سپین (ہسپانیہ) کی چند خوبصورت یادیں

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری2023ء)

اقبال احمد نجم صاحب

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے میری تقرری سپین کے لیے فرمائی۔یہ وہ ملک ہے جس میں مسلمانوں نے ۷۰۰ سال تک حکومت کی اور پھر انہیں زوال آگیا اور عیسائی حکومتوں نے بعد میں جس قدر مسلمانوں پر زیادتیاں کیں، ان سے تاریخ کے اوراق اب بھی خون آلود ہ ہیں۔ قرطبہ کا زوال جب ہوا تو ان کی نایاب لائبریریوں کو جلا کر دریائے جواد الکبیر میں ڈالا گیا تو کہتے ہیں کئی دن تک یہ سیل سیاہ کی طرح بہا۔ جو مسلمان حالات کو بھانپ چکے تھے اُن میں سے بہت سے مراکش کی طرف ہجرت کرگئے اور جو ہجرت نہ کرسکے وہ زبردستی عیسائی بنالیے گئے یا تہ تیغ کردیئے گئے اور ان کی لاشیں دریا برد کر دی گئیں۔ کہتے ہیں کہ دریا میں سرخ رنگ کا پانی ہفتوں بہتا رہا۔ مسلمانوں کی اکثر مساجد چرچ بن گئے۔ پھر 1492ء میں سقوط ِ غرناطہ ہوگیا اور یہی وہ سال ہے جب امریکہ دریافت ہوا اور کالونیز بنانے کا جِنّ یورپ کے دماغ پر سوار ہوگیا۔ سپین بھی پیچھے نہیں رہا۔ بادشاہ کے نام پر فتوحات کا شوق جرنیلوں کو توتھا ہی لیکن غریب مسلمانوں نے بھی جان بچاکر نکل جانے کی ترکیب اس سے بہتر کوئی نہ پائی کہ فوج میں بھرتی ہوکر جنوبی امریکہ کی طرف نکل جائیں۔ چنانچہ وہاں بھی ان پرمذہب کی وجہ سے زیادتی اور سختی ہوئی تو انہوں نے نام بدل کر اپنے آپ کو Spiritualistsیعنی ’’روحانی لوگ‘‘ کہنا شروع کردیا۔
خاکسار نے عازم سپین ہونے کی تیاری شروع کردی لیکن سپینش نہیں آتی تھی۔ حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے کہ فکر نہ کرو، چھ ماہ میں تمہیں زبان آجائے گی۔ پھر حضورؒ کی اجازت سے 3؍جنوری 1974ء کو ربوہ سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ گو بھٹو نے احمدیوں پر سختی شروع کروادی تھی مگر ابھی تک یہ طریق باقی تھا کہ مبلغین کو اہل ربوہ اکھٹے ہوکر اپنی دعاؤں سے رخصت کرتے تھے۔ جامعہ کے اساتذہ کرام، کئی بزرگان اور بہت سے احباب اسٹیشن پر تشریف لائے۔عاجز کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب مفتی سلسلہ نے لمبی پرسوز دعا کروائی۔ مَیں اپنے والدین کو ملتا ہوا راولپنڈی سے بذریعہ ہوائی جہاز13 ؍جنوری کو سپین پہنچا۔
خاکسار ،مکرم کرم الٰہی صاحب ظفرؔ امیر و مشنری انچارج سپین کا پہلا نائب تھا۔ آپ یہاں ایک لمبا عرصہ سے تنہا علم اسلام بلند کئے ہوئے تھے۔ خاکسارنے جاتے ہی سپینش زبان سیکھنے کے لیے تگ و دَو شروع کی۔ دو ماہ تک ایک سکول میں جاتارہا جہاں ایک پیریڈ پڑھایا جاتا تھا مجھے یہ تعلیم ناکافی محسوس ہوئی۔ مجھے چھ ماہ کا ٹارگٹ ملا ہوا تھا اور خلیفۃ المسیح کے منہ کی نکلی ہوئی بات نے پورا ہونا تھا۔ میں نے مولوی صاحب کے بیٹوں سے کہا کہ یونیورسٹی میں دیکھیں کوئی کورس ہو زبان کا تو بتائیں۔ مکرم عطاء الٰہی منصور صاحب نے جو ڈاکٹری کے لیے پڑھ رہے تھے مجھے بتایا کہ گرما کی رخصتیں ہونے والی ہیں اور تین چار ماہ کے کورس ٹورسٹ کے لیے ہوتے ہیں ان میں بہت کوالیفائیڈ پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ میں یونیورسٹی سے معلوم کرکے آیا تومعلوم ہوا کہ چار ماہ کا کورس ہے جس میں چار پیریڈ پڑھائے جائیں گے۔گرائمر ، لٹریچر، تاریخ،اور کلچر۔ جو چاروں مضامین پاس کرے گا اس کو ڈپلومہ ملے گا۔ جو صرف گرامر اور لٹریچر پاس کرے گا اس کو سرٹیفکیٹ اِن سپینش ملے گا۔ فیس ڈیڑھ سو پائونڈ تھی میں نے مولوی صاحب کو آکر بتایا تو فرمانے لگے یہ کافی مہنگا ہے مشن کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ میں پھر گیا سیکرٹری سے ملا اور بتایا کہ کوئی رعایتی کورس چاہئے۔کہنے لگی کہ اس فیس میں دو ٹور بھی شامل ہیں، اگر تم یہ سیاحت نہ کرو تو پچھتر پاؤنڈ ہی رہ جاتے ہیں وہ ادا کردو۔ چنانچہ وہ ادا کردیے گئے۔ اس کورس میں مختلف ملکوں کے سینکڑوں طالب علم بھی شامل تھے۔ انہیں تبلیغ بھی کی۔ مشن ہاؤس میں کئی الماریاں مختلف زبانوں کے پرانے رسائل سے بھری ہوئی تھیں۔ میں نے اجازت لے کر جن ملکوں کے طلباء تھے انہیں ان ملکوں کے رسائل اور کتب دیں تاکہ بعد میں جب اپنے ملکوں میں جائیں تو وہاں کے احمدیہ مشن سے رابطہ کرلیں۔ جب امتحان ہوا تو میں کورس میں اوّل نمبر پر پاس ہوا اور انچارج کورس نے جناب ریکڑ صاحب سے عمدہ رنگ میں میرا تعارف کرایا۔ ڈگری دیتے وقت وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ چھ ماہ میں الحمد للہ زبان لکھنی اور بولنی سیکھ لی۔ پھر سنڈے مارکیٹ Rastroمیں خاکسار نے کتب کا ایک سٹال لگانا شروع کردیا۔ بولنے کی پریکٹس کرتا رہا اور تقریباً ایک سال میڈرڈ میں رہا اور وہاں یہ خدمت بجا لاتا رہا۔

میڈرڈ- سپین میں میری تبلیغی مساعی

ایک تو سپینش کلاس میں سینکڑوں طلباء کو تبلیغ ہوئی دوسرے پروفیسر صاحب مسٹر ہینری کو مشن ہاؤس میں لایا۔ سنڈے مارکیٹ میں سینکڑوں لوگوں کو تبلیغ ہوئی۔ انگریزی کی ایک فری کلاس بھی جاری کی جس کے ایک طالب علمJose Miguel Coboصاحب نے بیعت کرلی جن کا نام مبارک احمد رکھا گیا۔ یہ میرے پہلے سپینش احمدی تھے۔ مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب کا ایک مناظرہ ایک پادری صاحب سے ہوا۔ مجھے ساتھ مددگار کے طور پرلے گئے۔ کئی گھنٹے گفتگو ہوئی۔ حوالے وغیرہ مَیں دیتا رہا۔ ان کا چرچ کے ساتھ سکول تھا اور سکول کے طالب علم بھی ساتھ بٹھائے ہوئے تھے۔ جب اُن کے دلائل ختم ہوگئے توایک طالب علم سے پادری صاحب نے ماچس منگوائی اور تین تیلیاں اکٹھی کرکے جلا دیں اور کہنے لگے دیکھویہ تیلیاں تین ہیں مگر شعلہ ایک ہی ہے گویا یہ تین اقنوم دراصل ایک ہی ہیں اور اس طرح ایک تین اور تین ایک کا مسئلہ سمجھ آجاتا ہے۔ میں نے ماچس اُن کے ہاتھ سے لی اور ایک تیلی نکالی اور جلائی اور کہا کہ ایک تیلی ہے اور ایک شعلہ ہے اس سے آپ اپنے گھر کو جلا سکتے ہیں، اپنے محلہ کو جلا سکتے ہیں، میڈرڈ کو، سپین کو اور پھر ساری دنیا کو جلا سکتے ہیں۔ دوسری اور تیسری تیلی کو ساتھ شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کو ساتھ شامل کرنا ایک لایعنی فعل ہے۔ ماچس کی تیلیوں کا بلاوجہ کا ضیاع ہے۔ یہی ہے توحید کا مسئلہ ہے کہ اگر ایک خدا مکمل ہے تو اپنی ذات و صفات میں تو وہی کافی ہے، اس کے ساتھ کسی کو ملانے کی ضرورت نہیں اور ایسا کرنا اس کی ناقدری اور اس کی ذات سے نا انصافی ہے۔ تمام طلباء کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔علماء جو مسئلہ کئی گھنٹے میں سلجھانہ سکے اللہ تعالیٰ کے فضل نے چند منٹوں میں ان ہی کی ڈرامہ بازی کو ان پر اُلٹادیا۔
بالنسیا کے مسٹرخوسے Jose Rebellisایم اے اکنامکس تھے اور میڈرڈ میں رہتے تھے۔ وہ میرے دوست بن گئے اور میں اُن کے ہاں بھی ان کی تربیت کی غرض سے کچھ عرصہ رہا۔ وہ اینٹوں کا کاروبار کرتے تھے۔ یورپ میں بلند قامت عمارتیں بنتی ہیں جن میں قسما قسم کی اینٹیں لگتی ہیں۔ سپین کے مختلف علاقوں میں اینٹیں بنائی اور بھٹوں میں پکائی جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ نمونہ کی پندرہ بیس اینٹیں اپنی کار کی ڈِگی میں رکھتے، جہاں عمارت زیر تعمیر ہوتی وہاں Sample دکھاکر بڑے بڑے آرڈر لیتے اور مال Supplyکردیتے تھے۔ خاکسار نے اُن کے بھائی Elicio اور سیکرٹری کے ہمراہ تین لمبے سفر کیے اور سپین کا جنوب و شمال دیکھا۔ مَیں ہر جگہ پر اسلام و احمدیت کی تبلیغ کرتا رہا اور لٹریچر تقسیم کرتا رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرطبہ ، غرناطہ، اشبیلیہ اور زاراغوثہ مفت میں دکھا دیا اور تبلیغ کی توفیق عطا کی۔ ایک تبلیغی سفر مَیں نے Logrono کا بھی کیا تھا اور وہاں دعائیں بھی کیں۔ اب وہاں بڑی جماعت قائم ہے۔
میڈرڈ میں اتوار کو مختلف جگہوں پر سیمینار اور لیکچر ہوتے ہیں۔انسان اخبار میں سے دیکھ کر اُن میں جاسکتا ہے اور اسلام کا نقطۂ نظر بیان کرسکتا ہے۔ چنانچہ میں بھی اس کے لیے جایاکرتا تھا اور اس کا فائدہ حاصل کرتا تھا۔ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ پارلیمنٹ کے پاس جو کیفے ٹیریاز ہیں اُن میں اخباری نمائندے آکر بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ وہاں بھی جانے لگا۔ ایک چائے کی پیالی پر کتنی ہی تبلیغ ہوجاتی تھی اور اپنا نقطہ نظر پہنچانے کا موقع مل جاتا تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ میڈرڈ میں جنوبی امریکہ کے اخبارات و رسائل کی نمائش لگی۔ مکرم مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب نے مجھے وہاں بھجوایا اور مَیں وہاں کئی دن تک جاتا رہا اور تیس ممالک کے سینکڑوں اخبارات و رسائل کے پتہ جات لکھ کر لایا اور پھر سب کو اسلام واحمدیت پر معلوماتی اور تبلیغی لٹریچر بھجوایا گیا۔ یہ پہلی بار جنوبی امریکہ کے ممالک میں ہماری تبلیغی مساعی تھی۔ اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ کل کو مجھے ہی ان ممالک میں بطورمبلغ ِاوّل جانے کی اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔ الحمد للہ علی ذٰلک

Poertollano۔ سپین میں ایک نئے مشن کی ابتداء

ایک دن ہمیں سنڈے مارکیٹ میں تین ہپی نوجوان ملے۔ بال بڑھائے ہوئے اور کپڑے پھٹے ہوئے۔ پوچھا یہ کیاحالت بنائی ہوئی ہے؟ کہنے لگے خدا اسی طرح ملتا ہے۔ مکرم مولانا صاحب انہیں سنڈے مارکیٹ کے بعد مشن ہائوس لے آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھائیں اور سمجھایا گیا تو وہ احمدی ہوگئے۔ یہ لوگ Poertollanoضلع سیوداد ریال کے تھے۔ یہ وہ ضلع ہے جو طلیطلہ اور قرطبہ کے درمیان میں دونوں طرف سے کچھ کچھ حصہ لے کر بعد میں تشکیل دیا گیا ہے۔ میرے متعلق فیصلہ ہوا کہ میں وہاں چلاجاؤں۔ چنانچہ مَیں پہلی بار میڈرڈ سے باہر نکل کر ایک مشن قائم کرنے وہاں چلاگیا اور مجھے اڑھائی سال تک وہاں رہنے کا موقع ملا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ الاؤنس میں سے اپنا چندہ وصیت ادا کرنے اور کمرہ کا کرایہ ادا کرنے کے بعد جو بچ رہتا اس سے میں تمام خرچ نہایت کفایت شعاری سے چلاتا۔ اسی میں سے مہمان نوازی بھی ہوتی۔ کوئی سائر کا خرچ مَیں نہ لیتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جو کالج میں مجھے معاشیات کامضمون پڑھایا تھا اس کی افادیت کا احساس ہوا۔ مانگنے کی مجھے شروع سے عادت نہیں تھی۔جو ملا اس پر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کیا تو اس نے میرے لیے ہمیشہ تھوڑے میں ہی بہت برکت رکھ دی۔
نئے شہر میں ہماری تعداد بڑھتے بڑھتے قریباً پچاس ہوگئی۔ باجماعت نمازیں ادا کرتے، روزے رکھتے۔ کئی لوگوں نے رؤیا بھی دیکھیں۔ رخصت والے دن اجتماعی طور پر تبلیغ کرتے۔ نوجوانوں میں تبلیغ زور وں پر تھی اور دلائل صادقہ سب کو گھائل کرتے جاتے تھے۔ پادریوں نے میری بہت مخالفت کی۔ کئی بار تھانے بھی جانا پڑا۔ وہاں بھی پمفلٹ دیتے ہوئے تبلیغ کرتا اور بتاتا کہ مَیں شہر میں بے امنی پیدا نہیں کررہا یہ الزام تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی لگایا گیا تھابلکہ پادری بے امنی پیدا کررہے ہیں جو میرے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ حالانکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُن سے زیادہ عزت کرتا ہوں اور اُن کا حقیقی مقام مرفوع بتاتا ہوں۔ اس پر پولیس والے مجھے چھوڑ دیتے۔ یہ جرنیل فرانکو کا زمانہ تھا اور حکومت پادریوں کی پوری طرح پشت پناہی کرتی تھی۔
میڈرڈ میں قیام کے دوران مَیں نے ایک مضمون ’’ کفن مسیح‘‘ کے متعلق لکھا تھا جو ’’بولیٹن احمدیہ‘‘ میں شائع کیا گیا۔ یہ رسالہ گھر میں ہی ٹائپ کرکے سائیکلوسٹائل کیا جاتا تھا جو کبھی تین ماہ بعد کبھی جلد کبھی بدیر نکلتا تھا۔ اس مضمون کا اتنا ردِّ عمل ہوا کہ مکرم مولوی صاحب کو منسٹری میں بلا کرڈانٹا گیا اور سپین سے نکال دینے کی دھمکی دی گئی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، مضمون میرا ہے اور میں ہر قسم کی سزا خود برداشت کروں گا اور اُن پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ پھر میں پوئر تو جانو آگیا تو بات رفع دفع ہوگئی۔
میڈرڈ کے ایک پرانے احمدی مکرم عبد الرحمن کلیمنتے صاحب کے ماموں اور خالہ Poertollanoمیں رہتے تھے۔ ان کے گھر بھی میرا آنا جانا رہا۔ جب وہاں چند نوجوان میری باتوں سے متاثر ہوئے تو نوجوانوں کی ایک تنظیم کی سیکرٹری ایک خاتون Sra constanzaنے مجھے آکر کہا کہ آپ نوجوانوں میں تقریر کریں اور اپنے تجربات کی روشنی میں بتائیں کہ نوجوانوں کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے اور یہ کہ آ پ سپینش نوجوانوں کوکیسا پاتے ہیں ؟ چنانچہ میں نے دعوت قبول کی۔ میری تقریر بہت پسند کی گئی ، مقامی اخبار میں بھی خبر شائع ہوئی۔ حضرت مصلح موعود ؓ کی یہ بات کہ نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، انہیں بہت پسند آئی اور انہوں نے مجھے اپنی تنظیم کا اعزازی ممبر بنا لیا۔
وہاں Eladioاور مسٹرAntono کے گھروں میں بھی میراآنا جانا تھا۔ ان کی مائیں میرا بڑا خیال رکھتی تھیں۔ ایک دن یہ دوست کہنے لگے کہ ہماری بہنیں اور ان کی سہیلیاں آٹھویں میں ہیں اور انگریزی میں فیل ہوجاتی ہیں اگر آپ پندرہ دن اُن کو پڑھادیں تو امید ہے کہ وہ پاس ہو جائیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کو پڑھا دیا اور وہ سب پاس ہوگئیں تو ان کی برٹش استانی میرا شکریہ ادا کرنے آئی اور پوچھا کہ تم نے کیسے پڑھایا ہے؟ میں نے بتایا کہ دراصل میں نے گرائمر سپینش میں انہیں سمجھائی ہےجو پہلے انہیں سمجھ نہیں آتی تھی۔
ایک دن Selecianoکے پادری صاحب نے چند طلباء کے ساتھ مجھے زدوکوب کرنے کا پروگرام بھی بنایا۔ میرے دوستوں کو اس خفیہ پلان کا علم ہوگیا۔ جب میں شام کے قریب گھر جارہا تھا تو میرے دوستوں میں سے ایک بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے اپنی کمر کے ارد گرد سائیکل کی چین لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ اس گرجے اور سکول کے پادری نے تمہاری تبلیغ سے تنگ آکر تمہیں زدوکوب کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ مجھے بروقت علم ہوگیا ہے اس لیے میں یہ انتظام کرکے آیا ہوں۔چنانچہ ہم نے راستے میں چھپے ہوئے نوجوانوں کو للکارا جو سب بھاگ گئے۔شہر کے لوگوں کو اس بات کا جب علم ہوا تو انہوں نے احتجاج کیا کہ ایسا کیوں سوچا گیا اور ایسا پلان کیوں بنایا گیا۔ مقامی اخبا ر میں اس حرکت کے خلاف خطوط بھی شائع ہوئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں:
’’اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایاجائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیارکئے ہیں۔ مجھے اُس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اس میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کروں اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کے تسلی پانے کے لیے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خداتعالیٰ کی پاک کتابوں کی رُو سے صادق کی شناخت کے لیے اصل معیار ہے مجھ پرکھولے ہیں اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں صفحہ۱۱)
نیز فرمایا : ’’خدا تعالیٰ کا آئینہ میں ہوں۔ جو شخص میرے پاس آئے گا اور مجھے قبول کرے گا وہ نئے سرے سے اس خدا کو دیکھ لے گا جس کی نسبت دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصے باقی ہیں۔‘‘ (نزول مسیح صفحہ ۸۴)

ایک رؤیا اور اس کی تعبیر-مسجد بشارت

Poertollanoمیں مَیں نے ایک پہاڑی پر جگہ بنائی ہوئی تھی۔ سنت نبوی ؐ کے مطابق میں وہاں جاکردعا کیا کرتا تھا۔ ایک دن واپس آیا تو بہت جذب محسوس ہوا۔ رات کو رؤیا میں میں نے دیکھا کہ ایک جگہ ہے۔ وہاں سے لے کر دریا کے پل تک میں نے ایک قالین بچھایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لارہے ہیں۔ میں پل پر کھڑا ہوکر انتظار کررہا ہوں تو حضورؑ قریب تشریف لاکرمجھے میرا نام لے کر فرماتے ہیں ’’ اقبال خوب تیاری کرو۔‘‘ پھر آسمان کی طرف اشارہ کرکے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے اپنے جسم کو خوب بھگولو۔‘‘پھر منظر بدل جاتا ہے اور میں واپس اس اونچی جگہ پر آجاتا ہوں اور بارش برسنی شروع ہوجاتی ہے اورمیں اس میں اپنے جسم کو بھگو رہا ہوں۔ مگر موسلادھار بارش ہے جو سب طرف پڑرہی ہے۔ چنانچہ کاغذ پر خواب میں دیکھی ہوئی جگہ کا ایک نقشہ بناکر اور یہ خواب لکھ کر مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو لکھ کر بھجوادی۔
مَیں واپس پاکستان آیا تو میرے بعد مسجد بشارت پیدروآباد کی جگہ خرید کی گئی۔ بعد میں مکرم مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ کئی زمینیں حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تھیں لیکن ہر دفعہ حضورؒ فرماتے ’’یہ وہ نہیں ہے‘‘۔ جب پیدروآبادوالی زمین پیش کی گئی تو فرمایا کہ ’’ یہ لے لو یہ وہ ہے۔‘‘ اورحضورؒ نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’یہ زمین نہ مَیں نے پسند کی ہے نہ کسی اَور نے پسند کی ہے بلکہ یہ میرے خدا نے پسند کی ہے اور مسجد کا نام بھی مسجد بشارت رکھا‘‘۔
ستمبر 1980ء میں مَیں پاکستان سے دوسری بار سپین آیا تو قرطبہ مشن کا چارج لیا۔ مسجد بشارت کی تعمیر ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ چھ ماہ سے مزدوروں کی ہڑتال چل رہی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے یہاں تشریف لاکر مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تو کچھ عرصے بعد مزدوروں کی ہڑتال بھی ختم ہوگئی اور پھر دعاؤں کے ساتھ اس مسجد کی تعمیر شروع کرادی گئی۔

اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک غیر معمولی سلوک

مجھے سپین میں چند ماہ گزرتے تھے کہ میری وہ خالہ جان وفات پاگئیں جنہوں نے میری پرورش میں غیر معمولی حصہ لیا تھا اور میرے ساتھ بہت محبت کا سلوک فرمایا تھا۔ میرے لیے وہ والدہ کی طرح تھیں (میری والدہ میرے جامعہ کے آخری سال میں یعنی 22 جولائی 1970ء کو 44 سال کی عمر میں فوت ہوگئی تھیں۔چنانچہ نانی اور والدہ کے بعد خالہ ہی میرے لیے بڑا سہارا تھیں۔ مالی طورپر بھی آپ میری بڑی مدد کیا کرتی تھیں اور اپنا مکان واقع دارالرحمت وسطی ربوہ بھی آپ نے مجھے ہبہ کردیا تھا۔ اُن کے ساتھ ایک خاص تعلق کی وجہ سے اور تجہیز و تکفین میں شامل نہ ہوسکنے کی وجہ سے کافی صدمہ محسوس کررہا تھا۔ دیار غیر میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت ہی تھی جو میرے لیے سہارا بنی۔

اے محبت تو عجب آثار نمایاں کردی
زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہوکر فرماتے ہیں:

قربانِ تست جانِ من اے یارِ محسنم
بامن کدام فرق تو کردی کہ من کنم
ہیچ آگی نبود و عشق و وفا مرا
خود ریختی متاعِ محبت بدامنم

اُن دنوں مَیں میڈرڈ میں آٹھویں منزل پر ایک کمرے میں رہتا تھا اور چھٹی منزل میں مشن ہاؤس تھا۔ تین دن سے مَیں باہر نہیں گیا تھا۔ تین دن تو افسوس کرنا جائزہے۔بوجہ وفور جذبات میرے لیے مشکل تھا کہ مَیں کسی کا سامنا کرسکتا۔ تیسرے دن مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے اور چاندی کی طشتری میں دو انگوٹھیاں رکھ کر میرے سامنے کرتا ہے اور کہتا ہے اس میں سے اپنی اٹھالوں۔ ایک انگوٹھی جس پر اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدہ لکھا تھا وہ انگوٹھی دائیں ہاتھ سے اٹھاکر میں نے اپنی انگلی میں پہن لی اور کہا کہ یہ ہے میری انگوٹھی۔ پھر آنکھ کھلی تو طبیعت میں اتنا سکون تھا کہ جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ الحمدللہ

سپینش نمائندہ کی پہلی بار جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت

1976ء میں خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ ا للہ علیہ کی خدمت میں تحریر کیا کہ امسال سپین سے احمدی نمائندہ کی شمولیت کی اجازت مرحمت فرماویں۔ کیونکہ آج تک کبھی کوئی سپین کا نمائندہ جلسہ سالانہ میں شامل نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ حضور پُرنور ؒ نے اجازت مرحمت فرمائی اور مکرم عبدالرحمٰن کلیمنتے صاحب اور مکرم مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر اُس سال جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے۔
مکرم کلیمنتے عبدالرحمٰن صاحب کے بارے میں خبر یوں شائع ہوئی:
’’ مسٹر عبدالرحمن کلیمنتے مکرم کرم الٰہی صاحب ظفر کے ساتھ سپین کے نمائندہ کے طور پر آئے ہیں۔ آپ میڈرڈ کے ایک خالص سپینش ہیں۔ آپ نے بارہ سال قبل احمدیت قبول کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سنڈے مارکیٹ Rastroمیں کرم الٰہی صاحب ظفر ملے جہاں وہ عطر فروخت کرتے تھے اور تبلیغ بھی کرتے تھے۔ میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی اور میں چھ سات سال تک اسلام و احمدیت کا لٹریچر مطالعہ کرتا رہا۔ پھر میں احمدیت میں داخل ہوگیا۔ مجھے اردو یا انگریزی زبان تو نہیں آتی تھی لیکن محبت کی زبان نے مجھ پر بہت اثر کیا۔ میں اپنے ہر طرف پیار و محبت ہمدردی و مسرت کو پاتا ہوں۔ 1970ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ اپنے دورہ کے دوران سپین تشریف لائے تھے۔ مجھے وہی آپ کی محبت یہاں کھینچ لائی ہے۔ اب تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ لیا ہے کہ احمدی تو صرف اور صرف محبت کے پتلے ہیں۔ تھوڑے سے وقت میں میرا اتنی محبت اور اعلیٰ اخلاق سے رشتہ قائم ہوا ہے کہ جسے بھلا دینا اور اپنے ذہن سے نکال دینا کبھی بھی میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔
آپ نے ربوہ کے متعلق کہا : یورپ کے شہروں کی طرح تو نہیں ہے مگر جو سکون اور اطمینان اور مسرت اور مسکراہٹیں یہاں پر ہیں وہ سپین کے کسی شہر میں بھی نہیں ہیں۔ جلسہ سالانہ کی تیاریاں بہت عمدہ ہیں اور جو خدمت کرنے والے ہیں وہ بھی بڑے اعلیٰ ہیں جبکہ ان کی خدمت سب رضاکارانہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ سب مجھ سے بہت بہتر ہیں اور میں سب سے زیادہ گیا گزرا ہوں۔ آخر میں آپ نے کہا کہ سب کامیں بہت مشکور ہوں کہ سب للہی مقاصد کے پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ میں سب کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں۔ ‘‘ (خالد فروری ۱۹۷۷ء)

میری سپین سے واپسی

تقریباً ساڑھے تین سال بعد 26؍اپریل 1977ء کو خاکسار سپین سے بذریعہ انگلستان و ہالینڈ واپس ربوہ پہنچا۔ مکرم فائبر قیصر صاحب آف بارسلونا نے آتے ہوئے اپنی ایک کتاب جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کشمیر سے متعلق تھی Jesus Viveoy murio en cachamira اپنے دستخطوں سے مجھے بھجوائی تھی جو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کی۔ اس کا اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب سرینگر یونیورسٹی کے آثارِقدیمہ کے پروفیسر جناب حسنین صاحب نے بھی لکھی تھی۔چنانچہ کسرصلیب کانفرنس 1978ء میں ان دونوں حضرات نے بھی اپنا اپنا مقالہ پڑھا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں