’’اسیران رہ مُلّا‘‘ از جناب صابر صدیقی صاحب

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 14؍ مارچ 1996ء کی زینت محترم صابر صدیقی صاحب کی ایک نظم میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

رہے اہل جنوں کنج قفس میں جاں بلب برسوں
تپا نمرودیٔ آتش میں زرِ ایمان جب برسوں
دعا دل چیر کر نکلی زمیں سے تا فلک پہنچی
صدائے طاہر محبوب حق جب حق تلک پہنچی
رہائی پا گئے اس پل اسیران رہ مولیٰ!
تری نظر کرم ان پر سدا یونہی رہے مولیٰ
مگر لاچار ہیں اب بھی ’’اسیران رہ مُلّا‘‘
وہی کرنے پہ ہیں مجبور جو ان سے کہے مُلّا
یہ سادہ لوح ہیں ، بے بہرہ حق و صداقت ہیں
مزاجاً پاک طینت ہیں ، شریف و نیک صورت ہیں
ادھر بے چارگی ان کی ادھر چالاک ہے مُلّا
کہ ہر نیکی سے ہر پاکیزگی سے پاک ہے مُلّا
مریض مکر مُلّا ہیں پہ محروم مداوا ہیں
نہ منزل کی خبر ان کو نہ رہبر سے شناسا ہیں
عطا دانشوری کر ان کو ، ذوق پارسائی دے
خدایا پنجۂ مُلّا سے اب ان کو رہائی دے
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں