دعا اور صدقات کے نتیجہ میں حفاظت الٰہی کے دلچسپ واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اپریل 2007ء میں مکرم فضل الٰہی انوری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں ایسے دلچسپ واقعات پیش کئے ہیں جن میں دعا اور صدقہ کے نتیجہ میں مصائب ٹل گئے اور اللہ تعالیٰ کی غیرمعمولی حفاظت میسر آگئی۔
آسمان سے کسی انذاری خبر کا ملنا اور دعا و صدقہ سے اس بلا کا ٹل جانا ایک اٹل حقیقت ہے۔
٭ چنانچہ ایک احمدی خاتون رابعہ مفتی صاحبہ کو اپنی بچی کے بارہ میں ایک انذاری خبر ملی تو انہوں نے دعا اور صدقہ کے ساتھ آنے والے ضرر سے بچنے کیلئے آنحضورﷺ کے بیان فرمودہ روحانی نسخے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ 1972ء میں میری لڑکی محمودہ کو اپنی دو سالہ بچی کے ہمراہ کراچی واپس جانا تھا۔ میں نے اس کی روانگی سے دوتین ہفتہ قبل استخارہ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران خواب میں دیکھا کہ مَیں محمودہ سے کہہ رہی ہوں: ’’اپنے شوہر کی کمائی سے صدقہ دے دو، خواہ چھ پیسے ہی ہوں‘‘۔بعد میں چھ کی نسبت سے مَیں نے چھ روپے صدقہ اس سے دلوایا۔ چند دن بعد ایک اَور خواب دیکھی کہ ویران سی جگہ پر محمودہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ریل کی پٹڑی کے کنارے کسی قدر اونچائی پر بیٹھی ہو ،اس کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں، جیسے ابھی بیہوش ہو جائے گی۔ اتنے میں کوئی شخص اسے آواز دیتا ہے،اس نے ہاتھوں میں سعدیہ کو پکڑا ہوا ہے اور کہتا ہے ،’لو! اس کو لے لو‘۔ اُس وقت مَیں دل میں خیال کرتی ہوں کہ یہ آدمی بچی اسے اس لئے دکھا رہا ہے کہ کہیں یہ بیہوش نہ ہو جائے۔ یہ نظارہ پہلے والی رؤیا کے مقابلہ میں زیادہ تفصیلی اور واضح طور پر کسی انذار پر مشتمل تھاجس میں ریل کی پٹڑی کا دیکھنا بتا رہا تھا کہ کوئی ایسی منذر خبر ہے جس کا تعلق ریل گاڑی سے ہوگا۔ بہرحال لاہور سے 5؍اگست کو ’تیز رو‘ پر محمودہ سوار ہو کر کراچی کے لئے روانہ ہو گئی تو 6؍اگست کی صبح کو لیاقت ؔپور سٹیشن کے قریب اس کی گاڑی کا سامنے سے آنے والی مال گاڑی سے ٹکراؤ ہو گیا۔ حادثہ اتنا شدید تھا کہ سینکڑوں مسافر مارے گئے یا شدید زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ تباہی انجن کے پیچھے والے چار ڈبوں کی ہوئی جو آپس میں ایک دوسرے کے اندر دھنس گئے اور ان میں موجود مسافر بری طرح کچلے گئے۔ محمودہ بھی انجن کے بالکل پیچھے والے ڈبہ میں بیٹھی تھی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹکراؤ کے نتیجے میں گاڑی کا انجن ،مال گاڑی کے اوپر چڑھ گیا اور محمودہ والا ڈبہ انجن کے اوپر چڑھ گیا اوراس طرح کچلے جانے سے کلیۃً محفوظ رہا۔حادثہ کے وقت محمودہ اور اس کی بچی اوپر کی سیٹ پر سو رہی تھیں۔ دونوں سیٹ سے نیچے گر پڑیں۔ جب محمودہ کے حواس درست ہوئے تو گھبراہٹ اور اندھیرے میں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ وہ اپنی بچی کے لئے چیخ رہی تھی کہ ایک مسافر لڑکی، سعدیہ کو ہاتھوں میں اٹھائے آگے بڑھی اور کہا ’دیکھو، باجی! یہ آپ کی بچی ہے؟‘ اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ماں اور بچی دونوں میں سے کسی کو کوئی چوٹ تک نہ آئی تھی۔ پھر ایک سپیشل ٹرین کے ذریعے بچنے والے مسافروں کو کراچی پہنچایا گیا۔ جب اخبار میں حادثہ کی خبر پڑھی اور یہ بھی کہ اگلے ڈبوں میں سے کوئی مسافر بھی نہیں بچا تو جب تک کراچی سے اطلاع نہیں آئی، یہ 20گھنٹے کا عرصہ جس کرب اور اضطراب میں گزرا،اس کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ تسلی تھی تو صرف یہ کہ دونوں بچیوں کو خواب میں زندہ سلامت دیکھا تھا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق آتا ہے کہ آپؑ اکثر سفر سے پہلے استخارہ کر لینے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے آپ سے اپنے کسی سفر کے متعلق رائے لینا چاہی تو آپ نے فرمایا:’’آپ استخارہ کر لیں‘‘۔
اسی طرح فرماتے ہیں: ’’آجکل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے۔ حالانکہ آنحضرتﷺ پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا … اصل میں یہ استخارہ ان بدرسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے۔ … استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
فرمایا:’’اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔اول رکعت میں سورۃ الکافرون پڑھ لے اور دوسری میں سورۃ الاخلاص اور التحیات میں یہ دعا کرے۔‘‘ (جو دعا آپ نے بتائی ،وہ دعائے استخارہ ہی کا اردو ترجمہ ہے۔ یعنی فرمایا کہ اگر عربی میں دعا نہ آتی ہو تو اردو میں ترجمہ یاد کرلے اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے پڑھ لے)۔
٭ ایک احمدی بہن آنسہ نصیرہ ملک صاحبہ بنت ملک سعید احمد صاحب اعجاز (گلشن اقبال،کراچی) بیان کرتی ہیں کہ میری بڑی ہمشیرہ نے 1974ء میں اپنے شوہر کے پاس واپس انگلستان جانا تھا۔ اُس کی روانگی سے ایک روز قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ عجیب سا چٹیل میدان ہے جس میں چند ایک مٹی کے ڈھیلے بھی پڑے ہیں۔ جگہ جگہ لوگ ٹولیوں میں کھڑے ہیں، کچھ زمین پر بیٹھے ہیں۔ میری بہن ایک بچے کی انگلی پکڑے چل رہی ہے کہ اچانک ایک مٹی کے ٹیلے میں دھنس گئی ہے۔ مَیں چونک کر بھاگتی ہوں اور ہاتھوں سے اس مٹی کے ٹیلے کو کھودنے لگتی ہوں اور ساتھ چلّا چلّا کر لوگوں کو بھی پکارتی ہوں۔ اتنے میں ہاتھوں سے مٹی ہٹا کر مَیں اس بچے کو باہر نکال لیتی ہوں۔اندر سے میری بہن کی آواز آتی ہے: ’بچاؤ، بچاؤ‘۔ اسی حالت میں میری آنکھ کھل جاتی ہے اور ساتھ یہ اطمینان بھی ہوجاتا ہے کہ میری بہن کوبچالیا گیا ہے۔ یہ خواب خدائی انذار پر محمول کرتے ہوئے مَیں نے کچھ صدقہ کر دیا۔ اگلے روز میری بہن انگلینڈ کیلئے روانہ ہو گئی۔ وہاں سے پندرہ بیس روز بعد اس کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ جب جہاز دمشق کے ہوائی اڈے پر اتر رہا تھا تو ’رن۔وے ‘ کے اوپر دوڑتے ہوئے وہ اچانک کچی زمین پر چلا گیا اور ایک مٹی کے ٹیلے میں دھنس گیا۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ تمام مسافر معجزانہ طور پر سلامت رہے۔
٭ حفاظت سماوی کا ایک نرالا واقعہ متحدہ ہندوستان میں دو درویشان احمدیت کو اُس وقت پیش آیا جب وہ دعوت الی اللہ کی غرض سے ضلع ہوشیار پور کے ایک رئیس کے پاس گئے۔ چنانچہ مکرم ٹھیکیدار غلام رسول صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مکیریاؔں ضلع ہوشیارپور میں دعوت الی اللہ کا مرکز کھولااور احباب جماعت کو چند ماہ کا وقف کر کے وہاں جانے کا ارشاد فرمایا تو خاکسار نے بھی وقف کیا۔ ایک دن ہمارے امیر وفد سید محمد حسین شاہ صاحب نے ہمیں موضع بھنگالہ رائے جانے کے لئے کہا۔ چنانچہ میں اور مولوی امام الدین صاحبؓ اکٹھے روانہ ہوگئے۔ بھنگالہ رائے کے قریب ہمیں ایک خُسرا ملا جس نے بتایا کہ کل اسی جگہ تمہارے امیر کو لوگوں نے مارا ہے، ان کے منہ پر گند ملا ہے اور ان کے کپڑے خراب کئے ہیں۔ یہ سن کر ہم سیدھے وہاں کے رئیس (جو رائے صاحب کہلاتے تھے) کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ وہ سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔ ہم نے اُسے السلام علیکم کہا جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر جونہی ہم نے کہا : رائے صاحب ! ہم کوئی سوال کرنے نہیں آئے، ایک پیغام لے کر آئے ہیں۔ اگر آپ دو منٹ کے لئے ہماری بات سن لیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی، تو ہماری اتنی سی بات پر وہ غصے میں کہنے لگا: یہاں سے نکل جاؤ، دوڑ جاؤ۔ مَیں نے کہا: رائے صاحب! ہم نے نکلنا تو ہے ہی، لیکن آپ ہماری بات تو سن لیں۔ اِس پراُس نے اپنے ایک نوکر کو آواز دی اور کہا کہ ان لوگوں کو دھکے مار کر یہاں سے نکال دو۔ منشی صاحبؓ کہنے لگے، چلو، واپس چلیں۔ مگر مَیں نے کہا جوکچھ یہ کرنا چاہتے ہیں پہلے وہ تو کر لیں پھر ہم واپس بھی چلے جائیں گے۔ ابھی ہم کھڑے ہی تھے کہ ان کا ایک اَور نوکر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میاں صاحب! یہاں سے چلے جاؤ۔ ہم اس نوکر سے بات کرہی رہے تھے کہ رائے صاحب نے اسی نوکر کو گالی دے کر کہا کہ اگر یہ نہیں نکلتے تو شکاری کتّے ان پر چھوڑ دو۔ نوکر اپنے مالک کے تیور دیکھ چکا تھا ،وہ اندر گیا اور جا کر کتّوں کو چھوڑ دیا۔ کتّے ہمارے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے، انہوں نے ہماری طرف دیکھا تک نہیں۔ اب مَیں نے منشی صاحبؓ کو کہا کہ اب ہمارا کام ہو گیا ہے، اب ہم واپس چلتے ہیں۔ شام کو جب ہم واپس اپنے مرکز میں پہنچے اور اپنی رپورٹ لکھوائی تو ہم نے شاہ صاحب سے دریافت کیا کہ سنا ہے کہ کل آپ کو لوگوں نے مارا بھی ہے اور کپڑے بھی پھاڑے ہیں اور آج آپ نے ہمیں وہاں بھیج دیا۔ شاہ صاحب فرمانے لگے: ’’مَیں نے اسی لئے تو آپ کو وہاں بھیجا تھا کہ آپ بھی اتنے بڑے ثواب سے محروم نہ رہیں‘‘۔ جب ہم اپنا وقف پورا کرکے واپس قادیان آئے تو حضور نے خاص طور پر مجھے قصرخلافت میں بُلاکر یہ واقعہ زبانی سنا۔ پھر اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ عطا فرمایا۔
٭ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب اسلام آباد (پاکستان) میں (1977-78ء میں) خاکسار بطور مربی مقیم تھا تو مرکز سے حکم کے مطابق مجھے بعض ممالک کے سفراء سے ملنا تھا۔ ایک دن مجھے ایک سفارتخانہ کا بورڈ نظر آیا۔ باہر کا گیٹ کھلا تھا، مَیں بے دھڑک اندر چلا گیا۔ چند قدموں کے فاصلے پر دو کتّے بیٹھے تھے۔ مَیں حیران ہوا کہ سفارتخانے میں کتوں کا کیا کام۔ کتّے بھی مجھے دیکھ کر کچھ عجیب سی آوازیں نکالنے لگے ، تاہم ان میں سے کوئی بھی نہ بھونکا، نہ میری طرف بڑھا۔ بنگلے کی گھنٹی بجائی تو ایک غیر ملکی خاتون نکلی۔ پہلے تو وہ یہ دیکھ کر کے حیران ہوئی کہ ایک اجنبی یہاں کیسے آگیا۔ دوسرے یہ کہ مَیں کتّوں سے بچ کر کیسے نکل آیا۔ دراصل یہ سفارتخانہ نہیں تھا، بلکہ سفیر کی جائے رہائش تھی۔ مَیں نے آمد کا مقصد بتایا تو اُس نے مجھے سفارتخانے کا پتہ بتایا اور مجھے بڑے گیٹ تک خود چھوڑنے آئی اور بولی: You are lucky, my dogs have done you no harm.
مَیں نے جب پوچھا کہ کیا کتّے بندھے ہوئے نہیں تھے تو وہ کہنے لگی، یہی بات تو مجھے حیران کر رہی ہے۔ ہم کتوں کو اپنی حفاظت کے خیال سے دن کو بھی کھلا رکھتے ہیں، کیونکہ یہاں کسی اجنبی کا کام ہی نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں