحفاظت پہنچا دیا۔ میرا چھوٹا بھائی غالباً ایک سال کا میرے ساتھ تھا۔ وہ ٹرک میں سوار ہوتے وقت نیچے گر گیا۔ مَیں خود چھوٹی تھی اور رش اور افراتفری کی وجہ سے کسی نے بھی دھیان نہ دیا۔ میں سارا رستہ آہستہ آہستہ روتی آئی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تین ماہ بعد گمشدہ بھائی مل گیا۔ یہ بھائی بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور آپؓ کی دعاؤں کے صدقے ہی ہمیں عطا فرمایا تھا۔
٭ مکرمہ امۃ المتین صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالشکور صاحب آف لاہور حال جرمنی بیان کرتی ہیں کہ میری دو بیٹیوں کی شادی صاحبزادہ میاں نعیم احمد صاحب کے دو بیٹوں سے ہوئی ہے۔ مکرم صاحبزادہ صاحب کی بیگم مکرمہ امۃ المومن شمسہ صاحبہ (جو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پوتی ہیں) نے یہ رشتہ خوب نبھایا اور میری بیٹیوں سے ہمیشہ بہت پیار کا اور مجھ سے احترام کا سلوک رکھا۔ عنبر حاملہ ہوئی تو اس کا بہت خیال رکھتیں، حتیٰ کہ بیگ تک نہ اٹھانے دیتیں۔ اُس وقت حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے عنبر کی درخواست پر ہونے والے بچہ کا نام بھیجا جو ایک لڑکے کا نام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لڑکا ہی عطا فرمایا۔
محترم امۃالمومن شمسہ صاحبہ نوکروں کا بھی بہت خیال رکھتیں۔ آپ کی باتوں میں بہت سادگی اور بھولا پن تھا۔ آپ بہت عبادت گزار تھیں۔ بعض اوقات تو ساری ساری رات رو رو کر عبادت میں گزار دیتیں۔ بچپن میں جھولے سے گرنے سے چوٹ لگ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ساری عمر مختلف عوارض میں مبتلا رہیں۔ مگر ہمیشہ ہی اپنی بیماری کو بڑی ہمت سے برداشت کیا۔ جب بھی پوچھنا کہ آپ کا کیا حال ہے تو خوشدلی سے فرماتیں ’’بھالو‘‘۔ یہ بنگلہ زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ اچھا ہے۔ آپ چونکہ کافی عرصہ ڈھاکہ میں بھی رہی ہیں تو بنگلہ زبان کے لفظ بھی اپنی بول چال میں استعمال کرتیں۔
٭ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی مختلف تحریریں اور تقریریں پڑھ کر دل میں یہ صاف خیال ابھرتا ہے کہ اگرچہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی تھیں، مگر ان کا ایمان یہ نہیں نظر آتا کہ ایک بیٹی اپنے باپ کے دعویٰ پر ایمان لائی ہے۔ بلکہ صاف یہ نظر آتا ہے کہ اس نے گھر میں اندرونی شہادتیں دیکھیں اور ان کی بنا پر چھوٹی عمر میں ہی اس کا ایمان اتنا گہرا ہوا کہ حوادث کی آندھیاں اسے متاثر نہ کرسکیں۔ پھر چندوں کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاداری کی طرح یہ نہیں کہ اپنی بیوی کو کہہ رہا ہے کہ چندوں کی تلقین تو میں نے باقی سب لوگوں کو کی تھی۔ تو کس لئے اپنی بالی اتار کر دے آئی۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لنگر کے لئے جب کوئی انتظام نہیں ہوتا تو حضرت اماں جان اپنا زیور بیچ کر لنگر کے لئے کھانا پکوا رہی ہیں۔ اخبار الفضل چھپنے کا کوئی مالی بندوبست نہیں تو حضرت سیدہ ام ناصر اپنا زیور بیچ کر اپنے عالی مقام خاوند کو پیش کررہی ہیں کہ اس سے کام چلا لیں۔ منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے حضرت اماں جان اپنی ایک جائیداد (دہلی کا ایک مکان) بیچ رہی ہیں۔ تو یہ اندرونی شہادتیں ہیں۔
خاندان مبارکہ میں بہت سے بچوں کے نام حضرت مسیح موعود کے الہامات پر رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً بی بی قدسیہ کا مضمون جو صاحبزادہ غلام قادر کی شہادت پر انہوں نے لکھا تو اس میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ میں نے اس کا نام حضرت مسیح موعود کے الہام کو پڑھ کر رکھا تھا کہ ’’غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا‘‘۔
اسی طرح بی بی نصرت کے بچوں کے نام پڑھے تو محمدمفلح مجھے ذرا منفرد لگا۔ ایک دن میں تذکرہ میں حضورؑ کا یہ الہام دیکھا: ’’محمد مفلح‘‘ ۔
چند سال پہلے خاکسار حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملنے گئی تو پتہ چلا کہ آپ بیمار ہیں اور کسی سے نہیں مل سکتیں۔ ہم نے صرف دیکھنے کی اجازت چاہی تو کہا گیا کہ آپ صرف سلام کرکے آجائیں۔ بات بالکل نہیں کرنی۔ ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہوا ہے۔ ہم اندر کمرے میں گئے تو گہرا سکون چھایا ہوا تھا۔ ہم نے سلام عرض کیا آپ لیٹی ہوئی تھیں۔ آپ نے ہمیں بہت پیار سے وعلیکم السلام کہا۔ پھر خود ہی حال چال پوچھنا شروع کیا اور چند باتیں کیں۔
’’تاریخ احمدیت‘‘ میں درج ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لجنہ اماء اللہ قائم کی تو کچھ سالوں بعد صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر بچیوں کے لئے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی۔ ایک بار خاکسار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ہمیں اپنے بزرگ آباء کی بہت دیر تک باتیں سناتی رہیں۔ پھر بتایا کہ جب لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم ہوئی تھی اور ان کے اجلاسات ہوتے تھے تو ہم بچیاں باہر کھیلتی رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو اکٹھا کیا۔ اندرکمرے میں لجنہ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میں نے باہر برآمدے میں تخت پوش پر سب بچیوں کو بٹھایا اور کہا کہ آؤ ہم بھی اجلاس کریں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مصلح موعود تشریف لائے، ہمیں دیکھا تو پوچھا کیا ہورہا ہے؟ مَیں نے کہا کہ ہم چھوٹی لجنہ ہیں اور ہم بھی اپنا اجلاس کر رہی ہیں۔ آپؓ بہت خوش ہوئے اور ہمیں ’’ناصرت الاحمدیہ‘‘ نام عطا فرمایا۔
آپ کے ڈرائنگ روم میں کچھ خواتین مبارکہ کی فوٹوز سجی ہوئی تھیں۔ آپ کی والدہ حضرت سیدہ امۃ الحی صاحبہؓ کی بھی بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ آپ نے بتایا کہ یہ میری امی ہیں۔ جب حضرت مصلح موعودؓ سفر یورپ پر تشریف لے جارہے تھے تو آپؓ نے تمام موجود بیویوں کی تصویریں کھینچی تھیں اور سب خود ہی ڈویلپ کی تھیں۔ آپؓ پردے کے بہت پابند تھے۔
٭ مکرمہ مسرت بخاری صاحبہ حال جرمنی بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ مکرمہ لیلیٰ صاحبہ نے حضرت سیدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ میری امی کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ آپ تین بہنیں تھیں جو ایک بہت متمول آدمی کی اولاد تھیں اور افریقہ (دارالسلام، نیروبی) میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھیں۔ والد نے اَور شادی کرلی اور ان بچیوں کی والدہ کو گھر سے نکال دیا۔ دوسری ماں نے کہا کہ ان بچیوں کو بھی گھر سے نکالو۔ چنانچہ امّی نے بتایا کہ ایک دن ہمارے والد ہمیں اچھے کپڑے پہنا کر جنگل میں ہمارے نوکر کے گھر کے پاس چھوڑ گئے۔ ہم وہاں پر کھیلتی رہیں۔ جب شام پڑی اور والد کا کچھ اتہ پتہ نہ چلا تو ہم نے گھبرا کر رونا شروع کیا۔ ہمارے نوکر کی نظر ہم پر پڑی تو وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ والد کا منشاء بھی یہی تھا۔ چنانچہ ہم وہاں پر رہتی رہیں۔ والد نے کچھ رقم بھی اُسے دی۔ بہرحال ہماری حالت وہاں پر بہت ابتر ہوگئی۔ پیروں میں کیڑے پڑ گئے، ہاتھوں کے ناخن جھڑ گئے۔ والد کے ایک دوست مکرم ڈاکٹر عبدالغنی کڑک صاحب تھے جو والد سے بچوں کے بارہ میں پوچھتے رہتے۔ پہلے تو والد صاحب ٹالتے رہے مگر پھر بتانا پڑا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے کسی طرح ہمیں قادیان پہنچانے کا بندوبست کیا اور حضرت مصلح موعودؓ کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ میری عمر اس وقت تقریباً 4 سال، بڑی بہن کی 6 سال اور چھوٹی کی تقریباً اڑھائی سال تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پوچھنے پر میری کفالت حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے اپنے ذمہ لے لی۔ ایک بہن کی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے اور ایک کی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے کفالت کی۔ حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے مجھے بالکل اپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور خیال رکھا۔ پھر میری شادی کی، زیور بنوایا، کپڑے بنوائے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا۔ پھر میری اولاد کا بھی خیال رکھا اور اُن کی بھی تربیت کی۔
مکرمہ مسرّت بخاری صاحب بیان کرتی ہیں کہ بڑی امّی (حضرت سیدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ) نے اپنے بچوں کے ساتھ مجھے بھی سیریں کروائیں۔ ہم ربوہ میں رہتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں آپؓ ہمیں اپنے پاس لاہور بلوالیتیں اور خوب خاطر کرتیں۔ جب میں نے میٹرک کا امتحان دے لیا تو اس کے بعد میں آٹھ، نو ماہ آپ کے پاس رہی۔ میری شادی کی بہت سی تیاری بھی آپ نے کروائی۔ روزانہ شام کو مجھے بازار لے کر جاتیں اور چھوٹے چھوٹے بازاروں میں دُور دُور تک ہم دونوں پیدل جاتے۔ فرماتی تھیں کہ بڑے دکاندار اکثر اوقات مہنگی چیزیں بیچتے ہیں۔ مگر مجھے اس وقت اپنی نادانی کی وجہ سے کبھی کبھی غصہ بھی آتا کہ بڑی امی یہ کیا کرتی ہیں۔ دکانوں پر بھاؤ تاؤ بھی کرواتیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی عقل سکھا گئیں کہ شوشا میں نہ پڑو۔
آپؓ بہت نفاست پسند تھیں۔ اس زمانے میں ٹشو پیپر نہیں ہوتے تھے۔ آپ نے اس مقصد کے لئے تولیے کے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے جو دھلوا کر دوبارہ استعمال ہو جاتے۔ مَیں نے ایک مرتبہ بڑا تولیہ استعمال کے بعد اکٹھا سا تار پر ڈال دیا۔ آپ فرمانے لگیں کہ ایسے اس میں بُو پڑ جائے گی۔ تولیہ ہمیشہ پھیلا کر ڈالنا چاہئے۔ کوئی اور تمہاری یہ حرکت دیکھے تو تمہیں پھوہڑ کہے گا۔ غرض چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اصلاح فرماتیں۔
آپ اپنے سٹور میں مہمانوں کے لئے کھانے کی چیزیں مثلاً ڈرائی فروٹ وغیرہ رکھتیں۔ کپڑے بہت احتیاط سے تہہ کرکے رکھتیں۔ کپڑے سیتے وقت بچ جانے والے کپڑے اور کترنوں کو بھی رکھ لیتیں۔ بچی ہوئی کترنوں اور پرانے سوٹوں سے دلائیاں بھی تیار کرواتیں۔ ایک مرتبہ کسی کی مہندی تھی۔ میں نے کہا میرے پاس کپڑے نہیں ہیں اور میں نہیں جارہی۔ آپؓ نے اپنا ایک سوٹ نکال کر مجھے دیا۔ اگلے دن شادی پر بھی مَیں نے ایسے ہی کہا تو ایک اَور سوٹ نکال کر مجھے عنایت فرمایا۔ سب کہتے کہ اسے آپ نے بہت سر چڑھایا ہوا ہے۔ فرماتی تھیں کہ یہ مجھے بہت پسند ہے۔ میرے سے بہت پیار کرتیں۔
اس وقت دانتوں کے خلال عام نہیں ملتے تھے۔ آپ نے اس مقصد کے لئے ایک چھوٹی سی دھاگے کی ریل رکھی ہوتی تھی جو کپڑے کی ایک تھیلی میں ہوتی اور باہر جاتے وقت اسے پرس میں رکھ لیتیں۔
مشکلات میں صبر کی تلقین کرتیں۔آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی ذات کی بہت غیرت تھی۔ میں نے اپنی بیٹی کی منگنی کی لیکن دو تین سال گزر جانے پر بھی دل مطمئن نہیں تھا۔ استخارہ کا نتیجہ تسلی بخش نہیں تھا اور میں کہتی پھر رہی تھی کہ میں نے یہ منگنی توڑ دینی ہے۔ ایک دن میں نے آپؓ کے سامنے کہا کہ مَیں ایک دفعہ پھر تسلی سے استخارہ کرنا چاہتی ہوں۔ آپؓ لیٹی ہوئی تھیں کہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں اور فرمانے لگیں: اللہ کو بار بار نہیں آزماتے۔ فوراً منگنی توڑ دو تاکہ ہر کسی کو پتہ بھی چل جائے اور پھررشتے آنے لگ جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا اور واقعی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔
میری شادی سیالکوٹ میں ہوئی تھی۔ آپؓ مجھ سے سیالکوٹ کی باتیں بہت شوق سے سنتی تھیں۔ فرماتیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں ان گلیوں میں پھروں۔ بتاتی تھیں کہ مَیں بہت چھوٹی سی تھی جب میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ (آپ غالباً چند ماہ کی تھیں، جب حضرت مسیح موعود کی زندگی میں سیالکوٹ آئی تھیں)۔
مکرمہ مسرت بخاری صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری شادی کی تاریخ 14 نومبر 1965ء مقرر ہوئی تھی کہ اسی اثناء میں 8 نومبر کو حضرت مصلح موعودؓ کی وفات ہوگئی۔ کچھ دن کے بعد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہئے؟ حضورؒ نے فرمایا کہ سوگ تین دن کا ہوتا ہے، ہم تو رسموں کو ختم کرنے آئے ہیں۔ چنانچہ میری شادی چند دن کے فرق سے 28 نومبر کو ہوئی۔ رخصتی پہ دعا بھی حضورؒ نے کروائی اور میرے ولی بھی آپؒ ہی تھے۔ جب آپ دعا کروا کر تشریف لے جانے لگے تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے فرمایا کہ اسے سرپر پیار بھی دے کر جائیں۔ چنانچہ حضورؒ پھر تشریف لائے اور میرے سر پر پیار دیا۔ بعد میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ مجھے کافی دیر تک نصائح کرتی رہیں کہ خاوند کی خدمت کرنا، صبروتحمل سے سسرال میں رہنا وغیرہ۔ جب مَیں برات کے ساتھ رخصت ہونے لگی تو آپؓ نے میری والدہ سے فرمایا کہ اس کو غسل خانہ سے فارغ کرکے بھجوانا۔ مَیں نے ربوہ سے رخصت ہو کر سیالکوٹ جانا تھا۔ آپؓ کی اس نصیحت سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ چنانچہ جب لمبے سفر کے بعد رات کو بس نے ویرانے میں پڑاؤ کیا تو سب کو کھیتوں میں فراغت کے لئے جانا پڑا، مگر مجھے اس کی حاجت نہیں ہوئی۔ آپؓ کی بظاہر اس چھوٹی سی نصیحت نے مجھے پریشانی سے بچالیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں