سیالکوٹ کا شہر

ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 2011ء میں مکرم مرزا عرفان بیگ صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کے وطن ثانی سیالکوٹ شہر کا تعارف شائع ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں تقریباً سات سال پہلے رہ چکا ہوں۔ … وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک جنگل میں۔ مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ اپنی اوائل زمانہ کی عمر کا حصہ مَیں اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت پھِر چکا ہوں‘‘۔ حضور علیہ السلام 1864ء میں پہلی بار سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ دوسری بار 1878ء میں اور پھر ماموریت کے بعد 1892ء میں تشریف لے گئے۔ 1904ء میں ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ کی تقریب کی غرض سے اس شہر کا سفر اختیار فرمایا۔
کہتے ہیں کہ قریباً چار ہزار سال قبل اس شہر کی بنیاد راجا سل (یا سلا) نے رکھی تھی۔ اس نے ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا تھا اور اس بستی کا نام اپنے نام پر سلکوٹ رکھا۔ پھر بکرماجیت کے عہد میں راجا سالی واہن (سالباہن) نے اس پر قبضہ کیا۔ جدید نظریہ یہ ہے کہ سیالکوٹ ایک قدیم شہر ’’سکالا‘‘ کے کھنڈروں پر آباد ہے۔ یونانی بادشاہوں کے عہد میں یہ Euthydemus خاندان کا دارالحکومت رہا اور پھر ھنؔ قبائل نے اس پر قبضہ کرلیا۔ شہنشاہ اکبر کے دَور میں سیالکوٹ ایک ’’سرکار‘‘ کا صدرمقام تھا۔ سترہویں صدی کے نصف میں جموں کے راجپوت راجا اس پر قابض ہوگئے۔ یہاں بابانانک کا ایک گردوارہ بھی ہے جہاں سالانہ میلہ لگتا ہے۔ 1849ء میں باقی صوبہ پنجاب کے ساتھ ضلع سیالکوٹ پر بھی انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ 1857ء میں سیالکوٹ حرّیت پسندوں کے اہم مراکز میں سے تھا اور کچھ عرصہ انقلابیوں کا اس پر قبضہ بھی رہا۔ اس دوران یہاں کی مختصر انگریز آبادی پرانے قلعے میں پناہ گزین ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد ضلع گورداسپور کی تحصیل شکرگڑھ بھی اس ضلع میں شامل کردی گئی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارتی فضائیہ نے یہاں کی شہری آبادی کو بڑی بے دردی سے بمباری کا نشانہ بنایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں