عبادالرحمن

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ ستمبر 2009ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے بعض ایسے عبادالرحمن کا بیان ہے جن کی قوّت قدسیہ کے نتیجہ میں دل کی ظلمت ختم ہوجاتی ہے، دنیا کی محبت سرد ہوجاتی ہے اور آخرت کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
٭ حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ سید فضل شاہ صاحب اکثر سنایا کرتے تھے کہ مَیں ایک ہندو عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ حصول مقصود کی کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ بعض عاملوں کے پاس بھی پہنچا مگر مایوسی ہوئی۔ بعض احباب نے بتایا کہ قادیان میں ایک مستجاب الدعوات بزرگ رہتے ہیں چنانچہ قادیان پہنچا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور ساری سرگذشت بیان کرکے دعا کے لئے عرض کیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ جب تک تعلق نہ ہو ایسی دعا جو مشکلات کو حل کرسکے، نہیں ہوسکتی۔ مَیں یہ ارشاد سن کر گھر واپس آیا اور گھر کا تمام اثاثہ فروخت کرکے تمام روپیہ حضورؑ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپؑ نے پوچھا کہ یہ کیسی رقم ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ تعلق پیدا کرنے کے لئے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ شاہ صاحب! اب آپ چند روز تک ہمارے پاس ٹھہریں تاکہ ہم آپ کے لئے دعا کریں۔ مَیں بخوشی رضامند ہوگیا۔ قریباً ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ وہ عورت جس کا مَیں گرویدہ تھا، خواب میں نظر آئی اور اُس کی نہایت کریہہ شکل دکھائی دی۔ مَیں بیدار ہوا تو محسوس کیا کہ میرے قلب سے اُس عورت کی محبت کا نقش بالکل مٹادیا گیا ہے۔ مَیں نے حضرت اقدسؑ کے حضور حاضر ہوکر عرض کیا کہ اب مجھے اس عورت کی خواہش نہیں رہی بلکہ طبیعت میں اُس کے تصور سے بھی کراہت محسوس ہوتی ہے، آپ میرے لئے اب یہ دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ میرے اس گناہ کو معاف فرمائے اور اپنی پاک محبت کے سایہ میں وقت گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭ ایک واقعہ محترم مولانا عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ ایک مرتبہ لاہور میں کسی رئیس کے مکان پر بطور مہمان اُترے۔ اُس زمانہ میں شہر کے معزز گھرانوں کی نوجوان لڑکیاں مغرب سے ذرا پیشتر سیر کے لئے دریائے راوی پر جایا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ جو گئیں تو سخت آندھی اور بارش کے طوفان نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا۔ ان میں اُس رئیس کی لڑکی بھی تھی۔ وہ لڑکی کسی طرح شاہی مسجد میں پہنچ گئی۔ عشاء کی نماز ہوچکی تھی، نمازی جاچکے تھے اور مسجد کے حجروں میں رہنے والے طلبہ بھی رخصتیں گزارنے اپنے گھروں کو گئے ہوئے تھے۔ صرف ایک یتیم نادار لڑکا کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے وہیں رہنے پر مجبور تھا۔ وہ صف پر بیٹھا دیے کی روشنی میں مطالعہ کررہا تھا کہ وہ لڑکی اُس کے پاس پہنچی اور بتایا کہ وہ فلاں رئیس کی لڑکی ہے اور راستہ بھول گئی ہے۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ مَیں تو ایک طالبعلم ہوں اور باہر سے آیا ہوں کسی کو نہیں جانتا۔ پھر کہنے لگا کہ چند گھنٹے رات باقی رہ گئی ہے، آپ میری چارپائی پر سوجائیے۔ فجر کی نماز کے لئے آنے والوں میں جو آپ کے ابا کو جانتا ہوگا، اُس کے ساتھ گھر چلی جائیں۔ مجبوراً لڑکی کو اُس غریب کی چارپائی اور میلے کچیلے بستر میں لیٹنا پڑا۔ اجنبی نوجوان کی موجودگی، والدین کے فکر کا تصوّر اور گھر سے پہلی مرتبہ غیرحاضری۔ ان وجوہات کی وجہ سے نیند اُس کے قریب بھی نہیں آئی۔ اُدھر لڑکے کی جب اس امیرزادی پر نظر پڑی تو شیطان نے اُس کے شہوانی قویٰ میں ایک تلاطم برپا کردیا۔ تاہم وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والا تھا اس لئے اُس نے سوچا کہ اس بُرے راستہ کو اگر مَیں نے اختیار کرلیا تو پھر خداتعالیٰ کو کیا جواب دوں گا؟ مزید برآں جہنم کی آگ بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ معاً اُسے خیال آیا کہ کیا وہ سامنے رکھے دیئے کی لاٹ کی آگ بھی برداشت کرسکتا ہے یا نہیں۔ یہ سوچ کر اُس نے اپنی ایک انگلی لاٹ پر رکھی لیکن ایک لحظہ بعد ہی کھینچ لی اور سوچا کہ جب یہ آگ برداشت نہیں ہوسکتی تو جہنم کی آگ، جو ستّر گنا زیادہ شدید ہوگی، کیسے برداشت ہوگی۔ پھر وہ مطالعہ میں مصروف ہوگیا لیکن کچھ دیر بعد شیطان نے پھر اُس کے دل میں بدی کی تحریک کی مگر فرشتہ بھی اُس کی نیک فطرت سے واقف تھا جس نے اُسے مجبور کیا کہ اگر پہلے تجربہ سے سبق حاصل نہیں ہوا تو پھر دیئے کی لاٹ پر انگلی رکھ کر دیکھو۔ چنانچہ نیکی اور بدی کی یہ کشمکش ساری رات جاری رہی اور اُس نے اپنی تمام انگلیاں جلادیں۔ نماز فجر کے لئے لوگ آئے تو وہ لڑکی اپنے گھر پہنچادی گئی۔ اُس لڑکی نے اپنے باپ سے رات کی کہانی بیان کی کہ کس طرح لڑکے نے باری باری اپنی تمام انگلیاں جلاڈالیں۔ اُس رئیس نے اس واقعہ کا ذکر اپنے مہمان (حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ) سے کیا تو حضرت مولوی صاحبؓ نے مشورہ دیا کہ اُس لڑکے کو بلاکر اس کی وجہ پوچھی جائے۔ جب لڑکے کو بلایا گیا اور اُس نے ساری داستان سنادی تو حضرت مولوی صاحبؓ نے رئیس کو مشورہ دیا کہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردو۔ رئیس نے کہا کہ یہ بچی نازونعمت میں پلی ہے، ان کا آپس میں نباہ کیسے ہوگا اور برادری مجھے کیا کہے گی۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ نیک بچہ مفلس ہے لیکن آپ دس ہزار روپیہ کی امداد دے کر اسے ایک امیر شخص بناسکتے ہیں۔ لیکن ایسا امیر آپ کو نہیں ملے گا جو اِس جیسا نیک بھی ہو۔ چنانچہ رئیس نے حضرت مولوی صاحبؓ کی بات کو مان لیا اور اپنی بیٹی کی شادی اُس طالبعلم سے کردی۔ اس طرح اُس لڑکے کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں تو نیکی کا اجر دینا ہی تھا لیکن اِس دنیا میں بھی دیدیا۔
٭ حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرّف ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک دوست کسی کام کے لئے مجھے اپنے گاؤں لے گیا۔ رات اُس کی خواہش پر اُس کے ہاں ہی مہمان ٹھہرا۔ لیکن اتفاق تھا کہ اُسے کسی ضروری کام سے رات کو گھر سے باہر جانا پڑا اور وہ اپنے گھر میں میری مہمانداری کی تلقین کرکے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اُس کی نوجوان خوبصورت بیوی نے مجھے آواز دی کہ مَیں آپ کے جسم کو دبانے کے لئے اندر آنا چاہتی ہوں۔ مَیں نے کہا کہ غیرمحرم مرد کو ہاتھ لگانا سخت گناہ ہے اس لئے آپ اپنے کمرہ میں ہی رہیں۔ لیکن اُس عورت نے اپنی غلطی پر اصرار کیا اور مَیں نے پھر وہی جواب دیا۔ آخر جب مَیں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے بد ارادہ سے باز نہیں آئے گی تو مَیں نے وضو کرکے نماز شروع کردی اور رکوع و سجود کو اتنا لمبا کیا کہ مجھے اس حالت میں صبح ہوگئی۔ اس کے بعد مَیں نے صبح کی نماز ادا کی تو اُس وقت مجھے اتنی نیند آئی کہ مَیں جائے نماز پر ہی سوگیا۔ اور خواب میں دیکھا کہ میرا منہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہے اور ایک فرشتہ نے مجھے بتایا کہ یہ تمام فضل تیرے اس مجاہدۂ نفس اور خشیۃاللہ کی وجہ سے ہوا ہے اور اس وجہ سے کہ آج رات تُو نے تقویٰ شعاری سے گزاری ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں