روشنی کے مینار – حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18 دسمبر2020ء)

روشنی کے مینار

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2013ء میں مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالے سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دو جلیل القدر صحابہؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ وہ تاریخی اور خدا رسیدہ عالم باعمل بزرگ انسان تھے جنہوں نے دنیا میں بھی اعلیٰ ترین اور بلند مقام پایا۔ آپؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر ہو ا تو اَور بھی دوست حضور کی عیادت کو آئے ہوئے تھے۔ نماز کا وقت ہو گیا تو آپ نے فرمایا ’دوست اب چلے جائیں‘۔ کچھ دوست چلے گئے اور چند بیٹھے رہے تو میں حضور کی چارپائی پر بیٹھا حضور کو دبا رہا تھا۔ اس وقت میں ابھی طالب علم تھا۔ پھر آپؓ نے فرمایا ’اب نمبر دار بھی چلے جائیں۔‘ مَیں بھی جانے لگا تو آپؓ نے مجھے روک لیا۔ اورپھر اپنے سینہ پر لگا کر اس قدر دعائیں دیں کہ آنکھوں سے آنسوؤں نے بہہ کر آپؓ کی قمیص کو گیلا کر دیا۔ لمبی دعا کے بعد مجھے رخصت فرمایا۔ چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے زندگی بھر حضورؓ کی دعا کی قبولیت کو دیکھنے کی سعادت ملی۔
حضرت چودھری صاحبؓ کا حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی زندگی بھر تعلق قائم رہا۔ ہر کام میں خلیفۃ المسیح کی ہدایت اور رہنمائی کا شرف حاصل رہا۔ فتنہ منافقین کے وقت چودھری صاحب ملک سے باہر تھے۔ ان کے متعلق حضورؓ نے ان کے مقام کو الفضل میں شائع فرما کرلکھا کہ چودھری صاحب اور ان کے بھائی میرے بیٹوں کی طرح ہیں، ان کی طرف سے عہدِ وفاداری کا حلف میں خود اٹھاتا ہوں۔
1966ء میں خاکسار نے ایک تبلیغی نشست کا انتظام کیا اور حضرت چودھری صاحبؓ سے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وقت دیں۔ آپ اس وقت عالمی عدالت انصاف کے چیف جسٹس تھے اور ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ دفاتر تحریک جدید کے لان میں ایک نمائش لگائی گئی اور تبلیغی لٹریچر کے پیکٹ بھی تیار کروائے۔ قریبی اضلاع کے معززین کو دعوتی کارڈ بھجوائے۔ اس تقریب میں ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے علاوہ کمشنرز، پولیس کے SP، سیشن جج اور بار ایسوسی ایشن کے ممبروں اور BD کے ممبروں سمیت قریباً چار صد افراد شامل ہوئے۔ سرگودھا بیس کے ایئر فورس کمانڈر بھی شامل ہوئے۔ چودھری صاحب کا خطاب ایک گھنٹہ جاری رہا جو ’امید کاپیغام‘ کے نام سے شائع ہوا۔ نماز مغرب کے بعد تقریباً دو صد مہمانوں نے قصر خلافت جاکر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے بھی شرف ملاقات حاصل کیا۔
حضرت چودھری صاحبؓ ایک دفعہ بہشتی مقبرہ میں حضوؓر کے مزار پر حاضر تھے۔ لمبی دعا کے بعد فارغ ہوئے تو ایک عورت اپنے بچے کو لے کر باہر کھڑی تھی۔ اُس نے بچہ آگے کرکے عرض کی کہ آپ دعا کریں کہ میرا بیٹا بھی آپ کی طرح کا بنے۔ آپؓ رُک گئے اور فرمایا ’’بی بی! توبہ کرو، توبہ کرو۔ اللہ سے مانگنا ہے تو کچھ اَور مانگو، اللہ کی رحمت وسیع ہے۔ اس کو محدود نہ خیال کرو۔ میں تو اُس کا ایک گناہ گار بندہ ہوں مجھ جیسا کیوں مانگتی ہو۔‘‘ یہ آپؓ کا عاجزی کا مقام تھا۔
خاکسار کو 1974ء کے فسادات میں گرفتار کرلیا گیا تو آپؓ نے اپنے داماد چودھری حمید نصراللہ صاحب سے کہا کہ جو احمدی گرفتا ر ہوئے ہیں میری طرف سے اُن کی دعوت کا انتظام کریں۔ میرے علاوہ تین اَور خدام بھی تھے۔ ہماری ضمانت پر رہائی ہوئی تو آپؓ نے اپنی کوٹھی میں ہماری دعوت کی۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اور صدر حلقہ چودھری غلام رسول صاحب کو ساتھ لے کر سارے حالات سنے۔ مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ کس طرح میری ہمت اور پولیس مقابلے سے ہمیں مسجد واپس ملی۔ پھر بتایا کہ میرے سٹور اور دکان کو آگ لگا دی گئی اور بڑا نقصان ہوا۔ اس پر آپؓ نے فرمایا:

مَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا- وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔

آپؓ کی دعا اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول ہوئی اور میرے کام میں غیرمعمولی برکت ہوئی۔
ایک دفعہ خاکسار نے شوگر کے لیے دوا تیار کر کے آپؓ کو دی جو آپؓ نے استعمال کی اور مفید پائی۔ میری درخواست پر آپؓ نے دواخانہ خدمت خلق کے نام مجھے سرٹیفکیٹ بنا دیا جو مَیں کئی دفعہ بطور اشتہار الفضل میں شائع کرواتا رہا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں