داستانِ درویش بزبان درویش از محترم مولانا عبدالقادر صاحب دہلوی

مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے رسالہ مشکوٰۃ نومبر 2003ء میں درویشِ قادیان محترم مولانا عبدالقادر صاحب دہلوی ابن حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحبؓ نے اپنے حالات بیان کئے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کی خبر دہلی پہنچی تو میرے والد صاحب کے نانا حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ اور ماموں حضرت عبدالعزیز صاحبؓ نے احمدیت قبول کرلی۔ دونوں 313؍اصحاب میں شامل ہوئے۔ میرے والد نے بھی 1890ء میں بذریعہ خط اور 1891ء میں قادیان آکر دستی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ میرے علاوہ چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں جو سب مخلص احمدی ہیں۔ محترم عبدالرحمن دہلوی صاحب میرے بڑے بھائی ہیں جن کے ذریعہ محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے احمدیت قبول کی۔ ایک بھائی صوبیدار عبدالمنان دہلوی نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے انچارج حفاظت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔
ابتدائی تعلیم کے لئے مَیں اور میرے بھائی عبدالمنان جس پرائمری سکول میں جاتے، وہاں اپنے مولوی صاحبان کے ڈیسک میں چپکے سے لٹریچر ڈال آتے۔ مولوی صاحبان بھی خاموشی سے پڑھتے رہے اور آخر ایک روز پوچھا کہ کون یہ لٹریچر ڈالتا ہے۔ ہم بھائیوں نے ہاتھ کھڑا کیا تو وہ ہمارے والد صاحب سے ملے اور جلد ہی احمدیت قبول کرلی۔ دہلی سے چھٹی جماعت پاس کرکے ہم مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوگئے۔ دو تین سال بعد ہمارا گھرانہ بھی قادیان آگیا اور ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ نوجوانی میں مجھے نمازیں مسجد مبارک میں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ کئی بار ظہر کی نماز کے بعد عصر تک ذکر میں مشغول رہتا۔ جمعہ کے روز گیارہ بجے مسجد پہنچ جاتا۔
مدرسہ احمدیہ میں سات سال پڑھنے کے بعد مَیں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگیا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تھے اور حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ ہمیں حدیث پڑھاتے تھے۔ حضرت میر صاحب کے کہنے پر مَیں نے مصر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے درخواست دی تو جواب آیا کہ جس کے پاس پاسپورٹ بنوانے کے لئے پیسے نہیں، وہ مصر کیا لینے جائے گا۔ دو تین دن بعد مَیں نے خواب دیکھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے مجھے کہا: ’’عبدالقادر مصر‘‘۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جنگ عظیم دوم میں مجھے جماعت نے فوج میں بھرتی کروادیا۔ محکمہ سپلائی میں میری ڈیوٹی لگی۔ چند ماہ بعد مجھے مصر بھجوادیا گیا ۔ چند ماہ وہاں رہنے کے بعد ہماری فوج فلسطین پہنچی۔ وہاں سے شام گئے۔ کئی دیگر عرب ممالک میں بھی جانے اور مقدس مقامات کی خوب سیر و زیارت کا موقع ملا۔ پھر مسولینی کی فوج کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اٹلی پہنچے۔ ہمارے کیمپ پر بمباری اور توپوں کی گولہ باری ہوتی تھی لیکن مَیں مورچوں میں لیٹے اور بیٹھے ہوئے بھی نمازیں ادا کیا کرتا تھا۔ حالات کچھ بھی ہوں، نماز مَیں نے کبھی ترک نہیں کی۔ اٹلی میں عیسائیوں کے مقدس مقامات کی بھی خوب سیر کی۔ ایک روز پوپ کے خطاب میں بھی چلا گیا اور موقع دیکھ کر اُن کا ہاتھ تھام کر انہیں احمدیت کا پیغام پہنچادیا۔ انہوں نے میری باتیں سن کر خوشی کا اظہار کیا۔ اس کا ذکر تاریخ احمدیت میں بھی موجود ہے۔ بعد میں وہاں موجود دیگر عیسائیوں کو بھی تبلیغ کرتا رہا۔ اٹلی میں حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے سند خوشنودی بھی دی گئی۔
دو سال اٹلی میں رہنے کے بعد ہم یونان چلے گئے۔ وہاں یونانیوں کو تبلیغ کرتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ترکی نے ہم پر آٹھ سو سال حکومت کی ہے لیکن اسلام کے جو محاسن آپ ہمیں بتاتے ہیں، اُن سے ہمیں روشناس نہیں کرایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس طویل سفر کے دوران میری بارہا حفاظت فرمائی۔ ایک بار اٹلی میں اپنے خیمہ میں جب مَیں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا تو ایک پاگل کتا خیمہ میں آگیا لیکن مجھے تین فٹ سے سونگھ کر واپس چلا گیا۔ باہر لوگ اُس کا پیچھا کر رہے تھے جنہوں نے اُسے مار دیا۔
اٹلی میں ہی ایک روز برفباری میں ہماری گاڑیاں پھنس گئیں۔ ہم ڈیرے سے دو تین میل دُور تھے۔ رات یونہی گزرتی تو موت یقینی تھی۔ مَیں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلا۔ اندھیرا اور برف کی وجہ سے کچھ علم نہیں تھا کہ کدھر جانا ہے۔ آخر مَیں نے دعا شروع کی۔ دعا ختم کی تو ایک جیپ ہمارے پاس آکر رُکی جو ہماری ہی تلاش میں نکلی تھی۔
آنحضرتﷺ کی حدیث ہے کہ سورۃ کہف کی پہلی و آخری دس آیات پڑھ لیا کرو تو دجال کے فتنہ سے محفوظ رہو گے۔ مَیں روزانہ ان آیات کی تلاوت کرتا۔ ایک بار لیبیا میں قیام کے دوران مَیں چلتی ہوئی گاڑی سے گرا تو وہ گاڑی موڑ کاٹ رہی تھی۔ اُس کے پچھلے دو پہئے میرے ٹخنوں پر سے گزر گئے۔ نیچے چٹان اور لکڑیاں ٹوٹ گئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے میری ٹانگوں کو محفوظ رکھا۔
پھر ہماری یونٹ یونان سے کراچی اور پھر جالندھر پہنچی جہاں مجھے فارغ کردیا گیا۔ پھر مَیں قادیان میں حفاظت مرکز کی ڈیوٹیاں دیتا رہا اور بعد میں بطور درویش خدمت کی توفیق پائی۔ بعد میں بطور ناظم جائیداد و تعمیرات، آڈیٹر، محاسب، سیکرٹری بہشتی مقبرہ کے علاوہ مختلف نظارتوں میں مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق بھی پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں