شہدائے مونگ عزیزم یاسر احمد اور مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرمہ مبارکہ ارشد کُلّاصاحبہ نے اپنے چچا اور سسر مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب اور اُن کے نوجوان بیٹے عزیزم یاسر احمد کا ذکرخیر کیا ہے۔ یہ دونوں17؍اکتوبر 2005ء کو نماز فجر کی ادائیگی کے دوران احمدیہ مسجد مونگ میں شہید کردیے گئے تھے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اس سانحہ سے قبل ہم دونوں میاں بیوی نے بارہا پریشان کُن خواب دیکھے۔ ایک رات مَیں نے ایک ہی خواب دو بارہ دیکھا تو گھبراکر اپنے شوہر کو اٹھاکر بتایا۔ وہ بھی پریشان ہوکر کہنے لگے کہ کچھ دنوں سے مَیں بھی اس جیسے ملتے جُلتے خواب دیکھ رہا ہوں۔ چونکہ میرے سسر ہمارے ملنے کے لیے بہت اداس تھے اس لیے میرے شوہر نے مجھے اور بچوں کو پاکستان بھجوادیا جبکہ خود انہوں نے چند ہفتے بعد آنا تھا۔ مَیں اپنے بچوں کے ہمراہ پاکستان گئی ہوئی تھی۔ رمضان المبارک کا ایک جمعہ تھا کہ سحری کے بعد کچھ دیر کے لئے لیٹی تو غنودگی کی حالت میں دیکھا کہ ہماری ہمسائی مجھے زور زور سے جگاتے ہوئے کہتی ہے کہ آپ کو آپ کے چچا بلارہے ہیں۔ جب میری آنکھ کھلی تو سامنے میری بہن روتے ہوئے مجھے جگارہی تھی۔ اُس نے بتایا کہ کس طرح نماز کے دوران شرپسندوں نے مسجد میں نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کی ہے اور ہمارے کئی پیارے شہید اور بہت سے زخمی کردیے ہیں۔
جب مَیں نے اس سانحہ کے بارے میں بتانے کے لئے اپنے شوہر کو جرمنی میں فون کیا تو وہ اُس وقت یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ ایک کمرے میں دو تابوت رکھے ہیں۔ ایک کو وہ قبرستان چھوڑ کر آتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہاں دوسرا تابوت بھی تھا وہ کدھر ہے؟ اتنے میں رات تین بجے فون کی آواز سُن کر وہ گھبراگئے۔ مَیں نے فون پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور ہمت کرکے حال احوال کے بعد پوچھا کہ روزہ رکھ لیا ہے؟ کہنے لگے ابھی کافی ٹائم باقی ہے۔ پھر مَیں نے مسجد میں ہونے والے واقعہ کا بتایا اور کہا کہ چچاجان، یاسر اور میرے بڑے بھائی مکرم کیپٹن محمد ایوب صاحب شدید زخمی ہوئے ہیں، آپ آج ہی پاکستان آنے کی کوشش کریں۔ وہ پوچھنے لگے کہ پیچھے رونے کی آوازیں کیوں آرہی ہیں۔ میری ہمّت جواب دے گئی اور چچاجان کی شہادت کا بتادیا۔ پھر انہوں نے ایک کزن کو فون کیا تو اُس نے یاسر کی شہادت کا بھی بتادیا۔ وہ اگلے روز ہی غم سے نڈھال پاکستان پہنچے۔ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔ ماں اور بیٹا ایک دوسرے کو تسلّیاں دے رہے تھے۔
چچا جان مکرم چودھری محمد اسلم کُلّاصاحب شہید اپنی ایک بہن اور چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وجیہ صورت اور دراز قدو قامت کے مالک تھے۔ اصولوں کے سخت لیکن دل کے نرم وجود تھے۔ 1993ء میں مونگ میں پہلا اسیر راہ مولیٰ بننے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل تھا۔ ہمیشہ مہذّب انداز میں بات کرتے۔ ہر چھوٹے بڑے کو ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے اور پکارتے ہوئے پورا نام لیتے۔علی الصبح اُٹھ کر نہاتے۔ بچوں کو بھی نماز کے لئے جگاتے اور نماز پڑھنے کے بعد کام پر چلے جاتے۔ نماز سنوار کر ادا کرتے۔ آخری سالوں میں باقاعدہ تہجد بھی ادا کرتے تھے۔ درودشریف ورد زبان رہتا۔ کام سے واپس آکر پھر نہاتے۔ بہت صفائی پسند اور نفیس طبیعت تھی۔اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اپنے والد محترم کے کپڑوں کا خاص خیال رکھتے اور اُن کی پگڑی کو مایا خود لگاتے۔ اپنے ایک مرحوم دوست کی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کیا اور شادی کے انتظامات اپنی نگرانی میں کروائے۔ پھر دلہن کو پیاراور دعا دے کر گھر چلے آئے کہ رخصتی کا منظر نہیں دیکھ سکتا بعد میں آؤں گا۔
اپنی بیوی اور سسرالی رشتہ داروں سے ہمیشہ حسن سلوک روا رکھا۔ اپنے بچوں سے حد درجہ محبت تھی۔ مَیں بچوں کو لے کر اپنے والدین کے ہاں جاتی تو تیسرے روز خود لینے آجاتے کہ گھر میں رونق نہیں ہے میرا دل گھبرا رہا تھا۔ میرے پاکستان پہنچنے کے بعد اپنے بیٹے کا انتظار تھا جنہوں نے تین ہفتے بعد آنا تھا۔ روز دن گنتے لیکن خداتعالیٰ کو اس دنیا میں یہ ملاقات منظور نہیں تھی۔
بہت صائب الرائے تھے اور اکثر خداداد فراست کی بِنا پر قبل از وقت واقعات کا صحیح اندازہ لگالیتے۔ بہت قابل قدر نصائح کرتے۔ اپنی بیٹی کو نصیحت کی کہ اگر تمہارے سسرال میں سے کوئی ملنے آئے تو بہت خاطرمدارات کرنا لیکن اگر میکے میں سے کوئی آئے تو جو گھر میں ہو اُس سے ہی تواضع کرنا اور کبھی خاوند سے مطالبہ نہ کرنا۔ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ جب اسیرراہ مولیٰ تھے تو مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں اپنی بیٹی کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ جواب آیا: ’’ملیحہ اسلم‘‘۔ آپ کو بتایا تو بہت خوش ہوئے کہ حضورؒ نے پوتی کے نام کے ساتھ آپ کا نام لگایا ہے۔
آپ کئی سالوں سے بیمار تھے۔ تین بار تو ایسا شدید بیماری کا حملہ تھا کہ ڈاکٹروں نے بھی مایوسی کا اظہار کردیا۔ لیکن شاید اس عظیم سعادت کے لئے خداتعالیٰ نے آپ کو زندگی دے دی۔
شہید مرحوم کے بیٹے اور اپنے چچازاد بھائی عزیزم یاسر شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتی ہیں کہ عزیزم یاسر کی پیدائش بھی جمعے کے روز 19؍جنوری 1990ء کو ہوئی تھی اور شہادت بھی جمعے کے دن ہی ہوئی۔ اسے واقفینِ نَو میں پہلا شہید بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بوقت شہادت نویں کلاس کا طالبعلم تھا اور عمر 15 سال تھی۔ صحت مند اور خوبرو تھا۔ فرمانبردار، نیک فطرت اور مثالی طفل تھا۔ نماز کبھی ضائع نہ کرتا۔ اطفال میں نماز کا مقابلہ ہوا تو اوّل آیا۔ خدام میں اوّل آنے والے عزیزم لہراسپ تھے۔ وہ بھی سانحہ مونگ میں شہید ہوئے۔
محلے والے کہتے تھے کہ یاسر نے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔سلام میں پہل کرتا۔ خدمت دین اور خدمت خلق کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتا۔ جانے والوں کا دکھ تو رہے گا لیکن یہ عجیب الٰہی جماعت ہے کہ دنیا بھر سے لوگوں نے پیغامات کے ذریعے اور خود آکر بھی تعزیت کی اور شہدائے مونگ کی قبروں پر دعا بھی کی۔ انڈونیشیا سے آنے والی ایک خاتون مونگ آئیں تو روتے ہوئے کہا کہ مجھے سب شہیدوں کا دکھ ہے لیکن مَیں وقف نَو کے پہلے شہید کی ماں سے ملنے کے لئے اتنا تھکا دینے والا سفر کرکے آئی ہوں۔
سانحہ مونگ میں میرے بڑے بھائی محترم کیپٹن محمد ایوب کُلّا صاحب شدید زخمی ہوئے۔ اُن کی ایک ٹانگ مفلوج ہوگئی۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد جب خون میں لت پت تھے تو اُن کو اپنے عزیزوں کی شہادت کی اطلاع بھی ملی۔ اس حالت میں بھی کمال ہمّت اور حوصلے سے باتیں کررہے تھے۔ پریشان دیکھ کر تسلّی دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں بس دعا کی ضرورت ہے۔ خود بہت تکلیف میں ہونے کے باوجود دوسرے زخمیوں کو ہسپتال پہلے لے جانے کے لئے کہتے رہے اور خود سب سے آخر میں گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں