صحابہ مسیح موعودؑ کے تقویٰ کی روشن مثالیں

تقویٰ کی اہمیت اور روزمرہ امور میں تقویٰ کے اظہار کے بارہ میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 مارچ 2010ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے:
’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسرکی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا … یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا‘‘۔ (کشتی نوح۔ صفحہ 12 تا 15)
عربی زبان میں تقویٰ کے معنیٰ پرہیز کرنے اور بچنے کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً یہ دل کی اس کیفیت و حالت کا نام ہے جو قلب میں خیر و شر کی خلش اور نیکی کی تحریک و رغبت اور برائی سے نفرت و کراہت پیدا کرتی ہے۔ گویا تقویٰ اس فکر و احساس کا نام ہے جس کی بدولت ہر کام احکام خداوندی کے مطابق کرنے کی شدید خواہش اور تمنا پائی جائے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی شدید نفرت و حقارت کا اظہار ہو۔
تقویٰ کے کئی مدارج اور باریک راہیں ہیں۔ تقویٰ شعار افراد بڑی باریک بینی سے تقویٰ کی شرائط و حدود پر قائم رہنے کے لئے مستعد اور سرگرم رہتے ہیں اور ان کے سیرت و کردار سے شان تقویٰ کی جو خوبصورت تصویر ابھرتی ہے وہ دلکش بھی ہے اور دلربا بھی، روح پرور بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔
=… حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بارہ میں حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت میاں صاحب نے اگر کبھی ایک لفافہ بھی ذاتی طور پر کسی کے نام لکھا تو اپنے پاس سے ڈاک خرچ دیا اور اپنا حساب اتنا پاک صاف رکھا کہ مجھے اس پاکیزگی کا علم ہو کر بے حد خوشی ہوئی۔
=…حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ ریلوے میں ملازم تھے اور کسی جگہ سٹیشن ماسٹر تعینات تھے۔ آپؓ کا طریق تھا کہ جو قلی آپؓ کے گھر سے آپؓ کا کھانا لاتا تھا، آپؓ اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے۔
ایک مرتبہ آپؓ کی اہلیہ محترمہ ایک مرغی بغیر بک کرائے بذریعہ ٹرین لے آئیں۔ آپؓ کھانے کے وقت گھر آئے تو مرغی کا سالن پکا تھا۔ جب آپؓ کو علم ہوا کہ اہلیہ صاحبہ بلا ادائیگی کرایہ ریل مرغی لائی ہیں تو فوراً آپ نے اس کے کرایہ کی رسید کاٹ کر رقم ادا کردی۔
=…ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاول) مہاراجہ جموں و کشمیر کے ہمراہ کشتی میں جھیل ڈل کی سیر کررہے تھے۔ مہاراجہ کی پوجا پاٹ کرانے والا پنڈت بھی ساتھ تھا۔ اس دوران عصر کی نماز کا وقت ہوگیا تو آپؓ نماز پڑھنے لگے۔ پنڈت نے جب آپؓ کو نماز پڑھتے دیکھا تو مہاراجہ سے کہنے لگا: مہاراج! آپ نے دیکھا کہ مولوی صاحب نے آپ سے اجازت لئے بغیر نماز پڑھنی شروع کر دی ہے! ۔
پنڈت نے اپنی بات کو دوہرایا بھی لیکن مہاراجہ نے اُس کو کوئی جواب نہ دیا۔ جب آپؓ نے نماز ادا کرلی تو پھر مہاراجہ نے پنڈت کی بات کے حوالہ سے آپؓ سے پوچھا کہ پنڈت کہتا ہے کہ آپؓ کو میرا (یعنی مہاراجہ کا) ڈر نہیں ہے۔ مہاراجہ نے یہ بات تین دفعہ آپؓ سے پوچھی اور آپؓ نے ہر بار نفی میں جواب دیا (یعنی آپؓ کو واقعی مہاراجہ کا ڈر نہیں ہے)۔ اس پر مہاراجہ کو شدید غصہ آرہا تھا لیکن اُس نے فقط یہی کہا کہ آپ عالم ہیں اور ہم عالموں سے ڈرتے ہیں، جب آپ عالم لوگ باہر ہماری نسبت بات کریں گے تو لوگ آپ کی باتوں کا یقین کریں گے اور اس طرح ہماری عزت پر حرف آئے گا۔ پھر مہاراجہ نے پنڈت کو گالی نکالی اور کہا: مولوی صاحب ہم سے ڈرنے والے نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پہلے اجازت مانگتے پھر نماز پڑھتے۔ مگر آپؓ نے تو خدا کی نماز پڑھنی تھی اس لئے آپ کو خدا کا ڈر تھا ہمارا نہ تھا۔

=…حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ ڈلہوزی میں ایک دفتر میں ملازم تھے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ میرے دفتر کا ہیڈ کلرک نہال سنگھ میرے نماز پڑھنے پر برا مناتا تھا۔ ایک دن اس نے افسر بالا سے شکایت کردی کہ دفتری اوقات میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ افسر نے مجھے بلایا اور کہا تم نماز کے لئے دفتر کے اوقات میں چلے جاتے ہو؟ مَیں نے کہا درست ہے۔ اُس نے کہا جب تک میں اجازت نہ دوں تم نہیں جاسکتے۔
اُس وقت نماز ظہر کا وقت تھا ۔ مَیں نے کہا: صاحب! مَیں نماز ضرور پڑھوں گا۔ اگر یہ بات ناگوار ہے تو مَیں کہے دیتا ہوں کہ اب مَیں نماز کے لئے جاتا ہوں اور آپ مجھے اس سے روک نہیں سکتے۔ یہ کہہ کر مَیں اُس کے سامنے دفتر سے نکل گیا اور سارے دفتر نے یہ نظارہ دیکھا۔
=…حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائی مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین ملحد و بے دین تھے۔ مرزا امام الدین کی مجلس میں چرسی اور بھنگی جمع ہوتے تھے۔ یہ لوگ اباحتی فقیروں کی طرح دین کا تمسخر کرتے تھے۔ مرزا امام الدین حضرت اقدس کی مخالفت میں اس قدر سرگرم اور بڑھا ہوا تھا کہ نومبر 1885ء میں یہ خود جا کر لیکھرام کو قادیان لایا۔ آریہ سماج کی تجدید کے تحت مرزا امام الدین اور اس کے زیر اثر بعض لوگ آریہ سماج کے رکن بنے۔

مرزا امام الدین کی وفات پر میاں محمد بخش نے نماز جنازہ پڑھی۔ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میاں محمد بخش قادیان میں قصائیوں کے جانور ذبح کیا کرتا تھا۔ جب اُس نے مرزا امام الدین کا جنازہ پڑھایا تو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ بجائے اُس کے آئندہ میاں کرم داد احمدی جانور ذبح کیا کریں اور ایک قصاب کو احمدیہ چوک میں بٹھایا گیا۔ جس سے میاں کرم داد کا ذبیحہ گوشت خریدا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرزا امام دین شریعت اسلامیہ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت تمسخرانہ رویہ رکھتے تھے اور دہریہ خیالات کے تھے۔ ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے والا شریعت کے احکام کا استخفاف کرنے والا سمجھا گیا۔
=…حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ فرماتے ہیں: میری ہمشیرہ (محترمہ امۃالرحمن صاحبہ) بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ (حضرت اقدسؑ) کے لئے یخنی پکائی گئی تو غفلت سے اس میں مکھیاں پڑ گئیں۔ حضرت اقدسؑ کے گھر میں خدمت کرنے والی ایک خاتون جو دادی کے نام سے مشہور تھیں، اُنہوں نے شور ڈال دیا کہ مکھیاں پڑ گئی ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا اب ہم نہیں پئیں گے۔ اس نے کہا اَور کسی کو پلا دیں گے۔ فرمایا: جس کو ہم نہیں پیتے کسی کو بھی نہیں پینے دیں گے۔ چنانچہ حضورؑ کے حکم سے وہ یخنی گرا دی گئی۔
=…تقویٰ، محبت و عقیدت کے اظہار کا آئینہ بھی ہے جو نیکی کی بنیاد پر استوار ہو اور اطاعت حکم باری تعالیٰ کا مظہر ہو۔ حضرت محترمہ صالحہ بی بی صاحبہؓ بیان کرتی ہیں: ایک دفعہ سخت گرمی کے موسم میں ایک عورت جو مٹی کے کھلونے بیچنے والی تھی حضرت اقدس کے گھر میں آئی اور صحن کے کنویں کے پاس سر سے ٹوکرا اتار کر بیٹھ گئی۔ گھر میں خادمہ سلطانو اہلیہ کرم داد کو مخاطب کرکے کہنے لگی کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ اس پر خادمہ نے اس کو دو روٹیاں دال ڈال کر دے دیں۔ اُس نے ایک لقمہ توڑا لیکن جب منہ کے قریب لے جانے لگی تو کہا کہ بی بی ایہہ عیسائیاں دا گھر تے نہیں؟ خادمہ نے پوچھا: تو کون ایں؟۔ اس نے جواب دیا: ’’میں بندہ خدا دا تے امت حضرت محمدؐ رسول اللہ دی‘‘۔ جب اُس کی یہ آواز حضرت اقدسؑ نے سنی تو اسی وقت اُس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس کو تسلی دو … اور اسے ایک روپیہ بھی دیا اور فرمایا کہ اس نے میرے پیارے کا نام لیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی اس نے تقویٰ سے کام لیا کہ لقمہ توڑ کر منہ میں نہیں ڈال لیا۔ پھر اس عورت نے روٹی کھائی اور خوش خوش چلی گئی۔
=… حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ؎

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں