سینیگال کے مخلص احمدی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍فروری 2010ء میں مکرم منور احمد خورشید صاحب (امیر و مبلغ انچارج سینیگال) کے قلم سے سینیگال کے مخلص احمدیوں کے چند ایمان افروز واقعات شامل اشاعت ہیں۔
٭ کولخ کے علاقہ میں ایک چھوٹے سے گاؤں Palado میں ایک بار دعوت الی اللہ کی غرض سے گئے۔ کچھ پھل بھی ملے۔ پھر دوبارہ گئے تو ایک دوست Gatam Jallo سے گفتگو ہوئی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد کہنے لگے کہ ابھی آپ چلے جائیں۔ جس روز مجھے کوئی شافی ثبوت مل گیاتو مَیں بیعت کر لوں گا۔ اس طرح ہم لوگ واپس چلے آئے۔
اتفاق سے چند ماہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے۔ پروگرام میں گیمبیا کے قصبہ فرافینی میں حضور انور کی آمد پر ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں اکثر احباب کا تعلق سینیگال سے تھا۔ ان لوگوں میں مکرم گاتم جالو صاحب بھی تھے۔ جلسہ کی بہت کامیاب کارروائی کے بعد سب لوگ واپس روانہ ہوگئے۔ مکرم گاتم جالو صاحب نے واپس جاکر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کردیا اور کہنے لگے کہ مجھے اب دلیل مل گئی ہے۔ میرے لئے حضور انور کا چہرہ مبارک ہی کافی ثبوت ہے کیونکہ اس قدر نورانی چہرہ صرف خدا کے پیاروں کا ہی ہو سکتا ہے۔
مکرم Gatam Jallo صاحب ایک عام سیدھے سادھے زمیندار ہیں۔آپ احمدی ہونے سے قبل تعویذ گنڈہ کا کام کرتے تھے اور کافی لوگ ان پر اعتقاد رکھتے تھے۔ اس کام میں لوگوں میں عزت و احترام کے علاوہ مالی منفعت بھی تھی۔
٭ گیمبیا کے ایک شہر بصّے میں ایک احمدی بزرگ محمد تراول صاحب نہایت ہی غریب تھے۔ ذرائع آمد مفقود اور افراد خانہ بھی خاصے تھے۔ایک شام میں اُن کے ہاں گیا۔ کھانے کا وقت تھا ۔کہنے لگے کہ ہم اب کھانا تو کھا رہے ہیں لیکن ہم آپ کو اس کی دعوت نہیں دے سکتے۔مَیں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے سادہ چاول اُبالے ہیں اور ساتھ نمک مرچ پانی میں گھول کر اس کا شوربہ بنایا ہے۔ اس کو چاولوں پر ڈال کر کھا رہے ہیں۔ اس واقعہ سے ان کی مالی حالت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
خاکسارنے ایک ر وز خطبہ جمعہ کے دوران بصّے کے احباب جماعت کو ایک زرعی فارم بنانے کی تحریک کی۔ چونکہ اکثر احباب تجارت پیشہ تھے۔ اس لئے کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلا۔ نماز جمعہ کے بعد یہ بزرگ مجھے میرے کمرہ میں آ کر ملے اور کہنے لگے: کل آپ فلاں گاؤں میں جو میرا کھیت ہے ادھر پہنچ جائیں۔مَیں نے پوچھا: خیریت ہے؟ کہنے لگے: بس آپ آجائیں پھر بتاؤں گا۔ مَیں اگلے روز اس جگہ پہنچ گیا۔ تراول صاحب اپنے کھیت میں ہل چلا رہے تھے۔ مجھے ساتھ لے کر کھیت کے وسط میں چلے گئے اور کہنے لگے اس میں سے آدھا کھیت جماعت کو دے دیا ہے، کام مَیں کروں گا اور آمد جماعت کو جائے گی ۔ ان کے اخلاص کا آج تک میرے ذہن پر بڑا گہرا اثر ہے کہ کس طرح ایک غریب احمدی نے اپنے کھیت کو جماعتی خدمت کے لئے پیش کر دیا تاکہ جماعت کی آمد بڑھ سکے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مالی حالت بہت بہتر ہے۔
٭ سینیگال جماعت کے ایک نہایت مخلص دوست آج کل ریجن Tamba Kunda کے صدر ہیں۔ یہ عہدہ گورنر کے برابر ہوتا ہے۔ 1999ء میں یہ ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ اس دوران ان کی ایک وزیر سے کچھ چپقلش ہو گئی جس پر صدر مملکت نے ان کو اگلے انتخاب میں پارٹی کی طرف سے امیدوار کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے بڑی کوشش کی، ہر قسم کے تعلقات استعمال کئے مگر بے سود۔ اس طرح ہر طرف سے مایوس ہو گئے۔ انہی دنوں خاکسار نے ان کو جماعت میں مالی قربانی کی اہمیت کے بارہ میں تفصیل سے بتایا تو کہنے لگے کہ مَیں ہر ماہ 25پاؤنڈ چندہ دیا کروں گا۔مَیں نے کہا: ذرا سوچ لیں یہ کوئی جذباتی تحریک نہیں بلکہ باقاعدگی سے ادائیگی کرنا ہو گی۔ کہنے لگے انشاء اللہ باقاعدہ ادائیگی کروں گا۔
اگلے ماہ اپنے علاقہ سے ڈاکار تشریف لائے تو مجھے فون کیا کہ مَیں انہیں ان کے ہوٹل میں جا کر ملوں کیونکہ ان کی گاڑی خراب ہے۔مَیں ان کے پاس گیا تو انہوں نے پورے سال کا چندہ ادا کر دیا۔ مَیں بہت حیران ہوا اور خوش بھی۔ اور اسی وقت بذریعہ Fax حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو خط لکھا کہ یہ دوست آجکل اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ تعاون نہیں کر رہی ہے۔ ان حالات کے باوجود انہوں نے بہت بڑی مالی قربانی کی ہے۔ اگلے ہفتہ حضور انور کا جواب آیا جس میں آپ نے فرمایا کہ مَیں نے ان کے لئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ ان کو پہلے سے اعلیٰ مقام سے نوازے گا۔
تقریباً دو ہفتے بعد ان کا مجھے فون آیا اور بتانے لگے کہ مجھے پریذیڈنٹ نیشنل اسمبلی کا مشیر مقرر کیا گیا ہے جس میں ممبر آف پارلیمنٹ سے زیادہ مراعات اور عزت ہے۔ اس طرح خداتعالیٰ نے حضور انور کی دعا لفظ بلفظ پوری فرمائی۔
٭ نیشنل اسمبلی سینیگال کے ایک ممتاز ممبر آنریبل احمد مختار نڈاؤ صاحب عرصہ 15سال سے ممبر چلے آرہے ہیں۔ جرمنی میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے ممبرزآف پارلیمنٹ کا ایک وفد تشکیل دیا گیا تو اُن سے بھی رابطہ قائم کیا گیا۔ وہ تیار ہوگئے اور انہوں نے بتایا کہ گزشتہ رات مَیں نے ایک عجیب خواب دیکھی ہے۔ مَیں ایک نہایت ہی نورانی چہرہ بزرگ وجود کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں اور وہ میرے لئے دعا کر رہے ہیں اور وہ بزرگ افریقن نہیں ہیں اور نہ ہی زندگی میں کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے مجھ سے کوئی بات بھی کی ہے۔ اور یہ خواب انہوں نے دوران سفر اپنی کار میں اپنے ڈرائیور اور اپنی بیٹی کو بھی سنائی۔
جب یہ وفد سینیگال سے جرمنی پہنچا تو اس وقت حضور انور جلسہ کے انتظامات کا معائنہ کرنے کے سلسلہ میں منہائم تشریف لائے ہوئے تھے۔ ہمارا وفد سیدھا جلسہ گاہ میں لے جایا گیا اور حضور انور کو اطلاع ہوئی تو حضور انور نے تشریف لاکر جملہ ممبرز کو شرف مصافحہ بخشا۔ جب حضور انور نے مکرم احمد مختار نڈاؤ صاحب سے مصافحہ کیا تو ان کے مونہہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جو مَیں نے خواب میں دیکھے تھے۔ ایک اور اتفاق دیکھئے۔ جب عالمی بیعت ہو رہی تھی تو مکرم احمد مختار نڈاؤ صاحب کو بالکل حضور انور کے قدموں میں جگہ ملی۔اور بعد از دعا حضور نے خاکسار سے دریافت فرمایا یہ دوست کون ہیں؟ سوائے ان کے کسی اور ممبر کے بارہ میں حضور نے استفسار نہیں فرمایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں