صحابہؓ کی شفاء سے متعلق قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍نومبر 2003ء میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہؓ کے شفاء سے متعلق ایمان افروز واقعات (مرتبہ مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب) شامل اشاعت ہیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارہ میں حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ تحریر کرتے ہیں

کہ میری زوجہ اول کی بیماری کے ایام میں مجھے بڑی پریشانی رہی تھی اور یہ بات میرے دماغ اور دل پر حاوی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے علاج سے مریضہ کو شفا ہوجائے گی۔ دیگر وجوہات کے علاوہ بڑی وجوہات یہ تھیں کہ حضرت خلیفہ اول میرے مرشد ہیں اور باخدا ہیں اور پھر طبیب بھی اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ مَیں حضور کو بار بار دعا کے لئے عرض کیا کرتا تھا۔ ایک روز بوقت عصر حضور نے مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی جوان کو پیٹ درد محسوس ہوتی ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ذرا چلنے پھرنے یا ورزش کرنے سے دُور ہوجائے گی۔ جب دُور نہیں ہوتی تو اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے جو کہتی ہے کہ مَیں ابھی چائے وغیرہ تیار کرکے دیتی ہوں اس سے آرام ہوجائے گا۔ جب اس سے بھی آرام نہیں آتا تو محلہ کے کسی طبیب سے دوائی پیتا ہے، پھر بھی آرام نہیں ہوتا۔ تو شہر کے بڑے طبیب کے پاس جاتا ہے۔ اس کے علاج سے بھی آرام نہیں آتا تو اسے خیال آتا ہے کہ علاج سے تو شفاء نہیں ہوئی تو وہ کسی بزرگ باخدا کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کے علاج و معالجہ سے تو کچھ نہیں ہوا۔ اگر حضور نے دعا کی تو امید ہے شفاء ہوجائے گی۔ مگر جب اس باخدا بزرگ کی دعاؤں سے بھی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا مَیں نے سارا جہان دیکھ لیا مگر میری مصیبت دُور نہیں ہوئی۔ اب تیرے دروازہ پر آیا ہوں اب تو رحم فرما اور میرے گناہ بخش کر مجھے شفاء دے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے شفاء دیتا ہے۔ … ایک روز مولوی عبدالحئی صاحب ابن حضرت خلیفہ اولؓ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کو بیماری سے شفاء کس طرح ہوئی؟ مَیں نے کہا نہیں۔ تو بتایا کہ جن ایام میں آپ اباجان کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کرتے تھے انہی دنوں ایک روز اباجان گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ فضل احمد کو اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے اور ہمیں فضل احمد سے محبت ہے۔ ان کی بیوی کا ہر چند ہم نے علاج کیا مگر فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ان کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر حضورؓ ایک مصلیٰ پر جو صحن میں پڑا تھا سجدہ میں گر گئے اور بڑی دیر تک دعا کی جس کے بعد وہ صحت یاب ہوگئیں۔
٭ حضرت اماں جانؓ کی قبولیت دعا کا واقعہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان رہائش کے دوران اُن کی اہلیہ ایک دفعہ خونی پیچش سے سخت بیمار ہوگئیں، کئی دن تک علاج معالجہ کے باوجود بھی کوئی افاقہ نہ ہوا حالت مزید خراب ہوتی گئی۔ بار بار خون آنے کی وجہ سے بے حد کمزوری ہوگئی حتیٰ کہ اٹھنے بیٹھنے سے بھی لاچار تھی۔ نہ بچنے کی صورت نظر آرہی تھی۔ اسی دوران ایک دن صبح ہوتے ہی پیغام ملا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فوری آپ کو بلایا ہے۔ آپ اسی وقت حاضر ہوگئے۔ ارشاد فرمایا کہ دو چھکڑے فلاں گاؤں سے بھوسہ بھرواکر لے آؤ۔ حکم ملتے ہی چھکڑوں کا انتظام کرلیا اور رخصت ہوتے وقت مَیں نے حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں عرض کی کہ میری بیوی پیچش کی وجہ سے سخت بیمار ہے، گھر میں کوئی سنبھالنے والا بھی نہیں ہے۔ اُس کی خبر ضرور کروالیں۔ آپؓ نے فرمایا تم بے فکر ہوکر جاؤ، ہم دعا بھی کریں گے اور خیال بھی رکھیں گے۔… رات عشاء کے وقت ہم واپس پہنچے۔ حضرت اماں جانؓ نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کرکے بتایا کہ فلاں مکان میں اتروالو، پھر چھکڑے والوں کو کھانا وغیرہ کھلا کر رخصت کرنا ہے اور خود بھی ان کے ساتھ کھانا کھاؤ اپنے گھر کی تسلی رکھو۔ آپ کی بیوی بالکل صحت مند ہے۔ … سب کاموں سے فارغ ہوکر کافی رات گئے جب مَیں گھر آیا تو خداتعالیٰ کی شان کہ اس کو ہر لحاظ سے تندرست اور صحت مند پایا… مَیں نے پوچھا کہ کیا جادو کیا کہ اتنی جلد صحت یاب ہو گئی کہنے لگی حضرت اماں جان نے دوائی تو کوئی نہ دی تھی مگر صرف کھانا شاہی دستر خان سے بھجوایا تھا اور ساتھ تاکید یہ بھی کی کہ خوب پیٹ بھر کر کھانا کھالے… حالانکہ طبیب نے سختی سے وہ سب کھانے بند کئے ہوئے تھے جو ایسی بیماری کے لئے سخت مضر تھے۔
٭ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال

حضرت اماں جان اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ 1917ء میں مجھے ککروں کی تکلیف تھی۔ ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی کہ ساری رات نہ سو سکا۔ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ کو بلایا۔ آپؓ تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے دوائی لگا کر چلے گئے اور شدت بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا البتہ گھر جاکر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جانؓ سے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ تو قریباً ضائع ہوچکی ہے اور آنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے اور آنکھ کے اندر کی سفیدی نظر آتی ہے۔ اس پر اُن دونوں کے دلوں میں درد اور ترحم پیدا ہوا۔ اور اسی وقت میرے لئے دعا کی اور رات حضرت خلیفہ ثانی نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں حضور کے سامنے بیٹھا ہوں اور میری دونوں آنکھیں سلامت ہیں۔ یہ رویا حضور نے صبح ہی حضرت اماں جان کو سنایا تو حضرت اماں جان اسی وقت خوش خوش ہمارے گھر تشریف لائیں اور مبارکباد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دے گا اور حضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضرت خلیفہ ثانی کے رویا کا ذکر کیا اور فرمایا اب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوگا اور صحت ہوجائے گی۔ بعد میں حضرت میر صاحب خود تشریف لائے اور آنکھ کا معائنہ کرنے کے بعد سخت حیرت ہوئی کہ ایک رات میں زخم کا 7/8 حصہ مندمل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی اور میری دونوں آنکھیں درست ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمبا عرصہ خدمت سلسلہ کا موقع دیا۔ باوجود ہندوستان کے بعض ایسے علاقوں میں کام کرنے کے جہاں لُو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا میری آنکھیں بالکل ٹھیک رہیں۔
٭ مکرم میاں فضل الٰہی صاحب احمدی آف لالہ موسیٰ کی اہلیہ بعض نسوانی بیماریوں کی وجہ سے بیمار ہوگئیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بیماریوں نے طول کھینچا تو مَیں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں سے ان کا علاج کروایا۔ لیکن افاقہ نہ ہوا۔ بعض لیڈی ڈاکٹروں نے بتایا کہ میری اہلیہ کے رحم میں نقص واقع ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ سلسلہ تولید بند ہوجائے گا۔ مَیں نے اس فکر میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کو دعا کیلئے متواتر خط لکھے … ان کے جواب میں حضرت مصلح موعود نے از راہِ شفقت تحریر فرمایا کہ انشاء اللہ ہم دعا کریں لیکن آپ بچہ دانی کی اصلاح کیلئے جوان بکری کی بچہ دانی کی یخنی صبح و شام دو دفعہ ہفتہ عشرہ تک اپنی بیوی کو استعمال کروائیں۔ حضورؓ کی ہدایت پر عمل کرنے کے بعد جب لیڈی ڈاکٹرکو معائنہ کروایا گیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچہ دانی بالکل درست اور صحیح ہے اور اس میں کوئی نقص باقی نہیں رہا۔ اور اس کے بعد ان کے ہاں کئی تندرست بچے تولد ہوئے۔
٭ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ رقمطراز ہیں 1943ء کا واقعہ ہے کہ مَیں تپ محرقہ سے سخت بیمار ہوگیا اور علاج کے باوجود بخار میں دن بدن زیادتی ہوتی گئی۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد بخار کے ساتھ اسہال بھی شروع ہوگئے اور ضعف اور کمزوری کی وجہ سے مَیں اکثر بیہوش رہتا۔ یہاں تک کہ ایک دن غلطی سے میری موت کی افواہ بھی شہر میں پھیل گئی۔ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ میری حالت نازک دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حضور ڈلہوزی پہنچے اور اس خادم کیلئے درخواست دعا کی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعا کررہے ہیں۔ چنانچہ حضورؓ اور آپ کے اہل خانہ کی دردمندانہ دعاؤں نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کو کھینچا اور مَیں روبصحت ہونے لگا۔
٭ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ رقمطراز ہیں کہ 1929ء میں نمونیہ کی وجہ سے داخل شفا خانہ کیا گیا۔ میری زندگی کی امید منقطع ہوگئی تھی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دعا اور توجہ سے دوبارہ زندگی پائی۔ اور حضورؓ کی توجہ سے ہی جماعت نے میری بے حد خدمت کی۔

حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ حضرت شیخ صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ 3؍نومبر 1957ء کو بندش بول سے بیمار ہوکر کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا۔ ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ میری آنکھیں پتھرا گئیں اور نزع کی سی کیفیت وارد ہوگئی۔ چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی۔ لیکن حرکت نہ کرسکتا تھا۔ میرے تمام بیٹے خدمت میں مصروف تھے۔ حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور دوسرے بہت سارے بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا منشاء تھا کہ لاہور لے جا کر علاج کروایا جائے۔ پسرم عزیز م محمد احمد سلمہ نے عرض کیا کہ بس اڈہ تک لے جانے پر ہی اباجی کی وفات ہوجائے گی۔ ایک روز میاں غلام محمد صاحب اختر عیادت کے لئے آئے۔ میری حالت بہت نازک تھی۔ مَیں نے چشم پُر آب ہوکر کہا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں میری طرف سے بعد السلام علیکم عرض کریں کہ بادشاہوں کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہا کئے جاتے ہیں۔ حضور کے خاندان میں بھی ایک ایسی تقریب ہے۔ مَیں مرض کا اسیر ہوں۔ دعا کرکے مجھے مرض سے آزاد کرائیں۔ بعد میں اختر صاحب نے بتایا کہ جب مَیں نے پیغام عرض کیا تو حضورؓ کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضورؓ نے دعا کی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا یہ نشان دکھایا کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیا جاتا تھا اس واقعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کرکے دیکھوں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب کہ پیشاب خود ہی خارج ہوگیا اور بعد ازاں باقاعدہ آنے لگا۔ انہی ایام میں ایک روز حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ تشریف لائے۔ حالات سن کر دعا کی جس کے دوران میں اللہ اکبر کا نعرہ زور سے ان کی زبان سے بلند ہوا۔ آپؓ نے بتایا کہ مَیں نے دعا کے دوران دیکھا کہ مجھے فرشتے نور کے پانیوں سے غسل دے رہے ہیں۔ جس سے مراد غسل صحت نکلا۔ فالحمدللہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں