سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب

عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی۔
(قرآن مجید،احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے عورتوں کے حقوق،ان سے حسن سلوک،پردہ اور تعدد ازواج سے متعلق اسلام کی حقیقی تعلیم کا بیان)
جماعت احمدیہ برطانیہ کے 38ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر 31؍جولائی 2004ء کو
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں مستورات سے خطاب
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اسلام کی تعلیم میں جہاں ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی احکامات موجود ہیں اور معاشرتی،گھریلو یا ذاتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتا نہ دیا گیا ہو اور قرآن کریم کی جن باتوں کی وضاحت ضروری تھی وہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور ارشادات سے سمجھا دی اوراتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں بتایا جو بظاہر چھوٹی ہیں لیکن انسانی زندگی کے اخلاق اور صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ اتنی باریکی سے ذاتی زندگی میں جا کر احکامات دئیے گئے ہیں کہ اسلام کے مخالفین کو اگر کوئی اور اعتراض نہیں ملا تو یہی کہہ دیا کہ یہ کیسا مذہب ہے، یہ کیسا رسول ہے کہ ایسی باتوں کا بھی حکم دیتا ہے جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ جو گھریلو یا ذاتی نوعیت کی باتیں ہیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کویہ پتہ نہیں لگتا کہ یہی باتیں ہیں جو اخلاق اور مذہب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح باقی معاملات میں اور مختلف احکامات دئیے ہیں اس میں عورت کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا ہے، اس میں عورت کے فرائض کا بھی ذکر فرمایا ہے، اختیارات کا ذکر فرمایا ہے، ذمہ داریوں کابھی ذکر فرمایا ہے۔ اور بعض اوقات ہمیں پتہ نہیں لگتا اور قرآن کریم کو غور سے نہ پڑھنے کی وجہ سے پتہ نہیں لگتا یا یہاں اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہم متأثر ہو جاتے ہیں،بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں اور بظاہر یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ عورت پر سختی ہے۔ حالانکہ وہ باتیں عورت کے عزت و احترام کے قائم کرنے کے لئے اور عورت کی گھریلو اور ذاتی زندگی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرے کی وجہ سے ان لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ خاص طور پر عورتیں سمجھتی ہیں کہ اسلام میں عورت کی حیثیت ایک کم درجے کے شہری کی ہے اور اصل مقام جو ہے وہ صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے جو اسلام دشمنوں نے اسلام کے خلاف کیا ہے اور اس پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر ایسی عورتیں جن کو قرآن کریم یا دین کی صحیح تعلیم کا علم نہیں اور انہوں نے اس کا صحیح مطالعہ نہیں کیا، وہ ان کی باتوں میں آ جاتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل بعض دفعہ متأثر ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں نوجوان نسل سے کہتا ہوں کہ یہ دجّال کی ایک چال ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمان عورتوں کو ان کا ہمدرد بن کر اسلام سے اتنا دور لے جاؤ کہ اسلام کی آئندہ نسل اُن سوچوں کی حامل ہو جائے جو اسلام کی تعلیم سے دور لے جانے والی ہیں اور اس طرح وہ اپنا مقصد حاصل کر لے۔ احمدی عورت کو ہمیشہ ان سوچوں سے بچنا چاہئے اور دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ تم جو کہہ رہے ہو غلط ہے۔ اسلام نے تو عورت کوجو تحفظ دیا ہے اَور کوئی مذہب اتنا تحفظ نہیں دیتا۔ اور ہمیں اس زمانے میں جس طرح کھول کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بتا دیا ہے اس کے بعد تو ممکن ہی نہیں کہ ایک احمدی عورت کسی دجّالی چال یا کسی فتنے میں آئے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ : ’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے

وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (البقرۃ :229)

کہ جیسے مَردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مَردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے‘‘۔ (ملفوظات۔ جلد سوم صفحہ 300۔ 301۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو دیکھیں کتنی وضاحت سے آپؑنے فرمایا کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں۔ اس لئے مرد یہ کہہ کر کہ مَیں قوّام ہوں اس لئے میرے حقوق بھی زیادہ ہیں،زیادہ حقوق کا حقدار نہیں بن جاتا۔ جس طرح عورت مرد کے تمام فرائض ادا کرنے کی ذمہ دار ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے تمام فرائض ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے، غلط محاورہ ہے۔ اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت سے دل بھر گیا تو دوسری پسند آ گئی اس سے شادی کر لی۔ اسے چھوڑ دیا اور پہلی بیوی کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال ہی نہ رکھا گیا تو یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ جذبات احساسات رکھنے والی ایک ہستی ہے۔ مَردوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ ایک عرصے تک تمہارے گھر میں سکون کا باعث بنی، تمہارے بچوں کی ماں ہے، ان کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتی رہی ہے۔ اب اس کو تم ذلیل سمجھو اور گھٹیا سلوک کرو اور بہانے بنا بنا کر اس کی زندگی اَجیرن کرنے کی کوشش کرو تو یہ بالکل ناجائز چیز ہے۔ یا پھر پردہ کے نام پر باہر نکلنے پر ناجائز پابندیاں لگا دو۔ اگر کوئی مسجد میں جماعتی کام کے لئے آتی ہے تو الزام لگا دو کہ تم کہیں اور جا رہی ہو۔ یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں جن سے مردوں کوروکا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمہارا عورت سے اس طرح سے سلوک ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ جس طرح دو حقیقی دوست ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اس طرح مرد اور عورت کو تعلق رکھنا چاہئے کیونکہ جس بندھن کے تحت عورت اور مرد آپس میں بندھے ہیں وہ ایک زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور معاہدے کی پاسداری بھی اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ معاہدوں کو پورا کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں ایک دوسرے کے راز دار بھی ہوتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مرد کی بہت سی باتوں کی عورت گواہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا کیانیکیاں ہیں، کیا خوبیاں ہیں،کیا برائیاں ہیں۔ اس کے اخلاق کا معیار کیا ہے؟ تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرما رہے ہیں کہ اگر مرد عورت سے صحیح سلوک نہیں کرتا اور اس کے ساتھ صلح صفائی سے نہیں رہتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیسے ادا کرے گا۔ اس کی عبادت کس طرح کرے گا، کس منہ سے اس خدا سے رحم مانگے گا؟ جبکہ وہ خود اپنی بیوی پر ظلم کرنے والا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے و ہی اچھا ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ تو دیکھیں یہ ہے عورت کا تحفظ جو اسلام نے کیا ہے۔ اب کو نسا مذہب ہے جو اس طرح عورت کو تحفظ دے رہا ہو۔ اس کے حقوق کا اس طرح خیال رکھتا ہو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوْا النِّسَآء کَرْھًا۔ وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْھَبُوْا بِبَعْضِ مَا اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ۔ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء 20:)

کہ اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو۔ اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ لے بھاگو۔ سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بھلائی رکھ دے۔
تو فرمایا کہ اے مومنو! جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان ہے اور اس کے رسول پر بھی ایمان ہے تو اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جو حکم تمہیں اللہ اور اس کے رسول نے دئیے ہیں ان پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو،ان کے حقوق ادا کرو۔ اوران کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو۔ الزام تراشیاں نہ کرو۔ اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے، اگر اس کے پاس دولت ہے،فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ ایک تو ظاہری دولت ہے جونظر آرہی ہے۔ بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھران عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تاکہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے۔ تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے۔ پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں۔ پھر بعض دفعہ زبردستی یا دھوکے سے عورت کی جائداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو۔ آدھے حصے کے مالک بن گئے۔ اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ گھر بیٹھے رہتے ہیں اورعورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں۔ اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سسرال والے جائداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں، ناجائز ہیں۔ تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو۔ اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کرعورت کے حقوق کا اتناخیال رکھا ہو۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو یہ حقوق دلوائے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’بیوی اسیر کی طرح ہے۔ اگر یہ

عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

پر عمل نہ کرے تو وہ ایساقیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں ‘‘۔ (الحکم جلد نمبر8۔ مورخہ 10 مارچ؍1904ء صفحہ6)
غرض ان سب کی غور و پرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور ان کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے لئے بلکہ

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان75:)

کا لحاظ ہو۔ تو فرمایا کہ بیویوں سے حسن سلوک کرو کیونکہ جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر تمہارے گھر آتی ہیں تو ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا معاملہ ہونا چاہئے اور تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایک لڑکی جب اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر آتی ہے تو اگر اس سے حسن سلوک نہ ہو تو اس کی اس گھر میں، سسرال کے گھر میں، اگر جوائنٹ (joint) فیملی ہے تو وہی حالت ہوتی ہے جو ایک قیدی کی ہو رہی ہوتی ہے۔ اور قیدی بھی ایسا جسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ لڑکی نہ خود ماں باپ کو بتاتی ہے نہ ماں باپ پوچھتے ہیں کہ بچی کا گھر خراب نہ ہو۔ تو اگر لڑکی اس طرح گھٹ گھٹ کر مر رہی ہو تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کوبہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں،نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں ؟ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زد و کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے۔ اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء :20)

ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے۔ انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 403۔ 404۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ایک جگہ آپ نے فرمایاہے کہ:
’’ یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں ‘‘۔ تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے۔ مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں۔ اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے۔ لیکن جو مرد خود نماز نہیں پڑھتا،خود دین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کوکچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہیں۔ (شاید عورتوں کو یہ خیال ہو کہ یہ باتیں تو مردوں کو بتانی چاہئیں۔ فکر نہ کریں ساتھ کی مارکی میں مرد سن رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں سن رہے ہیں آپ کے حقوق کی حفاظت کے لئے۔)
ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ:
’’ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو‘‘۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75)
آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزکیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرو کرو۔ اور حدیث میں ہی

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو ‘‘۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75 حاشیہ)
تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے۔ آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلواتا۔
پھر بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے۔ اور مرد وں کو یہ بھی حکم ہے کہ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ اگر اس طرح زیادتی کرو گے تو یہ ظلم ہو گا اور پھر ظلم کی سزابھی تمہیں ملے گی۔
ایک دوسری آیت

وَاِنْ عَزَمُواالطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (البقرۃ:228)

کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے:
:’’اوراگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں سو یاد رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بد دعا سن لے گا‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ البقرۃ آیت228)
تو یہاں تک مردوں کو ڈرایا ہے۔ دیکھیں آپ کے حقوق قائم کرنے کے لئے کس طرح مردوں کو انذار ہے۔
پھر ایک اعتراض اسلام پر یہ کیا جاتا ہے اور اسی اعتراض کو لے کر عورتوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھو تمہارے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔ تمہیں تو اسلام نے گھر کے اندر بند کرکے رکھا ہوا ہے اور مرد کو کھلی چھٹی دی ہے جو چاہے کرے حتیٰ کہ اگر اس کی خواہش ہو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر لے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ اول تو یہ دجالی اعتراضات ہیں بغیر سیاق و سباق کے ان کو پیش کیا جاتا ہے اور پتہ ہے کہ یہ عورت کی کمزوری ہے اس لئے اس کو انگیخت کیا ہے کہ عورت کے جذبات کو ابھار کر فائدہ اٹھایا جائے۔
ان اعتراض کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ تم جو ایک شادی پر اکتفا کرنے کو اچھا سمجھتے ہو کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے خاوند بعض برائیوں میں مبتلا نہیں۔ اکثر کا جواب یہی ملے گا کہ ہمیں اپنے خاوندوں پر تسلی نہیں اور ان مغربی معاشروں میں طلاقوں کی شرح انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس میں سے ایک بہت بڑی اکثریت اسی بے اعتمادی کی وجہ سے طلاقیں لیتی ہے۔ عورت مرد پرشک کرتی ہے اورپھر اس شک کی وجہ سے بعض اوقات خود بھی بعض برائیوں اور فضولیات میں پڑ جاتی ہے۔
اسلام نے جو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے وہ بعض شرائط کے ساتھ دی ہے۔ ہر ایک کو کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ شادی کرتا پھرے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تقویٰ پر قائم ہو اپنا جائزہ لو کہ جس وجہ سے تم شادی کر رہے وہ جائز ضرورت بھی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ تم شادی کرکے بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو گے کہ نہیں۔ اور اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر تم پہلی بیوی کی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کی فکر میں ہو تو پھر تمہیں دوسری شادی کا کوئی حق نہیں ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ:
’’ یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہو ں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے۔ خداتعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ ایسے لذّات کی نسبت جن سے خداتعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔
تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ63۔ 64۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی اگر یہ احساس ہو کہ ان حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ادا نہ کرکے اللہ تعالیٰ مرد کو کتنی شدید پکڑ میں لا سکتا ہے تو فرمایا کہ اگر مردوں کو یہ علم ہو تو وہ شاید یہ بھی پسند نہ کریں کہ ایک شادی بھی کریں۔ ایک شادی بھی ان کے لئے مشکل ہو جائے چونکہ پتہ نہیں کس وجہ سے عورت کا کونسا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے لیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دلشکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو‘‘ یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو’’ اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کر ے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 64۔ 65۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو فرمایا کہ یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو۔ بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چارشادیوں کی اجازت د یتا ہے۔ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کرو۔ ہاں اگرکوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو۔ ایسے حالات میں عموماً پہلی بیویاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں۔ تو بہرحال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
فرمایا کہ:
’’ ہمیں جو کچھ خداتعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلاکسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔ اور اپنی اغراض کے لحا ظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے‘‘۔
فرمایا :
’’دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں۔ جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان

عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

کے حکم سے ہی کر سکتا ہے‘‘۔
فرمایا کہ:
’’ خداتعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے۔ خداتعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم۔ صفحہ 63۔ 65۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ مرد کی فطرت کے تقاضے کو بھی ملحوظ رکھا ہے لیکن ساتھ ہی عورت کے حقوق کو بھی تحفظ دیا ہے اور فرمایا کہ تم مومن ہو تو گھریلو معاملات میں ذاتی معاملات میں ہمیشہ تمہیں تقویٰ مدنظر رہنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ:’’ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعددازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہو۔ مگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خواہ مخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں۔ اورہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ اُن عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرا لیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا۔ اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض ِعہد کا مرتکب ہو گا۔ ‘‘ یعنی کہ عہد کے توڑنے کا مرتکب ہو گا۔ ’’لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اور حکمِ شرع پر راضی ہووے تو اس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہو گا۔ اور اس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘۔ ہرایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے توتعدد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے۔ خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے۔ پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے۔ اوراگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ246)
تو غیر جو اسلام پر چار شادیوں کا اعتراض کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے اور ہر ایک کو پتہ ہے کہ چار تک شادیاں کر سکتے ہیں۔ جو بھی مسلمان ہے مردوں کو بھی پتہ ہے، عورتوں کو بھی پتہ ہے۔ قرآن کی تعلیم ہے اور اس علم کے باوجود شادیاں ہوتی ہیں۔ لیکن فرمایا کہ چار تک شادیاں کر سکتا ہے بشرطیکہ ضرورت جائز ہو،حق ادا کر سکتا ہو۔ تو پھر جب معاہدہ کرنے والوں کے علم میں ہے تو دوسروں کو دخل اندازی کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان لوگوں کو اپنے گھروں کی فکر کرنی چاہئے جہاں یہ لوگ غلط کاموں میں ملوث ہو کر اپنے گھروں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال اس تحریر میں بھی دیکھ لیں کہ ہرقدم پر عورت کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔
غرض اگر آنکھوں پر پردے نہ پڑے ہوں تو یہ اعتراض ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ کیوں اجازت دی گئی۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ ایک مسلمان عورت کے دماغ میں مغربی تہذیب کے علمبردار جو ہیں (جن میں خود بھی بے انتہا کمزوریاں ہیں اور بعض کا مَیں نے اشارۃً ذکر بھی کیا ہے) یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد کو اسلام نے عورت پر فوقیت دی ہے اور اس طرح اسلام مرد کو یہ حق دیتا ہے کہ جس طرح چاہے وہ عورت سے سلوک کرے اور عورت کا کام ہے کہ وہ صرف فرمانبردار ی کرتی رہے اور مرد کے سامنے اونچی آواز نہ کرے۔ تو یہ سب گمراہ کن پروپیگنڈاہے جو اسلام کے خلاف کیا جاتاہے۔ آپ لوگوں کو،خاص طورپر نوجوان نسل کو،اس کے متعلق اسلام کا حسین موقف لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور خود بھی اس قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
معترضین قرآن کریم کی اس آیت پر جو اعتراض کرتے ہیں کہ

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء (النسآء:35)۔

یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیاہے۔ اور پھر یہ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ (النسآء:35)۔ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں۔ لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضر ت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے کی ہے وہ مَیں تھوڑی سی بیان کرتاہوں۔ فرمایا کہ:
’’ سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو،جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج روی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو یعنی گھریلوں نظام کو تباہ کرنے والی ہو،میاں بیوی کے تعلقات کوخراب کرنے والی ہو،توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈا ل کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں۔ اور

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ (النسآء: 35)

میں خداتعالیٰ نے جوبیان فرما یاہے وہ یہ ہے کہ خد اتعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ قوّام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ہر گزیہ مراد نہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے‘‘۔ (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان۔ یکم اگست 1987 ء)
تو

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء (النسآء: 35)

کہہ کر مَردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی،کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ مَیں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ مَیں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی۔ اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمّہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہے، ناچاقیاں ہوجاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤ۔ اور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کرو کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائے۔ اور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے۔
پھر یہ اعتراض کہ مرد کو اجازت ہے کہ عورت کو مارے تو یہ اجازت اس طرح عام نہیں ہے۔ خاص حالات میں ہے۔ جب عورتوں کا باغیانہ رویہ دیکھو تو پھرسزا دینے کا حکم ہے لیکن اصلاح کی خاطر۔ پہلے زبانی سمجھاؤ، پھر علیحدگی اختیار کرو، پھر اگر باز نہ آئے اور تمہاری بد نامی کا باعث بنی رہے تو پھر سختی کی بھی اجازت ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ایسی مار نہ ہو کہ جسم پر نشان پڑ جائے،یا کوئی زیادہ چوٹ آئے۔ مغلوب الغضب ہو کر نہیں مارنا بلکہ اصلاح کی غرض سے اگر تھوڑی سی سختی کرنی پڑے تو کرنی ہے۔ اب عورتیں خود سوچ لیں جوعورت اس حد تک جانے والی ہو،اپنے فرائض ادانہ کرنے والی ہو، اپنی بری صحبت کی وجہ سے بچوں پہ بھی برا اثر ڈال رہی ہو اور ان میں بے چینی پیدا کر رہی ہو تو اس کے ساتھ کیا سلو ک ہونا چاہئے۔ اس وجہ سے پھر بچوں کی، آپ کی نسل برباد ہو رہی ہو گی اور معاشرے میں بدنامی بھی ہو رہی ہو گی۔ لیکن ساتھ یہ حکم بھی دے دیا ہے کی جو عورتیں اپنی اصلاح کر لیں تو پھر بہانے تلا ش کر کے ان پرسختی کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اور اسی طرح جو عورتیں نیک ہیں، فرمانبردار ہیں، تمہارے گھروں کی صحیح طور پر حفاظت کرنے والیاں ہیں،تمہارے مال کو احتیاط سے خرچ کرنے والیاں ہیں،اس رقم میں جو تم ان کو گھر کے اخراجا ت کے لئے دیتے ہو، گھر چلانے کے لئے دیتے ہو،کچھ بچا کر پس انداز کر کے تمہارے گھر کی بہتری کے ساما ن پیدا کرنے والیاں ہیں۔ تمہارے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے والیاں ہیں ان کو معاشرے کا بہترین وجو د بنانے والیاں ہیں،ان کا تومردوں کو ہرطرح سے خیال رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان پر سختیاں نہیں کرنی چاہئیں اوریہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے اس پر فضیلت ہے اس لئے جو مرضی کروں۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو فرماتاہے کہ اگر یہ سوچ ہے تو یا د رکھو اسی نے فرمایا کہ اللہ تمہارے سے بڑا ہے، اللہ کو بھی فضیلت ہے۔ اس لئے اُس کی پکڑ سے بچنے کے لئے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرو۔ اب اس کے بعد کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ اسلام میں عورت کو کم تر سمجھا گیا ہے۔
ایک حدیث میں آتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے ؟ فرمایا جب خود کھاؤ تو اسے کھلاؤ۔ خود پہنوتو اسے بھی کپڑے پہناؤ۔ چہرے پر نہ مارو۔ اسے برا بھلا نہ کہو اور ناراضگی کے باعث اگر علیحدہ ہونا پڑے تو پھر گھر میں اکٹھے ہی علیحدہ رہو۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علیٰ زوجھا)
یعنی جیسا کہ پہلے بھی تفصیل سے ذکر آیا ہے کہ اگر سختی کرنی پڑے تو اصلاح کی غرض سے سختی ہونی چاہئے، نہ کہ بدلے لینے کے لئے غصے اور طیش میں آکر۔ اور پھر ان کے جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے ظاہری جذبات کا بھی خیال رکھو۔ ان کی ظاہری ضروریات کا بھی خیال رکھو۔
جو عورتیں اپنے گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہیں،اپنے خاوندوں کی وفادار اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والیاں ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسول کیا فرماتے ہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔
اسماءؓ بنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اس وقت آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ وہ کہنے لگیں آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ مَیں آپؐکے پاس مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ میری جان آپؐپر فدا ہو۔ شرق و غرب کی تمام عورتیں میر ی اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لئے بھیجا ہے۔ ہم آپ پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپ کو معبوث فرمایا۔ ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصور ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں۔ اور آپ کی اولاد سنبھالے پھرتی ہیں۔ اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ، نماز باجماعت، عیادت مریضان، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے۔ اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے۔ آپ میں سے جب کوئی حج کرنے،عمرہ کرنے،یا جہاد کرنے کے لئے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں۔ لباس کے لئے روئی کاتتی اور آپ کی اولا د کو پالتی ہیں۔ تویا رسول اللہ پھر بھی ہم آپ کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخِ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھاکہ ایک عورت ایسی (گہری) سو چ رکھتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ: اے عورت !واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لئے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔ وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اَللّٰہ ُ اَکْبَرْ

کے الفاظ بلند کرتی گئی۔ (تفسیر الدر المنثور)
تو فرمایا کہ جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے۔ تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے،اللہ کا رسول دے رہا ہے۔
میں نے ابھی مختصراً چندباتیں بیان کی ہیں، جن میں کچھ تحفظا ت جو اسلام عورت کو فراہم کرتا ہے اور کچھ حقوق جو عورت کے ہیں ان کا ذکر کیا ہے۔
اب مَیں آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم، جو اصل میں عورت کو عورت کا وقار اور مقام بلند کرنے کے لئے دیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلانی چاہتاہوں اور پہلے بھی اس بارے میں توجہ دلا چکاہوں۔ لیکن بعض باتوں اور خطو ط سے اظہارہوتا ہے کہ شاید میں زیادہ سختی سے اس طرف توجہ دلاتاہوں یا میر ا رجحان سختی کی طرف ہے۔ حالانکہ میں اتنی ہی بات کررہاہوں جتنا اللہ اور اس کے رسول اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے۔ لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے جو پردے کی شرائط ہیں۔ تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میں برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کریں۔ اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لئے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لئے۔ اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مردوں کو بھی ہے۔ ان کوبھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو۔ بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ رہو۔
جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ تو صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ہمیں رستوں پر مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا رستے کا حق ادا کرو۔ تو انہوں نے عرض کیا اس کا کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غضّ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی راہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 61 مطبوعہ بیروت)
تومردوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر بازار میں بیٹھے ہو تو پھر سلام کا جواب دو بلکہ سلام کرو۔ راستہ پوچھنے والوں کو راستہ بتاؤ۔ اچھی اورپسندیدہ باتوں کا حکم دو۔ تو یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو آپس کے تعلقات بڑھانے اور نیکیاں قائم کرنے والی ہیں۔ اور ان کے ساتھ ہی غضِ بصر کو بھی رکھا۔ یعنی یہ بھی ایک ایسا عمل ہے جس سے تمہارے معاشرے میں پاکیزگی قائم ہوگی اور تمہیں نیکیاں کرنے کی مزید توفیق ملے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے بلکہ

یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور:31)

پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہئے‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 533۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو مومن کو تو یہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھو۔ اور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن عموماً معاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے۔ اگر پردہ ہو گا تو وہ اس سلسلے میں، کافی مددگار ہو گا۔ اور پردہ کرنے کے بھی اللہ تعالیٰ نے احکامات بتا دئیے کہ کون کون سے رشتے ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے پردہ نہ کرنے کی اجازت دی ہے اور باقی سب سے پردہ کرنے کی تعلیم۔
فرما یا:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِ ھِنَّ عَلٰے جَیُوْبِھِنَّ۔ ولَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآئھِنَّ اَوْ اٰبَآء بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآ ئِھِنَّ اَوْ اَبْنَآء بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْ اِخَوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْ اَخَوٰتِھِنَّ اَوْنِسَآئِھِنَّ اَوْ مَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجاَلِ اَوِالطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰے عَوْرٰتِ النِّسَآء۔ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعاً اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(النور:32)

اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں، سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو،اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوند وں کے لئے یااپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند وں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یااپنی بہنوں کے بیٹوں یااپنی عورتوں یا اپنے زیرِ نگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یاایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤ ں اس طرح نہ ماریں کہ(لوگوں پر) وہ ظاہر کر دیا جائے جو(عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرح تو بہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘
پہلی بات تو یہ بتائی کہ جس طرح مردوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں، عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی کریں،آنکھوں میں حیا نظر آئے تاکہ کسی کو جرأت نہ ہوکہ کبھی کسی قسم کاکوئی غلط مطلب لے سکے۔ تم باہر نکلتے وقت اس طرح اپنی چادر یا برقع یا حجاب وغیرہ لو کہ سامنے کا کپڑا اتنا لمبا ہو جو گریبانوں کو ڈھانک لے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تشریح کی ہے قمیض کا جوچاک سامنے کا ہوتا ہے جُیُوْبِھِنَّ جو گریبان ہے اس تک نیچے تک آنا چاہئے۔ اور ہاتھ پاؤں وغیرہ جن کا نظر آنا مجبوری ہے وہ تو خیر کوئی بات نہیں، ظاہر ہے نظرآئیں گے۔ بہرحال یہ ہے کہ تمہاری زینتیں ظاہر نہ ہوں۔ بعض عورتوں نے برقعوں کو اتنافیشن ایبل بنا لیا ہے کہ برقع کا کوٹ جو ہے وہ اتنا تنگ ہو تا ہے کہ وہ ایک تنگ قمیص کے برابر ہی ہو جاتاہے۔ پردہ کا اصل مقصد تو زینت چھپانا ہے،نہ کہ فیشن کرنا۔ تویہ تنگ کوٹ سے پورا نہیں ہو سکتا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ آج کل عربوں یا ترکوں میں جورواج ہے برقعے کا یہ بڑا اچھا ہے۔ لیکن وہی کہ کوٹ کھلا ہونا چاہئے۔ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو بعض قسم کے کوٹوں کو پسند نہیں کرتیں اوراگر کسی کا دیکھ لیں تو خط لکھتی رہتی ہیں اور بہت سوں نے ایک دفعہ سمجھانے کے بعد اپنی تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ لیکن فکر اس لئے پیدا ہو تی ہے جب بعض بچیاں سکولوں کالجوں میں جھینپ کر یا شرما کر اپنے برقعے اتار دیتی ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ کسی قسم کے کمپلیکس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے میں برکت ہے۔ تیسر ی دنیا کے ایسے ممالک افریقہ وغیرہ جو بہت پسماندہ ہیں وہاں تو جوں جوں تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے اور لوگ جماعت میں شامل ہور ہے ہیں اپنے لباسوں کو ڈھکا ہوا بنا کر پردے کی طرف آرہے ہیں۔ اور ان خاندانوں کی بعض بچیاں جہاں برقع کا رواج تھا برقع اتار کر اگر جین بلاؤز پہننا شروع کر دیں تو انتہائی قابل فکر بات ہے۔ ہم تو دنیا کی تربیت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں۔ اپنوں میں اسلامی روایات اور احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہو تا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کن کن لوگوں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت دیتا ہے اس بارے میں فرمایا کہ خاوند، باپ، سسر یا خاوندوں کے بیٹے اگر دوسری شادی ہے پہلے خاوندکی اگر کوئی اولاد تھی تو، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا اپنی ماحول کی عورتیں جو پاک دامن عورتیں ہوں جن کے بارے میں تمہیں پتہ ہو۔ کیونکہ ایسی عورتیں جو برائیوں میں مشہور ہیں ان کو بھی گھروں میں گھسنے یا ان سے تعلقات بڑھانے کی اجاز ت نہیں ہے۔ ان کے علاوہ یہ جو چند رشتے بتائے گئے اس کے علاوہ ہر ایک سے پردے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی فرما دیا کہ تمہاری چال بھی باوقار ہونی چاہئے۔ ایسی نہ ہو جو خواہ مخواہ بد کردار شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہو اور اس کو یوں موقع دو۔ اگر اس طرح عمل کرو گے، توبہ کی طرف توجہ کروگے تاکہ خیالا ت بھی پاکیزہ رہیں تو اسی میں تمہاری کامیابی ہو گی اور اسی میں تمہاری عزت ہو گی،اور اسی میں تمہار ا مقام بلند ہو گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں۔ ‘‘ یعنی قید خانہ نہیں۔ ’’بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیرمرد و عورت اکھٹے بلاتأمّل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیرمرداور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کوحالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے ‘‘۔ انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مردو عورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے۔ اُن ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہاہے‘‘۔ یعنی کہ اتنی آزادی والی تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ جہاں کوئی شرم و حیا ہی نہیں رہی اور’’ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے۔ یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو۔ لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا در کھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی‘‘۔ اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہو کہ معاشرہ ٹھیک ہے ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا،یہاں کے ماحول میں پردے کی ضرور ت نہیں کیونکہ لوگوں کو دیکھنے کی عادت نہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں یا در کھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ ’’اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مردوعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ میں آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خودکشیاں دیکھیں ‘‘۔ یہ بھی خود کشیوں کا یہاں جواتنا ہائی ریٹ (High rate)ہے اس کی بھی ایک یہی وجہ ہے۔ ’’بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جوغیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی ‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ21۔ 22۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
توآج بھی دیکھ لیں کہ جس بات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نشاندہی فرما رہے ہیں جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اسی کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور اس بے اعتمادی کی وجہ سے گھر اجڑتے ہیں اور طلاقیں ہو تی ہیں۔ یہاں جو اِن مغربی ممالک میں ستر، اسّی فیصد طلاقوں کی شرح ہے یہ آزاد معاشرے کی وجہ ہی ہے۔ یہ چیزیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر گھر اُجڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’ پردے کا اتنا تشدد جائز نہیں ہے۔ …حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رِحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتاہے۔ دینِ اسلام میں تنگی و حرج نہیں۔ جوشخص خواہ مخواہ تنگی و حرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بناتاہے۔ گورنمنٹ نے بھی پردہ میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئیے ہیں۔ جو جوتجاویز و اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت ِ وقت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیاہے ‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 171۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ایک تو یہ فرمایاکہ بعض عورتوں کی پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹروں کو بھی دکھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ وہاں جو بعض مرد غیرت کھا جاتے ہیں کہ مردوں کو نہیں دکھانا وہ بھی منع ہے۔ ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہونا کوئی ایسی بات نہیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’ اسلامی پردہ پر اعتر اض کرناان کی جہالت ہے۔ ‘‘یعنی یورپین لوگوں کی یا جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پردہ نہیں ہونا چاہئے۔ ’’ اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں جس پر اعتراض وارد ہو۔ قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غضِّ بصر کریں۔ جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا ہے کہ ’شہوت کی نظر سے نہ دیکھو‘۔ افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنّف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔ اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں۔ اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں سَتر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدّنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 297۔ 298۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ایک جگہ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے مردوں کی اصلاح کر لو پھر کہو کہ پردہ کی ضرورت نہیں رہی۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کبھی ایسی خواہشات کی تکمیل کے لئے جو صرف ذاتی خواہشات ہوں دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نہ ہوں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت اور احمدی بچی کا ایک مقام ہے۔ آپ کو اﷲ اور اس کے رسول نے نیکیوں پر قائم رہنے کے طریق بتائے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفصیل سے وہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دئیے ہیں۔ کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہوئے بغیر ان راستوں پر چلیں اور ان حکموں پر عمل کریں۔ دنیا کو بتائیں اور کھول کر بتائیں کہ اگر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کسی نے کی ہے تو اسلام نے کی ہے۔ معاشرے میں اگر عورت کی عزت قائم کی ہے تو اسلام نے کی ہے۔ تم اے دنیا کی چکاچوند میں پڑے رہنے والو! آج اگر معاشرے کو امن پسند بنانا چاہتے ہو تو اسلام کی تعلیم کواپناؤ۔ آپ کو یہ سبق ان کو دینا چاہئے نہ کہ ان کی باتوں اور کمپلیکس میں آئیں۔ ان کو بتائیں کہ آج اگر اپنی عزتوں کو قائم کرنا ہے تو اسلام کی طرف آؤ۔ آج اگر اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانا ہے تو ہمارے پیچھے چلو۔
ﷲ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں