عراق کی قدیم تہذیب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 2007ء میں مکرمہ ن۔رفیق فوزی صاحبہ کا ایک مضمون بعنوان ’’عراق کی قدیم تہذیب‘‘ شامل ہے۔
حضرت نوح کے سیلاب کا واقعہ قریباً پانچ ہزار سال قبل یعنی قریباً 3ہزار قبل مسیح رونما ہوا۔ سیلاب کے بعد حضرت نوح کے تینوں بیٹوں، سام ، حسام اور یافث کے ذریعے دنیا میں موجود نسلوں کا آغاز ہوا۔ موجودہ عرب قومیں سام کی اولاد میں سے ہیں، سیاہ فام نسل کی قومیں یعنی حبشی افریقی اور ملک ہند اور سندھ کے قدیم باشندے، حضرت نوح کے بیٹے حام کی نسل سے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر سرخ و سفید نسل کی قومیں ہندو، یورپی وغیرہ حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں۔ سامی نسل کے لوگ دجلہ اور فرات کی وادیوں میں آباد ہوئے۔ عراق کے شمالی علاقے اکاد میں پروان چڑھنے والی قدیم قوموں میں آسیرین وباببلین لوگ آج کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان قدیم قوموں کے علاوہ ایک اور قوم سو میری نام سے پہچانی جاتی ہے۔ جس کا مسکن اگرچہ عراق کا جنوبی علاقہ ہے، مگر اپنی نسل اور زبان کے اعتبار سے سامی نسل سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ اس نسل کا ارتقاء حضرت نوح ؑ سے بھی 500 سال قبل بتایا جاتا ہے۔ اب تک دریافت ہونے والے کھنڈرات کی وجہ سے ماہرین اسے دنیا کی قدیم ترین تہذیب کہتے ہیں۔ جس کی شناخت سومیری زبان اور میخی رسم الخط سے ہوئی ہے جو کہ آج تک محفوظ چلی آتی ہے اس تہذیب کی زبان انڈو۔ یورپی زبانوں کے خاندان سے قطعی مختلف ہے۔ بلکہ اس میں کسی قدر تورانی، فنش اور ہنگری زبانوں کا رنگ پایا جاتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فینو ہنگیرین زبان کا خاندان، انڈو یورپی زبان کے خاندان سے قطعی مختلف ہے۔ اس کے ساتھ توران اس لئے ہے کہ پان تورانی تحریک کے دوران، فن لینڈ اور ہنگری نے توران کے ساتھ اپنے تعلق کو تسلیم کر لیا تھا، اصل میں توران سے مراد وہ قوم یا ایسی زبان بولنے والی قوم ہے جس میں قدیم ترکی یا ایرانی رنگ پایا جاتا ہو۔
زبانوں کے اس باہمی تعلق، ان کے ماخذ اور عراق کی قدیمیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب منن الرحمن میں فرماتے ہیں کہ بابل کی تہذیب جو قدیم عراق (عرب) میں شامل تھی قدیم ترین تھی اور وہاں بولی جانے والی قدیم زبان عربی تھی۔ لہٰذا سومیری زبان بھی انہی زبانوں میں شمار ہوتی ہے جو بابل کی اصل زبان کے اختلاف کے بعد وجود میں آئی تھی۔
ابن حنیف اپنی کتاب دنیا کا قدیم ادب میں لکھتے ہیں … عراق کا جو علاقہ بعد میں ملک بابل کہلایا، اس سے قبل وہ سیاسی لحاظ سے شمال میں اکاد اور جنوب میں سومیری نامی دو ریاستوں پر مشتمل تھا۔ عراقی تاریخ کے طویل دور میں وہاں باہر سے بھی آکر مختلف اقوام آباد ہوتی رہیں۔ گویا یہ ملک ازمنہ قدیم میں متعدد ایسی اقوام کا مسکن رہا ہے جو تاریخ کے اوراق پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کر گئی ہیں۔ ان اقوام میں سومیری، سامی، غیر سامی، اکادی، بابلی اور اشوری شامل تھیں۔
سومیری تہذیب کا آغاز ساڑھے پانچ ہزار برس پہلے ہوا تھا۔ جنوبی عراق کی یہ تہذیب تقریباً تین ہزار برس تک تمام دنیا پر اپنی عقل و حکمت کے آثار ڈالتی رہی۔یہ خطہ سیاسی لحاظ سے بھی مکمل بالادستی رکھتا تھا، اس خطے اور اس میں بسنے والی قوم کو 4000 قبل مسیح سے لے کر 2000 قبل مسیح تک سیاسی بالادستی رہی، گو کہ بیرونی حملہ آور ہر طرف سے اس علاقے کی اکھاڑ بچھاڑ میں رہے۔ مگر پھر بھی تہذیب کی ترقی میں فرق نہ آیا۔ آخرکار اس قوم کا زوال بابل کے تیسرے خاندان کے زوال کے ساتھ شروع ہوگیا۔ کھدائی کے دوران جب سومیری علاقوں میں، انسانی ڈھانچے اور کھوپڑیاں دریافت ہوئیں۔ تو ماہرین کی رائے میں وہ آرمینیائی اور بحیرہ روم کی نسلوں کے مرکب نکلے۔
بہت سے سکالر متفق ہیں کہ باقی دنیا قدیم نے سومیریوں سے ہی فن تحریر کا خیال اپنایا تھا۔ جنوبی عراق کے شہر انوگ سے اس زمانہ کے رسم الخط کے جو نمونے ملے ہیں، وہ تا حال دنیا میں قدیم ترین معلوم نوشتے ہیں۔ کھنڈرات کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ سب سے پہلے اس قوم نے تصویرات کی مدد سے اپنے خیالات کو زبان دی۔ ایک دوسرے تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات سے قریباً ساڑھے چار ہزار برس پرانی تختیوں پر لکھا ہوا ادب دریافت ہوا ہے۔
اصطخری نے چوتھی صدی ہجری میں شہر بصرہ کی یہ حالت بیان کی ہے کہ بصرہ ایک بہت بڑا شہر تھا جو اہل عجم کے زمانہ میں نہ تھا، اسے صرف اہل عرب نے آباد کیا۔ یہاں کنویں وغیرہ کا پانی نہیں ملتا تھا بلکہ یہاں نہری ہی نہریں ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلا کرتی تھیں۔ اسی طرح بغداد کے بارہ میں وہ لکھتا ہے کہ بغداد کوفہ (یادجلہ فرات) کے درمیان بڑی گنجان آبادی ہے۔ دریائے فرات سے پھوٹ پھوٹ کر بہت سی نہریں اس کی طرف آتی ہیں اور سیراب کرتی ہیں۔
اصطخری نے بصرہ اور بغداد میں جو کچھ دیکھا۔ وہ سومیری قوم کی تہذیب کے ہی آئینے میں نظر آتا ہے۔ کیونکہ آبپاشی، زراعت، نہروں اور باغات کا سلسلہ سومیری قوم کی تہذیب فن اور معیشت میں بہت بڑا کردار ادا کرتے تھے۔
آئر لینڈ کے ایک ماہر لسانیات ایڈورڈہنکس نے 1850ء میں پہلی بار یہ دعویٰ کیا کہ منجی یعنی Cueiformرسم الخط جسے اب تک سامی قوم کی ایجاد سمجھا جاتا تھا، اس کے موجد وہ لوگ ہیں جو جنوبی عراق میں سامی قوم سے پہلے آباد تھے۔ اس خیال کی تصدیق کرنے کے لئے ایک انگریز فوجی نے بہت طویل اور کٹھن مہم سر کی۔ یہ انگریز فوجی رالنسن ایران میں متعین تھا اور زبانوں کا ترجمہ کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ لہٰذا اس نے کچھ قدیم زبانوں میں صدیوں پرانے لکھے ہوئے کتبوں کو پڑھ کر تراجم کرنے کی کوشش کی۔ ایک تحریر جو اس کی شہرت کا باعث بنی وہ ہمدان کے قریب کوہ انوند پر ایک بہت بڑے پتھر پر لکھی ہوئی ہے۔ شہنشاہ داراول نے یہ تحریر یا کتبہ 516 قبل مسیح میں کندہ کروایا تھا۔ دراصل یہ کتبہ جو ایک چھوٹی سی چٹان کی مانند ہے، اپنی ذات میں عجوبہ ہے۔ بادشاہ کی خواہش تھی کی یہ کتبہ اس انداز سے پہاڑ پر بنا کر ٹکایا جائے جہاں وہ انسانی ہاتھوں اور دوسرے مضرات سے محفوظ رہ سکے۔ بادشاہ کی ہی خواہش کے مطابق اس پر تین زبانوں کی تحریر لکھی گئی۔ اس کام کے لئے پہاڑ کی چٹان پر 1200 مربع فٹ کا ایک قطعہ تیار کروایا گیا۔ کتبہ تیار ہونے کے بعد اس کے نیچے کی چٹان کو کاٹ کر بالکل عمودی بنا دیا گیا۔ دیکھنے میں یہ کتبہ زمین سے سینکڑوں فٹ بلندایک عمودی چٹان نظر آتا ہے۔ رالنسن نے اپنی جان ہزار خطرے میں ڈالی اور کبھی مچان بنا کر، کبھی رسے سے لٹک کر اپنی زندگی کو داؤپر لگایا اور دو برسوں کی خطرناک محنت کے بعد قریباً دو سو سطریں نقل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ نقل کی ہوئی یہ اجنبی زبانیں پڑھنے میں کلاسیکی دَور کے مصنفین اور قرون وسطیٰ کے ماہر ارضیات نے مدد کی ۔ پھر وہ 1844ء میں کتبہ کی باقی ماندہ تحریر نقل کرنے لگا اور 1848ء تک اس نے تینوں زبانوں کی نقول اور ترجمہ تیار کر کے Royal Asiatic Society کو بھجوادیا۔ اس تحقیق سے عراق کی قدیم ترین قوم اور تہذیب کے بارہ میں ایک مکمل تصویر ابھر کر سامنے آگئی جو کچھ اس طرح تھی کہ جنوبی عراق میں بسنے والی قدیم ترین قوم کا نام سومیر تھا۔ یہ لوگ میخی یا پیکانی طرز تحریر کے موجد تھے۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر ایک بہت ترقی یافتہ ادب تخلیق کیا۔ رزمیہ کہانیاں، اساطیر، نوحے، اقوال حکمت و دانشمندی، کہاوتیں الف لیلوی افسانے، یہ تمام ادب سومیری قوم کا ہی رہین منت ہے۔
اس کھدائی کے عمل کے دوران ایک قدیم شہر ’’اُر‘‘ نام کا نکلا جو کہ حضرت ابراہیم کی جائے پیدائش بتائی جاتی ہے۔ اس شہر کی کھدائی سے شاہی لوگوں کی قبروں سے بربط اور چنگ بنے ہوئے دریافت ہوئے۔ کھنڈرات سے ہزار ہا الواح ملی ہیں جن پر مختلف نوعیت اور موضوعات پر فنی عبارتیں لکھی ہوئی تھیں۔ ان الواح میں سے استنبول اور فلاڈلفیا کی یونیورسٹیوں کے عجائب گھروں میں دو ہزار سے زائد الواح ترجمے کا انتظار کر رہی ہیں۔
جو الواح پڑھی گئی ہیں، ان تراجم کو پڑھ کر ماہرین لسانیات کی رائے ہے کہ عراق کا ادب، دنیا کا سب سے قدیم ادب ہے اور ان کی تحریرات، خیالات اور نظریات دنیا کے قدیم ترین ہیں۔ ان کی تحریرات اور کھنڈرات سے اس قوم کی بہت سی ایجادات کا بھی علم ہوا ہے۔ مثلاً کمہار کا چاک، گاڑی کاپہیہ، کاشتکاری کا ہل، بادبانی کشتی، محراب، ڈاٹ، گنبد، جواہر تراشی، کیل کی جڑائی ، دھات کا ٹانکا، کندہ کاری اور مرصع کاری بھی اس قوم نے شروع کی تھی۔ ان کھنڈرات سے اینٹیں بنانے والا سانچہ بھی دریافت ہوا۔ چار ہزار برس پرانی تختیوں کی تحریر میں زرگر، جواہر تراش، لوہار، چرم ساز، کپڑا صاف کرنے والے اور ٹوکری بنانے والے کا ذکر موجود ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں