دور خلافت خامسہ میں الٰہی تائیدات

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری2023ء)
(یہ مضمون سالانہ مقابلہ مقالہ نویسی 2022ء کے تحت اوّل قرار پایا)

(نعیم احمد شیخ۔ ہیورنگ)

خلافت حقہ کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ الٰہی تائیدات ہوا کرتی ہیں جو مومنوں کی جماعت کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔ زیر نظر عنوان میں ’’دَورِ خلافت خامسہ‘‘سے مراد حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح ا لخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا دَورِ خلافت ہے جو 22 ؍اپریل 2003سے شروع ہوا۔
’’تائیدات‘‘، تائید کی جمع ہے۔’’تائید‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی درج ذیل ہیں: 1۔ (اَیَّدَہُ) قوَّاہُ۔ (تاَیَّدَ) تقوَّی (اقرب المو ارد)
اَیَّدَہٗ تَائِیْداً و آیَدَہٗ موَایَدَۃً: قوی کرنا۔ ثابت کرنا (المنجد)
3۔ طاقت بخشنا۔ استحکام۔ اُستواری۔ مدد۔ معاونت۔ رعایت۔ طرف داری۔ اسسٹنٹ۔ اُمیدوار۔ (فرہنگ آصفیہ)
ان سب لغات میں مشترک معنی قوی کرنے اور طاقت بخشنے کے ہیں۔ اس کے علاوہ حمایت، مدد، تصدیق، توثیق وغیرہ بھی اس کے مترادفات ہیں۔ الٰہی تائید سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوی کیا جانا یا طاقت بخشا جانا ہے۔ جب انسان کمزوری کے باعث کسی کام کو انجام دینے سے عاجز ہو اور خدا تعالیٰ اسے تقویت دے کر کامیاب کر دے تو اس کامیابی سے الٰہی تائید کا اظہار ہوتا ہے۔
مختلف لوگ مختلف باتوں کو الٰہی تائیدات قرار دیتے ہیں اور پھر خلافت خامسہ کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والے بیشمار حالات و واقعات کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں چنانچہ زیر مضمون میں صرف ایسی خاص تائیدات پر توجہ مرکوز کی جائے گی جن کی نظیر مخالفین پیش نہ کرسکیں۔ خلافت خامسہ چونکہ مسیح موعود اور خلافت مسیح موعود کا تسلسل ہے اس لیے اس میں بعض الٰہی تائیدات تو ایسی ہیں جن کا ظہور پہلے ہی ہو چکا تھا مگر خلافت خامسہ میں بھی ان کا تسلسل یا مزید بہتری پائی جاتی ہے ۔ جیسا کہ مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ’’وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘ (رسالہ الوصیت)
بعض ایسی تائیدات ہیں جن کا ظہور پہلی بار خلافت خامسہ میں ہوا ہے۔ پھر بعض تائیدات مسلسل جاری رہنے والی نوعیت کی ہیں اور بعض موقع محل کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی ہیں۔

عالمگیروحدت و الفت باہمی

دور خلافت خامسہ میں جماعت احمدیہ الحمدللہ 200 سے زائد ممالک میں قائم ہوچکی ہے مگر دنیا بھر میں اس کےافراد خلیفہ وقت کے ساتھ ایک بے مثال محبت اور اخوت کے رشتہ سے جڑے ہوئے ہیں۔
خلافت خامسہ کے انتخاب کے فوراً بعد جب احباب جماعت نے آواز سنی کہ حضور فرما رہے ہیں بیٹھ جائیں تو لو گ جہاں جہاں کھڑے تھے وہیں وہیں بیٹھ گئے۔ جو احاطہ سے باہر تھے وہ راستے میں ہی بیٹھ گئے حتٰی کہ ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا کے طول و عرض میں یہ آواز سننے والے بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔
پھر صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر اپنے محبوب خلیفہ کی ایک آواز پر دنیا بھر میں احمدی احباب کھڑے ہوگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے اس منفرد روحانی تجربے کے متعلق فرمایا:
’’گویا خداتعالیٰ نے تمام دنیا میں رہنے والے ہر ملک اور قوم کے احمدی کو ایک ایسے تجربے سے گزارا جو انہیں وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ یہ ایک منفرد اور روحانی تجربہ تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا ایک عظیم اظہار تھاجسے اپنوں نے بھی دیکھا اور محسوس کیا اور غیروں نے بھی دیکھا۔ 27مئی کایہ دن جس میں خلافت احمدیہ کے 100سال پورے ہوئے اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نشان دکھا گیا … پس اس خلافت جوبلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحدت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت کا خاصّہ ہے۔ آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے۔ باقی سب انتشار کا شکار ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2008ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے اس عالمگیر وحدت و الفت باہمی کو تائید الٰہی کا نشان قرار دیتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا: ’’اب ان دُور دراز علاقوں میں مختلف ممالک میں رہنے والے جو احمدی ہیں، مختلف قوموں کے ہیں، نسلوں کے ہیں، خلافت سے تعلق کون پیدا کر رہا ہے، یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہے ورنہ انسانی سوچ اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔… دنیادار اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ جرمنی میں ایک عرب نے بیعت کی تو اس کے واقف کار نے اس سے کہا کہ تم کیا قادیانی ہوگئے ہو؟ اس نو مبائع نے جواب دیا کہ تم لوگ یہاں سوعرب ہو، عرب تھا یہ، تم لوگ کسی بات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ہو۔ جماعت احمدیہ میں ایک امام ہے اور اس کے کہنے پر جماعت اٹھتی اور بیٹھتی ہے اور اسی لیے اس کے کاموں میں برکت ہے۔ تو اب بتاؤ تمہارے میں کیا خوبی ہے جو میں تمہارے ساتھ مل جاؤں اور ان کو چھوڑ دوں۔‘‘ ( خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2022ء)
قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں میں یہ الفت نصرت الٰہی سےپیدا ہوتی ہے چنانچہ سورۃالانفال آیت 64میں فرمایا: اور اگر وہ ارادہ کریں کہ تجھے دھوکہ دیں تو یقیناً اللہ تجھے کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی نصرت کے ذریعہ اور مومنوں کے ذریعہ تیری مددکی۔اور اس نے ان کے دلوں کو آپس میں باندھ دیا۔ اگر تُو وہ سب کچھ خرچ کر دیتا جو زمین میں ہے تب بھی تُو ان کے دلوں کو آپس میں باندھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن یہ اللہ ہی ہے جس نے ان (کے دلوں) کو باہم باندھا۔ وہ یقیناً کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے ۔
حضرت مسیح موعودؑ نےان آیات کی تفسیر یوں بیان کی ہے:
’’ وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسے الفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرچ کرتا تو بھی ایسی الفت پیدا نہ کرسکتا لیکن خدا نے ان میں یہ الفت پیدا کردی وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کرسکتا ہے آئندہ بھی اسی پر توکّل ہے۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر 20 مورخہ 17 اگست 1905 صفحہ 2)
نیز فرمایا:’’اب اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک بنا دے۔‘‘ (چشمہ معرفت-روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76)
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نےمذکورہ بالا آیات کو آیت واعتصموا بحبل اللہ (اٰل عمران104:) کے ساتھ ملا کر درج ذیل مضمون بیان کیا ہے:
’’ تو یہ حقیقت کہ کوئی قوم یا جماعت اس طرح الفت کے اور محبت کے بندھنوں میں باندھی جائے، اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی نعمت ہے جیسے کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اور اس نعمت کو جماعت پر نازل ہوتے ہم نے جلسہ سالانہ پر دیکھا ایک لاکھ کے قریب مردوزن کا اجتماع ہو اور کوئی لڑائی ہو نہ جھگڑا، نہ کوئی شور ہو نہ شرابہ یہ چند دن اس طرح سکون اور محبت کی فضا میں گزرگئے کہ ہمیں تو گزرتے ہوئے پتہ بھی نہ لگا۔‘‘ (خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 458،459)
عالمگیر وحدت کا تائید الٰہی ہونا مندرجہ بالا آیات قرآنیہ سے ثابت ہے اور یہ نشان ایسا ظاہر و باہر ہے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔مخالفین اگر مخالفت میں اندھے ہو کر اس کا انکار بھی کر دیں تو اپنے یہاں اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

چار دانگ عالم میں عزت ، مقبولیت پذیرائی

ایک وقت تھا کہ جب احمدی کسی ملک میں جاتے تو داخل نہ ہونے دیا جاتا یا گرفتار کر لیا جاتا اور اب ایسا وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو گارڈ آف آنر ،شہروں کی چابیاں اور قیمتی تحائف پیش کئے جاتے ہیں۔ بعض حکمران تقریبات کے موقع پر پرچم کشائی کرنے خود آتے ہیں جیسا کہ غانا میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جب لوائے احمدیت بلند کر رہے تھے تو غانا کے صدر بھی اپنے ملک کا جھنڈا بلند کر رہے تھے بالکل اسی طرح کینیڈا کی سب سے بڑی مسجد کے موقع پر حضور کے ساتھ کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھی جھنڈا لہرایا۔ اب احمدیوں کے امام کو دنیا کی اہم پارلیمنٹس اور فورمز سے خطاب کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے 2008 ء میں برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز، 2012ء میں ملٹری ہیڈکوارٹرز کوبلنز جرمنی، کیپٹل ہل امریکہ اور یوروپین پارلیمنٹ برسلز، 2013ء میں ہاؤسز آف پارلیمنٹ لندن، نیوزی لینڈ نیشنل پارلیمنٹ ولنگٹن ، 2015ء میں ڈچ پارلیمنٹ ہیگ اور 2016ء میں کینیڈین پارلیمنٹ میں خطاب کیا۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے مشرق و مغرب، شمال اور جنوب میں کثرت سے سفر اختیار کئے ہیں ۔ آپ کے توسط سے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو چاردانگ عالم میں عزت و مقبولیت میں بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ قرآن شریف میں ہے:’’اور تُو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے‘‘ (اٰل عمران27:)

عزّت و ذِلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں
تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا
کِس طرح سرعت سے شہرت ہو گئی در ہر دیار

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز عزت پانے کو تائیدی نشان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس بغیر کسی خاص کوشش کے اور خرچ کئے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو جب دنیا میں سنا جاتا ہے، آپ کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، آپؑ کے خلفاء کے ساتھ بھی غیر لوگ عزت سے پیش آتے ہیں، آپؑ کی جماعت کی تعریف ہر و ہ شخص جو تعصب سے پاک ہے کرتا ہے تو یہی تائیدی نشانات ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 11؍ جولائی 2008ء)

شدید مخالفت کے باوجود روز افزوں ترقی

جماعت احمدیہ کو ختم کرنے اور اس کی تبلیغ کو بند کرنے کے لیے مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر جماعت احمدیہ کو نئے نئے ذرائع میسر آ رہے ہیں ،اس کی تبلیغ کو دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے اور جماعت احمدیہ ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’جماعت احمدیہ کے سچا ہونے اور نظام خلافت کے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہونے کے لیے یہی دلیل بڑی ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعداد اس وقت باقی تمام فرقوں کی تعداد سے انتہائی کم ہونے کے باوجود اسلام کی خوبصورت تعلیم کی تبلیغ جو ہے وہ جماعت احمدیہ کر رہی ہے اور پھر تبلیغ کے ذریعہ سے یہ تعداد روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ (اختتامی خطاب جلسہ سالانہ آسٹریلیا فرمودہ 11؍اکتوبر 2013ء ، روزنامہ الفضل 19 نومبر 2013ء)

مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ (ایم ٹی اے)

ایم ٹی اے تائید الٰہی کا ایک ایسا نشان ہے جس کا ذکر قدیم پیشگوئیوں میں آسمانی منادی کے طور پر ملتا ہے۔ یہ پہلی بار خلافت رابعہ میں ظہور پذیر ہوا تھا۔ اور اب مزید ترقیات کی طرف گامزن ہے۔ چنانچہ ’وکی پیڈیا‘ کے مطابق یہ دنیا بھر میں ٹیلی کاسٹ کیا جانے والا پہلا اسلامی سیٹلائٹ ٹی وی نیٹ ورک ہے جو 9بین الاقوامی چینلز پر مشتمل ہے اور اسے مکمل طور مسلم احمدیہ جماعت کے عطیات سے چلایا جاتا ہے۔ تائیدالٰہی کا یہ نشان بھی خلافت سے ہی وابستہ ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہ بھی بات واضح ہونی چاہئے کہ اگر خلافت نہ ہوتی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہوتیں نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتا تھا۔ تو یہ جو ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 20 جون تا 26 جون2008 ء)
ایک موقع پر حضورانور نے فرمایا:
’’ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے تمام ممالک میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ رہا ہے۔ پہلے ایک زبان میں تھا اور ایک چینل تھا۔ اس وقت دنیا میں ایم ٹی اے کے آٹھ مختلف چینل کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایم ٹی اے سٹوڈیوز بن گئے ہیں جہاں سے ایم ٹی اے کے پروگرام جاری رہتے ہیں۔ اب ایک جگہ سٹوڈیو نہیں ہر جگہ بن چکے ہیں، ہر جگہ تو نہیں لیکن کئی جگہ افریقہ میں بھی اور نارتھ امریکہ میں بھی اور یورپ میں بھی بن چکے ہیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو دیکھیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ 28؍ مئی 2021ء)

رؤیا و کشوف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’خلافت خامسہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے یہی سلوک ہیں۔ اللہ تعالیٰ تبلیغ کے نئے نئے راستے بھی کھولتا جا رہا ہے اور لوگوں کے دلوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے سننے اور قبول کرنے کی طرف مائل کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو خالص تائیدِ الٰہی کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں ورنہ صرف انسانی کوششوں سے کبھی اس طرح لوگ قبول نہ کریں۔ مَیں چند واقعات بیان کر دیتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو اسلام اور احمدیت کی طرف پھیرنے کے سامان فرمائے اور خلافت احمدیہ کی بھی سچائی جو ہے ان پر کھولی اور کس طرح لوگوں کے دلوں میں خلافت سے محبت پیدا کی۔
گنی بساؤ افریقہ کا ایک دُور دراز کا ملک ہے وہاں عبداللہ صاحب پہلے ایک عیسائی دوست تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے خواب دیکھی کہ ایک شخص ہے جس کی سفید داڑھی ہے اور اس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے اور لوگوں سے خطاب کر رہا ہے اور مکمل خاموشی کے ساتھ لوگ یہ خطاب سن رہے ہیں۔ کہتے ہیںاس شخص کا خطاب کرنے کا انداز بالکل سادہ اور ہمارے لوگوں سے مختلف تھا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کو کچھ سمجھ نہیں آئی پھر وہ بھول گئے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر ان کو دوبارہ اسی طرح سے ملتی جلتی خواب آئی اور اس سے ان کے ذہن میں وہ چہرہ بیٹھ گیا۔ پھر تیسری مرتبہ ان کو خواب آئی اور وہ کوشش کرتے رہے کہ پتہ چلے کہ یہ کون شخص ہے لیکن پتہ نہیں کر سکے۔ ایک دن اتفاق سے گاؤں کے قریبی شہر فرین (Farin) میں واقع ہماری مسجد میں گئے۔ اس دن جمعہ تھا۔ احباب جماعت ایم ٹی اے پر میرا خطبہ جمعہ سن رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں مجھے دیکھ کر انہوںنے فوراً معلم صاحب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جو خطبہ دے رہا ہے؟ انہوں نے کہا یہ ہمارے خلیفہ ہیں۔ بہرحال وہ اس پر خاموشی سے بیٹھے خطبہ سنتے رہے اور خطبہ جمعہ کے بعد احباب کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز ختم ہونے کے فوراً بعد کھڑے ہو گئے اور سب احباب کے سامنے کہنے لگے کہ مَیں آج اسلام قبول کرتا ہوں اور بتانے لگے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تین بار خواب میں یہ شخص دکھایا ہے جس کا میری روح پر بڑا اثر تھا اور مَیں ایک عرصہ سے اس تلاش میں تھا مگر آج اتفاق سے آپ کی مسجد میں آیا ہوں تو آپ کے خلیفہ کو دیکھا ہے۔ وہی چہرہ ہے جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا اور اسی طرح نظارہ تھا جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ لوگ خاموشی سے بیٹھے خطاب سن رہے ہیں اور مَیں اسلام احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔
ایک دور دراز علاقے کے شخص کی اس طرح راہنمائی کہ پہلے خواب میں دیکھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسے سامان بھی کر دیتا ہے کہ اسی طرح کانظارہ بھی نظرآجائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی چاہے راہنمائی فرمائے لیکن اس کے لیے نیک فطرت ہونا بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا بھی ضروری ہے۔ یقیناً انسان کی ، اس شخص کی کوئی نیکی ہو گی جو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کی راہنمائی فرمائی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2022ء)

ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار

قرآن شریف میں تائید الٰہی کی ایک یہ صورت بھی درج ہے کہ مومنوں کی روح القدس کے ساتھ تائید کی جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: تُو کوئی ایسے لوگ نہیں پائے گا جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں، خواہ وہ اُن کے باپ دادا ہوں یا اُن کے بیٹے ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے ہم قبیلہ لوگ ہوں۔ یہی وہ (باغیرت) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ یہی اللہ کا گروہ ہیں۔ خبردار! اللہ ہی کا گروہ ہے جو کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔( المجادلۃ 23)
اس آیت کی تشریح جامع الترمذی میں درج اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ روح القدس سے حسان کی تائید کرتا ہے جب وہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرتا ہے یا تعریف بیان کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرمایا:
’’آنحضرتﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خداتعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ194)
روح القدس یا جبرائیل فرشتوں کا سردار ہے اور جو لوگ خدا سے رہنمائی طلب کرتے ہیں فرشتے رؤیا و کشوف کے ذریعے ان کی رہنمائی کر تے ہیں۔ کوئی بھی دنیاوی طاقت نہ تو لوگوں کورؤیا و کشوف دکھا سکتی ہے اور نہ ہی رؤیا و کشوف کے اس جاری سلسلہ کو بند کرسکتی ہے۔اگرچہ بعض خواب شیطانی بھی ہوتے ہیں مگر وہ اس شان کے نہیں ہوتے کہ جیسے سچے خواب جن میں سچائی کی بہت سی نشانیاں موجود ہوتی ہیں۔ کیا کوئی شخص محض اس وجہ سے اصلی نوٹوں کا انکار کرسکتا ہے کہ بعض نوٹ جعلی بھی ہوتے ہیں۔ اگر کسی کوشیطانی خواب آ جائے تو اللہ کی پناہ طلب کرلے۔ اور پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص اللہ سے رہنمائی مانگے اس کی رہنمائی شیطان کرنے لگے۔

گزشتہ پیشگوئیوں کا خلافت خامسہ میں پورا ہونا

گزشتہ پیشگوئیوں کا دورخلافت خامسہ میں پورا ہونا بھی تائید الٰہی کا عظیم الشان مظہر ہے۔ان کی تعداد اس قدر ہے کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ صرف بطور نمونہ چند ایک درج ذیل ہیں:
٭… شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بادشاہ آیا۔ دوسرے نے کہا: ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ فرمایا قاضی حَکم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کرے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ584)
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ، صاحبزادہ شریف احمد صاحب کے پڑپوتے ہیں اور ان کے منصب خلافت پرمتمکن ہونے سے یہ خواب پورا ہوا۔ واضح رہے کہ رؤیا وکشوف میں کسی شخص کو دیکھنے کی تعبیر اس کی جسمانی یا روحانی اولاد میں ظاہر ہوسکتی ہے۔
٭… اِنِّی مَعَکَ یَامَسْرُوْر۔اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں۔ (تذکرصفحہ630)
یہ الہام بھی حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے خلیفۃ المسیح بننے سے پورا ہوا اور ان کے ساتھ تائید کا وعدہ بھی بار بار کئی صورتوں میں پورا ہو رہا ہے جن میں سے چند زیر نظر مضمون میں بھی شامل ہیں۔

قبولیت دعا، خوارق، معجزات

اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی غیر احمدی دوست یا رشتہ دار سے دعا کے لیے کہیں تو بعض تو یہ جواب دیتے ہیں کہ آجکل کہاں دعا قبول ہوتی ہے اور بعض خاموشی سے ٹال جاتے ہیں۔ مگر احمدی خواہ مرد ہوں ، عورتیں ہوں یا بچے ،کثرت سے ایک دوسرے کودعاؤ ں کی درخواست کرتے دکھائی دیتےہیں جس سے ان کا دعاؤں پر یقین ظاہر ہوتا ہے اگر ان کی دعاؤں میں قبولیت نہ ہو تو پھر یہ یقین قائم ہی نہیں ہو سکتا۔احمدی نہ صرف خود دعائیں کرتے ہیں بلکہ خلیفہ وقت کو بھی دعاؤں کے لیے لکھتے ہیں جس کا ثبوت وہ ڈھیروں ڈھیر دعائیہ خطوط ہیں جو خلیفہ وقت کو روز انہ موصول ہوتے ہیں۔ ہر ایک دعا کی مقبولیت احمدیوں کے یقین کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ قبولیت دعا کے ان گنت واقعات میں سے بطور نمونہ ایک اقتباس پیش ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ناظر دعوت الی اللہ قادیان لکھتے ہیں کہ ضلع ہوشیار پور کے امیر نے بتایا کہ چند سال قبل ان کے گاؤں کھیڑا اچھروال میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں والے بہت پریشان تھے حتی کہ کنوئیں کا پانی بھی نچلی حد تک پہنچ گیا تھا۔ یہاں کی ہندو اکثریت نے وہاں کے معلم کو دعا کرنے کو کہا۔ مشرقی پنجاب میں معلم کو، مولوی کو ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ احمدی معلم کو دعا کے لیے کہیں گے تو ضرور بارش ہو گی۔ بہرحال ہمارے معلم نے پہلے تو ان کو اسلامی دعا کے آداب بتائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتائیں۔ پھر دعا کروائی۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے اس معلّم کی دعا کو قبول فرمایا اور اپنے فضل سے دو تین گھنٹے کے اندر موسلادھار بارش برسا دی اور اپنے سمیع الدعا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس واقعہ کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے گاؤں میں اچھا اثر ہوا اور گاؤں والوں نے برملا کہا کہ احمدیوں کی دعا کی وجہ سے بارش ہوئی۔… وہاب طیب صاحب سوئٹزرلینڈ کے مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جماعت نے زخوِل (Zuchwil) کے علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ خریدی۔ وہاں امن کی علامت کے لیے ایک پودا لگانے کے حوالے سے پروگرام رکھا گیا جس میں دوسرے مہمانوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ جس دن پودا لگانے کا پروگرام تھا اس دن پیشگوئی کے مطابق شدید بارش ہونی تھی۔ چونکہ پروگرام کی ساری کارروائی آؤٹ ڈور (outdoor) تھی اس لیے ان کو بڑی پریشانی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے مجھے بھی لکھا اور ان کے کافی خط آتے رہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ پروگرام والے دن جب وہاں گئے تو پہلے سخت بارش شروع ہو گئی اور بظاہر بارش کے رکنے کے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ مگر پھر دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ابھی پروگرام شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ بارش بالکل رک گئی اور سورج نکل آیا۔ کہتے ہیں کہ پروگرام کے وقت مقامی کونسل کے صدر بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بڑی حیرانی کے ساتھ یہی کہا کہ کیا آپ لوگوں نے اپنے پروگرام کے لیے موسم بھی آرڈر کروایا ہوا ہے؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہم دعا بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے خلیفہ کو بھی دعا کے لیے لکھا اور ہمیں پوری امید تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 26؍ جنوری 2018ء)
قرآن کریم میں قبولیت دعا کے واقعات جابجا مذکور ہیں جو انبیاء اور ان کے متبعین کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے۔ مسیح موعودؑ کے بعد دیگر خلفاء اور اب دور خلافت خامسہ میں بھی اسقدر کثرت سے قبولیت دعا کے معجزات ظاہر ہورہے ہیں کہ جس احمدی سے بات کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں کچھ نہ کچھ قبولیت دعا کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ احمدیہ لٹریچر اور تقاریر میں کثرت سے قبولیت دعا ، خوارق اور معجزات کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ غیر احمدی مذہبی لٹریچر اور تقاریر میں محض ماضی کے قصے بیان ہوتے ہیں۔ یا پھر بعض افرادجعلی پیر اور عامل بن کر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ لوگ حق کی تلاش میں ان کے پاس نہیں جاتے بلکہ اپنی بعض تمنائیں پوری کروانے جاتے ہیں۔

قیامت خیززلزلہ

یکم رمضان المبارک جمعہ7 اکتوبر 2005ء کو جب ضلع منڈی بہاءالدین کے قصبہ مونگ میں روزہ رکھنے کے بعد احمدی فجر کی نماز باجماعت ادا کررہے تھے تو ان پرفائرنگ کی گئی جس سے آٹھ افراد شہید اور انیس زخمی ہوئے۔ اگلے ہی روز پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں ایک زبردست زلزلہ آیا جو وکی پیڈیا کے مطابق جنوبی ایشیا کا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا جس سے 86 ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے اور تقریباً اتنے ہی زخمی اور لکھوکہا بےگھر ہوگئے۔

زلزلہ سے دیکھتا ہُوں مَیں زمیں زیر و زبر
وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے
ہے سرِ رَہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم
نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اوریقیناً ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسولوں کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا۔ پس وہ ان کے پاس کھلے کھلے نشانات لے کر آئے تو ہم نے ان سے جنہوں نے جرم کئے انتقام لیا اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا فرض ٹھہرتا تھا۔ (الروم48)
جب بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صد ہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہوگئے۔ ان کا کیا قصور تھا۔ انہوں نے کونسی تکذیب کی تھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’ سو یاد رہے جب خدا کے کسی مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں جیسا کہ ان قہری نشانوں سے جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے۔ فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا صرف غریب مارے گئے لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اس کے لشکر کے غرق کیا۔ یہ سنت اللہ ہے جس سے کوئی واقف انکار نہیں کرسکتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 166-167)
پاکستان کے 2005 ءکے زلزلہ کے تعلق میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تم اپنے پیدا کرنے والے کو نہیں پہچانو گے اور زمین میں ظلم اور فساد بند نہیں کرو گے تو پھر یہ آفات سامنے ہیں، نظر آ رہی ہیں اور آتی رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو یونہی بستیاں تباہ نہیں کرتا۔ یہ آیت جو مَیں نے پہلے پڑھی تھی اس میں تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے خود بھی اس بات کا بہت سارے مسلمان علماء ذکر کر چکے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور تیرا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو ازراہ ظلم ہلاک کر دے جبکہ ان کے رہنے والے اصلاح کر رہے ہوں۔ پس خاص طور پر مسلمانوں کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس نبی کے ماننے کا دعویٰ ہے کیا اس کی تعلیم اور سنت پر عمل کر رہے ہیں ؟۔ یہ علماء بھی جو اخباروں میں قوم کو توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ ظلم و فساد پیدا نہ کرو خود اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ کہیں ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں۔ بلکہ تضاد ہے، دنیا کو نظر آتا ہے اگر تضاد نہ ہوتا تو امام وقت کو ان کو ماننے کی توفیق ملتی۔‘‘ ( خطبہ جمعہ 27؍ جنوری 2006ء)

سیلاب

28 مئی 2010ء بروز جمعۃالمبارک جب احمدی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے لاہور کی دو مساجد میں جمع ہوئے تو دہشت گردوں نے قتل عام کرکے 86 احمدیوں کو شہید اور متعدد کو شدید زخمی کردیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی روز کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’مخالفین نے جو یہ اجتماعی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا بدلہ لینے پر قادر ہے۔ کس ذریعہ سے اس نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا ہے، کس طرح اس نے ان فساد اور ظلم بجا لانے والوں کو پکڑنا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بار بار للکار رہے ہیں اور ظلم میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عبرت کا نشان بنا دے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہوگا۔‘‘ (خطبہ جمعہ 28؍ مئی 2010ء)
اور اسی سال 26 جولائی کو پاکستان میں ایک زبردست سیلاب آگیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے FAO نے اسے زمانے کی سب سے زیادہ تباہ کن قدرتی آفت قرار دیا۔ اس سیلاب سے جواگست میں بھی جاری رہا ، 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ 1200 سے 2200 تک افراد ہلاک، 16 لاکھ مکان تباہ یا متاثر اور 1کروڑ 40 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اِک عالَم دکھاتی ہے
کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے
کبھی ہو کر وہ پانی اُن پہ اِک طوفان لاتی ہے

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’17یا 18مارچ (1951ء) کی شب کو مجھے یہ الہام ہوا کہ سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھائوں گا۔جس وقت یہ الہام ہو رہا تھا میرے دل میں ساتھ ہی ڈالاجاتا تھا کہ متوازی کا لفظ دونوں طرف کے ساتھ لگتا ہے اور دونوں طرف سے مراد یا تو دریائے سندھ کے دونوں طرف ہیں اور یا ریل یا سڑک کے دونوں طرف ہیں جو کراچی اور پاکستان کے مشرقی علاقوں کو ملاتی ہے… دونوں طرف سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ خدانخواستہ اس سے کسی طوفان کی طرف اشارہ نہ ہو کیونکہ بظاہر دونوں طرف سے ظاہر ہونے والا نشان دریاکی طغیانی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (الفضل 29مارچ1951ء صفحہ 3)
الغرض حقیقت یہ ہے کہ دور خلافت خامسہ میں الٰہی تائیدات مسلسل اور دنیابھر میں ظاہر ہو رہی ہیں لیکن نمونہ کے طور پر صرف چند ایک نشانات اس مضمون میں پیش کئے جاسکے ہیں۔ ہر ایک نشان اس قلیل جماعت اور اس کی استطاعت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر یہ الٰہی تائیدات نہیں تو پھر کیا ہیں۔ اگر یہ نشانات محض انسانی کاوشوں اور مادی وسائل سے ہی ممکن ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مخالفین جن کے پاس افراد اور وسائل جماعت احمدیہ سے کہیں زیادہ ہیں مگر پھر بھی وہ ان نشانات کی نظیرپیش نہیں کرسکتے۔

بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی
خائب و خاسر رہے تم، ہو گیا مَیں کامگار

پس ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ

’’آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 435 ایڈیشن چہارم 2004ء)

• حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ …انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دَور ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔ میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں۔ میں تو ایک عاجز ، ناکارہ ، نااہل ، پُر معصیت انسان ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی۔ لیکن میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دور کو اپنی بےانتہا تائیدو نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔ اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے۔ خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کاقدم آگے سے آگے انشاء اللہ بڑھتا رہے گا۔‘‘
(خطاب 27 مئی 2008۔ الفضل انٹرنیشنل 25 جولائی 2008 صفحہ 11)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں