عزیزم محترم ناصر محمود شہید

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ ستمبر 2010ء میں محترمہ ع۔عارف صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ اپنے بیٹے عزیزم محترم ناصر محمود شہید کا مختصر ذکرخیر کرتی ہیں۔ شہید مرحوم کے بارہ میں قبل ازیں ایک مضمون 25؍اپریل 2014ء کے الفضل انٹرنیشنل کے اسی کالم میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
آپ لکھتی ہیں کہ میرے آنگن میں کھیلنے والا پہلا خوبصورت پھول ناصر محمود تھا۔ شادی کے بعد سے میری یہی دعا تھی کہ اے خدا! مجھے فدائی بچے دینا۔ میرے تایا اور ابّا جان نواب دین صاحب کے علاوہ میرے ددھیال میں کوئی احمدی نہ تھا۔ اس طرح ناصر محمود اپنے خاندان کا پہلا پیدائشی احمدی، پہلا موصی اور پہلا شہید بن گیا۔ وہ اپنے نام ناصر کی طرح ہر ایک کا ہمدرداور غمگسار تھا۔ گاؤں میں کوئی رشتہ دار بیمار پڑتا تو گاڑی پر اُسے ساتھ لے آتا اور اپنے گھر میں رکھ کر علاج کرواتا۔ ہر قسم کی مدد اور خدمت کرتا اور اُس کے صحتیاب ہونے پر گاڑی میں اُسے گاؤں چھوڑ آتا۔ کسی کو خون کی ضرورت ہوتی تو ہمیشہ خود کو پیش کردیتا۔ شہادت سے دو ہفتہ قبل ہی کسی ضرورتمند کو خون کا عطیہ دے کر آیا تھا۔
شہید مرحوم بہت نیک فطرت اور نیک سیرت تھا۔ اپنے سے چھوٹی عمر والوں کو بھی آپ کہہ کر بلاتا۔ طفل کے طور پر اور پھر خادم کے طور پر ہر پروگرام میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں