سگریٹ نوشی – جدید تحقیق کی روشنی میں

سگریٹ نوشی – جدید تحقیق کی روشنی میں
(ناصر محمود پاشا)

ایک مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سگریٹ نوشی کے نتیجے میں درمیانی عمر میں یادداشت متأثر ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس مطالعے کے دوران لندن میں مقیم ایسے سول سرونٹس سے انٹرویوز کئے گئے جن کی عمر 35سال سے 55 سال کے درمیان تھی۔ 1985ء سے 1988ء تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں کُل 10,308 افراد سے معلومات حاصل کی گئیں۔ ماہرین کے نزدیک انہوںنے سگریٹ نوشی اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یادداشت کے مسائل میں اضافے کے درمیان رابطے کا پتہ چلایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ نتائج اس لئے بھی اہم ہیں کہ درمیانی عمر میں یادداشت کے مسائل کا شکار ہونے والے سگریٹ نوشوں کو بڑی عمر میں ڈی۔مینشیا کی بیماری میں جلد مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
سگریٹ نوشی ایک وبا کی طرح ہر معاشرہ میں سرایت کرتی چلی جارہی ہے- اس بدعادت کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ اپنی جگہ لیکن مالی نقصان بھی کم نہیں ہوتا- یہی رقم دیگر کئی دینی اور گھریلو ضروریات میں کام آسکتی ہے- کئی ممالک میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی جاچکی ہے جس کے خوشکن نتائج دیکھنے میں آرہے ہیں- چنانچہ سکاٹ لینڈ میں مارچ 2006ء میں عائد کی جانے والی اس پابندی کے بعد سے ہسپتالوں میں لائے جانے والے دل کے حملوں کے مریضوں میں 17فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور یہ اعدادوشمار سکاٹش گورنمنٹ کی ویب سائٹ پر پیش کئے گئے ہیں۔ گلاسگو یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق پابندی لگنے سے دس ماہ پہلے کے دورانئے میں 3235 مریض ہسپتال میں دل کے حملے کے سلسلے میں لائے گئے تھے لیکن عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی میں پابندی کے بعد دس ماہ کے دوران یہ تعداد 2684 رہ گئی۔ ان اعدادوشمار کو نو ہسپتالوں سے حاصل کیا گیا ہے جبکہ سکاٹ لینڈ میں چودہ ایسے ہسپتال ہیں جہاں دل کے حملے کے مریض لائے جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں سکاٹ لینڈ وہ پہلا ملک تھا جہاں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی گزشتہ سال عائد کی گئی تھی جبکہ ویلز، شمالی آئرلینڈ اور انگلینڈ میں یہ پابندی اس سال لگائی گئی ہے۔
جنوبی آئرلینڈ جہاں یہ پابندی مارچ 2004ء میں عائد کی گئی تھی، وہاں سے ملنے والے اعدادوشمار سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے عوامی مقامات پر پابندی کے نتیجے میں دل کے حملے کے نتیجے میں لائے جانے والے مریضوں کی تعداد میں گیارہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر کارک یونیورسٹی ہاسپٹل کے متعلقہ ماہرین نے صحت عامہ کے مفاد کے لئے ایسی ہی دیگر پابندیوں کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کینسر کے خلاف کام کرنے والے عالمی ادارے کے اندازے کے مطابق یورپ کے اکثر ممالک کے علاوہ دنیا کے بعض دیگر ممالک جن میں آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں جزوی طور پر اس قسم کی پابندی عائد کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں 240 ملین افراد کو تمباکو کی آلودگی سے بچنے میں مدد ملی ہے۔ جبکہ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہوا ہے۔
٭ عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومتوں کی سطح پر معاشرے میں تمباکونوشی کے مضر اثرات سے خبردار کرنے کی کوشش جلد نہ کی گئی تو اِس صدی میں تمباکونوشی سے ہلاک ہوجانے والے افراد کی تعداد دس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ اندازہ اُس جائزے کے بعد لگایا گیا ہے جس میں دنیا کی کُل آبادی کے ننانوے فیصد پر تمباکونوشی کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے افراد کو تمباکونوشی سے بچانے کے لئے چھ نکات پر مشتمل لائحہ عمل کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے۔ اِن نکات میں تمباکو کے استعمال اور اس کی روک تھام کو زیرمشاہدہ رکھنا، عوام کو سگریٹ کے دھوئیں سے بچانے کی تدابیر اختیار کرنا، تمباکو نوشی ترک کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی مدد کرنا، تمباکونوشی کے نقصانات سے خبردار کرنا، تمباکونوشی کے فروغ کے لئے دیئے جانے والے اشتہارات پر پابندی عائد کرنا اور تمباکو اور اس کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ کرنا شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بات خاص طور پر بتائی گئی ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں تمباکونوشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور آبادی میں اضافے کی نسبت تمباکونوشوں کی تعداد میں اضافے کی شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ ان ممالک میں تمباکو کی مصنوعات تیار کرنے والوں کی اشتہار بازی کے باعث ہر سال لاکھوں لوگ تمباکونوشی کی لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیابھر کے کُل تمباکونوشوں کی دو تہائی تعداد کا تعلق دس ممالک سے ہے جن میں چین، بھارت، انڈونیشیا، روس، امریکہ، جاپان، برازیل، بنگلہ دیش، جرمنی اور ترکی شامل ہیں۔
ایک دوسری مطالعاتی تحقیقی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ صرف بھارت میں اگلی دہائی میں ہر سال صرف دس لاکھ لوگ تمباکونوشی سے متعلقہ امراض کا شکار ہوکر ہلاک ہوا کریں گے جبکہ اِس وقت اِن کی تعداد نو لاکھ سالانہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بارہ کروڑ لوگ تمباکونوشی کرتے ہیں جن میں سے 61 فیصد کے تیس سے انہتر برس کے درمیان مرنے کا امکان ہے۔ بھارت کے گیارہ لاکھ گھروں پر کئے جانے والے سروے کے نتائج کے مطابق بیڑی پینے والا مرد اپنی زندگی کے چھ برس اور عورت آٹھ برس کم زندہ رہتی ہے جبکہ سگریٹ نوش مردوں میں یہ شرح دس برس تک ہے۔
برطانیہ میں تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے عوام کو بچانے کے لئے متعلقہ ادارے نے ایک نیا قانون نافذ کرنے کا مشورہ حکومت کو دیا ہے جس کے تحت سگریٹ خریدنے والے افراد اپنی رجسٹریشن کروائیں گے اور ہر سال اس رجسٹریشن کی تجدید کروائیں گے۔ اس رجسٹریشن کے نتیجے میں اُن کو ایک سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے گا جسے دکھانے کے بعد ہی وہ سگریٹ حاصل کرسکیں گے۔ ایک خبر کے مطابق محکمہ صحت انگلینڈ کے چیئرمین پروفیسر جولین لی گرینڈ کا کہنا ہے کہ ستر فیصد سگریٹ نوشوںکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس بُری عادت سے چھٹکارا حاصل کرسکیں اور اُن کے لئے سگریٹ کا حصول نسبتاً مشکل بنانا اُن کے مقصد کی تکمیل میں ممد ثابت ہوسکتا ہے۔ نیز ہر سال اُنہیں اپنی رجسٹریشن کی تجدید کے وقت یہ سوچنے کا موقع ملے گا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ نیز ایک طویل فارم کو پُر کرنا، تصویر مہیا کرنا اور رجسٹریشن فیس کی ادائیگی جیسے سارے امور اُن کے سگریٹ کے لئے شوق کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیں گے۔ تمباکو فروشوں کی یونین نے حکومت کی اس تجویز کو نامناسب قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے تمباکو سے زیادہ نقصاندہ چیزوں کے لئے اسی قسم کا قانون رائج کیا جائے تاکہ شراب اور دیگر منشیات کے نقصانات سے بھی عوام محفوظ رہ سکیں۔
اس حوالہ سے چند تحقیقی رپورٹس ملاحظہ فرمائیں:
٭ ایک رپورٹ کے مطابق سگریٹ پینے والے افراد کو بڑی عمر میں سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں یا سگریٹ چھوڑ دینے والوں کی نسبت بعض دماغی بیماریاں لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ روٹرڈم میڈیکل سنٹر کے نیورالوجی سے متعلق شائع ہونے والے جریدے میں طبع کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پچپن سال اور اس سے زائد عمر کے سگریٹ نوشوں کو سگریٹ نہ پینے والوں کی نسبت الزائمر اور ڈی۔منشیا لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں سات ہزار افراد کا لمبے عرصے تک مشاہدہ کیا گیا جس سے یہ نتائج مرتب کئے گئے۔ سائنسدانوں کے مطابق سگریٹ نوشی سے معمولی نوعیت کے متعدد فالج ہوسکتے ہیں جو دماغ کو نقصان پہنچاکر سگریٹ نوشی کرنے والے کو ڈی۔منشیا میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی سے جلد کو زنگ لگنے کا عمل بھی تیز ہوجاتا ہے اور اس کے کیمیائی ردّعمل کے باعث DNA متأثر ہوتا ہے جو الزائمر کا باعث بنتا ہے۔
٭ یونان میں ایک تحقیقی ادارے کے چوبیس ماہرین پر مشتمل ٹیم نے 160 صحتمند نوجوانوں پر تجربات کرنے کے بعد ثابت کیا ہے کہ کافی اور سگریٹ کے بیک وقت استعمال سے دل کی بڑی شریانوں میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تناؤ کے باعث بلڈپریشر میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے اور دل کی دھڑکن میں بھی شدید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت سے چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ بڑی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کردینی چاہئے یا کم از کم دونوں چیزوں کا استعمال بیک وقت نہ کیا جائے۔
٭ امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی کے نتیجے ہونے والے پھیپھڑوں کے سرطان کا اصل سبب سگریٹ کے دھوئیں میں پایا جانے والا ایک آکسیڈنٹ ’’ہائیڈروجن پرآکسائیڈ‘‘ ہے۔ لیبارٹری میں کئے جانے والے تجزیئے اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ آکسیڈنٹ پھیپھڑوں کے خلیے تَباہ کرکے سرطان کا باعث بنتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے سگریٹ نوشی کے باعث ہونے والے پھیپھڑوں کے سرطان کو روکنے اور اس کے علاج میں مدد ملے گی۔ جبکہ ماہرین نے ایسی سگریٹ تیار کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں جن کا دھواں اِس آکسیڈنٹ یعنی ’’ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘‘ سے پاک ہو اور پھیپھڑوں کے سرطان کے لئے کم خطرے کا باعث ہو۔
٭ امریکہ، فرانس اور آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے محققین کی ٹیموں نے ہزاروں افراد پر تحقیق کی ہے تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ بعض لوگ تمباکو نوشی کرنے کے باوجود کسی قسم کی بیماری میں مبتلا کیوں نہیں ہوتے جبکہ بعض لوگ سگریٹ سے دُور رہنے کے باوجود پھیپھڑوں کے کینسر جیسے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تینوں ٹیموں میں شامل محققین نے ہزاروں افراد کے DNA ٹیسٹ کے نتیجے میں یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی جسم میں ایسے تین جینیاتی مادے ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے کسی شخص کو پھیپھڑوں کا کینسر ہونے کا خطرہ 30 سے 80 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ پھیپھڑوں کے کینسر ہونے کا سبب زیادہ تر تمباکونوشی ہے لیکن دراصل صرف پندرہ فیصد سگریٹ نوش افراد کو ہی یہ کینسر لاحق ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق اگر سگریٹ نوشوں میں ایسے جینیاتی مادے بھی موجود ہوں تو اُن میں پھیپھڑوں کے کینسر ہونے کا خدشہ 23 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اور دراصل یہی جینیاتی مادے ہیں جن کی وجہ سے تمباکونوشی کی عادت راسخ ہوسکتی ہے کہ اُسے چھوڑنا بھی ناممکن معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب تک یہ تحقیق صرف یورپین افراد پر کی گئی ہے اور اگلے مرحلے میں ایشیائی اور سیاہ فاموں کو بھی اس تحقیق میں شامل کیا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں