سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004ء کے موقع پر خواتین سے خطاب

اسلام نے عورت کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے
جس طرح مردوں کے حقوق وفرائض کی۔

اپنی نسلوں کی اٹھان ایسے نیک اور پاک ماحول میں کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہوں۔
(اپنے ماحول اور گھروں کو جنت نظیر بنانے کے لئے عورتوں کو نہایت اہم نصائح)
سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا
5؍ جون 2004ء کو جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر مستورات سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج میں یہاں خواتین کو چند باتوں کی طرف مختصراًتوجہ دلاؤں گا۔ کیونکہ معاشرہ میں اور خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اس لئے اسلام نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق و فرائض کی۔ عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارے میںفرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے،اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا،جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں سے باہر بھی ظاہر ہوگا۔اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہو گا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر اور ملک ملک ظاہر ہوگا۔اور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعودؑہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کودنیا میں پھیلانے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے میںہم تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اوراس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں مَیں مختصراً کچھ کہوں گا۔
پہلی بات تو یہی ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ماؤں پر ہوتی ہے بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جب بچے کی پیدائش کی امید ہو تو اگر اس وقت سے ہی مائیں دعائیں شروع کردیں اور ایک تڑپ کے ساتھ دعائیں شروع کردیں تو پھر وہ دعائیں اس بچے کی تمام زندگی تک، جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ اور جب ایسی تڑپ کے ساتھ مائیں بچوں کے لئے دعائیں کر رہیں ہوں گی ان کی پیدائش سے پہلے ہی قرآنی حکم کے مطابق یہ دعا کررہی ہو ںگی کہ بچہ نیک ہو، صالح ہو اور خدا کے نام کی سربلندی کے لئے کوشاں رہنے والا ہو، اس کاعبادت گزار ہو، اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہوتو وہ مائیں خود ایک احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے عمل کو بھی درست کر رہی ہوںگی۔ ان کو علم ہو گا کہ اگر ہم صرف دعائیں کررہی ہیں اور عمل نہیں کر رہیں تو نہ وہ دعائیں مقبول ہیں، نہ ان دعاؤں کا کو ئی اثر بچوں پر ہونا ہے نہ اس تربیت کا کوئی اثر بچوں پر ہونا ہے۔ ان کو یہ بھی احساس ہوگا کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا ہے۔ہم نے یہ نگرانی رکھنی ہے کہ ہمارے بچے دنیا کی غلاظتوں کی دلدل میں پھنس نہ جائیں۔ہمیں اپنے قول و فعل کو بھی ہر قسم کے تضاد سے بچاناہے تاکہ صحیح طورپر تربیت ہو سکے۔ ہمیں بھی، بچے کی پیدائش کے بعد اب دعاؤں سے رک نہیں جانا بلکہ مستقلاً اپنے بچوں کی بھلائی اور تربیت کی خاطر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرنی ہے اور اس طرح عبادت کرنی ہے جو عبادت کرنے کا حق ہے۔ اپنے اعمال بھی اس طرح ڈھالنے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جب اس طرح بچوں کی تربیت ہو رہی ہو گی تو وہ کبھی تباہی کی طرف جانے والے نہیں ہوںگے۔ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والے ہوںگے، وہ جماعتی نظام سے بھی وابستہ رہنے والے ہوںگے اور اس کی پابندی کرنے والے ہوںگے۔ وہ خلافت سے بھی محبت کرنے والے ہوںگے۔ اور پھر اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوںگے اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بنیادی نکتہ کو سمجھتے ہوئے کبھی بھی اپنی دعاؤں سے غافل نہیں ہوںگی۔ یورپ کا دنیا داری کا ماحول کبھی آپ کو اپنے خدا سے غافل کرنے والا نہیں ہو گا۔ آپ اپنی روایات کی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ اور وہ روایات کیا ہیں؟۔ آپ مشرقی معاشرہ سے ہیں اس کی جواچھی روایات ہیں وہ اپنائیں اور جو اِس معاشرہ کی اچھی روایات ہیں وہ بھی اپنائیں۔ کیونکہ اگر وہ اچھی روایات ہیں اور اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں تو مومن کی گمشدہ چیز کی طرح وہ آپ کی چیز ہیں۔ لیکن ہر روایت اپنانے والی نہیں ہوتی۔ اور اگرا سی طرح اپنی روایات کی حفاظت کرتے ہوئے، آپ اپنی عبادات کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی، آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی حفاظت کرنے والی ہوںگی، کیونکہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی بھی نگران ہے اور یہ نگرانی بچوں کی تربیت سے لے کر گھر کے امور چلانے تک سب پر حاوی ہے۔ خاوندوں کی کمائی کا بہترین مصرف کرنے والی ہوں گی۔ اُسے جائز ضروریات پر خرچ کرنے والی ہوںگی۔ ان کی کمائی کے اندر رہ کر، اپنے وسائل کے اندر رہ کر اپنے اخراجات پورے کرنے والی ہوں گی نہ کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اوران کی نقل میں اپنے ہاتھوں کو بھی غیرضروری دنیا داری کے معاملات کے لئے کھول لیں۔ مردوں سے کبھی غیر ضروری مطالبات کرنے والی نہیں ہوںگی۔ جائز ضروریات کے لئے آپ کا مطالبہ بھی جائز ہوگا اور مردوں کو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہوگا، اور ہونا چاہئے۔ ایسے مطالبے نہ ہوں جو مرد کو قرض لینے پر مجبور کردیں اور جب ایسی صورت ہو گی اور قرض لینے کے معاملے میں ایک دفعہ یہ جھاکا ہوتا ہے کھل جائے گا تو پھر کھلتا ہی چلا جائے گا۔ اور پھر اس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ قرض کی دلدل میں اگر ایک دفعہ آدمی پھنس جائے تو پھر پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ اس لئے اپنے گھروں کو سلیقہ سے، سگھڑاپے سے سنواریں۔ اپنے خاوندوں کا بھی خیال رکھیں اور اپنی اولادوں کا بھی خیال رکھیں اور اس طرح اپنے گھروں کو جنت نظیر بنائیں۔ ایک ایسا نمونہ بنائیں کہ نظر آئے کہ یہ ہر طرح سے ایک خوشحال گھرانہ ہے اور سکون ہے اس گھر میں۔
عورت کا یہ مقام ہمیشہ یاد رکھیں جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنی نسلوں کی اٹھان ایسے نیک اور پاک ماحول میں کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہوں اور ان کی نیکی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھی کہے کہ ا س بچے کو اس کی ماں نے واقعی جنتی بنادیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
’’ تقوی اختیارکرو۔ دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ‘‘۔یعنی دنیا میں رہ رہے ہیں، اس کی جو ضروریات ہیں ان کو حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اتنا دل نہ لگاؤ کہ صرف دنیا ہی دنیا تمہارے دلوں میں رہ جائے۔ ’’قومی فخر مت کرو‘‘۔ بعضوں کو قوم کا خاندان کا فخر ہوتاہے۔ فرمایا:’’ قومی فخر مت کرو۔ کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو‘‘۔ کسی دوسری کا مذاق اس لئے نہ اڑاؤکہ وہ تمہارے سے علم میں کم ہے یا تمہارے سے پیسہ میں کم ہے، تمہارے سے دولت میں کم ہے۔ یا اس کی اولاد نہیں ہے، یا اس کی اورکوئی کمزوری دیکھ کراس پراس کا ٹھٹایا مذاق کیا جائے۔
پھر فرمایا کہ:’’ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میںداخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز، زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو‘‘۔ اب نماز بھی فرض ہے ہر ایک پہ، نماز ادا کرنی چاہئے اور یہی مَیں نے پہلے بھی کہا کہ عملی نمونہ ہوگا تو بچے بھی دیکھ کر اس طرف توجہ دیں گے۔ پھر زکوٰۃ ہے ہر عورت کے پاس زیور ہوتا ہے اس کاجائزہ لے کر شرح کے مطابق زکوۃ دینے کی طرف بھی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر فرمایا کہ:’’ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو‘‘۔ ان کی اطاعت کرتی رہو۔’’ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘ یعنی خاوندوں کی عزت کا بہت حصہ تمہارے ہاتھ میں بھی ہے۔’’سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ81-80)
یہاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے سب سے پہلے تقویٰ کا ذکر فرمایا ہے اس بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’تقوی ٰکے بہت سے اجزاء ہیں، عُجب،خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بد اخلاقی سے بچنابھی تقویٰ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 81)
یعنی عُجب سے بچنا، خود پسندی سے بچنا، حرام مال سے بچنا اور بداخلاقی سے بھی بچنا یہ سب تقوی ہیں۔ اور بعض عورتوں میں عُجب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ عُجب کا مطلب ہے کہ غرور اور تکبر۔ اگر چند پیسے دوسرے سے زیادہ ہاتھ میں آگئے تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئیں۔ اگر کسی بہتر خاندان کی ہیں تو اسی پر تکبر ہے۔ اگر علم کچھ زیادہ ہے تو اسی پر گھمنڈ ہے۔ غرض کے ہر معاملہ میں صرف اپنے پر ہی نظر رکھتی ہیں، کسی کو کچھ سمجھنا ہی نہیں۔ ہر وقت اپنے آپ کو ایسے ٹولے یا گروہ میں گھیرے رکھنا جو یا تو اس کے خوشامدیوں کا گروہ ہو، ہر وقت ان کی تعریف کرنے والا ہو یا ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ہو، یا پھر ایسی قماش کے، ایسی طبیعت کے ٰلوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہو جو ایسی طبیعت رکھتے ہوں جن میں عُجب ہو اور خود پسندی ہو۔ جیسی ان کی اپنی طبیعت ہے ایسی ان عورتوں کی بھی ہو۔ دوسرے کا ہنسی ٹھٹھا اڑانے والی ہو۔تو ایسے لوگ، ایسی عورتیں پھر عہدہ داران کو بھی ایسی ہی نظر سے دیکھنے لگتی ہیں۔ ان کو بھی اسی طرح دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کے دل میں ان عہدیداران کی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ نہ وہ لجنہ کی کسی عہدہ دار کو کچھ سمجھ رہی ہوتی ہیں، نہ لجنہ کی صدر کو، نہ امیر کو اور پھر نظام جماعت کی بھی ان کے دل میں کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ پھر آہستہ آہستہ خلافت کے ادب و احترام سے بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور جماعت سے بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ توفرمایا کہ عُجب جو ہے جب یہ تم میں پیدا ہوگا تو خود پسندی پیدا ہو گی اور ہر وقت یہی دل چاہے گا کہ لوگ میری ہاں میں ہاں ملائیں، مجھے ہی دوسروں سے بہتر سمجھیں۔ایک مقولہ ہے فارسی کا ’’خود پسندی دلیلِ نادانی است‘‘ کہ اپنی تعریف کرنے والا اور کرانے والا بے وقوف ہی ہے۔ یعنی ہر وقت جس کو اپنی تعریف کی فکر رہے اور ہر وقت اپنی تعریف ہی کرتا رہے اس کی بے وقوفی کے لئے یہی دلیل کافی ہے۔ اس لئے اپنی اور اپنی نسلوں کی روحانی بقا اگر چاہتی ہیں، روحانی زندگی اگر چاہتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ آپ کو خدا کا پیار حاصل ہو تو ان دنیا داری کی باتوں کو چھوڑ دیں اور حقیقی تقویٰ کی راہوں پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں، لوگوں سے محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ خود غرضی اور تکبر سے بچیں۔ نہ خاندانی وجاہت، نہ مال، نہ دولت آپ کو اس بیماری میں مبتلا کرے۔ اگر نہیں بچیںگی تو یہی حرکات جو ہیں بداخلاقیوں کے گڑھوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی، بدیوں کے گڑھوں میں دھکیلتی چلی جائیں گیں۔ اور تقویٰ کا پھر آپ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں رہے گا۔ پھر آپ کا بیعت کرنے کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ ہی جھوٹا ہوجائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں پھر ایسا شخص مجھ سے کاٹا جائے گا، مجھ سے علیحدہ ہوجائے گا۔ پس دعائیں کرتے ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والی بنیں، اس کی پناہ میں آنے والی بنیں، اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی بنیں، اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کرنے والی بنیں وہاں اپنی دوسری احمدی بہنوں کو بھی بہنیں سمجھیں۔ ان کی بھی عزت و احترام کریں، ان کو کبھی تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اپنے دلوں کو جوڑیں۔ کبھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش نہ کریں۔ بعض دفعہ بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ کسی طرح کسی کی برائی کو اچھالا جائے۔ کبھی کسی کی برائی کو اچھالنا نہیں چاہئے بلکہ پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ اور ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت دلوں میں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کل آپ یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ خالصتاً دینی اجتماع ہے۔ ایک بہت بڑا مقصد ان جلسوں کا اپنی روحانیت میں اضافہ کرنا ہے۔ قرآن و حدیث کی باتیں سننا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف زیادہ توجہ پیدا کرنا ہے۔ اپنے ان بہنوں بھائیوں سے ملنا ہے جن سے ملنے کے بعض دفعہ موقعے نہیں ملتے۔ اس لئے ان دنوںمیں خاص طور پر تمام دنیاوی باتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف دعاؤں پر زور دیں اور اسی کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ آپ سب وہ مقصد حاصل کرنے والی ہوں جس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ان جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا۔ اور ہم سب محض اورمحض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے وارث بنیں۔ آمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں