طُورِسینا کی ضِیاء باریاں

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء) (انگریزی سے ترجمہ)

عبدالرحمان شاکر صاحب

جنوری 1947ء میں کیلی فورنیا یونیورسٹی امریکہ نے ایک مہم جزیرہ نما عقبہ میں تحقیقات کے لئے بھجوائی تا زمانۂ بائبل کے بعض سر بستہ رازوں کومنظرِعام پر لایا جائے۔ اِس مہم کا لیڈر ایک 26سالہ نوجوان وینڈل فلپس تھا۔ دوسرے ممبر ڈاکٹر ہنری فیلڈ تھے جو نیچرل ہسٹری میوزیم شکاگو کے ڈائریکٹر تھے۔ تیسرے ممبر بائبلی زمانہ کے آثارِ قدیمہ کے ماہر اور السنہ قدیم کے مشہور استاد ڈاکٹر ولیم ایف آل برائٹ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تھے۔ چوتھے اور پانچویں ممبر ولیم بی ٹیری اور ان کی اہلیہ گلیڈیز ٹیری بطور فوٹوگرافر کے تھے۔ چھٹے ممبر ایک انجینئر صاحب تھے جو موٹروں اور دیگر آلات کے نگران تھے۔ یہ پارٹی دو موٹرلاریوں میں موجودہ زمانے کے تمام ضروری آلات سے لیس ہوکر 12ـ جنوری 1947ء کو ویرانوں کو عبور کرتے ہوئے آخرکار سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ کے باہر پہنچ گئی۔ یہ خانقاہ جبل موسیٰ کے عین دامن میں واقع ہے۔ اس جگہ پر یونانی راہبوں نے چودہ سو سال سے ایک قلعہ بندی کی صورت میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
اب آگے پارٹی کے لیڈر کی زبانی سنئے:
جس جگہ ہمارے ٹرک جا کر رُکے یقینا وہ مقام اس جگہ سے دُور نہ ہو گاجہاں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دس الواح لے کر پہاڑ سے اُترنے کے منتظر رہے ہوں گے۔ قاہرہ سے ہماری پارٹی کو بشپ پورفائی رَس سوم(جو سنائی کے آرچ بشپ ہیں)نے خانقاہ میں اقامت گزین ہونے کے لئے پرمٹ اور اپنا تعارفی خط بھی دیا تھا۔
ایک بھاری بھرکم دروازہ کُھلا اور تقریباً ایک درجن نفوس ہماری طرف بڑھے۔ معاً ہمارے دلو ں میں یہ خدشہ پیدا ـہوا کہ اِن لوگوں سے بات چیت کرنے میں سخت دقّت کا سامنا ہوگا کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی یونانی زبان نہ جانتا تھا۔ مگر یوں سمجھئے کہ گویا اندھیری رات میں یکایک اُجالا پیدا ہوا جب نہایت شستہ انگریزی میں پادری نیل صاحب (Nile)نے ہم کو خوش آمدید کہا۔ وہ پانچ زبانوں کے ماہر نکلے اور آگے چل کر بطور ترجمان بہت مفید ثابت ہوئے۔
ہم نے ٹرکوں پرسے سامان اُتارنا شروع کیا تو کئی معاون ہاتھوں نے ہماری امداد کی۔ ہمارے یہ معاون انہی پہاڑوں میں رہنے والے باشندے تھے جن کو جَبْلِیَّہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ نسلاً بعد نسلٍ اِس خانقاہ کے ملازم چلے آتے ہیں۔
مطلع بہت صاف تھا اور رات خوب سرد تھی کیونکہ سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ بحرِقلزم کی سطح سے پانچ ہزار فٹ بلند ہے۔ آئندہ پانچ دنوں کے قیام میں پادری نائیل صاحب ہمارے راہبر اور ہر وقت کے ساتھی بنے رہے۔ انہوں نے ہمیں گرم گرم کھانا کھلا کر آرام کے لئے بھیج دیا۔
دُنیا سے یہ الگ تھلگ خانقاہ قاہرہ اور یروشلم سے براستہ ہوائی جہاز دو سو میل کے فاصلے پر ہے اور جزیرہ نما عقبہ کے جنوب وسط میں واقع ہے۔
اگلی صبح جب ہم خانقاہ کے صدر دروازے کے شاہ نشین پر کھڑے تھے تو پادری نیل صاحب نے ہمیں بتایا کہ دُنیا کے چند مقامات میں سے یہ ایک مقام ہے جہاں ’’سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے۔‘‘ اور حقیقت میں یہ تھا بھی درست۔ کیونکہ یہ خانقاہ 7497فٹ بلند جبلِ موسیٰ (روایتی طور پر مشہور کوہِ طُور ) کے شمالی بازو کے دامن میں کچھ اس طرح واقع ہے کہ سورج کی کرنوں کو پہاڑ روک لیتا ہے اور سورج خانقاہ پر ایک مغربی بازو سے عکس فگن ہوتا ہے۔
پروفیسر ولیم آل برائٹ اس دُھن میں سرگرم تھے کہ کسی طرح وہ فلسطین، اُردن اور وادیٔ نیل میں مماثلت کا ثبوت بہم پہنچا سکیں۔ یقینا ان کا وسیع علم اور گہرا مطالعہ بائبلی گتھیوں پر نئی روشنی ڈال سکتا تھا۔
اپنی اس مہم میں امداد کے لئے ہم نے گُنتی قوم کے چند چیدہ چیدہ افراد کو ہمراہ لیا تھا۔ یہ لوگ لکسرluxor (مصر ) کے آس پاس بستے ہیں اور مصر، سوڈان، فلسطین، شام اور اُردن میں ان کی خاصی توقیر ہے۔ اس وجہ سے کہ کُھدائی کے معاملے میں یہ لوگ بڑے ماہر، محنتی اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خود ہی اپنے کام پر بڑے نازاں تھے۔ اس کے علاوہ متفرق امور میں بھی یہ ہم کو قابلِ قدر امداد دیتے تھے کیونکہ بڑے اچھے باورچی ہوتے ہیں اور ایسی مہموں میں خوب کام دیتے ہیں۔ مہم والوں کے ذرا سے نقصان کو بھی یہ لوگ اپنے لئے سخت بے عزتی سمجھتے ہیں۔
اِس سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے مصر سے نکلنے کا راستہ بھی ہم نے متّعین کر لیا اور یہ اصل قائم کی گئی کہ جس جگہ سے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم نے بحرِقلزم کو عبور کیا تھا وہاں پر کسی زمانہ میں نَرسَل ( یعنی چھنب) سے اَٹا ہوا سمندر ہوا کرتا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑکے خروج کی تاریخ 1500 قبل مسیح ہے اور جس راستہ سے آپؑ اپنی قوم کو ہمراہ لے کر چلے وہ موجودہ بحرِ قلزم کا شمالی حصّہ ہے۔
قدیم علماء نے یہ فرض کر لیا ہوا ہے کہ جس جگہ سے حضرت موسیٰؑ نے سمندر پار کیا تھا اس کی سطح خروج کے زمانے میں آج سے پچیس فٹ بلند تھی اور یہ علاقہ موجودہ Bitter lakes تک پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے یہ نظریے تمام کے تمام بائبل کے عین مطابق ہیں۔ حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کا تعاقب فرعونِ مصر کی فوج اپنے رتھوں اور گھوڑوں پر کررہے تھے مگر آپؑ چونکہ زیادہ قابل جنرل تھے آپؑ نے اپنے گروہ کو نَرسَل کے سمندر میں سے ایک شدید طوفان کی آمد سے قبل ہی پار اُتار دیا۔
خروج کے بیان کے مطابق مصریوں نے اسرائیلیوں کا تعاقب سخت دلدلی زمین میں کیا جہاں آکر اُن کے رتھ کیچڑ میں دھنس کر رہ گئے۔ تب غیر متوقع طوفان نے اُن بد بختوں کو آن گھیرا اور خدا تعالیٰ نے مصریوں کو سمندر میں غرق کردیا حتیّٰ کہ اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا ۔(دیکھئے خروج باب14۔ آیت 27-28)
’’اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری اُلٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ میں مصریوں کو تہ و بالا کر دیا اور پانی پٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چُھوٹا۔ ‘‘ اورمعجزہ مکمل ہو چکا تھا۔
قدامت کے لحاظ سے سرکنڈوں کا سمندر بحرِقلزم کا ہی حصّہ ہے اور اس سے وہ تضاد دُور ہو جاتا ہے جو بظاہر Reed SeaاورRed Seaمیں نظر آتا ہے۔
خانقاہ میں ایک لا ئبریری بھی تھی جس میں بہت سے قدیم نوشتے حفاظت سے دھرے تھے۔ اُن میں سے ایک سے ثابت ہوا کہ ملکہ ہلینا (والدہ شہنشاہ قسطنطین ) 342ء میں یہاں آئی اور اس کے حکم سے اس جگہ گرجا تعمیر کیا گیا جہاں حضرت موسیٰؑ کو جھاڑی میں آگ جلتی نظر آئی تھی اور خدا کے فرشتے نے حضرت موسیٰؑ سے بات چیت کی تھی: ’’اور خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میں سے آ گ کے شعلہ میں اُس پر ظاہر ہوا۔ اس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ تب اُس نے کہا اے موسیٰ!اے موسیٰ!اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اُس نے کہااِدھر پاس مت آ۔ اپنے پاؤں سے جوتا اُتار کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہے۔ ‘‘
خانقاہ کے دوسرے حصّوں کی بھی خوب سیر کی گئی اور اِسی ضمن میں ایک بہت بڑے چوبی دروازے میں سے گزر کر بازنطینی طرزِ تعمیر پر بنے ہوئے Church of Trans Figuration (کینسیہ ظہور جلالی )میں داخل ہوئے۔ یہ عمارت جو بعد میں سینٹ کیتھرائن کے نام سے موسوم ہوئی بارہ شاندار گلٹ کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ اِس کے دروازے کی دہلیز پر یونانی زبان میں ثبت ہے:
’’اِس مقام پر خدا نے موسٰی سے کہا کہ مَیں تمہارے آبا کا خدا ہوں اور اسحاق کا خدا ہوں اور یعقوب کا خدا ہو ں۔ مَیں ہوں جو ہوں۔ یہ خداوند کا دروازہ ہے کاش حق پرست لوگ اس میں داخل ہوں۔ ‘‘
اس کے بعد پادری نیل صاحب ہم کو سینٹ جان کے گرجا گھر لے گئے۔ یہاں ہم نے جُوتے اُتار دیے کیونکہ اب جہاں ہم داخل ہونے والے تھے وہ مقدس جگہ تھی۔ ایک تنگ دروازے میں سے ہم ایک قطار بنا کر چلنے لگے اور خاموشی سے نہایت مؤد بانہ طور پر اُس مقام کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جہاں حضرت موسیٰؑ کو جھاڑی میں آگ نظر آئی تھی۔ اِس مقام پر ہم حضرت موسیٰؑ کے عین نقشِ پا پر چل رہے تھے۔ اِس جگہ کے باہر ایک کیکر کا درخت تھا جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ حضرت ہارون ؑکے عصا سے پیدا ہوا تھا۔
ـ’’اوردوسرے دن جب موسیٰ شہادت کے خیمہ میں گیا تو دیکھا کہ ہارون کی لاٹھی میں جو لاوی کے خاندان کے نام کی تھی کلیاں پھوٹی ہوئی اور شگوفے کِھلے ہوئے اور پکے بادام لگے ہیں۔ ‘‘ (گنتی باب 17۔ آیت 8تا 10)
بعض مبتدی راہبوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اس درخت کے کچھ پتّے دیئے۔ مَیں نے یہ پتّے اپنی بیٹی کی بائبل میں رکھ لیے۔
اِس عیسائی خانقاہ میں ہم ایک مسجد دیکھ کر بہت حیرا ن ہوئے۔ یہ مسجد ابو علی منصور کے حکم سے 1101-1106ء میں بدّو اور جبلی لوگوں کے لیے تعمیرہوئی تھی کیونکہ ان کے لئے مقامِ عبادت کوئی نہ تھا۔ جیکس آف ورونا 1335ء میں ایک راہب گزرا ہے۔ وہ بیان کرتاہے کہ مسلمان امام اس مسجد کے منارے سے اذان دیتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں یہ خانقاہ سلطا ن کے مقبوضات میں سے تھی۔
اپنے قیام کے آخری روز دوپہر کے وقت ہم ساڑھے تین ہزار سیڑھیاں طے کر کے کوہِ طُور کی چوٹی پر گئے۔ یہ سیڑھیاں ایک راہب نے پہاڑ کو تراش کر بنائی ہیں۔ راستے میں کافی بلندی پر جا کر ہم کو ایک دروازے میں سے گزرنا پڑا۔ یہاں رواج کے مطابق تمام زائر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم یہاں ایک سرو کے درخت کے قریب سستانے کے لئے ٹھہرگئے جو ایک چشمہ کے پاس ہے۔ پاس ہی وہ جگہ ہے جہاں تورات کے بیان کے مطابق پہاڑی کوّوںنے ایلیا کو خوراک بہم پہنچائی تھی: ’’اور تُو اسی نالہ میں سے پینا اور مَیں نے کوّوں کو حکم کیا ہے کہ وہ تیری پرورش کریں۔ ‘‘ (سلاطین 1۔ آیت 4)
آخر کار دو گھنٹے کی کافی مشکل (مگر دو بھر نہ تھی )چڑھائی کے بعد ہم کوہِ طُور کی چوٹی پر کھڑے تھے۔ جہاں ہم نے پانی کے چند گھونٹ پئے اور گوند والی ٹکیاں مُنہ میں ڈالیں۔ اوپر سے بڑا عجیب نظارہ تھا۔ نیچے خلیج عقبہ اور جنوب مشرق کی طرف راس محمد ؐ نظر آتی تھی۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی سنہری کرنوں میں ہر چیز خوب نمایاں طور پر نظر آتی تھی۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی اور ویرانے کا سا عالم تھا۔ عین اس وقت ہم کو یاد آیا اور اس بات نے ہم کو بہت متأثر کیا کہ بالکل اسی مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور راتیں اکیلے ہی بسر کی تھیں۔ جب خدا نے ان کو پتھر کی الواح ،شریعت اوراحکام عطافرمائے تھے:
’’اور خداوند نے موسٰی سے کہا کہ پہاڑ پر میرے پاس آاور وہیں ٹھہر اور مَیں تجھے پتھر کی لوحیںاور شریعت اور احکام جو مَیں نے لکھے ہیں دوں گا تاکہ تو ان کو سکھائے۔ ‘‘ (خروج باب 24۔ آیت 12)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں