دورِ اولیٰ اور دور ِآخرین کے دو عظیم الشان وجود – حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29؍جنوری 2021ء)

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مارچ اپریل اور مئی جون 2013ء میں جلسہ سالانہ قادیان 2012ء کے موقع پر مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کی تقریر شائع ہوئی ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ

حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہؓ کے مناقب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ کے فیضِ صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا۔ اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس کی شہادت دی اور کہا

اللہ اللہ فی اصحابی۔

گویا بشریت کا چولہ اُتار کر مظہراللہ ہوگئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو

یَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ (التحریم: 7)

کے مصداق ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہؓ کی ہو گئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دُور ہو گئے تھے۔ ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں۔نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 595)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ عشرہ مبشرہ یعنی اُن دس صحابہ میں شامل ہیں جن کو آنحضورﷺ نے نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے دس سال بعد ہوئی۔ گویا آپؓ حضورﷺ سے دس سال چھوٹے تھے۔ کفروشرک اور فسق و فجور کے ماحول میں آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ صالحہ عطا کی تھی۔ چنانچہ آپؓ نے زمانہ جاہلیت میں بھی شراب کو منہ نہ لگایا تھا۔ آپؓ تیس برس کے تھے جب آنحضورﷺ نے دعویٰ نبوت فرمایا۔ آپؓ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور گھر میں ہر طرح کی راحت میسر تھی لیکن آپؓ تمام نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تبلیغ سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ آپؓ ابتدائی آٹھ مسلمانوں میں سے تھے۔ چنانچہ آپؓ بھی کفّار مکہ کے جوروستم کا ہدف بن گئے۔ سنہ5 نبوی میں آنحضورؐ نے مظلوم صحابہؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کی تلقین فرمائی تو آپؓ بھی دس مردوں اور چار خواتین کے ہمراہ حبشہ چلے گئے۔ اس وقت آپؓ کی دو بیویاں اور بچے موجود تھے لیکن آپؓ تنہا گئے اور اہل و عیال کو اللہ کے بھروسے پر مکہ ہی میں چھوڑا۔ کچھ عرصے بعد واپس آئے تو ایک مرتبہ پھر مشرکین کے مظالم کا نشانہ بننے لگے چنانچہ 6 نبوی میں دوبارہ حبشہ کی راہ لی اور کئی سال غریب الوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔
جب آپؓ نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت سعد بن ربیعؓ انصاری کے ساتھ رسولِ خدا ﷺ نے آپ کی مؤاخات قائم فرمائی۔ اس موقع پرایثار کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا جب حضرت سعد ؓنے فرمایا کہ آنحضورﷺ نے آپ کو میرا اسلامی بھائی بنایا ہے میرا نصف مال آپ کا ہے۔ میری دو بیویاں ہیں۔ آپ ان میں سے جس کو پسند فرمائیں مَیں اُسے طلاق دے دوں۔ عدت کے بعد آپ اس سے نکاح کرلینا۔ گو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ضرورتمند بھی تھے اور مہاجر ہوکر تشریف لائے تھے لیکن آپؓ کی بے نیاز اور غیور طبیعت نے اس پیشکش کو ہرگز پسند نہ کیا اور کہا بھائی! اللہ آپ کو یہ سب مبارک فرمائے۔ کیا یہاں کوئی بازار ہے جہاں کاروبارہوتا ہو۔ سعدؓ نے بتایا: بازار قینقاع۔ کہا: صبح ہو تو مجھے بازار کا رستہ دکھا دیجیے۔ چنانچہ آپ اگلے دن بازار تشریف لے گئے اور معمولی پونجی سے تجارت شروع کردی۔ پہلے ہی دن کچھ گھی اور پنیر نفع میں کما لائے۔ اور پھر تو خدا تعالیٰ کو اس عظیم انسان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آپؓ خود بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میری تجارت میں ایسی برکت رکھی تھی کہ اگر میں زمین سے پتھر اٹھاتا تو مجھے اُمید ہوتی کہ اس کے نیچے سے سونا چاندی نکلے گا۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کو سرکارِ دوعالم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ آپؓ تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی خود آپؓ کی روایت ہے کہ ہم پانچ یا چار آدمی آپؐ سے جدا نہ ہوتے تھے تا کہ کسی وقت آپؐ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اس کو پورا کرسکیں۔ اُحد کے موقع پر جب دشمن کے اچانک حملے سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے توآپؓ اُس وقت بھی ثابت قدم رہے۔ اس روز آپؓ کو انیس زخم آئے، سامنے کے دودانت بھی شہید ہوئے اور پاؤں میں تو ایسا زخم آیا کہ آپؓ بعد میں بھی لنگڑا کر چلتے تھے۔
شعبان چھ ہجری میں آنحضورﷺ نے آپؓ کی قیادت میں سات سو آدمیوں کو دومۃ الجندل کی طرف بھیجا۔ اس موقع پر آنحضورﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے کالی پگڑی آپؓ کے سر پر باندھی جس کا شملہ آپؓ کے کندھوں کے درمیان رکھا اورفرمایا: عبدالرحمٰن عمامہ اس طرح باندھا کرو کیونکہ یہ عمدہ اور پسندیدہ طریقہ ہے۔
اسی موقع پر حضور ؐ نے آپ کو مخاطب کرکے جنگی مہمات میں انسانی حقوق کے چارٹر کی بنیادی ہدایات عطا فرمائیں جو آج بھی تابندہ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کسی کو دھوکا نہ دینا، فریب نہ کرنا، بچوں کو نہ مارنا، بدعہدی نہ کرنا۔
آپؓ نے ایک روز اپنے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے ابن عوف! تم غنی لوگوں میں سے ہو اور تم رینگتے ہوئے جنت میں داخل ہو گے لہٰذا اللہ کی راہ میں خرچ کرو تمہارے قدم کھول دیے جائیں گے۔ آپؓ نے عرض کیا یارسول اللہ!راہِ خدا میں کیا خرچ کروں؟ فرمایا: جو موجود ہے خرچ کردو۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا سارا؟ فرمایا ہاں۔ حضرت عبدالرحمٰن یہ ارادہ کرکے باہر نکلے کہ سارا مال خدا کی راہ میں دے دوں گا۔ تھوڑی دیر بعد حضورؐ نے انہیں بلوا بھیجا اور فرمایا: ابھی جبرئیل نے کہا ہے کہ عبدالرحمٰن کو کہو، مہمان نوازی کرے۔ مسکین کو کھانا کھلائے۔ سوالی کو دے اور دوسروں کی نسبت رشتہ داروں پر پہلے خرچ کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا مال پاک ہو جائے گا۔
جب سے آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ نصیحت بھرے کلمات سُنے تھے آپ اپنے ربّ کو قرضِ حسنہ دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس کو کئی گنا بڑھاتا رہا۔ ایک بار مدینہ میں قحط تھا تو آپؓ کا سات سو اونٹوں کا تجارتی قافلہ آیا جس پر گندم، آٹا اور کھانے کی اشیاء لدی ہوئی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کو علم ہوا تو فرمایا کہ حضور ﷺ سے مَیں نے سُنا ہے کہ عبدالرحمٰن جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوگا۔ یہ بات جب آپؓ تک پہنچی تو حاضر ہو کر کہا: اے امّ المومنین! میں آپ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ یہ سارا غلّہ، یہ سب باردانہ حتی کہ اونٹوں کے پالان تک میں نے راہِ خدا میں دے دیے۔
آپؓ کا انفاق فی سبیل اللہ بہت بڑھا ہوا تھا۔ آپؓ مال ودولت کے اعتبار سے ہی غنی نہ تھے بلکہ دل کے غنی تھے۔سورۃ توبہ نازل ہوئی جس میں صدقہ و خیرات کی ترغیب دلائی گئی تو آپؓ نے اپنا نصف مال پیش کردیا۔ دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار پیش کیے۔جہاد کے لیے ضرورت پیش آئی تو پندرہ سو اونٹ اور پانچ سو گھوڑے نذر کیے۔ غزوہ تبوک میں بھاری مقدار میں چاندی پیش کی۔ راہ خدا میں ایک ایک دن میں تیس غلام بھی آزاد کیے۔
آپؓ کے ایک منفرد اعزاز میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سوا آپ کا کوئی شریک نہیں۔ حضور ﷺ ایک سفر میں تھے۔ آپ ؐکسی کام کے سلسلہ میں تشریف لے گئے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ لوگوں نے حضر ت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی اقتدا میں نماز شروع کردی۔ حضوؐر تشریف لائے تو آپؐ کو ایک رکعت ملی۔ نماز سے فارغ ہوکر حضوؐر نے فرمایا: تم نے اچھا کیا۔ تم نے ٹھیک کیا۔اور فرمایا: ہر نبی اپنی زندگی میں امّت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز ضرور پڑھتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: عبدالرحمٰن بن عوف مسلمانوں کے سرداروں میں سے سردار ہیں۔ وہ آسمان میں بھی امین ہیں اور زمین میں بھی۔
فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر حضرت خالد بن ولید ؓ نے کسی بات پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو سختی سے جواب دیا۔ یہ بات آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا: میرے اصحاب کو چھوڑ دو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونابھی خرچ کرے تو اُن کے معمولی خرچ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
حضرت مسیح موعودؑ کے عربی کلام کا ترجمہ ہے: بلا شبہ تمام صحابہ سورج کی مانند ہیں۔ انہوں نے اپنی روشنی سے مخلوق کا چہرہ منور کیا۔ وہ سب معزز اور بزرگ لوگ ہیں۔ ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ وہ خیرالرسل ﷺ کے لیے بمنزلہ اعضاء کے تھے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نہایت رقیق القلب تھے۔ کبھی پُر تکلف کھاناسامنے آتا تو چشمِ پُر آب ہو کر فرماتے: رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اہل و عیال کو تمام عمر پیٹ بھر کرجَو کی روٹی بھی نہ ملی۔ ایک روز افطاری کے وقت انواع و اقسام کے کھانے جب دسترخوان کی زینت بنے تو آپؓ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا تو رقّت طاری ہو گئی اور یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اُٹھا لیے کہ مصعب بن عمیر اُحد میں شہید ہوئے، وہ ہم سے بہتر تھے،اُن کی چادر کا ہی کفن پہنایا گیا۔ اگر پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے۔ حمزہ شہید ہوئے۔ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے لیکن مالی فراخی اور دنیاوی آسائش ہمیں عطا کی گئی۔مجھے ڈر ہے کہ ہمارے نیک اعمال کا بدلہ آخرت کی بجائے دنیا میں ہی نہ دے دیا گیا ہو۔ پھر رونا شروع کردیا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
حضرت نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد آپؓ حضرت ابو بکرؓ صدیق کے ہاتھ پر اوّلین بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔ آپؓ کے علم و فضل کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ ان بزرگوں میں سے تھے جوعہدِ رسالت میں فتویٰ دیتے تھے۔ آپؓ کی معاملہ فہمی اور اصابتِ رائے سب کے نزدیک مسلم ہے اور یہی وجہ تھی کہ خلفائے وقت نے بھی آپؓ کو اپنا مشیر بنائے رکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی آخری بیماری میں آپ ہی کو بُلاکر اپنے جانشین کے بارہ میں مشورہ کیا۔
حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو کئی معاملات میں آخری فیصلہ آپؓ ہی کی رائے کے مطابق ہوا۔ خاص طور پر عراق پر فوج کشی کا فیصلہ، جس میں عام رائے کے مطابق حضرت عمرؓ نے خود جانے کا فیصلہ کیا لیکن حضرت عبدالرحمٰنؓ نے نہایت احترام کے ساتھ عرض کیا کہ آج سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ کے سوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا ہے اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا کروں گا۔ مگر آج مَیں کہتا ہوں کہ اے وہ خلیفہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں!اس معاملے کا آخری تصفیہ آپ مجھ پر چھوڑ یں۔ اے امیرالمومنین! آپ یہیں ٹھہریے اور ایک لشکرجرار کو روانہ فرما دیں۔ شروع سے لے کر اب تک آپ دیکھ چکے ہیں کہ آپؓ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے۔اگر آپؓ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپؓ کی شکست کے مانند نہ ہو گی۔ اگر آغازکار میں آپؓ شہید ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ مسلمان پھر کبھی تکبیر پڑھ سکیں گے اور نہ

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ

کی شہادت دے سکیں گے۔
آپؓ کی رائے ایسی پختہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اپنا فیصلہ بدل دیا اورپھر آپ کے ہی مشورہ سے اس مہتم بالشان مہم کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سپرد فرمائی۔
جب ابو لؤلؤ کے خنجر سے حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو انہوں نے آپؓ کو ہی اپنی جگہ نماز کی امامت کے لیے کھڑا کیا۔ اور پھر حضرت عمرؓ نے جن چھ افراد پر مشتمل کمیٹی انتخابِ خلافت کے لیے مقرر فرمائی، آپؓ اس کے فیصلہ کُن ممبر تھے۔ آپؓ کے عظیم الشان کردار، ایثار، غیر معمولی فراست اور دوراندیشی نے انتخاب خلافت کا معاملہ بطریق احسن حل کر دیا۔
حضرت عثمانؓ جب نکسیر پھوٹنے کی وجہ سے حج کو تشریف نہ لے جاسکے تو آپ کو امیرالحجاج مقرر فرمایا۔
حضرت عبدالرحمٰنؓ کی روایت کردہ احادیث میں سے ’مجوسیوں سے جزیہ روا ہے‘۔ ’شرابی کی سزا اسّی دُرّے‘ اور ’طاعون زدہ جگہ سے نہ بھاگنا چاہیے اور نہ وہاں جانا چاہیے‘ سے متعلق حدیثیں فقہ میں ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اپنی عفت اور پاک دامنی کے باعث آپؓ کو ازواجِ مطہرات کی حفاظت و خدمت کی توفیق ملی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری ازواج کا خیال رکھنے والا

’’الصادق البار‘‘

یعنی نیک اور سچا باوفا ہوگا۔
آپؓ نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے۔ نوافل سے خاص شغف تھا۔ نماز ظہر سے قبل لمبے نوافل ادا کرتے اور اذان کی آواز سُن کر مسجد روانہ ہوتے۔
وفات سے کچھ وقت پہلے آپ پر غنودگی طاری ہوئی۔ ہوش میں آئے تو فرمایا دو فرشتے میرے پاس آئے۔ اُن میں مجھے کچھ سختی معلوم ہوئی۔ پھر دو اَور آئے اُن میں مجھے نرمی معلوم ہوتی تھی۔ انہوں نے ان سے کہا اسے کہاں لیے جاتے ہو۔ پہلے فرشتوں نے کہا العزیز الامین کے پاس۔ انہوں نے کہا اسے چھوڑ دو۔ یہ تو اُن میں سے ہیں جن کی ولادت سے بھی پہلے اُن کے لیے سعادت مقدر کی گئی تھی۔
اسلام کا یہ بطلِ جلیل پچھتر سال کی عمر میں اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوا تو حضرت عثمان غنیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
آپؓ نے اپنی وفات پر عظیم ترکہ چھوڑا۔ورثہ میں اتنا سونا چھوڑا کہ اس کو تقسیم کرنے کے لیے کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ اس میں زندہ بدری صحابہ میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینا ر دینے کی وصیت کی۔ حتی کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی دولت و ثروت کے باوجود اپنا حصہ یہ کہتے ہوئے وصول کیا: عبدالرحمٰن کا مال حلال اور صاف ہے اور اس کا ایک لقمہ بھی باعث برکت و عافیت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں