صدسالہ خلافت جوبلی کے موقع پر 27؍مئی 2008ء کو ایکسل سینٹر لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ولولہ انگیز تاریخی خطاب

یہ دن جو آج ہم خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر خاص اہتمام سے منا رہے ہیں یا ہر سال عمومی طورپر مناتے ہیں یہ ہمیں اس بات کی یاد دلانے والا ہونا چاہئے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ،عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکاما ت اور تمام اوامر ونواہی پر پوری طرح کاربند رہنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے جس انعام سے ہمیں بہرہ ور فرمایاہے اور بغیر کسی روک کے اسے جاری رکھا ہواہے اور آئندہ بھی جاری رکھنے کا وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس نعمت کا اظہار کریں تا کہ اس نعمت کی برکات میں کبھی کمی نہ آئے بلکہ ہر نیا دن ایک نئی شان دکھانے والاہو۔
آج کا دن ایک نیا عہدباندھنے کا دن ہے۔ آج کا دن ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرنے کادن ہے۔
(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے قیام اور ہر خلیفہ کے بعد خوف کی حالت امن میں بدلتے چلے جانے کا ایما ن افروزبیان)
اللہ تعالیٰ اس نظام کے تحت جہاں مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدلتاہے وہاں اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے دل سے ہر قسم کے دنیاوی خوف نکا ل کر خوف کی حالتوں کامقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرماتاہے۔
اے دشمنان احمدیت !مَیں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیّت ہو تو آؤاور مسیح محمدؐی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤ۔ورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے۔ تمہاری نسلیں بھی اگر تمہاری ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔خدا کا خوف کرو اور اور خدا سے ٹکر نہ لواور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقاکے سامان کرنے کی کوشش کرو۔
یہ دور جس میں خلافت خامسہ کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں ہم داخل ہو رہے ہیں ،انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے۔مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔
مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دو ر کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔انشاء اللہ
صدسالہ خلافت جوبلی کے تاریخی موقع پر دنیا بھر کے احمدی احباب مردو وزن سے خلافت کے استحکام اور اس سے وفا کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کے لئے ایک عظیم الشان عہد۔
(صدسالہ خلافت جوبلی کے موقع پر 27؍مئی 2008ء کو Excelسینٹر لندن میں منعقد ہونے والے
تاریخی جلسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ولولہ انگیز خطاب)

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے شکر کے جذبات کے اظہار کے لئے یہاں بھی جمع ہوئے ہیں اور ایم ٹی اے کی وساطت سے دنیا کے تمام ممالک میں احمدی اس تقریب میں شامل ہیں۔ اس اہم موقع پر سب سے پہلے تو مَیں آپ کو بھی اور دنیا کے تمام احمدیوں کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ آج ہم آنحضرت اکی پیشگوئی کے مطابق آپؑ کے غلامِ صادق اور مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی بدولت ایک وحدت کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔آج اللہ تعالیٰ کے انعاما ت کی بارشوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اپنے وعدوں کے مطابق کئے ہیں اور کر رہاہے اُس بستی کے بھی نظارے کر رہے ہیں۔( آپ لوگوں کے سامنے سکرین نہیں لیکن مَیں دیکھ رہاہوں ،کچھ کو نظر بھی آرہاہوگا)۔ وہ بستی بھی اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ وہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جسے کوئی نہیں جانتاتھا۔آج نہ صرف مسیح محمدی کی بستی کو تمام دنیا جانتی ہے بلکہ اس بستی کے گلی کوچوں اور اس سفید منارے کو جو مسیح محمدی کی آمد کے اعلان اور سمبل(Symble)کے طورپر تعمیر کیا گیاتھا ایک دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور آج ہم اس تقریب میں اللہ تعالیٰ کے اپنے پیارے مسیح سے کئے گئے وعدے کے مطابق اس اولوالعزم اور موعود بیٹے کے ہاتھ سے انجام پانے والے کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ ، بے آب و گیا ہ میدان کو ایک سرسبز پھولو ں پھلوں اور درختوں سے بھری ہوئی ایک بستی میں بدلنے کا نظارہ بھی کر رہے ہیں اور ربوہ کی یہ تصویریں بھی آج ہمارے سامنے ہیں۔
پس آج مشرق سے مغرب کی طرف آنے والے یہ نظارے اور پھر مغرب سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی قدرت کا نظارہ کرتے ہوئے خلیفۂ وقت کی آواز اور تصویر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا ذکر مشرق میں بھی ،مغرب میں بھی، شمال میں بھی اور جنوب میں بھی،یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی، ایشیا میں بھی اور افریقہ میں بھی سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ یہ یقینا ہر احمدی کو توجہ دلانے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کر رہا ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا دیا ہے اور پہنچا رہاہے۔خلافت احمدیہ کے قیام اور اس کے ذریعہ سے الٰہی تائیدات کے ساتھ ترقی کے نظارے ہم اپنے ماضی کی تاریخ میں بھی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کی سو سالہ تاریخ ہمارے ایمانوں کو پختہ کر رہی ہے اور ہمار ے ایمانوں کو گرما رہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم خداتعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس کے حضور اپنے شکر کا اظہار کریں اور آج کی یہ تقریب بھی اسی شکرگزاری کے اظہار کے طورپر ہے۔ یہ دن جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھایا ہے اسلام کی تاریخ کا آنحضرت اکے غلامِ صادق کی جماعت کے لئے ایک نیا اور سنہری باب رقم کر رہاہے۔ پس اس نیت سے اور اس نعمت کے اظہار اور شکرانے کے طورپر اگر ہم یہ تقریب اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس حوالے سے تقریبا ت منعقد کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف جائز بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ:12) یعنی تو اپنے رب کی نعمتوں کا ضرور اظہار کرتا رہ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’عجز ونیاز اور انکسار… ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیت کریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ:12) نعماء الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے ‘‘۔
( مکتوبات احمدیہ جلد 5 حصہ دوم بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ زیر سورۃ الضحیٰ آیت 12)
پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں :
’’یہ عاجز بحکم وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ:12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم و رحیم نے محض فضل وکرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کوحصہ وافر دیاہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا۔بلکہ یہ تمام نشان دئے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اورہوں گے اورخدائے تعالیٰ جب تک کھلے طورپر حجت قائم نہ کرلے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا‘‘۔(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ339-338۔مطبوعہ لندن)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ:12) پر عمل کرے۔ خداتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہئے۔اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔ تحدیث کے یہی معنی نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتارہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے‘‘۔
(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ زیر سورۃ الضحیٰ آیت 13)
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے جس انعام سے ہمیں بہرہ ور فرمایاہے اور بغیر کسی روک کے اسے جاری رکھا ہواہے اور آئندہ بھی جاری رکھنے کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس نعمت کا اظہار کریں تا کہ اس نعمت کی برکات میں کبھی کمی نہ آئے بلکہ ہر نیا دن ایک نئی شان دکھانے والاہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاعاجزی اور انکسار شرط ہے۔ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس اہم شرط کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ جتنا ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے جائیں گے، جتنا ہم عاجزی کا اظہار نہ صرف ظاہری طورپر بلکہ دل کی گہرائیوں سے تقویٰ پر چلتے ہوئے کریں گے اللہ تعالیٰ کے انعام سے حصہ لیتے چلے جائیں گے۔
یہ دن جو آج ہم خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر خاص اہتمام سے منا رہے ہیں یا ہر سال عمومی طورپر مناتے ہیں یہ ہمیں اس بات کی یاد دلانے والا ہونا چاہئے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ،عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکاما ت اور تمام اوامر ونواہی پر پوری طرح کاربند رہنے کی کوشش کریں گے۔ آج صرف نظمیں پڑھنے یا غبارے اڑانے یا متفرق پروگرام بنانے یا اِس خوشی میں اچھے کھانے کھانے اور مٹھائی کھانا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہ پروگرام جواس و قت ہو رہاہے یا مختلف جماعتوں میں ہوگا صرف خوشی منانے کے لئے نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ،یہ بھی ایک مقصد ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہارہے۔ لیکن اِس اظہار سے ہماری توجہ تقویٰ کی راہوں کی طرف پھر جانی چاہئے۔ اگریہ ظاہری شور شرابا، تصنع اور بناوٹ اور پروگراموں میں دنیا داری کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہے تو یہ عمل اسی طرح قابل کراہت ہے جس طرح جلسہ سالانہ سے پاک تبدیلیاں پیدا کئے بغیر چلے جانایاکو ئی بھی غیر صالح عمل، جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے بغیر ہو۔
پس آج کا دن ایک نیا عہد باندھنے کا دن ہے۔ آج کا دن ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرنے کا دن ہے۔ آج کا دن ہمیں اُس دن کی یاد دلانے کا دن ہے جب افراد جماعت پر آج سے سو سال پہلے ایک زلزلہ آیا تھا۔ آج کے دن سے ایک دن پہلے ایک واقعہ ہواجس نے جماعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ 26؍ مئی 1908ء کا دن جب خدا کا پیارا مسیح موعود اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا۔اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ آپ ؑ کو ایک عرصہ سے دے رہا تھاجس کا ذکر آپ نے جماعت کے سامنے کرنا شروع کر دیا تھا اور رسالہ الوصیت میں بڑا کھل کر جماعت کو اس طر ف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے ایمان اورتقویٰ میں بڑھنے کی خاص طورپر تلقین فرمائی اور جماعت کو تسلی دی کہ یہ نہ سمجھنا کہ میرے جانے سے خدا کا تائید ی ہاتھ تم سے اٹھ جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے میرے بعد بھی پورے ہوتے رہیں گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ہر ایک انسان جو اس دنیامیں آیا اس نے جاناہے۔ تمام انبیاء بھی اسی قانون کے تحت رخصت ہوئے اور اپنے مولا کی ابدی جنتوں کے وارث ہوئے جس کے لئے وہ بے چین رہتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ہرلمحہ بھی ہمیں اس زندگی کی آرزو کرتا نظر آتا ہے جو ابدی زندگی ہے۔ آپ کی وفات پر افراد جماعت کو یقین نہیں آتا تھاکہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ بہرحال جب پتہ چلا کہ یہ حقیقت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو خود ایک عرصہ سے اس خبر کے لئے جماعت کو تیار کر رہے تھے۔ الہامات بھی اس بارہ میں ہو رہے تھے۔ 20؍ مئی 1908ء کو آپ کو الہام ہوا تھا کہ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَالْمَوْتُ قَرِیْب۔ (تذکرہ۔صفحہ640۔ایڈیشن چہارم 2004ء) یعنی کوچ کا وقت آگیاہے ،ہاں کوچ کا وقت آگیاہے اورموت قریب ہے۔اس بات پر جب احباب جماعت کو یقین ہو گیاکہ یہ بات سچ ہے۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ مغرب کی نماز میں مسجد مبارک قادیان کی چھت پر آہ وبکا اور گریہ وزاری سے ایک محشر برپا تھا۔لیکن دوسری طرف مخالفین کی شرمناک حرکات بھی اپنے عروج پر تھیں۔ لاہورمیں احمدیہ بلڈنگ کے نزدیک ،جہاں آپ ؑکا جسد مبارک رکھا ہواتھا شہر کے آوارہ مزاج لوگوں کو مخالفین نے جمع کرکے خوشی کے نعرے لگائے اور گیت گائے۔بیہودگی اور بے حیائی کی انتہا تھی جو اُس وقت ان لوگوں نے کی۔ اوباشوں سے تو یہ توقع کی جاسکتی تھی لیکن بعض کم ظرف اور ذلیل اخبار نویسوں نے بھی آپ کی وفات پر خوشی کا اظہار کر کے اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا اور اس بات کا اظہار کیاکہ اب مرزا صاحب کی وفات کے بعد یہ سلسلہ نعوذباللہ تباہ و برباد ہوگا۔لیکن ان بیہودہ لوگوں کو یہ پتہ نہیں تھا، یہ ان کی بھول تھی، یہ دنیا کے ان کیڑوں کی گھٹیا خواہش تھی۔ یہ ان لوگوں کی بھول تھی جوخداتعالیٰ کی اپنے فرستادوں کے لئے غیرت رکھنے کے علم سے بے بہرہ تھے۔ ان لوگوں کی عقل پر پردے پڑے ہوئے تھے اور آنکھیں اندھی تھیں ، جو نہیں جانتے تھے کہ یہ شخص جوآج اس دنیاسے رخصت ہوا اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی چودہ سو سال پہلے کی پیشگوئیوں کا مصداق ہے۔ اس شخص نے مومنین کی وہ جماعت قائم کی ہے جس کے بارہ میں خداتعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ مَیں ایسے لوگوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتاہوں اور اپنی تائید ونصرت سے انہیں نوازتاہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت اکے ذریعہ حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری دی تھی کہ مسیح ومہدی کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دشمن کی خوشی عارضی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کی چادر میں اس مسیح ومہدی کے غلاموں کو لپیٹ لے گا۔ ایک حدیث میں اپنے زمانہ سے لے کر آخرین کے زمانے تک کا نقشہ کھینچتے ہوئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اور یہ روایت ہے حضرت حذیفہ ؓسے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی۔پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی۔جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کارحم جوش میں آئے گا اور اِس ظلم وستم کے دور کوختم کر دے گا۔اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی۔یہ فرما کر آپ ؐ خاموش ہوگئے۔ (مشکوٰۃ باب الانذار والتحذیر)
پس یہ تسلی کے الفا ظ تھے جو آپ ؐ نے مومنین کو دئے۔اُن مومنین کو جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رحم مسیح ومہدی کے ماننے والوں کے لئے جوش میں آئے گا اور دشمن چاہے جتنی بھی تعلّیاں کرتا رہے ،جتنے چاہے خوشی کے باجے بجاتا رہے،ڈھول پیٹتا رہے ، یہ دائمی خلافت علی منہاج نبوت اس مسیح کے ماننے والوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے جو ہر خوف میں انہیں امن کی نوید دیتی چلی جائے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ ایسی تقدیر ہے جو اٹل ہے۔ یہ حقیقی مومنوں کا مقدر ہے۔ یہ چند اوباش یا چند کم ظرف جو اپنے زعم میں بڑاعلم رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس تقدیر کو نہیں بدل سکتے۔
اس بات کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا کھول کر رسالہ الوصیت میں فرمایا اور جماعت کو تسلی دی۔ آپ کو علم تھا کہ جس طرح ہمیشہ سے انبیاء کے مخالفین کا یہ کام رہاہے ،یہ شیوہ رہا ہے کہ ان کی وفا ت کے بعد ان کو خیال ہوتا ہے کہ اب یہ ختم ہوئے کہ ختم ہوئے۔ اور مخالفین اور منافقین اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ نظارہ دیکھیں کہ یہ جماعت اب کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہے۔لیکن وہ خدا جو اپنے انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے و ہ اپنی تقدیر دکھاتا ہے اور وہ خدا جس نے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں بھیجا تھا تو اس نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ آپ کی شریعت ہمیشہ اور دائمی رہنے والی شریعت ہے۔آپ ؐ کی وفات کے بعد اُمّت پر کچھ ابتلا تو آئیں گے لیکن جیسا کہ حدیث سے بھی واضح ہے آخر مسیح محمدی کی آمد کے بعد اس اسلام کے غلبہ کا ایک نیا دور شروع ہوگا جوتاقیامت چلے گا۔ گو مخالفتیں ہوں گی لیکن راستے کی دھول کی طرح فضا میں بکھر جائیں گی۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اس علم کی بنا پر جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا یہ تسلّی دی تھی کہ مخالفین جب ہنسی ٹھٹھا کریں تو پریشان نہ ہونا۔ چنانچہ آپؑ جماعت کو تسلی دیتے ہوئے رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ :
’’یہ خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سُنّت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی(المجادلہ:22)
اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچّائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخمریزی اُنہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اورٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (1)اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامناپیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائیگی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اورکئی بدقسمت مُرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گِرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ اور بہت سے بادیہ نشین نادان مُرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْ تَضٰی لَھُم
وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا (سورۃ النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پَیر جما دیں گے‘‘۔
(رسالہ الوصیت۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ305-304۔مطبوعہ لندن)
آپ ؑاپنی جماعت کو فرماتے ہیں :
’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جومَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہینِ احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اِس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچّا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘۔(رسالہ الوصیت۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306-305۔مطبوعہ لندن)
یہ آیت جس کا کچھ حصہ مَیں نے حضرت مسیح موعود؈ کے اقتباس سے پڑھاہے یہ پوری آیت اس طرح ہے جس کو ہم آیت استخلاف کہتے ہیں کہ وَعَدَﷲ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْ تَضٰی لَھُم وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِک فَاُو لٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورۃ النور:56)
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیاہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عباد ت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔پس جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
یہ آیت مومنین کے لئے ایک عظیم خوش خبری ہے اور دلوں کی بصیرت کے لئے ایک ایسی مرہم ہے جس پر جتنا بھی خداتعالیٰ کا شکرادا کیا جائے کم ہے۔لیکن یہ فکر میں ڈالنے والی بات بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ یہ میرا وعدہ ہے مومنین سے، ایسے لوگوں کے ساتھ جو ایمان میں پختہ ہیں ، جو نمازیں ادا کرنے والے ہیں جو زکوٰ ۃ دینے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کرنے والے ہیں۔
ایمان کی اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہ پر جو وضاحت فرمائی ہے اس میں سب سے پہلے غیب پر ایمان ہے۔ اگر یہ ایمان کامل ہوگا تو پھر انسا ن خالص خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے والا ہوگا۔پھر ایسے شخص کی تمام محبتیں خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں گی۔ایسے مومنین کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہیں گے اور وہ تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوں گے۔وہ اللہ اور اُس کے رسول کے حکم کو کامل فرمانبرداری سے ماننے والے ہوں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایمان کے ساتھ اعما ل صالحہ بجا لانے والے ہوں گے۔صرف نمازیں پڑھنا ہی کافی نہیں ، صرف روزے رکھنا ہی کافی نہیں ،صرف زکوٰۃ دینا ہی کافی نہیں ،صرف حج کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جن اعمال صالحہ کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے ان کو بجا لانے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔اصل میں تو ایمان اور اعمال صالحہ لازم وملزوم ہیں۔ ایمان کے بغیر اعمال کسی قابل نہیں اور اعما ل صالحہ کے بغیر ایمان کامل نہیں۔پس اللہ تعالیٰ خلافت کے ساتھ وابستہ کر کے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتاہے جو حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایمان اور عمل صالح کے تعلق میں فرماتے ہیں کہ:
’’ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے۔عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیاہیں۔ریاکاری( کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتاہے)۔ عُجب (کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتاہے) اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم ،عُجب ، ریاء، تکبر ، حقوق انسان کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔ جیسے آخرت میں عمل صالح سے بچتاہے ویسے ہی اس دنیا میں بھی بچتاہے۔ اگر ایک آدمی بھی گھر میں عمل صالح والا ہو‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ اگر ایک آدمی بھی گھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتاہے۔ سمجھ لو کہ جب تک کہ تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا‘‘۔
(البدر۔ جلد 9مورخہ26؍دسمبر1902ء صفحہ66)
فرماتے ہیں کہ’’ عمل صالح ہماری اپنی تجویز اور قرارداد سے نہیں ہو سکتا‘‘۔ہر ایک کی اپنی مرضی کے مطابق عمل صالح نہیں ہے۔عمل صالح کی تشریح ہر شخص نے خود نہیں کرنی۔ فرمایا کہ’’ عمل صالح اپنی تجویزاور قرار داد سے نہیں ہو سکتا۔ اصل میں اعمال صالحہ وہ ہیں جس میں کسی بھی نوع کا کوئی فساد نہ ہو۔کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے جیسے غذا طیب اس وقت ہوتی ہے کہ وہ نہ کچی ہو نہ سڑی ہوئی ہو۔اور نہ کسی ادنیٰ درجہ کی جنس کی ہو۔بلکہ ایسی ہو جوفوراً جزو بدن ہو جانے والی ہو۔اسی طرح پر ضرور ی ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو۔یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اور پھر آنحضرت اکی سنت کے موافق ہو۔ اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو ،نہ عُجب ہو ،نہ ریا ء ہو ،نہ و ہ اپنی تجویز سے ہو۔جب ایسا عمل ہو تو وہ عمل صالح کہلاتاہے اور یہ کبریت احمر ہے‘‘ یعنی ایک بہت نایا ب چیزہے اورایک بہت قیمتی چیزہے۔ یہی عمل ہے جو مومن کو اپنانا چاہئے۔ (الحکم۔جلد 8نمبر15-14 مورخہ 30؍ اپریل و 10؍ مئی1904ء صفحہ1)
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایسی حالت پیدا کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت سے فیض پاتے رہیں گے۔ ایسے لوگ ہوں گے جو خلافت کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور خلافت ان کی حفاظت کرنے والی ہوگی۔ اور یہ فیض اور حفاظت کے نظارے تبھی نظر آئیں گے جب اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھامیں گے۔ یعنی یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے نہیں جو اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں۔
آج اُمّت مسلمہ میں کتنی کوششیں ہو رہی ہیں خلافت کے قیام کے لئے، لیکن و ہ بارآور نہیں ہو سکتیں اور کبھی نہیں ہو سکتیں۔اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی کا دین جاری کرنا چاہتے ہیں۔اللہ کی بھیجی ہوئی خلافت کی اطاعت کی بجائے بندوں کی بنائی ہوئی خلافت قائم کر نا چاہتے ہیں۔ باوجود اس احساس کے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انکار کر رہے ہیں۔ لیکن اس آیت استخلاف میں جو تسلی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دی ہے اورجس کی وضاحت حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے۔آج جماعت احمدیہ کی تاریخ خاص طور پر خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ جوہے ہر فرد کو آیت استخلاف کی حقیقی تصویر کا فہم و ادراک دے چکی ہے۔ اور ہر احمدی کو عملی طورپربھی اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش کا مصداق بنا دیاہے۔
پس آج یہ بات ہر احمدی پر واضح ہے اورواضح رہنی چاہئے کہ اس کے مصداق وہی لوگ بنتے ہیں جو ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرنے والے اور اعما ل صالحہ بجا لانے والے ہوں۔ آج تو غیر بھی ہمارے نظارے دیکھ کر اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں اور اس کااظہار کرنے پر مجبور ہیں کہ خوف کی حالت کو امن میں بدلتے اگر کسی نے اس زمانہ میں دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ کو دیکھ لے۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر اس انعام کے مستحق ٹھہرے ہیں۔
پس یہ آیت جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اوراس کے کچھ حصے کا ذکر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں سنا ، ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے جیساکہ مَیں نے کہا کہ اپنے ایمان اور اعمال کی طرف نظررکھیں۔یہ لوگ جیسا کہ مَیں بتا رہاتھاکہ غیر کوشش کرتے ہیں کہ ہم میں بھی خلافت قائم ہو۔اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن ان میں یہ قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اپنی مرضی سے اس کی تعریف کرنا چاہتے ہیں۔ بجائے اللہ تعالیٰ کی خلافت لینے کے اپنی خلافت ٹھونسنا چاہتے ہیں۔پس یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ ان کے خوف کی حالت امن میں بدلے۔ یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ ان میں خلافت کا نظام قائم ہو۔یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نظام کے تحت جہاں مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدلتاہے وہاں اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے دل سے ہر قسم کے دنیاوی خوف نکا ل کر خوف کی حالتوں کامقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرماتاہے۔ہر مشکل حالت میں اپنے فضل سے تسلی دیتاہے تاکہ خلیفہ ٔوقت جماعت کوتسلی دے۔ پس کیا دنیاوی تدبیریں الٰہی تدبیروں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں پھر اس بات کی تلقین فرماتاہے،یہ تسلّی دلاتاہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے خوفوں کو امن میں بدلے گا ،خلیفہ ٔوقت کی رہنمائی تو کرے گا۔اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی اور وہ توکُل دنیا کے خوفوں اور چاہتوں کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں شریک بناکر کھڑا نہیں کرے گا۔ وہ تو ناشکری نہیں کرے گا۔اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس بات کا ثبوت ہوں گی۔اور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے خلیفہ ٔوقت سے ایسی حالت ہو بھی گئی تو خدا تعالیٰ خود خلیفہ ٔوقت کا قبلہ درست کردے گا۔ خداتعالیٰ اپنے انعام کی وجہ سے ،اپنے انتخاب کی وجہ سے ایسی حالت میں بھی بہتر نتائج پیدا فرمائے گا لیکن افراد جماعت کو بھی اس طرف توجہ کرنی ہوگی کہ عبادت کی طرف توجہ دیں ،شرک کی چھوٹی سے چھوٹی حالت سے بھی بچنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنے رہیں۔(نعرے) مَیں یہ کہہ رہاتھاکہ افراد جماعت کو بھی اس انعام کی قدر کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب یہ ہوگاتو پھربے فکر ہو جائیں کہ خدا ان کے آگے بھی ہوگا ،پیچھے بھی ہوگا ،دائیں بھی ہوگا اور بائیں بھی ہوگا اورکوئی نہیں جوانہیں نقصان پہنچا سکے۔
پس یہ حالت ہم نے خداتعالیٰ کی قائم کردہ جماعت پر اس وقت بھی دیکھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی جس نے ہر ایک دل کو ہلاکر رکھ دیا ،ہر ایک احمدی کوہلا کر رکھ دیا۔ جیساکہ مَیں نے کہا ،دشمن نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ اب یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد اپنے انجام کو پہنچی کہ پہنچی۔مخالفین کی بیہودہ گوئیاں جو تھیں ،ہرزہ سرائیاں جو تھیں ان میں سے بعض یہاں پیش کرتاہوں تاکہ نئی نسل اور نئے آنے والوں کو بھی پتہ چلے کہ کس کس طرح مخالفین نے جماعت میں فتنہ کی افواہیں اڑائیں۔ مثلا ً ایک پراپیگنڈہ پیر جماعت علی شاہ کے مریدوں نے کیا کہ کثرت سے مرزائی لو گ تائب ہو کر بیعت کر رہے ہیں ‘‘۔(المجدّد )(لاہور) جون1908ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ204۔ نیا ایڈیشن)۔یعنی احمدیت چھوڑ کر اُن کے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔حالانکہ حقیقی اسلام اب احمدیت میں ہے۔تو یہ ان کی باتیں تھیں۔ آج بھی بے چارے مولوی ، ہمارے مخالفین ، اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی خواہش ہے۔نہ پہلے پوری ہوئی اور نہ آج پوری ہوگی۔ آج تو یہ مخالفین بے چارے جماعت کی ترقی دیکھ کر اتنے حواس باختہ ہو چکے ہیں کہ ایک طرف تو یہ بات کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی یہ بیان دیتے ہیں ، اسلامی حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں قادیانیت کی پیش قدمی کو روکیں ورنہ یہ لو گ ساری امت مسلمہ کو ’’گمراہ‘‘ کر دیں گے۔ بہرحال یہ تو اُن کی باتیں ہیں۔ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد کس کس طریقہ سے انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اس کے بھی ایک دو واقعات سن لیں۔
مولوی ثناء اللہ نے لکھاکہ مرزا (حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی۔مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) انہوں نے اپنی زبان میں لکھا کہ’’ مرزا کی کل کتابیں کسی سمند ر میں نہیں ،کسی جلتے تنور میں جھونک دیں۔اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مؤرخ تاریخ ہند یا تاریخ اسلام میں ان کا نام تک نہ لے ‘‘۔
( اخبار وکیل امرتسر۔ 13؍جون1908ء بحوالہ الحکم 18؍جون1908ء صفحہ8کالم نمبر1)
خواجہ حسن نظامی صاحب جو بظاہر بڑے سنجیدہ طبع اپنے میں مست رہنے والے آدمی تھے ، و ہ احمدیوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت سے صاف انکار کردیں ’’ورنہ اندیشہ ہے کہ مرزا صاحب جیسے سمجھدار اور منتظم شخص کی عدم موجودگی کے سبب احمدی جماعت مخالفین کی شورش کو برداشت نہ کرسکے گی اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ554۔ بحوالہ پیسہ اخبار۔ لاہور۔ 5؍جون1908ء بعنوان’’ قادیانی مشن‘‘)
بڑے نرم الفاظ میں انہوں نے بڑی عزت سے نام لے کے ذکر کیاہے لیکن وہی بات کہ احمدی اس بیعت سے نکل جائیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کی ہے اور آپ کے دعویٰ سے انکار ی ہوجائیں۔ تو یہ حالات اس وقت پیداہوئے۔ وہ لو گ جن کی فطرت میں فساد ہے وہ تو ہرزہ سرائیاں کر ہی رہے تھے سنجیدہ طبع لوگ بھی اپنے دلوں کے غبار نکالنے لگے۔
لیکن چونکہ ان کی صرف دنیا کی آنکھ تھی اس لئے خدا ئی وعدو ں کی طرف ان کی نظر نہ گئی اور نہ جا سکتی تھی۔ان کو خدا کے اس مسیح کے اعلان کا فہم ہو ہی نہیں سکتاتھاکہ مَیں جب جاؤں گا تو خداتعالیٰ تمہیں دوسری قدرت دکھائے گا۔ اور ایک دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کس شان سے مسیح محمدی کے حق میں پورے ہوئے۔ ان کی تعلّیاں اور ان کی گھٹیا خواہشیں ان کے منہ پر مار ی گئیں۔ جس لٹریچر کو جلانے کی تلقین کی جا رہی تھی آج یہی لٹریچر دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر سعید روحوں کی رہنمائی کا باعث بن رہاہے۔جس شخص کے نام کو تاریخ سے نکالنے کی باتیں ہو رہی تھیں آج اس کی جَے کے نعرے یورپ ،امریکہ ،ایشیا اورافریقہ میں لگ رہے ہیں۔آج حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلا م کا نام ،تصویر اورلٹریچرہواؤں کے دوش پر دنیا کے ہر خطہ اورہر گھر میں پہنچ رہاہے۔ جو یہ کہہ رہے تھے کہ مخالفین کی شورش جماعت احمدیہ برداشت نہیں کرسکے گی ،آج وہ زندہ ہوں تو دیکھیں کہ شورش برداشت کرنے کا تو کیاسوال، احمدیت کا نام دنیا کے ہر شہر میں پہنچ چکاہے اور مخالفین، احمدیت کانام سن کر دنیا کے ہر ملک میں پہلو بچاتے ہوئے راہ فراراختیار کرتے ہیں۔ ہاں مغلظات جتنی ان سے سننی ہوں ، سن لیں۔ اگر ان میں جرأت ہے تو ہراسلامی ملک کا ٹی وی چینل اور ریڈیو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے احمدیوں کو ملکی ٹیلیویژن پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت اورسہولت دیں۔ ملکی حکومتیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور احمدیوں کو تحفظ فراہم کریں۔ دین کے معاملہ میں تو کوئی جبر نہیں۔ ماشاء اللہ ہر بالغ، صاحب عقل، اپنا اچھا بُرا جانتاہے تو پھر ان لوگوں کو خوف کس چیز کاہے۔زبردستی تو کوئی کسی کو احمدی نہیں بنا سکتا۔ یہ مخالف حضرات ،آج کل جوہماراایم ٹی اے چینل ہے اس کو بھی بند کرنے کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اور کئی جگہ کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ کوششیں ہوئی بھی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتاہے کہ ایک جگہ سے اگر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری جگہ سے ابھر کر اور نئی شان سے ابھر کر سامنے آجاتاہے۔ان کی یورش نے جماعت کاکیا بگاڑنا تھا آج کل تو ایم ٹی اے نے ہی ان کو خوفزدہ کیاہواہے۔ یہ ہیں خدائی وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے۔اگر خداتعالیٰ سے کسی نے جنگ کرنی ہے تو کرلے۔پہلے بھی اپنا انجام دیکھتے آئے ہیں۔ آج بھی دیکھ لیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃ والسلام کی وفات پر دشمنوں نے ہر طرح کوشش کی اور پوری قوت سے کوشش کی کہ احمدیت کے اس پودے کو ختم کردیں اور اس کے لئے ہر حربہ انہوں نے استعمال کیا لیکن و ہ خدا جس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماًفرمایاتھا کہ

غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ (تذکرہ صفحہ72 ایڈیشن چہارم2004ء)

کہ مَیں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگا دیاہے۔پس یہ دشمن کی بھول تھی کہ جو یہ سمجھتے تھے کہ احمدیت کا پودا اپنی ابتدائی حالت میں ہے اور حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰ ۃ و السلام کے بعد نعوذ باللہ یہ ختم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے یہ درخت لگا دیا ہے اپنی رحمت اور قدرت کا ایسا درخت لگا دیا ہے جس کا مقدر پھلنا پھولنااور بڑھنا ہے۔جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہیں اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جس دوسری قدرت کی خوشخبری دی تھی اور یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ دائمی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لگائے ہوئے درخت کے ثمر آور ہونے اور تناور ہونے کی پیشگوئی تھی۔ وہ درخت جس کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھاجس نے تمام دنیا کی سعید روحوں کو اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دینی تھی اور دے رہا ہے وہ ان بونوں کی ٹھوکروں سے بھلا کہا ں ہلنے والا تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرمایا تھا کہ ’’مَیں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں ‘‘۔(تذکرہ صفحہ 630جدید ایڈیشن۔مطبوعہ ربوہ)
یہ الہام ہر دن بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
( اس موقع پر لندن، قادیان اور ربوہ سے بلند ہونے والے نعروں پرحضور انور نے فرمایا۔نعروں سے جوش بے شک اپنانکالیں لیکن ابھی میں نے کافی کچھ کہنا ہے اس لئے ذرا تھوڑا سا صبر کر کے نعرے لگائیں خاص طور پر قادیان والے زیادہ جوش میں ہیں )
مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ الہام کہ میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں ہر دن بڑی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا پہلا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر ہوا جب مومنین کی تسکین کے سامان فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے ہاتھ پر تمام جماعت کو جمع کر دیا۔اس وقت غیروں کا خیال تھا کہ اس اسّی سالہ بوڑھے نے جماعت کو کیا سنبھالنا ہے۔
ایک اخبار کرزن گزٹ نے لکھاکہ’’ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے ان کا سر کٹ چکا ہے ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے اور تو کچھ ہو گا نہیں۔ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے‘‘۔(اخبار بدر۔نمبر10۔ جلد 8۔ 7؍جنوری1909ء صفحہ5کالم 2-1)لیکن اس شخص نے جس کے متعلق کہتے تھے کہ کچھ ہو گا نہیں وہ کام تو یقینا کیا جس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی یعنی قرآن کریم کے حقائق کو معارف بیان کرنا۔اور اصل میں تو یہی حقیقی کام ہے جس کے لئے حضرت ابراہیم؈ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا اور یہی کام تھا جس کے کرنے کے لئے آخرین میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اور یہی کام تھا اور ہے جس کے لئے جماعت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کا نظام جاری فرمایا ہے۔ لیکن دنیا کی آنکھ اس عظیم مقصد کو کیا سمجھ سکتی ہے۔بہرحال حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اس بات پر فرمایا کہ’’ خدا کرے کہ یہی ہو کہ میں تمہیں قرآن سنایا کروں ‘‘۔
(اخبار بدر نمبر 10جلد 8مورخہ 7؍جنوری 1909ء صفحہ 5کالم 1-2)
لیکن مخالفین اور بعض اپنے جن کے دلوں میں نفاق تھا سمجھتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بوڑھے اور کمزور ہیں جماعت کو کیا کنٹرول کریں گے۔دشمن سمجھتا تھا کہ انتظامی کمزوری کی وجہ سے آہستہ آہستہ جماعت ختم ہو جائے گی اور منافق طبع جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو جماعت کا ستون سمجھتے تھے ان کے خیال میں انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی نائب ہے۔ان کے سپرد سب کام ہونا چاہیے۔ان ہر دو قسم کے فتنوں اور حملوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی االلہ تعالیٰ عنہ نے ایسی سختی سے دبایا کہ جو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی خلافت کا ہی کام ہے۔آپ نے خلافت کے منصب پر فائز ہوتے ہی پہلی تقریر جو فرمائی اس کے آخر پر فرمایا’’ اب تمہاری طبیعتوں کے رُخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگیٗ اور اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہاً اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں۔وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں ‘‘۔ یعنی جو حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقر ر فرمائے تھے۔’’ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ،واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتاً فوقتاً اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں۔پھر تعلیم دینیات۔ دینی مدرسے کی تعلیم میری مرضی اور منشا کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ (آل عمران:104)۔یاد رکھوکہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی ہے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ190۔ نیا ایڈیشن۔الحکم 6؍جون1908ء صفحہ8)۔غیروں کی خواہش کہ جماعت کو ٹوٹتا ہوا دیکھیں تو پوری نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی لیکن اندرونی خطرے بعض منافقین یا ان کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کی وجہ سے اٹھتے رہے اور جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا علم ہوا آپ ان کا پُر حکمت اور سختی سے نوٹس لیتے رہے۔
ایک ایسے ہی موقع پر آپ نے مسجد مبارک میں بڑا جلالی خطاب فرمایا۔آپ نے فرمایا’’ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ مَیں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہواجو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے ……‘‘۔مسجد مبارک کا کچھ حصہ بعد میں بڑھتا چلا گیا تھا جو پہلا حصہ تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا تھا۔آپ اس حصے میں کھڑے ہوئے جو حضرت مسیح موعود؈کے زمانہ میں ہے۔اور بعد میں جو جماعت کے چندوں سے بنا وہ علیحدہ ایکسٹینشن (Extention)ہے۔آپ نے فرمایا کہ:
’’… تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ مَیں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ مَیں اپنے میرزا کی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں ‘‘۔نیز فرمایا ’’میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے اور یہ دونوں خادم ہیں۔ انجمن مشیر ہے۔ اس کا رکھنا خلیفہ کے لئے ضرور ی ہے‘‘۔اسی طرح فرمایا کہ:
’’ جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کاکام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ توبہ کرے۔خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کرمرتد ہو جائے گا تو مَیں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا ……‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کاکام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔یہ کام تو ایک مُلاّ بھی کر سکتا ہے اس لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے‘‘۔
(تاریخ احمدیت۔جلد3صفحہ262۔ نیا ایڈیشن۔ الفضل 11؍اپریل1914ء صفحہ11کالم 3)
پس یہ خطاب آپ کا ایسا جلالی تھا کہ کہنے والے کہتے ہیں ،بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ مختلف جماعتوں سے جوسینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے اور جن پر خلافت کے مخالف اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کررہے تھے انہوں نے انتہائی کرب اور درد سے رونا شروع کر دیا اور مسجد کے فرش پر اس طرح تڑپتے رہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی تڑپتی ہے۔پس یہ ہے جماعت احمدیہ میں خوف کی حالت کو امن میں بدلنے کا پہلاجلوہ جو جماعت کے افراد پر بھی ظاہر ہوا اور خلیفۂ وقت کی ذات میں بھی ایک شان سے نظر آیا۔بغیر کسی خوف اور خطرے کے حضرت خلیفہ اوّل نے یہ اعلان فرمایا کہ اگر کوئی مرتد ہوتا ہے تو ہو جائے خدا تعالیٰ مجھے اس کے بدلے جماعت عطاکرے گا۔ ایک شخص جب جائے گا تو ایک جماعت ملے گی۔پس جہاں مخلصین کی اصلاح آپ کے اس اعلان سے ہوئی اورمخلصین کے ایمان کے بڑھنے کا موجب ہوئی ،وہاں ان منافقین کا گروہ بھی کچھ وقت کے لئے دب گیا اور جماعت ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔
پھر آخر کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ کے مطابق 13مارچ 1914ء کو آپ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔اس وقت جماعت میں پھر ایک زلزلے کی سی کیفیت تھی۔وہ سرکردہ انجمن کے عمائدین جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی وجہ سے چُپ تھے انہوں نے پھر سر اٹھایا اور کوشش کی کہ خلافت کی بجائے انجمن کو تمام اختیارات دئے جائیں۔اورانجمن سارے معاملات کی کرتا دھرتا بن جائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کی وجہ سے مخلصین تو غم کی وجہ سے نڈھال تھے۔نئی قدرت کے لئے دعاؤں میں مشغول تھے لیکن یہ عمائدین جو اپنے آپ کو بڑا علم والا سمجھتے تھے اور پھر ساز باز میں لگے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی لیکن آپؓ نے یہی فرمایا کہ جماعت کا ایک خلیفہ بہر حال ہونا چاہے۔ انجمن پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اور فرمایا کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگ جس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے میں اور میرا خاندان سچے دل سے اس کی بیعت کریں گے۔آپ میرے سے خوف زدہ نہ ہوں۔ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا۔لیکن اپنے زعم میں اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے ان عالموں فاضلوں کا پرنالہ وہیں رہا کہ نہیں انجمن جو ہے وہی صحیح حق دار ہے۔آخر جب ان کی یہ ڈھٹائی نہیں گئی تو جماعت کا ایک بڑا حصہ مسجد نور میں جمع ہوا اور چودہ مارچ 1914کو خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوااور دو ہزار کے مجمع میں ہر طرف سے حضرت میاں صاحب، حضرت میاں صاحب یعنی حضرت میرزا محمود احمد صاحب کے نام کی آوازیں آنے لگیں اور لوگوں نے ایک دوسرے کے سروں پر سے پھلانگتے ہوئے بیتاب ہوکرحضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی کوشش کرنی شروع کر دی۔اس نظارے کے بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی طرف لا رہے ہیں۔ آخر یہ نظارہ دیکھ کر خلافت کے منکرین جو انجمن اور انجمن کے پیسے کے مالک تھے وہاں سے غائب ہو گئے اور یوں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدے کے مطابق خلافت احمدیہ کے ذریعہ جماعت کو تمکنت عطا فرمائی۔اور ان کے خوف کو امن میں بدلا۔اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃ و السلام کے اس اولوالعزم فرزند اور مصلح موعود کے 52سالہ دور خلافت میں جماعت نے ترقی کے وہ نظارے دیکھے جو اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کے بغیر ممکن نہ تھے۔خزانہ خالی کر کے جانے والے اور یہ دعویٰ کرنے والے کہ قادیان میں اب عیسائیوں کی حکومت ہوگی ،آج زندہ ہوں تودیکھیں کہ قادیان میں عیسائیوں کی تو کیا حکومت ہونی تھی، اولوالعزم موعود بیٹے نے ہزاروں عیسائیوں کو مسیح محمدی کے جھنڈے تلے جمع کر دیا ہے۔
احرار کا فتنہ اٹھا تو جب انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو حضرت مصلح موعود ؓ نے تحریک جدید کا آغاز کر کے تمام دنیا میں جماعت کے تبلیغی مشنوں کے جال پھیلانے کی بنیاد ڈال دی۔قرآن کی تفسیر اور دوسرا لٹریچر جو ہمیشہ کے لئے آپ کے علوم ظاہر ی و باطنی سے پُر ہونے کی پیشگوئی پر گواہ بن گیاوہ دنیا میں پھیل گیا۔
ہجرت کا وقت آیا تواس اولوالعزم نے جماعت کی ایسی راہنمائی فرمائی کہ کم از کم نقصان کے ساتھ افراد جماعت پاکستان میں آکر آباد ہوئے۔تمام تر مشکل حالات کے باوجود قادیان میں اپنے بیٹوں سمیت ایسے قربانی کرنے والے لوگوں کو چھوڑا جنہوں ہر قیمت پر شعائر اللہ کی حفاظت کی۔پاکستان میں مرکز احمدیت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ایک بے آب و گیاہ بستی کو اپنی عظیم راہنمائی اور فراست سے ایک سر سبز شہر بنا دیا جس کے نظارے آج بھی ہم کر رہے ہیں۔پس وہی نوجوا ن جو 25سال کا تھا اور جس کے مقابلے پر بڑے بڑے عالم فاضل اور سر کردہ تھے۔جب خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہوا،جب اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب اس پر پڑی ،جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کا مظہر بنا تو ایک کامیاب جرنیل کی طرح میدان پر میدان مارتا چلا گیا اور اپنے ماننے والوں اور مسیح محمد ی کے غلاموں کی حالت کو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے خوف کے بعد امن میں بدلتا چلا گیا۔
آخر الٰہی تقدیر کے مطابق جب آپ 1965ء نومبر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کا جلوہ دکھایا۔خلافت ثانیہ کا 52سالہ دور اتنا لمبا عرصہ تھا جس میں کئی نسلوں نے آپ سے فیض پایا۔ اس زمانے میں ایک ذاتی تعلق ہر احمدی کا آپ سے پیدا ہو چکا تھا۔آپ کی وفات کا صدمہ لگتا تھا کہ جماعت برداشت نہیں کر سکے گی۔لیکن جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ موجود ہوتو پھر فوراً ہی خداتعالیٰ خوف کو امن میں بدل دیتاہے۔چنانچہ یہی نظارہ ہم نے خلافت ثالثہ کے دور میں دیکھا۔ہر قدم پر جماعتی ترقی ،افریقہ میں سکولوں ،ہسپتالوں کا قیام ،تبلیغی میدان میں آگے بڑھنا۔پھر 1974ء کے حالات جو پاکستان کی جماعت کے لئے بڑے سخت تھے بلکہ خلیفۂ وقت کی پاکستان میں موجود گی کی وجہ سے تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے بڑے پریشان کن تھے۔لیکن خلافت کی ڈھال کے پیچھے جماعت ان خوفناک حالات سے کامیاب ہو کر نکلی اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گئی۔
پھر 1982کا سال آیا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ بھی ہم سے رخصت ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی جماعت کو سہارا دیا اور خلافت رابعہ کا انتخاب عمل میں آیا۔آپ کے وقت میں جماعتی ترقی کا ایک اور نیا دور شروع ہوا۔دشمن جماعت کی ترقی کو دیکھ کر حواس باختہ ہوا اور خلافت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔جماعت کا سر کچلنے کی اپنے زعم میں کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیاروں کا ساتھ دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو معجزانہ طور پر دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے یہاں پہنچا دیا۔اور دشمن جو خلافت کا سر کچلنا چاہتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح کچلا کہ اس کے جسم کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں بچا۔
اور پھر ایک نیا دوریہاں آکر اسلام کی تبلیغ کا شروع ہوا۔MTA کا اجراء ہوااور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ ایک نئی شان کے ساتھ زمین کے کناروں تک پہنچی۔ہمارے خدا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا وعدہ عظیم الشان طور پر پورا ہوا۔دشمن تو خلافت پر ہاتھ ڈال کر اسے عضو معطل بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا منصوبہ اسے ایسے ذریعہ سے لوگوں کے گھر تک پہنچانے کا تھا جس کی راہ میں کوئی جغرافیائی روک حائل نہیں ہو سکتی تھی۔اگر ان جماعتی ترقیات کا میں ذکر کرنے لگوں تو کئی گھنٹے لگنے کے بعد بھی یہ ذکر ختم نہیں ہو سکتا۔جلسوں کی تقاریر میں یہ ذکر آرہا ہے اور کچھ انشاء اللہ آئندہ بھی آتا رہے گا۔
بہرحال خلافت رابعہ کا سنہری دور جماعت کو نئے نئے راستوں کی نشاندہی کرتا ہوا اپریل 2003تک الٰہی منشا کے مطابق رہا اور جماعت آپ کی وفات پر ایک بار پھر خوف کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئی۔کیونکہ یہی ایک مومن کو حکم ہے اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ جب بھی تکلیف میں ہو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے۔بہرحال الٰہی وعدوں کے پورے ہونے کا دور تو دائمی ہے۔ اس کی تسلّی ہمیں اللہ تعالیٰ نے کروائی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی وفات کے بعد خوف کی حالت کو جو امن بخشا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے جو یہ فرمایا تھا کہ وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ’’ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے‘‘۔(رسالہ الوصیت۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 305-306)۔
پس خلافت رابعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر جماعت کے امن کے سامان پیدا فرما دیئے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا تھا کہ وہ قدرت ثانیہ دائمی ہے۔اس کا نظارہ تمام دنیا نے M.T.Aکے ذریعہ سے ایک بار پھر دیکھا۔اسلام کے ابتدائی دور میں اگر خلافت ر اشدہ کچھ عرصہ تک محدود ہوئی اور چار خلافتیں تھیں تو وہ بھی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی۔جیسا کہ مَیں نے حدیث بیان کی ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کے بعد اسلام کی تاریخ نے ہر میدان میں ایک نیا باب کھولنا تھا۔
سو قدرت ثانیہ کا پانچواں دور بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ایک نیا باب ہے۔دشمن پر ایک تازیانہ ہے۔دشمن کی خوشیوں کوخاک میں ملانے کا ایک ذریعہ ہے۔آج دشمن کی آنکھ پہلے سے بڑھ کر حسد کی نظر سے جماعت کی ترقیات کو دیکھ رہی ہے۔کیونکہ یہ خود اس بات کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ خلافت کے سایہ تلے ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔
( فلک شگاف نعروں کی گونج پر حضور نے فرمایا۔ربوہ میں زیادہ Delayہے قادیان کی نسبت۔اچھا پھرمجھے انتظار کرنا چاہئے )
چونکہ یہ لوگ، یہ مخالفین خود اس بات کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ خلافت کے سایہ تلے ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی وارث بنتی چلی جا رہی ہے کہ میں مومنین میں خلافت قائم کروں گا۔اللہ تعالیٰ جماعت کو تمکنت عطا کرتا چلا جا رہا ہے۔ہر روز اس کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ان مومنین کے ہر خوف کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ خلافت کی ڈھال کی وجہ سے اپنے تحفظ میں رکھے ہوئے ہے۔باوجود دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں اس حبل اللہ کو پکڑنے کی وجہ سے احمدی پہنچا رہا ہے اور بھولی بھٹکی انسانیت کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لا رہا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانیں۔
خود یہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ خلافت کے بغیر امت مسلمہ کا اتحاد ناممکن ہے۔نہ اسلام کی ترقی ممکن ہے۔ نہ یہ اتحاد ممکن ہے۔لیکن آنکھوں پر پٹّی پڑے ہونے کی وجہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے خاتم الخلفاء بنا کر بھیجا ہے اور اس کے بعد جو خلافت جاری فرمائی ہے اس کے انکاری ہیں۔خلافت کے بارے میں جو ان کی حسرتیں ہیں اس کی ایک دو مثالیں میں پیش کردیتا ہوں۔
ایک مولانا ہیں عبدالرحمن صاحب مہتمم جامعہ اشرفیہ کراچی۔وہ کہتے ہیں :’’ جہاں تک نظام خلافت اسلامیہ علیٰ منہاج النبوۃ کا تعلق ہے اس سے بہتر اور اچھا کوئی نظام نہیں۔کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے خرید لیا ہے مومنین کا جان مال بدلے جنّت کے۔لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں آپس کے تنازعات عروج پر ہیں۔جہاں تک خلافت کا تعلق ہے تو خلیفہ کس کو مانیں اور اگر مکّہ مکرمہ سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے تو سب سے پہلے تنازعہ بریلوی حضرات کریں گے۔اور میں نے خلافت کے بارہ میں ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا ہے اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نظام خلافت ممکن نہیں ‘‘۔(ماہنامہ ضرب حق کراچی۔ ماہ اپریل 2004ء صفحہ4کالم 6-5- بقیہ صفحہ3کالم 3)
پھر ایک دانشور ہیں ہمایوں گوہر اپنے مضمون ’’سفر کا آغاز ہوتا ہے‘‘دسمبر 2005ء میں لکھتے ہیں کہ:’’ آج ہم اپنے آپ کو فرسودہ خیالات، ناقص رسومات اور جہالت کی اتھا ہ گہرائیوں میں پاتے ہیں۔معاشرتی اور سماجی برائیاں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔عدم انصاف عروج پر ہے۔اور ماحولیاتی آلودگی گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔اس لئے ہمیں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی ضرورت ہے جو اُمّہ کی اصلاح کر سکے۔اس کے لئے بہت زیادہ ہمت و جذبے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ارادے کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی درکار ہے۔یہ مسلمانوں کے خلافت جیسے ادارے کی وجہ سے ممکن ہے‘‘۔
(نوائے وقت۔ 19؍دسمبر 2005ء)
پس یہ ہیں ان کی حسرتیں کہ محسوس بھی کرتے ہیں لیکن قائم نہیں کر سکتے۔خلافت خامسہ کے انتخاب اور بیعت کے نظارےMTAنے تمام دنیا کو دکھائے۔جن باتوں کا یہ حسرت سے ذکر کر رہے ہیں خلافت خامسہ کے انتخاب کے وقت دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جماعت نے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر وحدت کا مظاہرہ کیا۔ان میں سے بعض نے برملا تسلیم بھی کیا کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ لگتی ہے۔ لیکن اس بات نے ان کو اصلاح کی طرف مائل کرنے کی بجائے حسد میں اور بڑھا دیا۔آج پاکستان میں ملّاں جماعت کے خلاف اس لئے جلسے کر رہے ہیں کہ جماعت کی اکائی اور ترقی ان کو برداشت نہیں۔یہ حسرتیں اب ان لوگوں کا مقدر بن چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کی ہوائیں بڑی شدت سے جماعت کے حق میں چل رہی ہیں۔انشاء اللہ ان لوگوں کی تمام آرزوئیں اور کوششیں ہوا میں بکھر جائیں گی۔
اے دشمنان احمدیت !مَیں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیّت ہو تو آؤاور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤ۔ورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے ،تمہاری نسلیں بھی اگر تمہاری ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔خدا کا خوف کرو اور اور خدا سے ٹکر نہ لواور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقاکے سامان کرنے کی کوشش کرو۔
یہ باتیں جو غیروں کے بارے میں مَیں نے بیان کیں صر ف ہمارے لئے ان کی حسرتوں پر خوش ہونے کی وجہ نہیں بننی چاہئیں۔ یا صرف چند ہمدردوں کے دلوں میں ان کے لئے ہمدردی پیدا نہ ہو۔بلکہ حسد کی جس آگ میں دشمن جل رہا ہے تو یہ نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور جہاں کمزور احمدیوں کو دیکھتا ہے اُن پر حملے بھی کرتا ہے۔اس وجہ سے آج خلافت کے ساتھ چمٹے ہوئے احمدیوں کا فرض ہے کہ خلافت کی مضبوطی اور استحکام کی دعاؤں کے ساتھ افراد جماعت ایک دوسرے کے لئے بھی دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان حاسدوں اور شریروں کے شر اور حسد سے محفوظ رکھے۔
یہ دور جس میں خلافت خامسہ کے ساتھ خلافت کی نئی صدی میں ہم داخل ہو رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔مَیں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں۔مَیں تو ایک عاجز ،ناکارہ ،نااہل پُر معصیت انسان ہوں۔مجھے نہیں پتہ کہ خدا تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی۔ لیکن یہ مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دو ر کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہواترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔انشاء اللہ۔ اور کوئی نہیں جو اس دَور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے۔خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے سے آگے انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتا رہے گا۔
گزشتہ پانچ سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا ذکر بھی جلسے کی تقریروں میں ہوتا رہا ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہو گا۔پس خلافت احمدیہ کے ساتھ جو ترقی وابستہ کی گئی ہے اور جس کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے رسالہ الوصیت میں بھی فرمایا ہے۔یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور ہر وہ شخص جو خلافت سے جُڑا رہے گا ،جو اپنے ایمان اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے گا اُسے اللہ تعالیٰ ان انعامات کے نظارے کرائے گا جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے سے ہر فرد جماعت پر بھی ہوں گے۔اور اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو بھی ایسے افراد عطا فرماتا رہے گا جو اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں گے۔جو قیام و استحکام خلافت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہوں گے۔جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ خود خلافت کی محبت سے بھر دے گااور بھر رہا ہے اور بھرا ہوا ہے۔ اور میں تو ایسے نظارے روزانہ ہر قوم اور ہر ملک میں دیکھ رہا ہوں۔ابھی افریقہ کے دورے کے نظارے آپ نے دیکھ لئے کہ وہ لوگ کس طر ح محبت سے سر شار ہیں۔میری تو بہت عرصہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ تسلّی کروائی ہوئی ہے کہ اس دور میں وفاداروں کو خدا تعالیٰ خود اپنی جناب سے تیار کرتا رہے گا۔پس آگے بڑھیں اور اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا محاسبہ کرتے ہوئے آپ میں سے ہر ایک ان بابرکت وجود وں میں شامل ہو جائے جن کو خدا تعالیٰ خلافت کی حفاظت کے لئے خود اپنی جناب سے ننگی تلوار بنا کر کھڑا کرے گا۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک دوست نے لکھا کہ جہاں ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ خلافت کے سو سال پورے ہو رہے ہیں وہاں اس بات سے فکر بھی پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے سے ہم سو سال دور چلے گئے ہیں اور اس وجہ سے ہم میں کمزوریاں بڑھتی نہ چلی جائیں۔فکر بڑی جائز ہے لیکن خدا تعالیٰ کے وعدے، آنحضرت اکی حدیث اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشاد کو اگر ہم سامنے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔انشاء اللہ۔
یہ بھی الٰہی توارد ہی سمجھتا ہوں کہ اس خط کے سا تھ ہی امریکہ سے ہمارے ایک مبلغ نے حضرت مصلح موعود ؓ کے ایک عہد کی طرف توجہ مبذول کروائی جو آپ نے 1959ء میں خدام کے اجتماع پر خدام سے لیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ ایسا عہد ہے جسے انصار بھی دہرایا کریں اور دہراتے چلے جائیں اور تمام جلسوں پر دہرایا جائے اور اگلی نسلوں کو منتقل کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اسلام اور احمدیت کا غلبہ دنیا کے چپہ چپہ پر ہو جائے۔مجھے پہلے دوست کے خط کی وجہ سے یہ توجہ تھی اور یہ خط آنے پر مزید توجہ پیدا ہوئی اور مجھے یہ تجویز اچھی لگی کہ خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر تمام دنیا کے احمدی یہ عہد دہرائیں۔
پس آج مَیں معمولی تبدیلی کے ساتھ اس صد سالہ جوبلی کے حوالے سے آپ سے بھی یہ عہد لیتا ہوں تا کہ ہمارے عمل زمانے کی دوری کے باوجود ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی تعلیم اور اللہ کے حکموں اور اسوہ سے دور لے جانے والے نہ ہوں بلکہ ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قدر کرنے والا بنائے۔پس اس حوالے سے اب میں عہد لوں گا۔آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ بھی جو یہاں موجود ہیں احباب بھی کھڑے ہو جائیں اور خواتین بھی کھڑی ہو جائیں ،دنیا میں موجود لوگ جو جمع ہیں وہ سب بھی کھڑے ہو کر یہ عہد دہرائیں۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول اکے لئے وقف رکھیں گے۔او ر ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے۔
ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جہد و جہد کرتے رہیں گے۔اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اَللّٰھُمَّ آمِیْن۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْن۔اَللّٰھُمَّ آمِیْن۔

(اس کے بعد حضور نے فرمایا۔ تشریف رکھیں )
پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخو!مَیں امید کرتاہوں کہ اس عہد نے آپ کے اندر ایک نیا جوش اور ایک نیا ولولہ پیدا کیاہوگا۔ شکرگزاری کے پہلے سے بڑھ کر جذبات ابھرے ہوں گے۔ پس اس جوش اور ولولے اور شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ خلافت احمدیہ کی نئی صدی میں داخل ہوجائیں۔ یہ 27؍مئی کا دن ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دے، ایک ایسا انقلاب برپا کردے جو تا قیامت ہماری نسلوں میں یہی انقلاب پیدا کر تا چلاجائے۔اللہ تعالیٰ کا اس دور میں ہمیں داخل کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں بننے کی ہم کوشش کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
آپ علیہ السلام اپنی جماعت کو کس پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں ،کتنا حسن ظن رکھتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں :
’’جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے یہ زمانے بھر میں کسی دوسرے میں نہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 536۔جدید ایڈیشن )۔کیا یہ حسن ظن ہم سے تقاضا نہیں کرتاکہ ہم اپنے اندر انقلاب پیدا کرنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہیں۔اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر جو خلافت کی صورت میں اس نے ہم پر کیا اپنی روحانی ترقی کی نئی منزلوں کی نشاندہی کریں۔اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر،خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیار بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں۔ اس احسان کے شکرانے کے طورپر اپنوں اور غیروں میں پیار اور محبت کے نغمے بکھیرتے چلے جائیں۔یقینا یہی نیکیاں اور شکرگزاری ہمارا مطح نظر ہونی چاہئیں۔ یقینا پیار اور محبت کے سوتے ہمارے دلوں سے پھوٹنے چاہئیں۔یقینا عہد وفا کے نئے نئے راستوں کا تعین ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔اور جب یہ ہوگا توہم اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرنے والے ٹھہریں گے۔جب یہ ہوگا تو ہم دائمی خلافت کے فیض سے فیضیاب ہونے والے بنتے چلے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور فضلوں کی نہ ختم ہونے والے بارشیں ہم پر برسیں گی۔
پس اے میرے پیارو اور میرے پیاروں کے پیارو! اٹھو آج اس انعام کی حفاظت کے لئے نئے عزم اور ہمت سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہوئے ،اس سے مد د مانگتے ہوئے میدان میں کود پڑوکہ اسی میں تمہاری بقا ہے ، اسی میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے اور اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْن
اس کے بعد حضور نے دعا کروائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں