رلیارام اور مارٹن کلارک کے مقدمات کا پس منظر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28 مئی 2010ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دائر کئے جانے والے دو ایسے مقدمات کا پس منظر بیان کیا ہے جو دراصل چرچ مشن کی سرپرستی میں ہی قائم کئے گئے تھے اور دونوں مقدمات میں حضرت اقدس علیہ السلام کا غیرمعمولی توکّل دیکھنے میں آیا اور آپؑ نہایت شان سے فتحیاب ہوئے۔
1877ء میں جب ابھی ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت نہیں ہوئی تھی لیکن پانچ سال سے آپؑ کی تحریریں منظر عام پر آرہی تھیں۔آپؑ نے ایک اشتہار تحریر فرمایا جو کہ آریہ سماج کے مقابل تحریر کیا گیا تھا۔ اس اشتہار میں اسلام کی فضیلت اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف بھی اشارہ تھا۔ حضور نے اس اشتہار کو اشاعت کے لیے امرتسر میں ایک عیسائی رلیارام کے مطبع خانہ بھجوادیا۔ وہ وکیل بھی تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ اس اشتہار کے ساتھ مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید کا ایک خط بھی تھا۔ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی حضورؑ کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔ اس لئے رلیارام نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے حضورؑ پر مقدمہ دائر کرا دیا۔ اس مقدمہ کی اطلاع سے قبل اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں حضورؑ پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ آپؑ کو کاٹنے کے لئے بھیجا ہے اور آپؑ نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔
غرض حضورؑ کو گورداسپور کی عدالت میں طلب کیا گیا۔ حضورؑ نے جن وکلاء سے بھی مقدمہ کے لئے مشورہ لیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا، رلیا رام نے خود ڈال دیا ہو گا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر حضورؑ نے ان سب کو جواب دیا کہ مَیں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔
حضورؑ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی حاضر ہوا۔ حاکم عدالت نے سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے۔ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی ذاتی بات تھی۔اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں کیں مگر حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا۔ انجامکار حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور مجھ کو کہا اچھا آپ کے لئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اُ تارنے کے لئے ہاتھ مارا، میں نے کہا کہ کیا کرنے لگا ہے۔ تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے۔
رلیا رام 1847ء میں امرتسر کے ایک کھتری دکاندار کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مشن سکول امرتسر میں حاصل کی تھی اور 28 مارچ 1870ء کو وہ بپتسمہ لے کر عیسائی ہو گئے۔ ان کا عیسائی حلقوں میں ایک نمایاں مقام تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1877ء میں پنجاب میں چرچ مشنری سوسائٹی کی Native Church Council کا قیام عمل میں آیا تو انہیں اس کا پہلا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ یہ وہی سال ہے جب مقدمہ کا واقعہ ہوا۔
ایک کتاب The Missions of The Church Missionary Society… by Robert Clark میں رلیا رام کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ جب رلیا رام نے بپتسمہ لے لیا تو ان کے ہندو والد نے ناراض ہو کر انہیں گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنے باپ کے اتنے فرمانبردار بیٹے تھے کہ ساری آمد اپنے والد کو دے دیتے تھے چنانچہ جس وقت وہ اپنے گھر سے نکلے تو ان کی جیب میں صرف بارہ آنے تھے۔ ان کے والد نے غصہ میں کھانا پینا بند کر دیا اور ان کی والدہ کی نظر اگر سر راہ کہیں رلیارام پر پڑجاتی تو اُن کو بخار چڑھ جاتا تھا۔ پھر ان کے چھوٹے بھائی نارائن رام 1879ء میں عیسائی ہوگئے اور 1890ء میں اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل وہSalvation Armyمیں کام کرتے رہے۔
1872ء میں رلیا رام نے پلیڈر کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد ان کی مالی حالت میں نمایاں بہتری اس لیے آگئی کہ ان کو تفتیش اور جرح کا ایسا ملکہ حاصل تھا کہ حکومت کی طرف سے ان کو نیم سرکاری نوعیت کے کام کے کمیشن ملنے لگے ۔(شاید اسی لئے 1877ء میں وہ ایک عدد پریس کے مالک بھی بن چکے تھے۔)
رلیارام کو نرم دل ثابت کرنے کے لئے رابرٹ کلارک تحریر کرتے ہیں کہ جب رلیا رام کے بھائی نرائن رام عیسائی ہو گئے تو ان کے ایک اور بھائی دولت رام نے طیش میں آ کر مقدمہ کر دیا ۔ عدالت میں مقدمہ جلد ہی خارج ہو گیا۔ لیکن دولت رام نے با وجود اس کے کہ وہ عمر میں چھوٹا تھا بھری عدالت میں اپنے بڑے بھائی رلیا رام پر ہاتھ اُ ٹھا یا۔ یہاں تک کہ اس کی ضرب سے رلیا رام کی پگڑی گر گئی۔ لیکن رلیا رام نے اس کا کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ جب دولت رام بیمار ہوا تو وہ اپنے بھائی کی نگہداشت کرتے رہے اور اس کی موت کے بعد انہوں نے اس کے قرضے اتارے اور اس کی بیوہ کا خیال رکھتے رہے۔
یہ پڑھ کر یہی تأثر اُ بھرتا ہے کہ رلیا رام اتنے نرم مزاج تھے کہ کسی کو نقصان پہنچانا یا بدلہ لینا تو جانتے ہی نہیں تھے اور حقیقت میں انجیل کی اس تعلیم پر عمل پیرا تھے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال آگے کر دو۔ لیکن جس طرح انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ پر محض مذہبی اختلافات کی بنا پر ایک مقدمہ قائم کروایا اور مذہبی اختلافات کی بنا پر اپنے انتقام کا نشانہ بنانا چاہا ۔ یہ تصویر تو ایک منتقم مزاج شخص کی نظر آتی ہے۔
1877ء تک حضرت مسیح موعودؑ کے شائع ہونے والے اشتہارات آریوں کے مقابل پر تھے۔ لیکن پادری اُس وقت بھی خوب جانتے تھے کہ حضورؑ کا عیسائی عقائد کے ردّ پر کتنا عبور حاصل ہے۔ اُس وقت پادری جن میں سے ایک نمایاں نام پادری بیٹ مین کا ہے قادیان میں آکر بازاروں میں وعظ کیا کرتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات بھی کرتے لیکن مذہبی گفتگو نہ کرتے۔ البتہ منشی نبی بخش صاحب پٹواری پادریوں کے اعتراضات جمع کر کے لاتے اور حضورؑ سے ان کے جوابات دریافت کر کے پادریوں سے مباحثہ کرتے اور پادریوں کو خفت اُٹھانی پڑتی۔ یا پھر حضرت مسیح موعود کے بڑے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب پادریوں سے مباحثہ کر لیتے تھے۔ لیکن پادری جانتے تھے کہ عیسائیت کے ردّ میں یہ دلائل کہاں سے آتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضورؑ کے دلائل کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ پادری بیٹ مین کو قادیان کے کشن سنگھ کے متعلق خیال پیدا ہوا کہ یہ شاید عیسائی ہو جائے لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ کشن سنگھ کا حضرت اقدسؑ کے پاس آنا جانا ہے تو اس نے یہ کوشش ہی ترک کر دی اور کہا کہ کشن سنگھ کے خیالات مرزا صاحب نے بگاڑ دیئے ہیں۔
مذکورہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹ مین اور رلیا رام ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور مشنری سرگرمیوں کے لیے بسا اوقات اکٹھے سفر بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ رلیارام کو بخوبی علم تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ صلیبی یلغار کے خلاف کس قدر جوش رکھتے ہیں اور اسی لئے وہ آپؑ کی ذات کو بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اپنے راستے تھے ہٹانا چاہتا تھا۔
اس واقعہ کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ اگر کسی ادارہ یا کسی محکمہ کا کوئی قابل قدر نقصان ہو تو اس کی تلافی کے لیے ہر قسم کی کوشش کی جاتی ہے۔ قانونی نوٹس جاری کئے جاتے ہیں مقدمے بھی کئے جاتے ہیں تاکہ اس نقصان کی تلافی کی جائے۔ لیکن اگر یہ نقصان صرف ایک آنے کا ہو تو وہ ادارہ اس پر مقدمہ قائم کرنے کا تکلّف بہرحال نہیں کرے گا کیونکہ اس صورت میں اس مقدمہ پر اٹھنے والے اخراجات ہونے والے نقصان سے کئی گنا زیادہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکخانہ کے افسران نے اپنے محکمہ کا نقصان پورا کرنے کے لئے یہ مقدمہ قائم نہیں کیا تھا بلکہ اس کی وجہ حضورؑ کو محض انتقام کا نشانہ بنانا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گو 1857ء کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا اور اپنی سیاسی مصلحتوں کے باعث ہندوستان کے مختلف صوبوں میں حکومتی افسران براہ راست عیسائی مشنریوں کی کھلم کھلا حمایت سے گریز کرتے تھے۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صوبہ پنجاب کے مختلف گورنروں کا رویہ قدرے مختلف تھا۔ یہاں گورنر واضح انداز میں عیسائی مشنریوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے۔ چنانچہ انگریز فوجی افسران نے نے صرف پنجاب کی چرچ مشنری سوسائٹی کے لئے چندہ جمع کیا بلکہ اپنی خدمات بھی پیش کیں۔
مضمون میں مختلف انگریز افسران کے اسماء کے ساتھ اُن کی خدمات کا بھی ذکر کیا گیا ہے مثلاً پنجاب میں ایک سرکاری عہدیدار جو کہ اس وقت بہت کھل کر عیسائی مشن کی بہت اعانت کر رہے تھے وہ سر ہربرٹ ایڈورڈز (Herbret Edwards) تھے۔ اُس دَو ر میں پشاور میں عیسائی مشن ان کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔ (اس وقت پشاور صوبہ پنجاب کا حصہ تھا) ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ 7 جون 1857ء کو جان لارنس نے جنہیں 1863ء میں ہندوستان کا وائسرائے بنا دیا گیا تھا، ہربرٹ ایڈورڈز کو لکھا کہ پنجاب کو قابو پانے کے لیے چار اہم مقامات ہیں جوکہ پشاور، ملتان، لاہور اور امرتسر ہیں۔ اس کے جواب میں ہربرٹ ایڈورڈز نے لکھا کہ پنجاب کو قبضہ میں رکھنے کے لیے دو کلیدی مقامات ہیں اور وہ پشاور اور ماجھے کا علاقہ ہے۔ (واضح رہے کہ قادیان ماجھے کے علاقہ میں شامل ہے)۔
اسی طرح پنجاب کے ایک گورنر سر چارلس ایچی سن ((Aithcison نے چرچ مشنری سوسائٹی کی Parent Committee کو خط لکھا کہ قبل اس کے کہ غلط عقائد یہاں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں قدم جما لیں ہمیں یہاں کے نوجوانوں کے ذہنوں کو ہر راستے کو استعمال کرتے ہوئے عیسائیت کے خیالوں سے بھر دینا چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دشمن ایسا کر لے گا اور اگلی نسل کے مشنریوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ چند مثالیں واضح کر دیتی ہیں کہ اس وقت پنجاب کے حکمران مذہبی آزادی تو دے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ کھلم کھلا عیسائی مشنریوں کی اعانت بھی کر رہے تھے۔
اس پس منظر میں یہ کوئی عجیب بات نہیں ہو گی اگر نچلی سطح پر انگریز سرکاری افسران زیادہ نمایاں ہوکر عیسائی مشنریوں کا ساتھ دیں۔
ہنری مارٹن کلارک ’رابرٹ کلارک‘ کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ برطانوی ولی عہد جو بعد میں ایڈورڈ ہفتم کے نام سے تخت نشین ہوئے 1896ء میں ہندوستان کے دورہ کے دوران 24 جنوری 1897ء کو امرتسر میں رابرٹ کلارک کے گھر آئے جہاں پر پنجاب بھر سے آئے ہوئے مقامی عیسائی جمع ہوئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے عیسائی مشنریوں کی پہنچ کہاں تک تھی کہ برطانیہ کا ولی عہد اُن کے گھر پر آنا بھی منظور کرلیتا ہے۔
یہاں دو اور امور قابل ذکر ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا ہے کہ رلیا رام کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ اس اخبار کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہو سکیں لیکن رلیا رام کے بیٹے موہن لال ایک اردو اخبار ’کرسچن‘ کے مدیر تھے اور رلیا رام نے عیسائی مشن کے لیے چھ کتب کا ترجمہ بھی کیا تھا۔
عیسائی مشن کے کرتا دھرتا افراد کی جانب سے حضرت مسیح موعودؑ پر قائم کیا جانے والا دوسرا مقدمہ اس پہلے مقدمہ کے بیس سال کے بعد مشنری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے 1897ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ وہ سال ہے جب چرچ مشنری سوسائٹی میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ پنجاب میں مقامی طور پر ان کی سرگرمیاں توقع سے بہت کم کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔ چنانچہ مارٹن کلارک اپنی کتاب Robert Clark of The Punjab میں لکھتے ہیں کہ خود رابرٹ کلارک نے 1897ء میں ایک رپورٹ ایک اہم میٹنگ کے لیے بھجوائی کہ جب 20 سال قبل چرچ مشنری سوسائٹی کی Native Council کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت یہ لگتا تھا کہ ہم جلد کامیاب ہوجائیں گے لیکن اس کے بعد خود ہم میں دو گروہ بن گئے اور صورتحال بدل گئی۔
جب 1893ء میں عبد اللہ آتھم والا مباحثہ ہوا تو اس میں ڈاکٹر مارٹن کلارک عیسائیوں کی طرف سے صدر مجلس تھے اور یہ مباحثہ بھی اُن کے ایک چیلنج سے شروع ہو ا تھا اور جب دورانِ مباحثہ عبد اللہ آتھم نے بیماری کا عذر کیا اور مباحثہ میں شریک نہیں ہوئے تو انہوں نے ان کی جگہ مباحثہ کیا۔ بعد میں عبداللہ آتھم نے اپنی حرکات سے رجوع کر کے پندرہ ماہ کی مدت میں اپنی جان کو بچا لیا تھا۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے پادری عبداللہ آتھم کو چیلنج دیا کہ وہ قسم کھا لے کہ اس کے دل پر کوئی ہیبت نہیں ہوئی اور اس نے رجوع نہیں کیا تو اس کو ایک سال کی مہلت ہو گی جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہو گی۔ لیکن آتھم نے قسم کھانے سے گریز کیا اور اخفائے حق کی پاداش میں 27 جولائی 1896ء کو اس کی موت ہو گئی۔ یقینا یہ تمام پس منظر اور یہ امر بھی اس گروہ کو اشتعال دلانے کا باعث بنا ہوگا۔
لیکن مارٹن کلارک کے مقدمہ کرنے کے صرف چند ماہ پہلے حضرت مسیح موعودؑ نے مئی 1897ء میں کتاب ’’تحفہ قیصریہ‘‘ تصنیف فرمائی اور یہ کتاب ملکہ وکٹوریہ کو بھجوائی گئی اور اس کی اشاعت ہندوستان میں بھی کی گئی۔ اس کتاب میں حضورؑ نے تحریر فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے موجودہ عقائد کفارہ اور تثلیث سے متنفر ہیں اور موجودہ عیسائی عقائد کو اپنے پر ایک بھاری افتراء خیال کرتے ہیں اور اگر کوئی صدق دل سے آپ کے پاس آکر رہے تو وہ خود بھی حضرت عیسیٰ کو عالم کشف میں دیکھ کر ان باتوں کی تصدیق کر سکتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی تھے خدا نہیں تھے۔ نیز حضورؑ نے ملکہ وکٹوریہ کو تحریر فرمایا کہ وہ خود عقل سے سوچیں کہ عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑنے لعنتی موت قبول کر کے کفارہ ادا کیا، اس سے حضرت عیسیٰ کی توہین ہوتی ہے کہ نہیں اور پادریوں کی تحریریں ایسی نالی کی طر ح ہیں جس میں بہت سی کثافت جمع ہو گئی ہو اور وہ خلاف واقعہ باتیں پیش کرتے ہیں اور حضور نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ جس طرح ایک قیصر روم کے زمانہ میں اس کے سامنے توحید پرست عیسائیوں اور تثلیث کے پرستاروں کا مناظرہ ہوا تھا اسی طرح مناسب ہو گا کہ اب لندن میں مختلف مذاہب کا جلسہ کیا جائے جس میں ہر کوئی اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور آخر میں لکھا کہ قرآن کریم حقیقی اصلاح کے لیے انجیل سے بہت بہتر تعلیم پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اس جوبلی کے موقع پر جو جلسہ ہوا اس میں یہ اجتماعی دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ ملکہ کو مخلوق پرستی سے نجات دے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے سچے دین کی طرف لے آئے۔
جب یہ کارروائی شائع ہوئی تو پادریوں اور ان ہمدردوں کے غیظ و غضب کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پنجاب میں جو چرچ مشنری سوسائٹی قائم تھی وہ اپنے عیسائی حکمرانوں پر غلو کی حد تک فخر کیا کرتے تھے اور یہاں تک کہ جب رابرٹ کلارک صاحب کی کتاب میں گورنروں اور اعلیٰ عہدیداروں کی تصاویر کے نیچے لکھا ہوا تھا: OUR CHRISTIAN RULERS۔ چنانچہ مئی جون میں ’’تحفہ قیصریہ‘‘ شائع ہوئی تو صرف دو ماہ بعد اگست 1897ء میں عیسائیوں کی طرف سے ایک جھوٹا مقدمہ یہ قائم کیا گیا کہ نعوذ ُ باللہ حضرت مسیح موعود نے عیسائی مشنری ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لیے ایک آدمی کو بھجوایا تھا اور اس آدمی کی جھوٹی گواہی بھی حاصل کر لی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا نشان یہ ظاہر ہوا کہ یہ جھوٹا گواہ جس کا نام عبد الحمید تھا، جب پولیس کی تحویل میں گیا تو اس نے سچ بول دیا کہ مَیں نے پادریوں کے اُکسانے پر یہ بیان دیا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مقدمہ سے چند دن قبل حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتا دیا گیا تھا کہ ایک ابتلا آنے والا ہے جس میں حکام کی طرف سے کچھ کارروائی ہو گی اور ایمان لانے والوں پر بہت بڑا ابتلا آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچانک مدد آئے گی اور آخر کار فتح مقدر ہو گی۔
یہ سوال کہ کیا مذکورہ بالا دونوں مقدمات کا آپس میں کوئی تعلق تھا؟ یہاں دو حقائق حقیقت کو بالکل واضح کر دیتے ہیں۔ اوّل یہ کہ رلیا رام صاحب نے پہلا مقدمہ 1877ء میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اسی سال چرچ کی Punjab Native Council قائم کی گئی تھی تو رلیا رام اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے تھے اور صدر رابرٹ کلارک تھے۔ گویا رابرٹ کلارک اور رلیا رام قریبی رفیق کار تھے اور پوزیشن کے اعتبار سے رابرٹ کلارک رلیا رام کی نسبت بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ رلیا رام کا انتقال 1892ء میں ہوا تھا۔
دوم یہ کہ 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ پر دوسرا جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے قائم کیا گیا تھا جو رابرٹ کلارک کے منہ بولے بیٹے تھے۔ 1897ء میں رابرٹ کلارک ابھی زندہ تھے اور فعال طور پر مشن کی سر گرمیوں کی قیادت کررہے تھے۔
مارٹن کلارک کوئی انگریز یا یورپین نہیں تھے بلکہ ان کی والدہ پشاور کے قریب رہنے والی تھیں۔ 1852ء میں مارٹن کلارک کی والدہ انتقال کر گئیں تو وہ لا وارث رہ گئے اور اُنہیں رابرٹ کلارک نے اپنی کفالت میں لے لیا اور اسی نسبت سے انہوں نے کلارک کا خاندانی نام اپنایا۔ ہنری مارٹن کلارک نے 1869ء سے 1882ء تک برطانیہ میں تعلیم پائی۔ وہ پہلےGeorge Watson Schoolاور پھر ایڈنبرا یونیورسٹی میں تعلیم پاکر ڈاکٹر بنے اور 1882ء میں سکاٹ لینڈ کی ایک بیوی کے ہمراہ ہندوستان آئے اور امرتسر میڈیکل مشن کا آغاز کیا۔ انہیں اردو اور پنجابی زبان پر کافی عبور تھا اور اس وجہ سے وہ مناظروں کے لیے بہت مفید خیال کئے جاتے تھے۔ مغربی پنجاب کی زبان پر بھائی مایا سنگھ نے جب لغت لکھی تو اس کو آخری شکل ہنری مارٹن کلارک نے دی۔ انہوں نے مذہب اور طب کے موضوع پر مختلف پمفلٹ بھی لکھے۔ مارٹن کلارک پانچ سال کے لیے پنجاب مشن نیوز کے ایڈیٹر بھی رہے۔
پس اگرچہ دونوں مقدمات میں بیس سال کا وقفہ ہے لیکن عملاً ان کو دائر کرنے والا ایک ہی گروہ تھا۔ 1877ء میں محکمہ ڈاک کے افسران کے ساتھ ساز باز کر کے ایک مقدمہ قائم کیا گیا اور بیس سال بعد اس سے بہت زیادہ خطرناک سازش تیار کر کے اور جھوٹے گواہ تیار کر کے اقدام قتل کا مقدمہ بنایا گیا۔ ان مقدمات کے سرپرست رابرٹ کلارک ’’چرچ مشنری سوسائٹی‘‘ کے پنجاب میں اولین مشنری تھے اور پشاور اورکشمیر میں مشن بھی ان کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا۔ انہوں نے پنجاب اور سندھ میں اپنے مشن کی تاریخ پر ایک کتاب بھی لکھی جس میں عبد اللہ آتھم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
“After his retirement from the government service, he spent many years in Amritsar, as an honorary helper in mission work. He was then connected with Dr. H. Martyn Clark in the graet controversy with the Mullah of Qadian.”
جب یہ کتاب شائع ہوئی اس وقت تک آتھم کی موت اور ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کا واقعہ بھی ہوچکے تھے لیکن رابرٹ کلارک نے اس سے زیادہ ان تمام معاملات کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔
اسی طرح مارٹن کلارک نے رابرٹ کلارک کی سوانح حیات Robert Clark of The Punjabلکھی تو اس میں صرف اتنا ذکر کیا کہ میں عبداللہ آتھم کے ساتھ اس مباحثہ میں شریک تھا جس میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ پندرہ ماہ کے اندر اندر فریق مخالف برے انجام کو پہنچے گا۔ یہ ذکر صرف یہاں پر ہی ختم ہو جاتا ہے حتیٰ کہ یہ ذکر بھی نہیں کہ آتھم پندرہ ماہ کے بعد مرا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ ذکر بھی نہیں کہ اس نے قسم کھانے سے انکار کیا کہ میرے دل پر ہیبت نہیں طاری نہیں ہوئی اور اس مقدمہ کا بھی کوئی ذکر نہیں جو کہ مارٹن کلارک کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ پر کیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس مناظرہ کے متعلق Remarkable Controversy کے الفاظ استعمال کئے۔
رابرٹ کلارک کا انتقال 1900ء میں کسولی میں ہوا تھا اور 1905ء میں ہنری مارٹن کلارک نے مشن کی سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا اور پھر انگلستان جا کر ایڈنبرا یونیورسٹی میں Tropical Medicine پڑھاتے رہے تھے اور وہاں پر 1916ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
حضرت مسیح موعود نے ان مقدمات کی ایمان افروز تفصیلات اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں تحریر فرمائی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں