عجب تھا وہ جری تنہا لڑا طوفاں کے دھاروں سے – نظم

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27؍جولائی تا 12؍اگست 2021ء – سالانہ نمبر)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍مارچ 2013ء میں مکرم انورندیم علوی صاحب کی جلسہ سالانہ کی یادوں کے حوالے سے کہی گئی ایک نظم بعنوان ’’وصال یار کا موسم‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

عجب تھا وہ جری تنہا لڑا طوفاں کے دھاروں سے
یہ منظر سب نے دیکھا تھا مگر دیکھا کناروں سے
چمن میں آگیا موسم یہ کیسا باغباں کہنا؟
گل و بلبل ہراساں ہو گئے مہکی بہاروں سے
دسمبر تھا کبھی ہمدم وصالِ یار کا موسم
بنا یہ ہجر کا موسم شریروں کے شراروں سے
سبھی ہیں منتظر ان کے بچھاکر راہ میں پلکیں
وہ مہماں جو کبھی آتے تھے دنیا کے کناروں سے
بڑی انمول دولت ہے یہ سچے پیار کی دولت
کہ مفلس کو بنا دیتی ہے افضل مالداروں سے
زمانے کے حوادث سے بھلا درویش کیوں ڈرتے
سدا مسرور ہیں وہ تو دعاؤں کے سہاروں سے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں