سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍دسمبر 2003ء میں مکرم فہیم احمد خادم صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ قریباً اکیس سال قبل کا واقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ غانا کا ہیڈکوارٹر سالٹ پانڈ میں تھا۔ مکرم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر و مبلغ انچارج تھے۔ کسی ملازمہ کی غلطی سے ایک روز اُن کے گھر کے باورچی خانہ میں آگ لگ گئی۔ باوجود اس کے کہ دو سلنڈر جل رہے تھے، باورچی خانہ لکڑی کا بنا ہوا تھا، مشن ہاؤس سے ملحقہ ایک پٹرول پمپ بھی تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگ پر قابو پالیا گیا البتہ ملازمہ کے جسم کا کچھ حصہ جھلس گیا۔ اُسے ہسپتال میں داخل کرواکر علاج کروایا گیا اور بعد میں اسے سلائی مشین اور کچھ نقدی دے کر راضی خوشی رخصت کردیا گیا۔
2000ء میں 20 سال بعد اُسی ملازمہ نے اچانک جماعت کے خلاف ہرجانہ کا دعویٰ کردیا۔ اگرچہ غانا کے ملکی قانون کے مطابق اتنے عرصہ بعد مقدمہ درج نہیں ہوسکتا تھا لیکن ظاہر ایسے ہوتا تھا کہ عورت کی کوئی چال ہے یا وہ کسی کے اشاروں پر کھیل رہی ہے۔ جس دن اُس عورت کے وکیل نے عدالت میں دلائل پیش کرنے تھے، اُسی روز وکیل کی گاڑی کو اچانک آگ لگ گئی اور وہ خاکستر ہوگئی۔ تاہم وکیل کسی طرح عدالت تک پہنچا اور استدعا کی کہ اُس کے ذہن پر گاڑی کو آگ لگنے کے واقعہ کا بہت اثر ہے اس لئے مقدمہ کی کارروائی ملتوی کردی جائے۔ بہرحال عدالت نے کچھ عرصہ بعد مقدمہ کا فیصلہ جماعت کے حق میں کردیا اور اُس عورت کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایک لاکھ سیڈیز جرمانہ جماعت کو ادا کرے۔
جب اس مقدمہ کی تفصیل حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں بھجوائی گئی تو آپؒ نے ازراہ شفقت تحریر فرمایا: ’’اس لڑکی سے حسن سلوک کریں۔ وہ غریب پہلے جل گئی اور اب مقدمہ ہار گئی ہے تو جو جرمانہ اس پر پڑے وہ اس سے وصول نہ کریں، وہی جماعت کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں