سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍فروری 2002ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرتبہ مکرم شکیل احمد ناصر صاحب) میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کے متفرق واقعات درج کئے گئے ہیں۔ ان میں سے جو واقعات قبل ازیں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت نہیں بنے، وہ ہدیۂ قارئین ہیں:
مکرم محمد عمر بشیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1956ء میں میرے والدین ڈھاکہ سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ حضورؓ بھی ان دنوں کراچی میں تشریف فرما تھے۔ میرے والدین نے حضورؑ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ میرے والد صاحب کو گلے میں کئی دنوں سے سخت تکلیف تھی۔ معروف ڈاکٹروں نے اس تکلیف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپریشن ہی اس کا علاج ہے لیکن اپریشن بھی کم ہی کامیاب ہوتا ہے۔ ملاقات کے دوران حضورؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو حضورؓ نے فرمایا اچھا مَیں دعا کروں گا۔ والدہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور! ان کو یہاں تکلیف ہے۔ حضورؓ نے جب نظر اٹھائی اور گلے کو دیکھا تو والدہ صاحبہ کہنے لگیں: حضور! ابھی دعا کردیں۔ حضورؓ مسکرادیئے اور دعا کی۔ حضورؓ کے توجہ فرمانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے والدین ابھی حضورؓ کی کوٹھی سے باہر ہی نکلے تھے کہ والد صاحب کہنے لگے کہ مجھے آرام محسوس ہوتا ہے اور جب گلے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو نہ وہاں گلٹی تھی اور نہ ہی درد تھا۔
دریائے بیاس کے کنارے واقع گاؤں بھٹیاں کے نمبردار ایک سکھ تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ پر قتل کا جھوٹا مقدمہ چلایا گیا جس پر بہت پریشانی ہوئی۔ بعض احمدی دوستوں کے کہنے پر مَیں قادیان آیا اور حضورؓ سے مل کر حالات بیان کرکے دعا کے لئے عرض کی۔ مرزا صاحب نے میرا نام دریافت کیا اور بغیر کوئی مزید بات کہے گھر تشریف لے گئے۔ مَیں نے دوستوں سے کہا کہ حضورؓ نے صرف میرا نام دریافت کیا ہے لیکن دعا کا وعدہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضورؓ ضرور دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کے طفیل آپ کو بَری کردے گا۔ پھر مَیں گاؤں چلا گیا۔ چند دن بعد مَیں نے خواب میں عدالت میں خود کو دوسرے ملزموں کے ساتھ دیکھا۔ مجسٹریٹ نے صرف مجھے آواز دے کر پکارا، کسی اَور کو نہیں بلایا۔ چند دن بعد جب عدالت میں پیشی ہوئی تو بعینہٖ ایسا ہی ہوا کہ مقدمہ کے دوران مجسٹریٹ نے صرف میرا نام لے کر پیش ہونے کے لئے آواز دی۔ اس کے بعد بھی جتنی پیشیاں بھی ہوئیں سب میں مجسٹریٹ نے صرف میرا نام لے کر پکارا جبکہ باقی ملزمان بھی میرے ساتھ ہی کھڑے ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر میرے وکیل نے تو کہہ دیا کہ باقیوں میں سے شاید کوئی بری ہوجائے لیکن تمہیں ضرور سزا ملے گی۔ مگر خدا کی شان کہ جب فیصلہ سنایا گیا تو صرف مَیں ہی بَری کیا گیا جبکہ باقی تمام ملزموں کو سزا ہوگئی۔
مکرم شیخ فضل حق صاحب آف واہ کینٹ نے بیان کیا کہ 1948ء میں میری اہلیہ کی بیماری طوالت پکڑگئی۔ سول ہسپتال راولپنڈی کے ڈاکٹر نے بہت مہنگے ٹیکے تجویز کئے جو پچاس روپے میں پانچ آتے تھے اور صبح و شام لگتے تھے۔ میری مالی حالت ٹھیک نہیں تھی، بڑا پریشان ہوکر حضورؓ کو دعا کے لئے خط لکھا تو ایک دم لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ ایکسرے کروالیں پھر مزید علاج ہوگا۔ اگلے روز ہی مَیں بیوی کو لے کر ہسپتال پہنچا۔ ایکسرے کروایا۔ اُسی روز حضورؓ کا جواب موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کو مکمل صحت دے گا اور دیگر مشکلات کو بھی حل کرے گا۔ دل کو تسلّی ہوئی۔ ایکسرے لے کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس گیا۔ اُس نے دیکھ کر کہا کہ آپ کی اہلیہ بالکل ٹھیک ہیں، آپ کو مبارک ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں