ربوہ کے لنگرخانوں میں روٹی پلانٹ کی تنصیب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اپریل 2008ء میں مکرم محمد اسلم صاحب نے ربوہ میں لنگرخانوں میں روٹی پلانٹ کی تنصیب کی تاریخ بیان کی ہے جس میں حضرت میر داؤد احمد صاحب (افسر جلسہ سالانہ) اور احمدی انجینئرز کی ناقابل فراموش خدمات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
1968ء میں لنگر نمبر 1 دارالصدرمیں گیس لگ گئی تو گیس تندوروں نے کام شروع کردیا۔ لیکن یہ احساس ہوا کہ نانبائیوں کی رفتار اتنی نہیں کہ بروقت مطلوبہ تعداد میں روٹی حاصل کی جاسکے۔ چنانچہ روٹی پلانٹ کی تیاری کا کام شروع ہوا۔ اس کے لئے مکرم منیر احمد خانصاحب انجینئر اورمکرم نعیم احمد خانصاحب انجینئر نے کراچی کے ایک کارخانہ میں ابتدائی کام کیا اور ایک چھوٹی مشین تیار کرواکے ربوہ بھجوائی جو دارالضیافت میں لگائی گئی۔ اس میں ایک ایک کر کے روٹی لگائی جاتی تھی۔ روٹی مشین پر بھی لگی رہ جاتی تھی۔ پھر حضرت میر صاحب کی ہدایت پر چوڑی مشین تیار کی گئی جس میں دو قطاروں میں روٹی لگتی تھی۔ پھر اس طرح کی دس مشینیں بنوائی گئیں جو کہ لنگرخانہ نمبر 2 میں فٹ کی گئیں۔ لیکن جلسہ سالانہ پر جب ان مشینوں کو چلایا گیا اور روٹی لگانی شروع کی گئی تو معلوم ہوا کہ جس مشین کو چلایا جاتا کچھ چل کر جام ہوجاتی اور پھر گریس وغیرہ دے کر چلانا پڑتا۔ جلسہ کے بعد خاکسار نے ایک ڈرائنگ بنا کر دی اور میری گزارش پر ایک مشین میں تبدیلی کرکے دیکھا گیا تو وہ مشین قریباً بارہ گھنٹے چلتی رہی۔ چنانچہ پھر ساری مشینوں کو اُسی ڈرائنگ کے مطابق بدل دیا گیا۔
پھر ایک دوسرے کارخانہ سے بیس مشینیں تیار کروائی گئیں۔ جلسہ سے چند روز پہلے مشینیں نصب ہوگئیں لیکن جب چلائی گئیں تو ہر مشین کچھ دیر بعد جام ہوجاتی۔ کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ چار دن رات مَیں اور میرے شاگرد کوشش کرتے رہے۔ مَیں نے رات کو اُن سے کہا کہ اب سب آرام کرو اور سو جاؤ۔ وہ تو آرام سے سوگئے لیکن خاکسار جاگتا رہا۔ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے لگ گیا اور قریباً دوگھنٹے نماز میں رو کر دعا کرتا رہا کہ یہ سب کچھ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کے لئے ہے، خدایا ہماری مدد فرما۔ رات بارہ بجے مجھے نیند آگئی۔ ہم سوئے ہوئے تھے کہ بڑی زور سے آواز آئی پلیٹیں نکال دو۔ میں نیند سے جاگ اٹھا اور اپنے شاگردوں کو جگانا شروع کیا۔ اُن سے کہا کہ ہر مشین کے کنویئر سے ایک پلیٹ نکال دو۔ پہلی مشین سے پلیٹ نکال کر چلایا گیا تو وہ بالکل ٹھیک چلتی رہی۔ پھر ساری مشینوں سے پلیٹیں نکال کر چلادی گئیں۔ روٹی لگنی شروع ہوگئی۔ 6 دن تک مشینیں چلتی رہیں اور کوئی بھی مشین بند نہیں ہوئی۔
جلسہ کے بعد حضرت میر صاحب نے فیصلہ کیا کہ اب مشین ربوہ میں ہی تیار کی جائے۔ اس کام کے لئے مکرم مرزا لقمان احمد صاحب لیکچرار تعلیم الاسلام کالج اور مکرم منور احمد صاحب آف لاہور (لیکچرار کالج) نے بہت اخلاص سے کام کیا۔ ہم سب نے پندرہ بیس دن میں مشین تیار کردی اور پھر دو مزید مشینیں تیار کیں۔ یہ تینوں مشینیں دارالضیافت میں اب تک چل رہی ہیں۔ اس کے بعد محترم چودھری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ بنے تو انہوں نے مجھے بیس عدد مشینیں تیار کرنے کا آرڈر دیا۔ سامان لاہور سے خریدا گیا اور مکرم مرزا لقمان احمد صاحب لیکچرار کی نگرانی میں یہ کام لنگر3 میں مکمل کیا گیا اور اس طرح پہلی مشینوں کے نقائص بھی دُور ہوگئے۔ بعد میں خاکسار نے دو دیگر لنگروں کے لئے مزید بیس مشینیں بھی تیار کیں۔
حضرت میر صاحب کے دَور میں ہی آٹومیٹک روٹی پلانٹ کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا لیکن کامیابی بعد میں ہوئی۔ خاکسار نے جلسہ سالانہ کے لئے پیاز کاٹنے کی بارہ مشینیں بھی تیار کی ہیں۔ ایسی ایک مشین جرمنی کے جلسہ والوں کو بھی بھجوائی گئی ہے۔
خاکسار نے دس سال کی عمر میں یہ کام سیکھا تھا۔ قریباً بارہ سال ملتان میں کام کرتا رہا پھر ربوہ آکر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے کارخانہ میں ملازم ہوگیا۔ جب کارخانہ کی آمد بہت کم ہوگئی تو مَیں نے خود میاں صاحب سے عرض کیا کہ مجھے فارغ کردیں، مَیں خراد چلاکر گزارہ کرلوں گا۔ لیکن آپ نے مجھے کہا تم کام کرتے رہو۔ پھر بڑی مشکل سے اجازت دی اور کہا کہ ہر ہفتہ آکر آپ کو بتایا کروں کہ میرا کام کیسا چل رہا ہے۔ پھر خدا کے فضل سے مجھے جلسہ سالانہ کا کام ملتا رہا جو مَیں نے قریباً چالیس سال تک کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں