سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ر بوہ 5نومبر 2009ء میں مکر م لئیق احمد بلال صاحب کے قلم سے حضرت عمرؓ کی فراست اور تفقہ فی الدین کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے مال اور اس کی مخلوق کے حقوق کا نگران اور محافظ سمجھا اور اس امانت کو کمال دیانتداری سے ادا کیا۔ خلیفہ ہوتے ہی انہوں نے خدا سے التجا کی: اے اللہ مَیں ضعیف ہوں مجھے قوت عطا کیجیو۔ میں سخت ہوں مجھے نرمی عطا فرمانا۔ میں بخیل ہوں مجھے سخی بنانا۔
پہلی بار منبر پر تشریف فرما ہوئے تو جہاں حضرت ابوبکر ؓ پاؤں رکھتے تھے وہاں منبر کی پہلی سیڑھی پر بیٹھ گئے۔ کسی نے عرض کی آپ نیچے بیٹھ گئے ہیں۔ جہاں ابوبکر ؓ تشریف رکھتے تھے وہاں کیوں تشریف نہیں رکھتے۔ فرمایا: میرے لئے یہی کافی ہے کہ جہاں ابوبکر ؓ کے پاؤں پڑتے تھے وہیں بیٹھوں۔ اس سے آپؓ کی انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔
آپؓ کے بارہ میں یہ مشہور ہے کہ آپؓ کی طبیعت میں قدرے سختی تھی لیکن اس عہدۂ جلیلہ کے بعد یہ سختی صرف ظالموں اور تعدّی کرنے والوں کے لئے رہ گئی۔ ورنہ جہاں خدا کا حکم سنا، کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھا تو طبیعت میں رقّت پیدا ہو گئی۔ آپؓ کی طبیعت کی نرمی اور رحم کا ثبوت یہ ہے کہ بازارسے نکلتے تو بچے دوڑ کر آپؓ کو تھام لیتے۔ ’اے پیارے باپ‘ کہتے ہوئے آپؓ سے چمٹ جاتے۔ آپؓ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، ان سے پیار کرتے۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ مَیں ننگی تلوار تھا۔ مجھے اسلام نے میان میں کیا۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے میان میں کیا۔
حضرت عمرؓ راتوں کو مدینہ کے گلی کوچوں میں پھر کر حاجتمندوں، بھوکوں، ناداروں کا پتہ کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ آپؓ بیت المال کی ایک ایک پائی کا حساب رکھتے تھے۔ محاذ جنگ پر جانے والے مجاہدین کے اہل و عیال کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ سفر میں ہوں تو رات کو جاگ کر قافلہ کی نگہداشت فرماتے تھے۔
آپؓ عامل ان لوگوں کو مقرر کرتے جو خدا کی خشیت رکھنے والے ہوں۔ حضرت عبداللہ ؓ بن اَرقم کو بیت المال کا چندہ سپرد کیا تو فرمایا اس سے زیادہ خدا کا خوف رکھنے میں، مَیں نے کوئی نہیں دیکھا۔ حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اور حضرت عمارؓ بن یاسر کو کوفہ بھیجا تو وجہ انتخاب یہ فرمائی کہ یہ آنحضرت ﷺ کے اشراف صحابہ میں سے ہیں۔
جنہیں عمال مقرر کرتے ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھتے۔ آپؓ کا دامن پاک تھا۔ اس لئے ہر والی کے دامن پر نظر رکھتے۔ ایک بار شام کے سفر میں آپؓ نے دیکھا کہ ذمیوں کو ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا ۔ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ لوگوں کو دکھ مت دو۔ وہ لوگ جو لوگوں کو دکھ اور عذاب پہنچاتے ہیں اللہ قیامت کے دن انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔ چنانچہ انہیں فوراً چھوڑ دیا گیا۔
ایک بوڑھے اندھے غیر مسلم کو مانگتے دیکھا تو بیت المال سے اسے روزینہ عطا کیا اور فرمایا: اس کی جوانی سے تم نے فائدہ اٹھایا۔ اب بڑھاپے میں اسے زمانے کے سپرد کرتے ہو کہ جزیہ کی ادائیگی کے لئے مانگتا پھرے، یہ انصاف نہیں۔
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپؓ امت کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہو گئے۔ رعایا کے افراد کی ضروریات کی ذاتی طور پر حاجت روائی کرتے۔ آپؓ راتوں کی نیند اور آرام ترک کرکے حاجتمندوں کے کام آتے اور اسے اپنا فرض سمجھتے۔
ایک رات زید بن اسلم کو ساتھ لے کر حضرت عمر ؓ باہر نکلے۔ ایک جوان عورت نے آپؓ سے عرض کی میرے خاوند فوت ہو گئے میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے ہیں ہمارا ذریعہ آمد کوئی نہیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری کی بیٹی ہوں جو حدیبیہ کے مشہور تاریخی موقعہ پر موجود تھے۔ حضرت عمر ؓ نے یہ سنا تو گھر آئے اونٹ پر سامان خوردنی لادا اسی پر کپڑے اور نفقہ رکھا اور اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ تھما کر کہا اسے لے جاؤ۔ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ فضل کر دے گا۔ ساتھی نے کہا: امیر المومنین! آپ نے بہت زیادہ دیا۔ فرمایا: میں نے اس کے باپ اور بھائی کی خدمات دیکھی ہیں، اسے تول اور ماپ کر دینا مناسب نہیں۔
ایک بار مدینہ سے باہر ایک تجارتی قافلہ نے ڈیرہ ڈالا۔ رات کو آپؓ نے حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کو ساتھ لیا اور اُن کی پہرہ داری کرنے لگے۔ آپؓ نوافل ادا کرتے رہے اور پہرہ بھی دیتے رہے۔ آپؓ نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو اس کی ماں کو کہا: خدا سے ڈرو اپنے بچے کی دیکھ بھال کرو۔ پھر اپنی جگہ پر آ گئے تو پھر بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپؓ نے ماں کو بچے کی خبر گیری کی طرف توجہ دلائی۔ رات کے آخری حصے میں پھر آپؓ نے بچے کے رونے کی آواز سنی تو پھر اس کی والدہ کو کہا تم کیسی ماں ہو، تمہارا بچہ ساری رات بیقرار رہا۔ بچے کی والدہ نے کہا: اللہ کے بندے تو نے مجھے ساری رات تنگ کیا۔ میں بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں اور یہ ضد کرتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اتنے چھوٹے بچے کا دودھ کیوں چھڑا رہی ہو؟ اس نے کہا اس لئے کہ عمر ؓ دودھ پیتے بچے کا نفقہ نہیں دیتے جب بچہ دودھ چھوڑ دے تو اس کا گزارہ ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کی عمر کتنی ہے؟ اس نے چند ماہ عمر بتلائی تو آپؓ نے فرمایا اتنی جلدی بچے کا دودھ مت چھڑاؤ۔ صبح کی نماز پڑھی تو نماز میں بہت روئے۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا: وائے عمر! تو نے کتنے مسلمان بچوں کو قتل کیا۔ پھر آپؓ نے عام اعلان کروایا کہ آج سے ہر پیدا ہونے والے بچے کا گزارہ مقرر کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق ؓنے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ جس کے عہد میں اسلام، عراق، شام، مصر، الجزیرۃ، آرمینیا، آذر بائیجان، فارس، خوزستان تک پھیل گیا۔ جس کی ہیبت اور رعب سے عمال کانپتے تھے اُس کا لباس اتنا سادہ ہوتا کہ بسا اوقات قمیص پر پیوند لگے ہوتے۔ ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز عتبہ بن ابی فرقد بارگاہ عمر میں حاضر ہوئے تو آپؓ کھانا کھا رہے تھے۔ آپؓ کے کہنے پر وہ بھی کھانے میں شامل ہوگئے لیکن کھانا کچھ ایسا سادہ اورموٹا تھا کہ عتبہ کے گلے سے نیچے اترنا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے کہا: امیرالمومنین! کیا باریک قسم کا آٹا آپؓ کو میسر نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: بھلے آدمی! کیا سب مسلمانوں کو باریک آٹا میسر ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو فرمایا: عتبہ! تیرا ارادہ ہے کہ اچھی اور لذّت دار چیزوںسے اس دنیا میںہی متمتّع ہو جاؤں!۔
زہد کی تعریف احادیث میں یہی آئی ہے کہ اگلے جہان کی نعماء پر تجھے زیادہ یقین ہو۔
ایک روز آپؓ نے کچھ اونٹ جاتے دیکھے۔ پوچھا: یہ کس کے ہیں؟ عرض کیا گیا: آپ کے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کی ملکیت ہیں۔ یہ بیت المال کی رکھ میں چرتے ہیں۔ فرمایا: اس لئے وہاں چراتے ہو کہ تمہارا باپ خلیفہ ہے۔ چنانچہ اونٹ بیچ کر آدھی قیمت بیٹوں کو دے دی۔ آدھی بیت المال میں جمع کرا دی۔
ایک روز آپؓ بیت المال کے وظائف تقسیم فرما رہے تھے۔ آپؓ کی چھوٹی بیٹی آئی اور ایک درہم اٹھا کر منہ میں ڈال لیا آپؓ نے اپنی انگلی بچی کے منہ میں ڈالی اور درہم نکال لیا۔ بچی رونے لگ گئی تو فرمایا: عمر اور آل عمر کے لئے وہی حق ہے جو ایک دور و نزدیک رہنے والے مسلمان کا ہے۔
اللہ نے جب مسلمانوں کو فراخی عطا فرمائی تو حضرت عمر ؓ نے ہر شہری کا گزارہ مقرر کیا جو اُس کی ضرورت اور خدمت کی بِنا پر تھا۔ آپؓ اسلامی مملکت کے سربراہ تھے اس لئے فہرست تیار کرنے والوں نے آپؓ کا نام سرفہرست لکھا۔ لیکن آپؓ نے فرمایا: سرفہرست بنو ہاشم کے نام لکھو۔ پھر آنحضرت ﷺ کے قبیلہ کی شاخوں کے ناموں کو مقدّم رکھا۔ جب یہ لکھوا چکے تو فرمایا: اللہ اکبر۔ خدا کا شکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا حق مقدّم رکھا۔
ایک بار ایک قبطی غلام دو ڑ میں عمروؓ بن عاص کے لڑکے سے سبقت لے گیا تو عمروؓ بن عاص کے لڑکے نے قبطی کو مارا اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا ہم بڑوں کی اولاد ہیں۔ سیدنا عمر ؓکو شکایت پہنچی تو آپؓ نے تحقیق کی اور مصر کے عامل عمرو ؓ بن عاص اور ان کے لڑکے کو بلوایا۔ قبطی کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور فرمایا: اسے مارو اور ساتھ ساتھ کہو ہم ستمگروں کی اولاد ہیں۔ جب سزا پوری ہوئی تو عمرو بن عاص قریب ہی کھڑے تھے ان کے سر پر بال نہ تھے۔ فرمایا۔ اب اس کی گنجی کھوپڑی پر کوڑے برساؤ کہ اس کے بیٹے کو اس لئے جرأت ہوئی کہ اس کا باپ گورنر ہے۔ قبطی نے کہا: امیرالمومنین میں نے بدلہ لے لیا۔ تب حضرت عمرؓ نے فرمایا: عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنایا۔ حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے۔
مسلمانوں کی فتوحات خدائی وعدوںکے مطابق تھیں۔ وہ قلّت اور بے سروسامانی کے باوجود فتحمند تھے کہ خدا کا سایہ ان کے سر پر تھا۔ اس تصوّر کو حضرت عمر ؓ دھندلانا برداشت نہ کر سکتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کی جنگی صلاحیتوں کے آپؓ معترف تھے۔ آپؓ نے خود ان کے سپرد بعض معرکے کئے۔ لیکن جب آپؓ نے محسوس کیا کہ خالد اپنی حدود سے متجاوز ہو رہے ہیں تو آپؓ نے انہیں قیادت سے الگ کردیا۔ اور صد آفرین ہے خالد بن ولید ؓ سیف اللہ پر کہ انہوں نے اطاعت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے اس عزل کو کبھی اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور ایک سپاہی کی حیثیت سے اپنے جوہر دکھاتے رہے کہ اسلام نے اُن کے دل بدل دئیے تھے۔ وہ خدا کی رضا کے متلاشی تھے اور اجر کی امید اپنے خدا سے رکھتے تھے کہ عاقبت میں جو کچھ ملتا ہے وہ اس دنیا سے بہتر اور اَولیٰ ہے۔ اور سیدنا حضرت عمر ؓ نے بھی جو کچھ کیا وہ خدا کے لئے اور اُمّت کی بہتری کے لئے تھا۔ حالانکہ رشتہ میں خالد ؓ آپؓ کے ماموں تھے۔
آپؓ کے دَور میں ہر طرف فتوحات مسلمانوں کے قدم چوم رہی تھیں۔ رومی پسپائی اختیار کرتے کرتے بیت المقدس میں محصور ہو گئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم شکست تسلیم کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ مسلمانوں کے خلیفہ آکر صلح کا معاہدہ کریں۔ اس غرض کے لئے آپؓ نے بیت المقدس کا تاریخی سفر اختیار کیا۔ امیرالمومنین جن کی ہیبت اور تدبر کی دھاک دور دور تک بیٹھ گئی تھی، کسریٰ اور قیصر کی حکومت کا پرچم جس کے عہدمیں سرنگوں ہو گیا تھا، مدینہ سے اس حال میں روانہ ہوئے کہ ایک سواری پر آپؓ اور غلام باری باری سوار ہوتے تھے۔ زاد راہ کے طور پر جَو، کھجوریں اور روغن زیتون اور پانی کا مشکیزہ تھا۔ آپؓ نے مدینہ سے روانگی کے وقت ابو عبیدہ ؓ کو لکھ دیا تھا کہ مجھے جابیہ میں ملیں۔ چنانچہ آپؓ جابیہ پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کا استقبال کیا اور عرض کیا کہ مناسب نہیں کہ مشرک، امیرالمومنین کو اس حال میں دیکھیں۔ چنانچہ آپؓ کی خدمت میں سفید جوڑا اور سواری کے لئے عمدہ ترکی گھوڑا پیش کیا گیا۔ آپؓ لباس تبدیل فرماکر گھوڑے پر سوار ہوئے تو گھوڑا دُم اٹھا کر کلیلیں کرتا چلا۔ تو آپؓ گھوڑے سے اتر گئے اور فرمایا: لے جاؤ، اس سواری سے میرے دل میں عُجب اور کبر پید ا ہوا ہے۔ پھر اپنا وہی لباس پہن لیا جو پہلے پہن رکھا تھا اور اس صورت میں آپؓ بیت المقدس پہنچے۔
عہد خلافتِ ابوبکر ؓ کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ مدینہ کے ماحول میں ایک اندھی بڑھیا رہتی تھی۔ مَیں رات کو جا کر اس کے لئے پانی بھر دیتا اور جو کام ہوتا کر دیتا۔ مَیں نے دیکھا کچھ روز سے کوئی دوسرا جاکر اس بڑھیا کا کام کر دیتا ہے۔ مَیں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ مجھے سے پہلے کون بڑھیا کی خدمت کرتا ہے انتظار کیا تو وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے۔
خلیفہ ہونے کے بعد حضرت عمر ؓ محاذ پر جانے والے مجاہدین کی بیویوں کے گھر گھر جاکر مجاہدین کے نام اُن کے خطوط لکھ کر دیتے۔ انہیں سودا سلف بازار سے لاکر دیتے۔
فراست اور بصیرت خدا کا عظیم عطیہ ہے۔ ایک موقعہ پر کسی نے ایک شخص کی دینداری کی تعریف کی تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: کیا تم نے کبھی اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے؟ اس شخص نے منفی میں جواب دیا تو فرمایا: کیا کبھی اس سے تمہارا جھگڑا ہوا؟ اس شخص نے جواب دیا: نہیں۔ فرمایا: کیاکبھی اس سے تم نے لین دین کیا؟ اس شخص نے اس کاجواب بھی نفی میں دیا تو فرمایا: تب تیرا علم اس کے متعلق کچھ نہیں۔ شاید تو نے اسے مسجد میں سر جھکاتے اور اٹھاتے ہی دیکھا ہے۔ (یعنی اگر کوئی حقوق العباد میں کمزور ہے تو صرف اس کی نماز روزہ پر اس کے متعلق رائے قائم نہیں ہوسکتی)۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: تم میں سے ہمیں وہ شخص محبوب ہے جس کی سیرت سب سے اچھی ہے۔ جو بات کرتا ہے تو صاف اور واضح اور جب اس کی آزمائش یا امتحان ہو تو اس کا فعل سب سے اچھا ہو۔
آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ جس شخص کے متعلق خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے اور یقینا یہ بہت بڑی بھلائی ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کو یہ حکمت عطا کی گئی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے کشف میں دیکھا کہ عمر ؓ نے بہت لمبی قمیص پہن رکھی ہے۔ اَور لوگ بھی ہیں اُن کی قمیصیں چھوٹی بڑی ہیں لیکن حضرت عمر ؓ کی قمیص بہت لمبی ہے۔ صحابہ نے تعبیر پوچھی تو فرمایا: قمیص سے مراد دین ہے۔
ایک دوسری رؤیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپؐ نے دودھ سیر ہو کر پیا۔ پھر وہ دودھ حضرت عمر کو پینے کے لئے دیا۔ صحابہ نے اس کی تعبیر پوچھی تو آپؐ نے فرمایا: اس سے مراد علم ہے۔
حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے کہ علم ہیئت سیکھو کہ برّی اور بحری سفر میں یہ تمہاری راہنمائی کرتا ہے اور پھر حضرت عمر ؓ سورۃ عبس کی آیات 27 تا 31 پڑھتے جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’دیکھو ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارہ‘‘۔ ان آیات میں علم زراعت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سب علم کی شاخیں ہیں دین کا علم اس لئے اہم ہے کہ اس کے ذریعہ خدا کی راہ کے آداب کا علم ہوتا ہے، احسن اخلاق کا پتہ چلتا ہے اور خدا کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔
جب حضرت عمر ؓفاروق کا وصال ہوا تو ابن مسعودؓ نے فرمایا: آج علم کا دسواں حصہ جاتا رہا۔ کسی نے کہا آپ یہ کہتے ہیں حالانکہ اجل صحابہ موجود ہیں۔ حضرت ابن مسعودؓ نے جواب دیا: علم سے میری مراد وہ نہیں جو تمہاری ہے۔ میری مراد خدا کی معرفت ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: عمرؓ کا علم اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسروں کا دوسرے پلڑے میں تو حضرت عمر ؓ والا پلڑا جھک جائے گا۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں: عمر فاروق ؓ، عزم، دانش، علم اور دلیری یعنی شجاعت سے پُر تھے۔
امام سیوطی نے اُن اکیس مقامات کا ذکر کیا ہے جن میں حضرت عمر ؓ کی رائے قرآن کی رائے کے موافق ہوئی اور یقینا یہ امر حضرت عمرؓ کی دانش ، فکر صحیح اور تعلق باللہ پردال ہے۔ ان میں چند ایک یہ ہیں:
1۔ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا۔ 2۔ ازواج مطہرات کا پردہ۔ 3۔ ان کے مطالبات پر یہ کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ تمہیں طلاق دے دیں اور اللہ تم سے بہتر ازواج عطا فرما دے۔ 4۔ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں۔ 5۔ حرمت خمر کے بارہ میں۔ 6۔ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے بارہ میں۔ 7۔ بدر کے روز باہر نکل کر لڑنے کی رائے حضرت عمر ؓ نے دی۔ 8۔ ایک یہودی سے گفتگو میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا۔ جو اللہ ، ملائکہ، اس کے رسولوں، جبرائیل اور میکائل کا دشمن ہے تو اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے۔ 9۔ ایک آیت کاشان نزول بھی حضرت عمر ؓ کا ایک عمل ہوا کہ خدا کی قسم یہ حقیقی مومن نہیں جب تک آپ کا فیصلہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے اس شخص کو سخت تنبیہ کی تھی جس نے آنحضرت ﷺ سے فیصلہ کروانے کے بعد حضرت عمرؓ سے فیصلہ کروانا چاہا تھا۔ 10۔ بغیر اجازت کسی کے ہاں نہ جانے کا حکم۔ 11۔ حضرت عمرؓ کا یہود کے بارہ میں کہنا یہ مغضوب قوم ہے۔ 12۔ زنا میں رجم کی سزا۔ 13۔ احد کے دن ابو سفیان کے جواب میںآپ کا قول خداکے قول کے موافق ہوا۔ 14۔ اذان میں آپؓ کی رائے کے موافق حکم خدا ہونا۔
حضرت عمر ؓ کو دعا پر ایسا یقین تھا کہ راہ چلتے بچے کا ہاتھ تھام کر کہتے: بیٹا! میرے لئے دعا کرو۔ تم نے ابھی گناہ نہیں کیا، تم معصوم ہو۔
جب 23 ہجری میں آپؓ آخری حج کے لئے تشریف لے گئے تو منیٰ میں سواری بٹھا کر زمین پر لیٹ گئے۔ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الٰہیہ میں یوں عرض کی: اے اللہ میری عمر بھی کافی ہو گئی ہے۔ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ طاقت جواب دے رہی ہے۔ کمزوری بڑھ رہی ہے۔ ضائع ہونے اور عقل سٹھیا جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے۔
چنانچہ خدا نے آپؓ کی دعا قبول فرمائی اور آپؓ کو کشف میں بتلا دیا کہ آپؓ کی اجل قریب ہے۔ آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ مرغ نے آپ کو ایک یا دو چونچیں ماری ہیں۔ فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میرا اب وقت وفات قریب ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نہ صرف مستجاب الدعوات تھے۔بلکہ آپؓ اس حدیث کے مصداق تھے کہ: بسااوقات ایک پر اگندہ بال خاک آلود، قسم کھا کر ایک بات کہتا ہے اور اللہ اپنے اس بندہ کے قول کی لاج رکھ کر اسے پورا کر دیتا ہے۔
مصر کے گورنر سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؓ کی خدمت میں تحریر کیا کہ یہاں یہ رواج ہے کہ نیل میں طغیانی نہ آئے تو کسی نوجوان دوشیزہ کو زیورات وغیرہ پہنا کر بنا سنوار کر نیل کی لہروں کی نذر کرتے ہیں اور امسال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے نیل میں طغیانی نہیں آئی اور مصر کی زمین زرخیزی سے محروم ہے اور لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے عامل کو لکھا۔ اسلام میں ہرگز ایسا نہ ہوگا۔ اسلام پہلی بدعتوں اور لغو باتوں کو ختم کرنے کے لئے آیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے عمرو بن عاص ؓ کو خط بھجوایا اس میں ایک رقعہ بھی تھا۔ فرمایا۔ یہ میرا رقعہ نیل میں پھینک دو۔ اس رقعہ کی عبارت یہ تھی: اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی جانب سے نیل مصر کے نام۔ دیکھ اگر تو اپنی منشاء سے طغیانی لاتا تھا تو بے شک نہ لا۔ لیکن اگر خدا تجھ میں طغیانی لاتاتھا تو میں خدا واحد و قہار سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھ میں طغیانی لے آئے اور یہ رقعہ ان کے مخصوص دن سے ایک روز پہلے نیل میں پھینک دیا۔ اگلی صبح اہل مصر نے دیکھا کی نیل میںدس ہاتھ طیغانی آ گئی اور قحط سالی دور ہو گئی۔
اسی طرح عین الرمادۃ میں نزول باران رحمت کے لئے جب آپؓ نے سیدنا عباسؓ عم رسول کو ساتھ لے کر بہتے آنسوؤں سے خد ا کے حضور مدینہ میں دعا کی تو دعا سیدھی عرش کے پایہ سے ٹکرائی اور دعا سے ابھی فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ چھم چھم مینہ برسنے لگا۔
یہ امر بھی باعث فضیلت ہوتا ہے کہ کسی اچھے عمل میں پہل کی سعادت نصیب ہوجائے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ نے ایک روز مساجد میں قندیلیں روشن دیکھ کر فرمایا: اللہ عمر ؓ کی قبر کو منور فرمائے کہ انہوںنے ہماری مساجد کومنور کیا۔ یعنی ان میں روشنی کا انتظام کیا۔
اسی طرح مسلمانوں کی مردم شماری کا پہلا انتظام حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔ رجسٹر میں نام درج کئے اور پھر ان کے لئے گزارے مقرر فرمائے۔
بیت المال کاقیام بھی آپؓ نے فرمایا۔ مختلف ممالک میں قاضیوں کا تقرر فرمایا۔ مختلف ممالک میں نئے شہر آپؓ نے آباد کئے۔ سن ہجری سے تاریخ کی تدوین کی ابتدا آپؓ نے فرمائی۔ رمضان میں تراویح کے انتظام کا آغاز فرمایا۔
رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لئے رات کو گشت شروع کیا ۔ عربوں میں ایک بری عادت مخالف کی ہجو تھی۔ اس پر سزا مقرر فرمائی۔ شراب کی حد 80 درّے مقرر فرمائی۔ متعہ کی مطلق ممانعت فرمائی۔
مصر سے بحری راستہ کے ذریعہ گندم منگوانے کا انتظام فرمایا۔ غلّہ کے لئے سٹور تعمیر کروائے۔
مسجد نبوی کی توسیع آپؓ نے فرمائی اور اس کا نیافرش بنوایا۔ مقام ابراہیم کو بیت اللہ سے الگ کیا۔ آپؓ سے پہلے وہ بیت اللہ سے ملحق تھا۔ خلیفہ کے لئے امیر المومنین کا لقب آپؓ نے اختیار فرمایا۔ اسی طرح آپؓ نے مجلس انتخاب خلافت قائم فرمائی۔
سیدنا عمر فاروق ؓ یہ دعا کیا کرتے تھے: اللہ مجھے اپنے نبی ﷺ کے شہر میں شہادت عطا فرما۔
ایک روز صبح کی نماز کے لئے لوگوں کو جگا کر مسجد میں نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ کا عجمی غیر مسلم غلام ابو لؤلؤ آپؓ کے عین پیچھے کھڑا ہو گیا اور آپؓ کی گردن اور پیٹ پرز ہر میں بجھے ہوئے خنجر سے متعددوار کئے۔ لوگ آپؓ کو اٹھا کر گھر لائے۔ زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ فرمایا: یرفائ! مجھے پانی پلاؤ۔ زخموں سے پانی کے ساتھ خون ملا ہوا نکلا تو یرفاء نے کہا: الحمدللہ منجمد خون نکل گیا۔ لیکن وہاں تو انتڑیاں کٹ گئی تھیں۔ پھر دودھ پلایا گیا تو وہ زخموں سے بہہ نکلا۔ اب معلوم ہوا کہ زخم کاری ہیں آپؓ کے جانبر ہونے کی امید نہیں۔ لوگوں نے کہا: آپ کتاب اللہ اور سنت کے مطابق عمل فرماتے تھے اور اس سے سرموانحراف نہ کرتے تھے، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ فرمایا: تم میری امارت پر رشک کرتے ہو۔ میں تو چاہتا ہوں برابر ہی چھوڑ دیا جاؤں۔ نہ میرا اللہ کے ذمہ کچھ نکلے نہ اس کا میرے ذمہ۔ جاؤ مشورہ سے امارت کا انتخاب کرو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓنے باپ کو سینے کے سہارے سے بٹھایا ہوا تھا۔ فرمایا۔ بیٹا! امّ المومنین عائشہ ؓ کے پاس جاؤ۔ میرا سلام عرض کرکے کہنا اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو میری خواہش ہے کہ حجرہ نبوی میں میرے دو ساتھیوں کے ساتھ مجھے دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔ اگر آپ تنگی محسوس کریں تو بقیع میں مجھ سے بہتر صحابہ اور ازواج مطہرات دفن ہیں، مجھے بھی وہیں دفن کر دینا۔حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ گئے تو امّ المومنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں خوشدلی سے اجازت دیتی ہوں۔
حضرت عمر فار وق ؓ نے دس برس چھ ماہ پانچ روز خلافت کی ۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ 23ہجری بروز بدھ 26 ذی الحج کو آپؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور 24ہجری کو یہ آفتاب اس دنیا کے افق سے غروب ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں