سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍دسمبر 2003ء میں مکرم ارشاد احمد خان صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شفیق یادیں بیان ہوئی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب محترم سلطان شیر خان صاحب مرحوم نے 1955ء میں بیعت کی۔ جب وہ ربوہ سے آتے تو ہمیں بتاتے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے ایک بیٹے مرزا طاہر احمد صاحب میری عمر کے جوان ہیں جن کے اخلاق نے مجھے بہت متأثر کیا ہے۔

میرے والدین نے مجھے پیدائش سے قبل وقف کردیا تھا۔ جب 1975ء میں مَیں نے میٹرک کیا تو میرے والد صاحب مجھے ربوہ لے گئے۔ جامعہ احمدیہ میں داخل کروایا اور حضورؒ سے ملوانے وقف جدید کے دفتر لے گئے۔ مَیں صوبہ سرحد کے سنگلاخ قبائلی علاقہ میں بچپن گزار کر آیا تھا، اردو بھی صحیح نہیں بول سکتا تھا۔ جامعہ میں داخل ہونے کے بعد مجھے شدید نزلہ زکام ہوا جو قریباً چار ماہ تک رہا۔ ایسے میں کچھ بزرگوں نے میری بڑی مدد کی اور ان میں حضورؒ تو میرے لئے مجسم رحمت تھے۔ چنانچہ مَیں اس قابل ہوا کہ جامعہ کی پڑھائی جاری رکھ سکوں۔ جب خاکسار ثالثہ کا طالب علم تھا تو سالانہ امتحان میں ایک مضمون میں میرے پاس ہونے سے صرف چھ نمبر کم تھے۔ باقی مضامین میں نمبر اچھے تھے لیکن ممتحن نے مجھے فیل کردیا۔ مَیں نے پرنسپل مکرم ملک سیف الرحمن صاحب سے رعایتی پاس کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ کیس اب وکالت تعلیم میں چلا گیا ہے اور مجھے مشورہ دیا کہ میاں طاہر احمد صاحب سے مل لوں۔ چنانچہ مَیں نے ساری تفصیل جاکر حضورؒ سے عرض کردی کہ میرا ایک سال بچ سکتا ہے۔ میرے جیسا معاملہ جامعہ کے تیرہ چودہ دیگر طلباء کے ساتھ بھی تھا۔ آپؒ نے فوری بورڈ کا اجلاس طلب کیا۔ بورڈ کے اجلاس میں حضورؒ نے پوچھا: اگر ایک چانس اَور مل جائے تو پاس کرلوگے؟۔ مَیں نے کہا: انشاء اللہ۔ چنانچہ میرا دوبارہ امتحان ہوا جس میں 80فیصد نمبر آئے اور میرا ایک سال بچ گیا۔
جامعہ کے شاہد کے امتحان میں موازنہ مذاہب کے مضمون میں کمیونزم بہت مشکل تھا۔ اس بارہ میں ہماری کلاس نے حضورؒ سے مدد مانگی تو حضورؒ نے گزشتہ دس سالوں کے پرچے نکلواکر اُن کے منتخب سوالات پر دو دن لیکچر دیا جو دفتر سے چھٹی کے بعد شروع ہوتا۔ اور اس طرح ہمارے سارے سوالوں کے جواب دے دیئے۔
جب حضورؒ نے صفات باری تعالیٰ پر خطبات دیئے تو مَیں نوشہرہ کینٹ میں مربی تھا۔ وہاں ایک غیراحمدی پروفیسر نے ایک خطبہ سن کر کہا کہ وہ گزشتہ پینتیس سال سے یہ مضمون سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ آج خطبہ سن کر اسے سمجھ سکا ہے۔
پشتو زبان کے ایک شاعر عبدالرحمن بابا نے کیا خوب کہا ہے: آپ کے حسن کے پھول بہت زیادہ ہیں اور میرا دامن تنگ ہے، کس کس کو جمع کروں؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں