دو واقفین زندگی بھائیوں اور ان کی بیویوں کا وقف کی راہ میں مثالی کردار

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍جولائی 2010ء میں مکرم میجر (ر) منیر احمد فرخ صاحب کا ایک طویل مضمون شامل اشاعت ہے جس میں آپ نے اپنی والدہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام احمد فرخ صاحب اور اپنی تائی محترمہ امۃ الرفیق صاحبہ
اہلیہ حضرت مولانا غلام حسین ایاز صاحب کے اُس کردار پر روشنی ڈالی ہے جو ایک واقف زندگی کی اہلیہ کے طور پر اُنہوں نے آخری دَم تک نبھایا۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے دادا جان حضرت میاں غلام قادر صاحبؓ موضع تھ غلام نبی (نزد قادیان) کے رہنے والے تھے۔ اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ کے دو بیٹوں (محترم مولانا غلام احمد فرخ صاحب اور اُن کے سب سے بڑے بھائی حضرت مولانا غلام حسین ایاز صاحب) کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی توفیق ملی۔
محترم فرخ صاحب کو پاکستان میں بالخصوص سندھ اور پھر بیرون ملک جزائر فجی میں دعوت الی اللہ کی توفیق ملی۔ جبکہ حضرت ایاز صاحب کو اُن واقفین زندگی میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو تحریک جدید کے تحت 1935ء میں اوّلین مجاہد بن کر بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ 1951ء تک مسلسل 16 سال سنگاپور میں مقیم رہے اور وہاں ایک فدائی جماعت قائم کرنے کی توفیق پائی۔ آپ اُن معدودے چند واقفین زندگی میں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ اپنے فرائض کی بجاآوری کے دوران دیار غیر میں پیش کیا۔ چنانچہ جب 1956ء میں دوبارہ بیرون ملک تشریف لے گئے تو بورنیو میں قیام کے دوران وفات پائی اور حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وہیں تدفین ہوئی۔
میری والدہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اور تائی جان محترمہ امۃ الرفیق صاحبہ انتہائی سادہ و کم گو خواتین تھیں۔ عبادات میں شغف ان کا خاص وصف تھا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح ان کے ورد زبان رہتی۔ کفایت شعاری سے گھر کے اخراجات چلاتیں۔ گو نپاتلا وظیفہ مجبوراً انہیں اس راہ پر گامزن رکھتا لیکن ثواب کی خاطر اور اپنے امام کے حکم کی پیروی میں اپنے خاوندوں کو کبھی بھی اپنی ضروریات کے لئے نہ لکھتیں کہ مبادا وہ مطالبہ ان کے دینی کام کی ادائیگی میں کوئی کشمکش پیدا کردے۔ ہر خواہش کو دبا کر ضبط نفس کا عظیم مظاہرہ ہمیشہ سامنے آیا۔
مَیں اپنی زندگی کے وہ دن اور وہ راتیں کیونکر بھول پاؤں گا جو واقفین زندگی والدین کے سایہ تلے گزارے۔ پُرسکون زندگی کا لطف پھر کبھی نہ ملا۔ بہاریں اب بھی آتی ہیں لیکن وہ دن لَوٹ کر نہیں آتے جہاں ہر دن کی گواہی اور ہر رات کی شہادت حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کی عملی تفسیر تھی۔ ہر دکھ میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور ہر خوشی میں اُس کی یاد کو کبھی نہ بھولنا وہیں سیکھا۔ نماز کی بروقت ادائیگی اور اللہ کی راہ میں حسب توفیق خرچ کرنا ان کی فطرت بن چکی تھی۔ ہر اس شخص سے رشتہ استوار کرنا جس کا حکم خدا نے دیا ہے اور ہر اس شخص سے تعلق توڑنا کہ جس تعلق سے خدا ناراض ہوتا ہے۔ نہ کوئی لالچ، نہ فکر معاش کہ یہ واقفین زندگی ہر خیر کے لئے اللہ کے فقیر تھے۔
میری والدہ کے والد محترم ملک محمد شفیع صاحب مرحوم دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے تھے اور خود تحقیق کرکے احمدیت قبول کی تھی۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں چند سال بطور مختار عام خدمت کی توفیق پائی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور بہشتی مقبرہ میں ان کے نام کا کتبہ لگا ہوا ہے۔ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ سادگی و عاجزی کا پیکر۔ زاہد و عابد اور تہجد گزار احمدی تھے۔
اباجان محترم مولانا غلام احمد فرخ صاحب مرکز کے احکام کی صدق دل سے پیروی کرتے اور بیوی بچوں کو خدا کے سپرد کرکے گھر سے چلے جاتے۔ ہماری والدہ مرحومہ انتہائی عاجزی و انکساری سے ہر سلامتی اور ہر خیروعافیت کے تحفے ان کی جھولی میں ڈال دیتیں اور خداتعالیٰ کی حفاظت و نصرت کی امان میں آپ کو رخصت کرتیں کہ بہترین زاد راہ اگر تقویٰ ہے تو یہی عاجزانہ تحفے واقفین زندگی کا منّ و سلویٰ۔ ہمارے ابّاجان کے جانے کے بعد ہماری والدہ کی عاجزانہ تضرّعات ہمارے گھر کے خلا کو پُر کرتیں۔ صبر و شکر کی نعمت ہر آڑے وقت میں ان کے کام آتی اور خداتعالیٰ نے کبھی بھی ان کو اپنے گھر سے خالی نہیں لوٹایا۔
میری والدہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا زمانہ بہت اچھی طرح دیکھا تھا۔ حضورؓ کے وہ نوٹس جو آپ نے قادیان میں خواتین کے درس قرآن میں لکھوائے تھے گو وہ قادیان سے ہجرت کے وقت وہیں رہ گئے تھے مگر ہمیشہ اس درس کے مندرجات یاد رکھے اور جب بھی موقع ملتا ہمیں سناتی تھیں۔ درثمین اور کلام محمود کی اکثر نظمیں زبانی یاد تھیں جنہیں خوش الحانی سے ورد زبان رکھتیں۔ جلسہ سالانہ کے لئے سال بھر تیاری کرتیں اور جو مہمان ہمارے ہاں ٹھہرتے، خواہش رکھتیں کہ خود تکلیف اٹھاکر ہر مہمان کی ضرورت پوری کریں۔ جلسہ کی کارروائی انہماک سے سنتیں۔ جب کبھی ہمارے اباجان کی تقریر جلسہ سالانہ کے پروگرام میں شامل ہوتی تو بہت خوشی کا اظہار کرتیں۔ اباجان کو مبارکباد دیتیں اور سب کا منہ میٹھا کرواتیں۔
آپ کی نیک اور مجاہدانہ زندگی کو دیکھ کر یہ احقر کہہ سکتا ہے کہ احمدیت نے خدا کے فضل سے مردوں کے شانہ بشانہ خواتین میں بھی یقینا واقفات زندگی پیدا کی ہیں اور آپ ان میں سے ایک تھیں۔ ہمارے اباجان جب بطور مبلغ فجی روانہ ہوئے تو انتہائی عاجزانہ دعاؤں سے انہیں رخصت کیا۔ دیگر عزیز و اقارب جو اس جدائی کی وجہ سے غمگین تھے سب کو ہمت اور حوصلہ کی تلقین کرتی رہیں۔ اباجان جب تک فجی میں مقیم رہے ان کی خیریت، فرائض کی کامیاب ادائیگی اور عافیت سے واپسی کے لئے ہر نماز میں رو رو کر دعائیں کرتیں اور ہمیں بھی تلقین کرتیں کہ دعاؤں میں کبھی کوتاہی نہ کرنا۔ حسب توفیق چندوں کی ادائیگی باقاعدگی سے کرتیں۔ ہمارے اباجان کے ساتھ ہی وصیت کے نظام میں شامل ہو کر ہمیشہ اس کی شرائط کی پاسداری کی۔ وصیت کے چندہ کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ یہ خیال رکھا کہ کوئی بقایا نہ رہ جائے اور دم واپسیں کسی اَور کو بقایا ادا نہ کرنا پڑے۔ خداتعالیٰ نے آپ کی آبرورکھ لی کہ وفات کے بعد آپ کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کے تمام مرحلے یوں طے ہوگئے کہ جیسے اللہ کے فرشتے پیشوائی کے لئے آپ کے منتظر ہوں۔
والدہ محترمہ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل مجلس عاملہ حیدرآباد نے دفتر وصیت کے استفسار پر خاکسار سے والدہ محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل پوچھی۔ احقر نے گھر پہنچ کر یہی سوال آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ سوال سن کر بہت خوش ہوئیں اور فرمایا وہ درد جو عرصہ سے اپنے دل میں چھپایا ہوا تھا آج تمہارے سامنے مجبوراً کھول رہی ہوں۔ اپنی چارپائی سے حضرت اماں جانؓ کی سوانح حیات اٹھا کر لے آئیں اور وہ صفحہ نکال کر دیا کہ جہاں حضرت اماں جانؓ کے وہ پُرشوکت الفاظ درج ہیں جو آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر اپنی مبارک اولاد سے فرمائے تھے: بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اباتمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔
حضرت اماں جانؓ کی سوانح حیات میرے حوالے کرکے یہی اقتباس اونچی آواز میں پڑھنے کے لئے کہا۔ یہ احقر تعمیل ارشاد میں یہ اقتباس پڑھ رہا تھا اور جسم کا رُوآں رُوآں وجد کی حالت میں کانپ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا پر اتنا پختہ یقین کہ جیسے اس کی کفالت کی بارش برس کر رہے گی اور ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو چھوڑ دے۔ جب میں یہ اقتباس پڑھ چکا تو یہی الفاظ بار بار دہرانے لگیں۔ آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ ہم بچے بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ہم اس محفل میں اپنی والدہ کے اثاثوں کو تولنے لگے جو بظاہر تو کہیں نظر نہیں آرہے تھے … درد میں ڈوبی ہوئی آواز جس میں طمانیت تھی اور بشاشت آپ کے آنسوؤں سے تر چہرے پر عجیب رونق بکھیر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ: بس یہی ہے ہر واقف زندگی خاندان کا سرمایہ، اپنے اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے! اسی کا واسطہ دے کر اس سے ہمیشہ مانگنا!۔
1961-62ء میں اباجان کو بحیثیت مربی ضلع حیدرآباد جانے کا حکم ملا۔ وہاں گھر بھی میسر آگیا۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ ہم بچوں کو شفقتِ پدری کا سایہ مل گیا! رشتوں کی پہچان کے خوابیدہ گوشے یوں جاگے کہ ماضی کا دردِ جدائی آنکھوں کے سیلاب میں کئی دن بہتا رہا … گھر کی حالت بہت اچھی نہ تھی … مگر گھر کی طرف دیکھنے کی فرصت کس کو تھی کہ خوشیوں کی انتہا ہمیں مل گئی تھی۔ اباجان کی دم بدم رفاقت اور قربت وہ نعمت تھی کہ جس نے گھر کا خیال دل سے بکلّی محو کردیا تھا … آج سے پہلے ماں کی آغوش ہمیں ممتا کے ساتھ ساتھ شفقتِ پدری سے بھی نوازتی تھی۔ اب رحمت خداوندی جوش میں تھی کہ دونوں وجود ہمارے سروں پر سایہ تانے ہوئے تھے۔… دن میں کئی کئی بار بالعموم اور پنجوقتہ نمازوں میں بالخصوص شکر کے آنسو مجنوں وار بہتے اور یہ دعا لبوں پر جاری رہتی:

رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔

اس موقع پر ہمارے تایا ابو حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز اور تائی امّاں محترمہ امۃالرفیق صاحبہ کے لئے بھی دم بدم دعائیں نکلنے لگیں کہ مسلسل 16 سال تک ان کا گھرانہ اللہ کے فضلوں کو سمیٹتا رہا۔ سالہا سال کی جدائی کے کربناک لمحے کیونکر کٹے! کیسے کٹے؟ … انہی پاکیزہ ہستیوں کی خاک پا ہوکر وہ ہمارے لئے وقف کی عظیم الشان مثال چھوڑ گئے۔
مکان ملنے کی خوشی میں ہم سب عموماً اور والد محترم اور والدہ محترمہ خصوصاً کوئی موقع نہ گنواتے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کریں۔ دیوانوں نے ویرانوں کو اللہ کی مدد کے سہارے یوں آباد کر دیا تھا کہ اس کے فضلوں کی بارش سے نہ صرف جسم سیراب ہوئے بلکہ مکان کی مٹی سے بھی اب خوشبو اٹھتی تھی۔ ایک دفعہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں میں سے کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق اباجان سے درخواست کی کہ مکان کی مرمت کے لئے جماعت والوں سے کہیں۔ سرتاپا وقف کے تقاضوں پر پورا اترنے والے میرے اباجان نے انتہائی محبت سے ہم بہن بھائیوں کو اپنے پاس بٹھایا اور حکمت و دانائی سے واقفین زندگی کے گزراوقات میں سادگی اور بودوباش میں انکساری کو ہمارے سامنے پیش کیا ؎

تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول
تا تم پہ ہو ملائکۂ عرش کا نزول

انہوں نے کہا: ہر خواہش کو دبانا اور ہر مطالبے سے اجتناب برتنا بھی وقف کی زندگی کا نصب العین ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ تم سب میرا سہارا بنو اور … قدم قدم پر زندگی کی تلخیوں کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ کو خوش کرو۔ ہم سب انتہائی نادم ہوئے کہ کیوں آپ کے سامنے ایسی بات کہی جو آپ کے لئے رنج کا باعث بنی۔ چنانچہ اس کے بعد ہم کنایۃً بھی کبھی ایسی کوئی بات زبان پر نہ لائے جس سے آ پ کی دلآزاری ہو۔ ہماری والدہ محترمہ نے بھی اس معاملہ میں ہمارے والد محترم کا پورا پورا ساتھ دیا اور ہماری سرزنش کی کہ کبھی بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر بات نہ کرنا۔ ایسے سادہ طبع والدین کہاں ملتے ہیں جو اپنی عاجزی پر سب کچھ قربان کرکے اللہ کے در کے فقیر بن گئے پر غیر کے آگے جھولی پھیلا کر شرک خفی کا باعث کبھی نہ بنے۔ چنانچہ ابّاجان تقریباً 10 سال یہاں مقیم رہے اور کبھی بھی جماعت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ازخود جماعت نے مکان کی مرمت کی ہو تو اور بات ہے۔ خود کبھی نہ کہا۔
والد محترم 17؍اپریل 1981ء کی رات نو دس بجے گدو ضلع سکھر میں وفات پاگئے اور ٹھیک 17 سال بعد والدہ محترمہ نے 17؍اپریل 1998ء کی رات نو دس بجے حیدرآباد سندھ میں وفات پائی۔
والد محترم کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش تڑپتی رہی کہ زندگی کی ہر سانس خداتعالیٰ کی راہ میں صرف ہو اور میری زندگی وقف کا کام کرتے ہوئے تمام ہو۔ وفات سے قریباً ایک سال قبل ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر جاتے ہوئے آپ اوکاڑہ چھاؤنی تشریف لائے جہاں ان دنوں احقر کی تعیناتی تھی۔ احقرنے آپ کی صحت کے مدّنظر آپ کی خدمت میں انتہائی ادب اور عاجزی سے عرض کی کہ آپ کی صحت اب آپ کو مشقّت کی زندگی کی اجازت نہیں دیتی اس لئے آپ ہمارے پاس رہیں کہ ہم آپ کی خدمت کرسکیں۔ سب بہن بھائیوں اور بچوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے سن کر فرمایا: کل آپ کو اس بات کا جواب دوں گا۔ ہم سب اس جواب سے بہت مطمئن ہوئے کہ شاید آپ نے ہماری بات مان لی ہے۔ مگر ہماری یہ خوشی بہت عارضی ثابت ہوئی جب آپ نے ہمیں اپنے پاس بٹھا کر فرمایا: مَیں ایک انتہائی عاجز انسان ہوں۔ آپ کی بات نے میرے قلب و ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خدا کے لئے دوبارہ مجھے اس بات کے لئے کبھی نہ کہنا کہ مَیں نے اپنے اللہ سے حلفاً یہ عہد کیا ہوا ہے کہ وقف کی زندگی کا ہر سانس بحیثیت واقف زندگی بسر کروں گا یہاں تک کہ اے اللہ آپ مجھے اس دنیا سے واپس بلالیں۔ ڈرتا ہوں تجدید عہد میں لغزش نہ کھا جاؤں۔ اس لئے دوبارہ آپ سے کہتا ہوں کہ آج کے بعد مجھے اس طرح کبھی نہ کہنا۔ یہ کہہ کر آپ کھڑے ہوگئے اور کہا ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور کئے ہوئے اپنے عہد پر پورا اتروں۔ اس کے بعد ہم نے کبھی جرأت نہ کی کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ آخری مرتبہ، وفات سے قریباً 3 دن پہلے آپ ہمیں ملنے کے لئے تشریف لائے تو آپ کے پاؤں پر سوجن آپ کی مخدوش صحت کی اطلاع دے رہی تھی۔
1986ء میں والدہ محترمہ انتہائی علالت کے باعث لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ معالجوں نے متفقہ طور پر آپ کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دعاؤں نے اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کی نوید حاصل کی اور آپ صحتمند ہوگئیں۔ خداتعالیٰ نے معجزہ دکھایا اور مُردہ جسم میں جان واپس لوٹا دی اور آپ خداتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے بارہ سال مزید زندہ رہیں۔
1972ء میں ہمارے اباجان بطور مبلغ فجی بھجوائے گئے۔ یہاں آپ پر فالج کا حملہ ہوا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کی صحت کے پیش نظر آپ کو واپسی کا ارشاد فرمایا۔ پروگرام کے مطابق ہم کراچی ایئرپورٹ پر آپ کو لینے کے لئے موجود تھے۔ فالج کی علالت کے پیش نظر ایمبولینس کا انتظام بھی کر لیا گیا تھا۔ مگر جہاز کی آمد پر آپ اُن مسافروں میں شامل نہیں تھے جو اس جہاز سے اترے۔ اس زمانے میں مواصلات کے ذرائع کم ترقی یافتہ تھے۔ اس لئے ایئرپورٹ حکام سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ جہاز کراچی سے پہلے سنگاپور ٹھہرا تھا اور وہاں سے معلومات کل صبح سے پہلے نہیں مل سکتیں۔ اباجان پر فالج کے حملے کی خبر سب کے لئے پریشان کُن تھی۔ اب آپ کا مجوزہ فلائٹ سے نہ آنا مزید تشویش کا باعث بنا۔ خصوصاً والدہ محترمہ اس غم کو اندر ہی اندر دبائے دعاؤں میں مصروف تھیں۔ آپ کی تڑپ دیکھ کر ہم بہن بھائی بھی آپ کے ساتھ دعاؤں میں شریک ہو گئے۔ رات مناجات اور قیام و سجود میں کٹ گئی تو صبحدم آپ بیرونی دروازے کی چوکھٹ پکڑ کر بیٹھ گئیں، جیسے یقین ہو کہ کوئی آنے والا ہے اور دروازہ کھولنے میں دیر نہ ہو جائے۔ غیب کے مالک ہمارے خدا نے شاید ہماری مناجات اور آہ و زاری کو سن لیا تھا اور کسی کو نہیں لیکن ہماری واقفہ زندگی والدہ محترمہ کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ اباجان خیریت سے ہیں اور ابھی گھر پہنچنے والے ہیں۔ … باہر دروازے پر دستک ہوئی تو یہ ہماری والدہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اس یقین کے ساتھ کہ آنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے والد محترم ہی ہیں۔ ہم سب گھر کے افراد اس گمان سے بے خبر تھے جس سے ہماری والدہ محترمہ لطف اندوز ہورہی تھیں ۔ ہمارے اباجان کا یوں اچانک آنا انتہائی حیرت کا موجب تھا۔ … خوشی سے والہانہ جذبات آپے سے باہر ہوگئے۔ جیسے کسی کھوجانے والے معصوم بچے کو اچانک بھیڑ میں اس کا باپ نظر آجائے … آپ کے پاؤں میں فالج کی وجہ سے لڑکھڑاہٹ تھی اور زبان الفاظ کی ادائیگی میں لکنت کا شکار تھی۔ … عاجزی اور انکساری کے پیکر ہمارے واقفین زندگی دنیا کی ہر خوشی اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی سچی پیروی میں ڈھونڈتے ہیں۔ آپ کی حالت بتا رہی تھی کہ اگر آپ کو 100 مرتبہ بھی ایسے حالات پیش آجائیں جہاں مال و جان اور اولاد کی قربانی دینی پڑے تو بھی آپ سمجھیں گے کہ حق ادا نہیں ہوا …۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ خوشی کے آنسو، ڈبڈباتی آنکھوں سے آپ نے ہمیں دیکھا اور فرمایا: مَیں کراچی رات ہی کو آگیا تھا۔ مَیں نے رات احمدیہ ہال کراچی میں کاٹی۔ اب صبح ہونے پر گھر پہنچ گیا ہوں۔
آپ کے ہاتھ میں ایک پرانا اور چھوٹا سا بیگ تھا جو ہم نے دیکھ کر پہچان لیا کہ یہیں پاکستان سے لے کر گئے تھے۔ ہم سمجھے کہ بقیہ سامان کے لدے پھندے ڈبے باہر ٹیکسی میں ہوں گے۔ ان کو اٹھانے کی نیت سے ہم میں سے کچھ لوگ باہر کی طرف لپکے۔ مگر آپ نے فرمایا میرا سامان یہی ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ مجوزہ فلائٹ سے نہ آنے کے متعلق کہا کہ جب جہاز سنگاپور پہنچا تو دل مچل گیا کہ سنگاپور ہی وہ جگہ ہے جہاں میرے سگے بھائی حضرت مولانا غلام حسین ایاز نے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔ 1935ء کو یہاں پہنچے اور مسلسل 16 سال تک تبلیغ کرتے رہے اللہ نے آپ کے کام میں انتہائی برکت ڈالی اور آپ ایک فدائی جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنے مرحوم مجاہد بھائی کی جماعت کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لئے میں چند گھنٹوں کے لئے سنگاپور میں رُک گیا تھا اور شام کی فلائٹ سے دوبارہ سفر جاری کیا جو رات کے تقریباً 9 بجے کراچی میں اختتام کو پہنچا۔
سنگاپور میں آپ کے بھائی تو نہیں تھے مگر اُن کے ذریعہ وجود میں آنے والی سعید فطرت جماعت ضرور موجود تھی۔ جس کا ہر چہرہ حضرت ایاز کی خوشکُن مساعی (جس کا حضرت مصلح موعود کئی بار اپنے خطبات میں ذکر فرما چکے تھے) کا گواہ تھا۔ چنانچہ اباجان بھی ان ہی چہروں سے حضرت ایاز صاحب کی خوشبو سمیٹ کر لوٹے تو نومبر 1950ء کی وہ یاد بھی لَوٹ آئی جب محمودؔ(حضرت مصلح موعود) کا ایازؔ لَوٹ کر آیا تھا، حضرت ایازؔ ربوہ کی سرزمین پر اس عاجزی، انکساری اور فروتنی کے ساتھ اترے کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ سنگاپوری لباس میں ملبوس یہ شخص ہمارا بھائی ہی تو ہے۔ تا آنکہ آپ مسجد مبارک کا پتہ پوچھتے مسجد میں داخل ہوئے۔ جمعہ کا بابرکت دن تھا۔ ریل گاڑی بروقت 12 بجے ربوہ پہنچ گئی تھی اس لئے مسجد میں اگلی صفوں میں جگہ مل گئی۔ حضورؓ نے نماز کے بعد جب اپنا رُخ نمازیوں کی طرف پھیرا تو ایازؔ آگے بڑھے۔ فرط عقیدت نے تھکے ماندے مسافر کو تازگی بخش دی۔ حضورؓ نے آپ کو شرف معانقہ بخشا اور دعاؤں سے نوازا۔ پرسش پر کہ آپ نے اپنی آمد کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ (کہ ان دنوں حضور خود تشریف لا کر مبلغین کی واپسی پر ان کا استقبال فرماتے تھے)۔ ایاز صاحب نے اپنے وجود کو مٹاتے ہوئے عرض کی: حضور! مَیں تو آپ پر قربان ہونے کے لئے پیدا ہوا ہوں کیونکر برداشت کرتا کہ آپ کے قدم میرے لئے باہر آویں۔
اب ایازؔ اپنے آقا کے حضور ارادت و عقیدت کے مراحل طے کرکے اشارے کے منتظر تھے کہ حضور اجازت مرحمت فرمائیں۔ دوسرے نمازی بھی اس خبر کو سن کر مشتاق دید تھے کہ سنگاپوری ٹوپی پہنے، ادھیڑ عمر تو وہی قادیان کی بستی کا غلام حسین ایاز ہے جو برسوں پہلے وطن سے نکل کھڑا ہوا تھا کہ دیارغیر میں اللہ کا نام بلند کرے۔ بہت سے لوگ ہمراہ ہوئے کہ آپ کو آپ کے گھر کا پتہ بتائیں۔ گھر کے قریب آکر بھی گھر سے اتنا دُور!۔ اپنے آقا کی دعائیں سمیٹ کر قدم گھر کی طرف اٹھے جہاں ایک بیوی تھی، بیتے دنوں کی یاد کو دل میں بسائے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی جو کیمرے کی آنکھ سے نہیں پر دل کی آنکھ سے اتارلی گئی تھی اور وہ جواں سال بیٹی جو زندگی میں پہلی مرتبہ ایک شفقت بھرا ہاتھ اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہی تھی، شفقت پدری کا ہاتھ …کتنی محبت ہوگی اس ہاتھ میں! … اور جذبات اگر تولے جاسکتے تو وہ کونسا بازار ہے جہاں یہ ترازو ملتے ہیں۔ رہ یار میں وفا کا عہد نبھانے والے واقفین کے لئے وقف کی قربان گاہ میں کیسے کیسے رقّت آمیز واقعات جنم لیتے ہیں کہ دفعتاً دعا کے لئے ہاتھوں کا اٹھ جانا ایک اضطراری عمل ہے۔ وقف کی جولان گاہ میں ہمارے لعل و گہر بھی ایسی لازوال داستانیں رقم کر آئے کہ ان کو یاد کرکے ہر آنکھ محبت، عقیدت اور رشک سے آنسو بہاتی ہے اور دل ان کی عاجزانہ راہوں میں بچھ جاتے ہیں۔ ع
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے لازوال بنا دیا
آپ کے آنے سے پہلے ہی یہ خبر ہوا کے دوش پر گھر پہنچ چکی تھی کہ اک مسافر اپنی جھولی میں اللہ کی رضا کے خزانے بھر کر گھر کی دہلیز پار کرنے کو ہے۔ جب ایازؔ صاحب نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو دیکھا ہوگا، تھرتھراتے ہونٹوں سے تہنیتی لفظ منہ سے نکالے ہوں گے کاش میرے پاس کوئی طریقہ ہوتا جو میں ان لمحوں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیتا اور فرصت کے لمحوں میں اسے بار بار دیکھتا کہ درد جدائی کیا ہے؟ اور بچھڑے ہوئے کیسے ملتے ہیں! قلم کی مجال کہاں اور کسی لفظ میں کمال کہاں جو ان لمحوں کو بیان کرسکے۔
میری تائی اماں محترمہ امۃ الرفیق صاحبہ مرحومہ محترم ملک محمد عبداللہ صاحب (برادر اکبر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ سابق ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان) کی صاحبزادی تھیں۔ 1933ء میں آپ کی شادی حضرت ایاز صاحب سے ہوئی۔ 1935ء میں آپ کی دختر محترمہ خیرالنساء کی ولادت ہوئی اور چند ماہ بعد ہی محترم ایاز صاحب بحکم حضرت مصلح موعودؓ سنگاپور تشریف لے گئے۔ ماں اور بیٹی کا مختصر خاندان پیچھے رہ گیا۔ محترمہ تائی اماں کی زندگی بھی دعاؤں سے آراستہ تھی۔ ہر لمحہ خداتعالیٰ کو یاد رکھنا اور اس کے فضلوں کے لئے دروازہ کھلا رکھنا ان کا وصف تھا۔ مہمان نوازی اور اکرام ضیف کی صفات ہمیشہ جاری رہتیں۔ ہر رشتہ دار کی خیریت معلوم کرنا اور ہر حال میں ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کبھی نہ بھولتیں۔ گھر میں سب سے بڑے بھائی کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کا رتبہ بھی گھر بھر میں بہت عزت کا تھا۔ صائب الرائے ہونے کی وجہ سے آپ کا مشورہ سب کے لئے ہی بہت بابرکت ثابت ہوتا۔ اپنے گھر کی دیکھ بھال بہت سلیقے سے کرتیں۔ عبادات کی ادائیگی سے آپ کو خاص رغبت تھی۔ چھوٹوں، بڑوں سب کے لئے آپ کی شخصیت ہمیشہ ہی واجب الاحترام رہی۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے والدین کی بہت لاڈلی تھیں لیکن بہت باہمت خاتون تھیں کہ جنہوں نے جوانی کے عالم میں خاوند کی دیارغیر روانگی کو اللہ کی رضا سمجھ کر سینے سے لگایا۔ زندگی کے دوسرے حصہ میں بیوگی کے دکھوں اور مجبوریوں کو کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ ان دنوں آپ کا تحریک جدید کا رہائشی کوارٹر ہم سب کے لئے مہمان خانہ تھا، خصوصاً جلسہ سالانہ کے دنوں میں سارا خاندان آپ کے ہاں فروکش ہوتا۔ درویشی تھی جو واقفین زندگی کا خاصہ ہے۔ مگر دل میں مہمان نوازی کا جذبہ موجیں مارتا تھا۔ سب مہمان جلسہ کی برکتیں اور آپ کی مہمان نوازی سے جھولیاں بھرتے ہوئے لَوٹتے۔
1956ء میں جب تایا جان دوسری مرتبہ سنگاپور تشریف لے گئے تو بیوی بچے بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ تائی امّاں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ دیار غیر میں اپنے خاوند کی بھرپور مدد کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں میں کامیابی سے عہدہ برآ ہوں۔ مگر یہ خوشیاں اور خاندانی رفاقت جلد ہی ختم ہوگئی جب حضرت ایاز صاحب وقت تہجد داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اب تائی امّاں ایک شہید کی بیوہ تھیں۔ اپنے خاوند کی مٹی اسی سرزمین کی مٹی میں ملا کر آپ ایک بیج بو آئیں، احمدیت کی فصل کے اگنے کے لئے۔ اور زندگی نے جب تک وفا کی آپ نے اپنے خاوند کا گھر آباد رکھا کہ انہی کے نام کی تختی اس گھر کی زینت تھی۔ اور پھر پارسا لوگوں کے ساتھ ان کی بستی بہشتی مقبرہ میں جابسیں۔ تایا ابو کی یادگار دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں۔ اسی طرح ہم بھی دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ بفضل اللہ تعالیٰ سب شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں