سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے مثالی محبت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18فروری 2022ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 17؍فروری 2014ء میں مکرم محمود احمد انیس صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ چند ایسے واقعات پیش کیے ہیں جن سے آپؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے غیرمعمولی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

٭…حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کرکے مَیں ہنسا بھی ہوں اور بسااوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں مگر مَیں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتا ہوں کہ گرمیوں کی ایک رات ہم صحن میں سو رہے تھے کہ آسمان پر بادل گرجنے لگے تو تمام لوگ کمروں میں چلے گئے۔ اسی دوران اس زوردار کڑک کے ساتھ قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گری کہ ہر ایک نے یہی سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ جب اندر کی طرف جانے لگے تو مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آپؑ کے سر پر رکھ دیے تاکہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، آپؑ پر نہ گرے۔ بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی بھی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا ۔
٭… حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ جب فوت ہوئے تو بعض پیشگوئیاں ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں۔ ایک دو آدمیوں کے منہ سے مَیں نے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا، عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، وغیرہ۔ یہ باتیں سن کر جو پہلا کام مَیں نے کیا وہ یہ تھا کہ مَیں خاموشی سے حضرت مسیح موعودؑ کی لاش مبارک کے پاس گیا اور اس کے سرہانے کی طرف کھڑا ہوا اور خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے خدا! مَیں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہوکر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پِھر گئی تو مَیں اُس سلسلے کی اشاعت کے لیے کھڑا رہوں گا جس کو تُو نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے قائم کیا ہے۔ اُس وقت میری عمر انیس سال تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شعر ہے ؎

ساری دنیا چھوڑ دے پر مَیں نہ چھوڑوں گا تجھے
درد کہتا ہے کہ مَیں تیرے وفاداروں میں ہوں

٭… حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کو بچپن میں حضرت مسیح موعودؑنے ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ آپؓ تین سال میرے پاس پڑھنے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ جب کبھی آپؓ کو پیاس لگتی تو اُٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے۔ خواہ کیسا ہی مصفّا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں آپؓ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپؓ اُسے نہ پیتے۔
٭…حضرت مصلح موعودؓ کو اگر بچپن میں کسی نے حضرت مسیح موعودؑ کے ادب کی کوئی بات سکھائی تو آپؓ نے نہ صرف خوش دلی کے ساتھ اسے قبول فرمایا بلکہ ایسی نصیحت کرنے والے کے ہمیشہ شکرگزار رہے۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بھول سکتا اور مَیں جب کبھی اس دوست کی اولاد پر کوئی مشکل پڑی دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ٹیس اُٹھتی ہے اور اُن کی بہبود کے لیے دعائیں کیا کرتا ہوں۔ 1903ء کی بات ہے جب حضرت مسیح موعودؑ کرم دین والے مقدمے کی پیروی کے لیے گورداسپور میں مقیم تھے۔ یوپی کے رہنے والے رسالدار میجر محمد ایوب حضورؑ سے ملنے وہاں آئے۔ دلّی کے رواج کے مطابق بچے باپ کو’’تم‘‘کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اس لیے گھر میں سن سن کر میری عادت بھی ’’تم‘‘ کہنے کی ہوگئی تھی۔ یوں تو مَیں حتی الوسع حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرنے سے کتراتا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ جاتی اور مجبوراً مخاطب کرنا پڑتا تو ’’تم‘‘کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ایسا ہی اُس دوست کی موجودگی میں ہوا۔ یہ لفظ سُن کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں۔ اور وہ یہ کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کو ’’آپ‘‘کہہ کر مخاطب کیا کریں ورنہ آپ نے پھر ’’تم‘‘ کا لفظ بولا تو جان لے لوں گا۔
مجھے’’تم‘‘اور’’آپ‘‘میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا بلکہ مَیں’’تم‘‘کا لفظ زیادہ پسند کرتا تھا اور’’آپ‘‘کا لفظ بولتے ہوئے مجھے بوجہ عادت نہ ہونے کے شرم سے پسینہ آجاتا تھا۔ مگر اُس دوست کے سمجھانے کے بعد مَیں ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے لگا اور اُن کی اس نصیحت کا اثر اب تک میرے دل میں موجود ہے۔
٭… آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے تبرکات سے بھی خاص محبت تھی اور ان کی اہمیت کا احساس تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کوئی شخص ایک خوبصورت جبّہ لایا جو حضورؑ سے مَیں نے لے لیا۔ ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت مَیں نے وضو کیا اور وہ جبّہ اس لیے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خداتعالیٰ کے فرستادہ کے مقدّس ہونے کا تھا، پہن لیا۔ تب مَیں نے اس کوٹھڑی کا جس میں مَیں رہتا تھا دروازہ بند کرلیا اور ایک کپڑا بچھاکر نماز پڑھنی شروع کی اور مَیں اس میں خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
٭… حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی حرم حضرت امّاں جانؓ سے بھی بہت محبت تھی اور ادب سے پیش آتے اور آپؓ کی عزت و تکریم کا بہت خیال رکھتے۔ سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے۔ اپنے ساتھ موٹر میں بٹھاتے۔ کہیں باہر سے آنا ہوتا تو سب سے پہلے حضرت امّاں جانؓ سے ملتے اور تحفہ پیش کرتے۔ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت امّاں جان کی وفات ہوئی تو حضورؓ کی خواہش تھی کہ اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ مَیں اُن دنوں لاہور میں متعین تھا۔ حضورؓ کا ارشاد موصول ہوا کہ اس سلسلے میں انڈین ہائی کمشنر سے رابطہ کیا جائے۔ میری درخواست پر انڈین ہائی کمشنر نے دہلی سے رابطہ کیا اور پھر مجھے بتایا کہ ہندوستان کی گورنمنٹ نے خاص کیس کے طور پر اس کی اجازت دے دی ہے لیکن یہ شرط لگائی کہ اس غرض کے لیے بیس سے زائد عزیزوں کو ویزے نہیں دیے جاسکتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ پیشکش اس وجہ سے مسترد کردی کہ حضرت امّاں جانؓ کی حیثیت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار احمدی میّت کے ساتھ جانے ضروری ہیں۔
٭… حضرت مصلح موعودؓ کو قادیان سے بھی بہت پیار تھا۔ چنانچہ سفر یورپ کے دوران جب جہاز عدن کے قریب پہنچا تو آپؓ نے آدھی رات کے وقت اپنے قلم مبارک سے جماعت کے نام ایک مفصّل خط تحریر فرمایا جس میں یہ بھی تحریر فرمایا: ’’… مجھے چھوڑ دو کہ مَیں خیالات و افکار کے پر لگاکر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہوکر اس مقدّس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور راہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت، دوستوں کی جماعت رہتی ہے۔ …‘‘
سفریورپ کے وقت حضورؓ نے بےاختیار اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ؎

یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں
خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقامِ پاک کا
سوتے سوتے بھی یہ کہہ اُٹھتا ہوں ہائے قادیاں

٭… حضرت مسیح موعودؓ کے علم کلام سے حضرت مصلح موعودؓ کو ایسی محبت تھی کہ خود بھی حضورعلیہ السلام کی کتب کا مطالعہ فرماتے اور جماعت کو بھی اس کی برکات سے آگاہ فرماتے۔ چنانچہ فرمایا: ’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ … اور ان کے ذریعہ نئے نئے علوم کھلتے ہیں۔‘‘ (ملائکۃاللہ)
اگرچہ آپؓ کے متعلق خدائی وعدہ تھا کہ ’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ لیکن آپؓ اپنے تمام علوم کو حضورؑ کے علم کلام کے تابع رکھتے۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ ایک درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا۔ مگر جب مَیں وہ تمام نوٹ لکھواچکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ یا حافظ روشن علی صاحب مرحومؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک حوالہ نکال کر پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے یوں فرمایا ہے۔ مَیں نے اس حوالے کو دیکھ کر اُسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میرا لکھوایا ہوا نوٹ غلط ہے، اُسے کاٹ ڈالیں۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان کے مقابلے میں ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضورؓ مزار مبارک پر دعا کے لیے جایا کرتے۔ اس سے عارضی جدائی بھی آپؓ پر کیسی گراں گزرتی، اس کا اندازہ اُس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو آپؓ نے سفر یورپ کے دوران پورٹ سعید سے جماعت کے نام تحریر فرمایا۔ اس میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا:
جس صبح روانہ ہونا تھا تو اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لیے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے مَیں قادیان میں حاصل کرنا چاہتا تھا یعنی آقائی و سیّدی و راحتی و سروری و حبیبی و مرادی حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لیے۔ ایک بےبس عاشق اپنے محبوب کے مزار پر عقیدت کے دو پھول چڑھانے اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دعا کرنے کے سوا اَور کیا کرسکتا ہے۔سو اس فرض کو ادا کرنے کے لیے مَیں وہاں گیا۔
مگر آہ! وہ زیارت میرے لیے کیسی افسردہ کُن تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مُردے اس مٹی کی قبر میں نہیں ہوتے بلکہ ایک اَور قبر میں رہتے ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مٹی کی قبر سے بھی اُن کو ایک تعلق ہوتا ہے اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی دل اس قرب سے بھی جو اپنے پیارے کی قبر سے ہو ایک گہری لذّت محسوس کرتا ہے۔ پس یہ جدائی میرے لیے ایک تلخ پیالہ تھی اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے عین قدموں کے نیچے میرا جسم دفن ہو تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولا مجھ پر بھی رحم فرمائے۔ اور ایک عقیدت کیش احمدی جو جذبۂ محبت سے لبریز دل کو لے کر اس مزار پر حاضر ہو، میری قبر بھی اُس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ؎

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اور وہ کلمۂ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے ربّ کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے۔
٭…حضرت مصلح موعودؓ اپنے زمانۂ خلافت میں حاصل ہونے والی سلسلہ احمدیہ کی غیرمعمولی ترقیات کا ذکر کرنے کے بعد سورۃالقدر کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ بےشک ہمیں کامیابیاں زیادہ حاصل ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے سے بہتر ہے۔ آپؑ کے زمانے کو یاد کرکے دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ ساری کامیابیاں بالکل حقیر لگتی ہیں۔اُس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ آہ مسیح موعود کا وقت! اُس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا۔بےشک آج دنیوی لحاظ سے جو رتبہ ہم کو حاصل ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کو حاصل نہیں تھا۔ جتنے لوگ ہماری باتیں ماننے والے موجود ہیں اتنے لوگ باتیں ماننے والے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ جتنا خزانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اتنا خزانہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اب بعض دفعہ خداتعالیٰ ایک ایک دن میں پچیس پچیس تیس تیس ہزار روپیہ چندے کا بھجوادیتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں اتنا چندہ سارے سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا مگر اس تمام ترقی کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ اُس زمانہ سے بہتر ہے۔ آج وہ بات کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔
٭…حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہ سے کتنی محبت تھی اور اُن کے جذبات کا کتنا احترام فرماتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگست 1917ء کے آخر میں حضرت مصلح موعودؓ شملہ تشریف لے گئے تو خاکسار بھی راجپورہ سے انبالہ تک ہم سفر رہا۔ کالکا ریلوے سٹیشن پر حضورؓ نے مجھے فرمایا کہ سنا ہے پٹیالہ بہت خوبصورت شہر ہے، کیوں نہ ہم چوبیس گھنٹے کا Break Journey کرکے شہر دیکھ آئیں۔ مَیں نے بصد شوق عرض کیا کہ بہت مبارک بات ہے۔ حضورؓ نے کچھ سوچ کر فرمایا کہ اگر ہم اس وقت پٹیالہ ہو آئے جبکہ میاں عبداللہ صاحب سنوری موجود نہیں ہیں تو اُن کو بہت صدمہ پہنچے گا کیونکہ جب حضرت مسیح موعودؑ پٹیالہ گئے تھے تو میاں عبداللہ صاحب بھی ساتھ تھے بلکہ وہ اپنے مکان واقعہ سنور میں بھی حضرت صاحب کو لے گئے تھے۔ انشاءاللہ واپسی پر سہی۔
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خاطر عفوودرگزر کا یہ واقعہ بھی حضرت مصلح موعودؓ کی حضورعلیہ السلام سے غیرمعمولی محبت کا عکاس ہے کہ 1932ء میں جب مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: ’’اگرچہ خواجہ صاحب نے میری بہت مخالفتیں کیں لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے وقت خدمات بھی کی ہیں اس وجہ سے اُن کی موت کی خبر سنتے ہی مَیں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ مَیں نے سب معاف کی۔خداتعالیٰ بھی ان کومعاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خداتعالیٰ کھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے اُن میں ہوسکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں ۔ہمیں ان خوبیوں کی قدر کرنی چاہیے۔ مَیں سمجھتا ہوں خلافت کا انکار بڑی خطا ہے، خداتعالیٰ نے اسے بڑاگناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے ہمیں معاف کرنا چاہیے۔ خداتعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا۔‘‘ (الفضل ربوہ 14؍فروری2003ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں