شہید احمدیت محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ8؍اکتوبر 2008ء میں مکرم نذیر احمد خادم صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے 1972ء تا 1978ء ضلع نوابشاہ میں قیام کے دوران جناب سیٹھ صاحب مرحوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وقت آپ قائد خدام الاحمدیہ علاقہ سکھر ڈویژن تھے جس میں نوابشاہ اور خیرپور میرس کے اضلاع بھی شامل تھے۔ مجھے ان کی مجلس عاملہ میں بطور ناظم کام کرنے کی توفیق ملی۔ 1976ء تا 1978ء میں قائد خدام الاحمدیہ ضلع خیرپور مقرر ہوا تو آپ سے رابطہ اور تعلق اَور بھی زیادہ ہوگیا۔ آپ اکثر میٹنگز کے علاوہ مشورہ اور راہنمائی کے لئے بھی خاکسار کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے۔ ایک دفعہ میں شدید بیمار ہوگیا اور میرے معالج نے مجھے نوابشاہ ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا مگر محترم سیٹھ صاحب نے باصرار مجھے اپنے ہاں رکھا۔ خود روزانہ ہسپتال لے جاتے اور معائنہ اور ادویات وغیرہ کی تبدیلی کے بعد ساتھ ہی لے آتے۔ کوئی ہفتہ بھر آپ نے میرے لئے آرام دہ قیام و طعام اور فراوانی کے ساتھ پھلوں کا بھی اہتمام فرمایا اور مسلسل حوصلہ بھی بڑھاتے رہے جس کی وجہ سے میری صحت بڑی تیزی سے بحال ہوئی۔

سیٹھ محمد یوسف شہید نوابشاہ

ایک روز ایک دوست نے آکر کہا کہ میرا بھانجا ہسپتال میں داخل ہے۔ کل گھر سے پیسے آجائیں گے۔ مجھے کل تک 300 روپے عنایت فرمائیں۔ محترم سیٹھ صاحب نے 700 روپیہ ان کو دیتے ہوئے فرمایا کہ تین سو میں آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی آپ یہ سات صد رکھ لیں۔
آپ سے تقریباً ہر سال ہی جماعت احمدیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ممبر کی حیثیت سے ربوہ میں ملاقات ہو جاتی۔ گزشتہ سال شوریٰ کی ایک سب کمیٹی میں ہم دونوں شامل تھے اور اتفاق سے نشستیں بھی متصل تھیں۔ رات گیارہ بجے کا عمل ہوگا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا ہے اور شدید کرب اور بے چینی اور Anxiety کے آثار تھے۔ چونکہ دل کے مریض تھے میں نے گزارش کی کہ آپ صدر مجلس سے اجازت لے لیں۔ میں آپ کو قیام گاہ پر لے جاتا ہوں اور کسی معالج سے چیک بھی کروالیں گے مگر نہ مانے۔ کچھ دیر بعد جب طبیعت مزید خراب ہوئی تو میں نے پھر پُرزور درخواست کی تو اجازت لے کر اکیلے باہر گئے اور کوئی 10 منٹ بعد ہی واپس تشریف لے آئے اور کہا کہ طبیعت بہتر ہوگئی ہے اس لئے آگیا ہوں۔ … دل تو آپ کے عالی حوصلہ کو شکست نہ دے سکا مگر بزدل اور حسد کی آگ میں جلنے والے معاندین سلسلہ نے محبت الٰہی اور بندوں کی ہمدردی سے بھرا ہوا یہ دل چھلنی چھلنی کر دیا۔
آپ مجھے ہمیشہ تاکید کرتے کہ اجتماع کے ہر اجلاس سے قبل جو بھی تلاوت ہو وہ صحیح اور خوش الحانی سے کی جائے اور ایسے دوستوں سے تلاوت کروائی جائے جن کی آواز جاندار ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں