عذابِ الٰہی اور قرآنِ مجید

جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ دسمبر 2010ء میں مکرم لطف الرحمن محمود صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں عذاب الٰہی کے حوالہ سے قرآن کریم کے فرمودات کو بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں عذاب کا لفظ 320مرتبہ وارد ہوا ہے اور دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے آیا ہے۔ عذاب کے حوالہ سے درج ذیل قرآنی تراکیب بھی سامنے آتی ہیں: عذابِ عظیم، عذابِ الیم، عذابِ شدید، عذابِ کبیر اور عذابِ مہین وغیرہ۔ اگرچہ عذاب عذاب ہی ہوتا ہے۔ لیکن ان تراکیب پر غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معارف کے خزانے انہی آیات کے سیاق و سباق میں موجود ہیں۔
قرآن کریم نے دنیوی عذاب کی جن قسموں کا ذکر کیا ہے ان میں زلزلہ، خوفناک آواز، بجلی کڑک، بجلی کا گرنا، تیز طوفانی ہوا اور سیلاب نیز آتش فشانی عمل کے نتیجے میں جلتے ہوئے پتھروں کا برسنا وغیرہ شامل ہیں۔ عذاب کا ذکر کرنے کا مقصد نصیحت و تلقین اور تنبیہ ہی ہے۔ یعنی جو قومیں عذابِ الٰہی کا شکار ہوکر نشانۂ عبرت بن چکی ہیں ان کے اُن بداعمال و افعال سے بچنے کی مقدور بھر کوشش کی جائے جن کے ارتکاب نے اُنہیں عذاب کا مستوجب بنادیا۔ نیز یہ نکتہ بھی اس موضوع کے باربار سامنے لانے کی حکمت میں شامل ہے کہ اگر ﷲ تعالیٰ دنیا میں عذاب دینے پر قادر ہے تو آخرت میں بھی احتساب پر قادر ہے۔ اہلِ ایمان کے لئے یہ واقعات اُمید کی کرن بھی ہیں کہ الٰہی فرستادوں کو ماننے والے بے کس اور بے بس تو ہو سکتے ہیں مگر لاوارث نہیں۔
قرآن کریم نے ایسی جن اقوام کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ان میں حضرت نوحؑ کی قوم بھی شامل ہے۔ طوفانِ نوحؑ کا بیان قرآن مجید کے علاوہ تورات میں بھی موجود ہے بلکہ محقّقین کا خیال ہے کسی نہ کسی رنگ میں دنیا کے قدیم مآخذ میں اس کا ذکر مل جاتا ہے۔ حضرت نوحؑ کی تکذیب و توہین کے بعد ﷲ تعالیٰ نے منکروں کو غرق کردیا مگر ان کے سچے متبعین کو حضرت نوحؑ کے سفینے میں جگہ دے کر نجات بخشی۔ یہ سیلاب موجودہ عراق اور ترکی کے علاقوں میں آیا۔ سفینۂ نوحؑ کوہ ارارات (جودی) پر جا کر رُکا ۔جو انہی علاقوں کا کوہستانی سلسلہ ہے۔
طوفانِ نوح میں بچ جانے والوں میں سے عاد کی نسل چلی اور پھلی پھولی مگر افسوس کہ ان لوگوں نے طوفان کے عبرت ناک سبق کو فراموش کر دیا۔ ﷲ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت ہودؑ کو مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ عرب کے جنوبی علاقے میں آباد تھے۔ عذابِ الٰہی نے اُنہیں اس طرح نیست و نابود کیا کہ وَقَطَعۡنَا دَابِرَالَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا کی مہر ثبت کردی۔
حضرت صالحؑ کی قوم کو قوم ثمود کہا جاتا ہے۔ ان کے دارالحکومت کا نام حجر تھا۔ یہ قوم مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑی علاقے میں آباد تھی۔ PETRAکے قدیم شہر میں پہاڑوں میں کھود کر بنائے جانے والے بعض مکانات کے آثار اب بھی محفوظ ہیں۔ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو ﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک علامت کے طورپر مقرر کردیا۔ مگر ان ظالموں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ اونٹنی کو ہلاک کرنے کے بعد وہ حضرت صالحؑ اور ان کے رفقاء کو قتل کرنے پر تُل گئے۔ شوخی میں یہاں تک کہنے لگ گئے کہ اگر سچے نبی ہو تو وہ عذاب ہم پر لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے دھمکاتے رہے ہو۔ چنانچہ زلزلے نے اس ظالم قوم کو تباہ کردیا۔
قوم لوط موجودہ فلسطین و اسرائیل میں آباد تھی۔ سدوم اور گمورا ان کے بڑے مراکز تھے۔ حضرت لوطؑ عراق سے آکر اُن میں رہنے لگے۔ مقامی لوگوں نے اُنہیں ہمیشہ اجنبی اور غیر ہی سمجھا ان کیلئے حضرت لوطؑ کی سچی ہمدردی اور خیر خواہی کی بنا پر ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت لوطؑ کو’’ان کا بھائی ‘‘کہہ کر یاد فرمایا ہے۔ جنسی بے راہروی اور ڈاکہ زنی ان کے دو نمایاں جرائم تھے۔ حضرت لوطؑ نے مقدوربھر تبلیغ و نصیحت کی مگر یہ ظالم ٹس سے مَس نہ ہوئے بلکہ حضرت لوطؑ کی پاکیزگی اور طہارت کا مذاق اُڑاتے رہے۔ چنانچہ ایک خوفناک آتش فشانی عمل نے اُس قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔ جلتے ہوئے پتھران پر برسائے گئے۔ سدوم اور گمورا کا نام و نشان مٹ گیا۔
قوم مدین یا اصحاب الایکہ (یعنی گھنے درختوں کے جھنڈ میں رہنے والوں) کی اصلاح کے لئے حضرت شعیبؑ کو مبعوث کیا گیا۔ یہ لوگ تجارت میں فراڈ کرتے تھے اور لین دین میں ڈنڈی مارنا ان کا معمول تھا۔ قوم لوطؑ کی طرح یہ لوگ ڈاکے بھی ڈالتے تھے۔ ﷲ تعالیٰ نے ان کو تباہ کرنے والے عذاب کی نوعیت واضح نہیں فرمائی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس عذاب کو ’’انتقامِ ربّانی‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی اپنے مُرسل و مامور کے انکار و استہزاء کی سزا کو اپنا ’’انتقام‘‘ قرار دیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک شعر ہے:

کہتا ہے یہ تُو بندہ عالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے

مصر کی سرکش قوم بنی اسرائیل کے بادشاہ فرعون کو حضرت موسیٰؑ نے تبلیغ کی اور ان کے بڑے بھائی حضرت ہارونؑ نے ان کی معاونت کی۔ ﷲ تعالیٰ نے نشانات اور معجزات سے بھی حق و صداقت کی تائید کی مگر فرعون کی طرف سے انکار پر انکار اور میدانِ دلائل سے فرار پر اصرار جاری رہا۔ انجام کار، ﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے فرعون کے لاؤ لشکر کو پانی کی لہروں میں غرق کردیا۔ بلکہ فرعون کے جسدِ خاکی کو آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ عبرت کے طور پر محفوظ کردیا۔
قوم تبّع کا تعلق بعض مفسرین کے مطابق یمن سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حمیر خاندان کے ایک بادشاہ نے اپنا نام تُبّع رکھ لیا جو حبشی زبان میں ’’سلطان‘‘ یا بادشاہ کا متبادل ہے۔ اسی خاندان کے ایک بادشاہ ذُونواس نے، کئی صدیاں بعد، اپنے ملک کے عیسائیوں پر بڑا ظلم کیا۔ سورۃ البروج میں اس بادشاہ کے سفّاک فوجیوں کو ’’اصحاب الاُخدود‘‘ کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے قومِ تُبّع کو تباہ کرنے والے عذاب کی نوعیت بیان نہیں فرمائی۔
اسی طرح یمن میں آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل ایک اور قوم کو پانی کے عذاب یعنی سیلاب سے تباہ کیا گیا۔ وہ لوگ اپنے علاقے کی زرخیزی، زرعی معیشت اور انجینئرنگ پر نازاں تھے۔ انہوں نے اس زمانے میں ایک بہت بڑ اڈیم بنایا ۔ تاریخ میں وہ معارب ڈیم کے نام سے مشہور ہے جس کی لمبائی 2میل اور اونچائی120 فٹ بیان کی گئی ہے۔ اس قوم کو تکبر اور گناہوں میں غرق ہونے کی سزا اس طرح دی گئی کہ معارب ڈیم ٹوٹ گیا اور سب ظالم اس میں غرق ہوگئے۔ باغات اور کھیت اُجڑ گئے۔ کڑوے پھل دینے والی جڑی بُوٹیاں ماتم کرنے کے لئے باقی رہ گئیں۔ قرآن مجید نے اس سیلاب کو ’’سَیۡلَ الۡعَرِم‘‘ (تندوتیز سیلاب) کے نام سے یاد فرمایا ہے
عذابِ الٰہی کے محرّکات جاننے سے قبل یاد رکھنا چاہئے کہ دُنیا میں محض اختلافِ عقاید کی وجہ سے عذاب نازل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا گناہ، شرک ہے اور اس حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا بیٹا تجویز کرنا اور اُسے تختِ اُلوہیت پر براجمان کرنا اُس سے بھی بڑا گُناہ ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس عقیدہ کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا کہ قریب ہے کہ اس سے زمین پھٹ کر تہ و بالا ہوجائے۔ مگر دو ہزار سال سے اس کی تبلیغ و ترویج ہورہی ہے اور زمین بھی اسی طرح قائم ہے۔ دراصل غلط عقیدوں کی وجہ سے عذاب مسلّط نہیں کیا جاتا۔ اختلافِ عقاید کا فیصلہ آخرت میں ہوگا۔ عذاب اس وقت آتا ہے جب منکرینِ صداقت… شوخی، بے باکی اور ظلم و تشدّد کی سب حدیں پار کرجاتے ہیں۔ اور جب گرفت ہوتی ہے تو سب چالاکیاں ، عیاریاں اور تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ پس ﷲ تعالیٰ کی گرفت سے بچنے کا یہی طریق ہے کہ انسان دینی معاملات میں شوخی، شرارت، بیباکی اور گستاخی سے بچے۔ انبیاء و مرسلین اور مامورین کی توہین اور تضحیک سے مجتنب رہے۔ شعائرﷲ کی توہین یا اُس کا ارادہ و عزم بھی بسااوقات اﷲتعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتا ہے۔
یمن میں حکومت حبشہ کا وائسرائے ابرہہ 570ء یا 571ء میں کعبہ کو مُنہدم کرنے کے لئے ایک فوج کے ساتھ مکّہ کے قریب پہنچ گیا۔ اس ناپاک اقدام سے پہلے ہی ﷲ تعالیٰ نے اس کی فوج کو تباہ و برباد کردیا۔ مُردار خور گدھوں اور اسی قسم کے پرندوں نے ابرہہ کے فوجیوں کی لاشوں کو نوچ نوچ کر اُن کے ڈھانچے بھوسے کی طرح کردیئے۔ اس عبرت ناک واقعے کے حوالے سے عربوں نے اس سال کا نام ہی ’’عام الفیل‘‘ رکھ دیا۔ ﷲ تعالیٰ اپنے خاص مقامات اور اپنے پاک بندوں کے لئے، جنہیں وہ شعائرﷲ کا مقام دے دیتا ہے، غیر معمولی غیرت کا اظہار کرتا ہے۔
عذابِ الٰہی کی بعض اور شکلیں بھی ہیں جن کے اشارات تورات، انجیل اور قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس عذاب میں ﷲ تعالیٰ مغضوب اور معتوب قوم پر اس کے دشمن مسلّط کر کے سزا دلواتا ہے۔ اس عذاب کی مثالیں ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی ملتی ہیں اور تاریخِ اسلام میں بھی۔
یروشلم میں ہیکل سلیمانی بنی اسرائیل کا مقدس ترین مقام تھا۔ حضرت موسیٰؑ کی زندگی میں ایک خیمہ کی شکل میں اس کی ابتدا ہوئی اور حضرت سلیمانؑ کے عہد میں ہزاروں کا ریگروں نے سالہاسال کی محنت کے بعد اس عمارت کو مکمل کیا۔ مگر بابل کے بادشاہ نبوکد نضر (Nebuchadnezzar) نے 607 قبل مسیح میں ہیکل سلیمانی اور یروشلم کے تمام مکانات نذرآتش کردیئے۔
بنی اسرائیل کے بادشاہ زیدکیہ کے سامنے اس کے تمام بیٹوں کو قتل کروایا اور اس کے معًا بعد باپ کی آنکھیں نکلوادیں اور قتل و غارت کے بعد یہود کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ یہود کے لئے یہ وقت ایک عذاب کی مانند تھا۔ اس کے ایک عرصہ بعد ذوالقرنین جنابِ سائرسؑ نے یہود کو غلامی سے نجات دلوائی۔ یروشلم کو آباد کیا اور ہیکل سلیمانی دوبارہ ایک مقامی یہودی حکمران Herodنے تعمیر کروایا۔ اس کے جانشین نے بھی یہ کام جاری رکھا۔ مجموعی طور پر 46 سال کی تعمیر و تزئین کے بعد یہ عمارت مکمل ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہیکل کی یہ عظیم عمارت موجود تھی۔ مگر یہود کے علمائے خاصہ اور ان کے زیرِ اثر عام لوگوں نے اپنے مسیح موعود کا انکار کیا بلکہ اُسے عدالتوں میں کھینچا اور اُس کے قتل کے منصوبے بنائے اور اُسے صلیب پر مارنا چاہا۔ ان بداعمالیوں کے نتیجے میں بدقسمت قوم ایک بارپھر عذاب کی مستحق ٹھہری۔ اس بار قیصرِ روم کے جرنیل طیطُس (Titus) نے 70ء میں یروشلم کو نیست و نابود کردیا۔ ہزاروں شہری قتل کردیئے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہیکل سلیمانی کو منہدم کردیا گیا اور عمارت میں موجود اکثر تبرکات تباہ کردیئے گئے۔ سونے کے بنے ہوئے برتن اور دیگر اشیاء روم منتقل کردی گئیں۔ اس واقعہ پر تقریباً دو ہزار سال بیت چکے ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی صرف ایک بیرونی دیوار (دیوارِ گریہ) رونے دھونے کے لئے باقی ہے۔ قرآن مجید نے بھی حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے بنی اسرائیل کو قبل از وقت متنبّہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔
مسلمانوں نے جب بدقسمتی سے عملاً قرآن کریم کو مہجور کے طورپر چھوڑ دیا تو اُن کی ننگی پیٹھ پر بھی عذابِ الٰہی کا کوڑا برسا اور 1492ء میں سقوطِ غرناطہ کے وقت چشمِ مسلم کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑا کہ سپین پر صدیوں حکومت کرنے والے مسلمانوں کے آخری بادشاہ عبداﷲ نے اپنے ہاتھ سے شہر کی کلید عیسائی فاتح کو پیش کی جس نے بہت بڑی صلیب اپنی فتح کی یاد میں محل پر آویزاں کردی۔
اس سانحہ کے بعد کی کہانی کتابوں میں محفوظ ہے۔ عیسائی فاتحین نے مسلمانوں کی تعمیر کردہ عمارتیں تباہ نہیں کیں۔مسجدیں گرجوں میں تبدیل کردی گئیں۔ محلاّت میں خود رہنے لگے۔ البتہ مسلمان چن چن کر قتل کئے گئے یا جلاوطن کردیئے گئے۔ جو وہیں رہنا چاہتے تھے وہ مرتد ہوگئے۔ ہزاروں کی تعداد میں قرآن کو جلا یا گیا۔ اس سے قبل 1258ء میں ہلاکو خان نے سلطنتِ اسلامیہ کے دارالحکومت بغداد کو تباہ کردیا۔ مساجد، محلات، قلعوں، بازاروں اور کتب خانوں کو نیست و نابود کردیا۔ عباسی خلیفہ کو شہید کردیا گیا۔ مورخین نے اٹھارہ سے بیس لاکھ مسلمان مقتولوں کی تعداد بتائی ہے۔ اسی طرح سقوطِ دہلی 1857ئ، سقوطِ ڈھاکہ 1971ء اور سقوطِ کابل1979ء کے واقعات اور اُن کے نتائج کو عذاب کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
سورۃ الہمزہ کی آیات5تا 10میں ایٹم بم میں مقیّد مشروم نما آگ کی تباہی اور تاب کاری کا اشارہ موجود ہے۔ آج دنیا میں ایٹمی دھماکہ خیز مواد کی بڑی مقدار میں موجودگی اس عذاب کو کسی وقت بھی وارد کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے بڑے بڑے ڈیم زلزلہ یا کسی اور زمینی یا قدرتی آفت سے ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس صورت میں آنے والا سیلِ بے پناہ، طوفانِ نوحؑ کی شکل اختیار کرلے گا۔
انبیاء اور الٰہی فرستادوں کا انکار کرنے والے لوگ متکبر اور مغرور ہوتے ہیں جنہیں اپنے علم، مال، اولاد، خاندان، حسب نسب، دنیوی وجاہت اور سیاسی جتھوں اور حلیفوں پر ناز ہوتا ہے۔ ان عارضی اور فانی ’’اثاثوں‘‘ پر بھروسہ کرکے اولیاء الرحمن سے گستاخیاں کرتے ہیں اور اس شوخی میں یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ خدائے قادر کے تقدُّس پر حملے کرتے ہیں اور عذاب کے مسلّط کئے جانے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ پھر یا تو عذاب کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یا تھوڑی سی مہلت ملنے پر، ان کی باقیات اس قسم کی گستاخیوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ حالانکہ یہ نرمی یا تاخیر اس وجہ سے درپیش آتی ہے کہ شدید اور الیم عذاب مقدر ہوچکا ہوتا ہے جو ان کا تعاقب کررہا ہوتا ہے۔ مگر ایسے لوگ اپنے دلوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں اور دوسروں کی گھبراہٹ دُور کرنے کے لئے خود ساختہ ڈھکوسلوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بلکہ خود کو مقبولانِ الٰہی کی صف میں شُمار کرتے ہیں۔
پاکستان میں 2010ء کے سیلاب یا 2005 ء کے زلزلے کو’’عذاب‘‘ کہنے سے گُریز کرنے والے لوگ نفسیاتی بیمار ہیں۔ قوم کے افراد کے دل و دماغ میں بات ٹھونس دی گئی ہے کہ وہ دُنیا کی افضل ترین قوم ہیں جنہیں کُرّہ ارض کی تمام قوموں کو بزورِ شمشیر مغلوب کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ ہر فن مولا ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ سب کے امام ہیں۔
فرقانِ حمید نے حق و باطل کو واضح کردیا ہے۔ اس تمیز کی استعداد سعید اور رشید انسانوں کی فطرتِ صحیحہ میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ البتہ راستے کے انتخاب کے لئے سب آزاد ہیں۔ چاہیں تو اصحاب الایکہ، اصحاب الحجر یا اصحاب الفیل کے نصیب سے حصہ لیں یا پھر اُن اصحاب الرسولؐ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں جنہیں اُن کے ربِّ جلیل نے قرآن مجید میں ہی رَضِیَ اﷲُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ کا تمغۂ اعزاز عطا فرمایا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں